سوچئے کہ پاکستان کل آزاد ہوا ہے

ہماری مشکلات گھمبیر ہیں لیکن ہمت اور جذبوں میں ان کا حل مضمر ہے۔

اس وقت وطنِ عزیز کے افق پر مایوسی کی جو ان دیکھی چادر ہے اسے صرف ایک لفظ چاک کرسکتا ہے اور وہ ہے جذبہ۔ فوٹو :فائل

سورۃ رحمان کی عملی تفسیر اور کلمے اور کتاب نے نام پر بننے والی سرزمین پاکستان کی سالگرہ ہے۔ لیکن اس وقت وطنِ عزیز کے افق پر مایوسی کی جو ان دیکھی چادر ہے اسے صرف ایک لفظ چاک کرسکتا ہے اور وہ ہے جذبہ، عین وہی جذبہ جو پاکستان بننے میں کارفرما رہا، پھر ایک طویل عرصے تک دلوں کو گرماتا اورعمل پر اُکساتا رہا ۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب نومولود ملک کا خزانہ خالی تھا، صنعتیں نام کو تھیں، کوئٹہ سے لاہور تک صرف ڈسپنسری نما اسپتال تھے، دفاتر میں بوسیدہ کاغذات سے کام چلایا جاتا تھا، لیاری سے والٹن تک مہاجروں کی بھرمار تھی۔ ہر ایک کے پاس ہولناک کہانیاں تھیں، کسی نے بیٹا کھویا تھا، کسی کی جوان بیٹی کی آخری چیخ کنویں سے سنائی دی تھی اور کسی نے تپتی ریت پر اپنا شیرخوار چھوڑا تھا۔ صرف اور صرف پاکستان کے نام پر، جہاں ان کا اب تک مستقل پتا نہ تھا ۔ لیکن اس ان دیکھی سرزمین پر انہوں نے بہت یقین سے قدم رکھا تھا، کیوں؟ اور آج ہم پاکستان کے کل سے اتنے مایوس ہیں کیوں؟

وہ یقین اور جذبہ کہاں ہے؟ صرف اور صرف تیرگی کی باتیں کیوں ہوتی ہیں اور امید کے پر کس نے کاٹے ہیں؟ ہمارے یقین کو تار تار کس نے کیا؟ ۔۔۔ کالم چھاپ دانشور نے جو نوجوانوں کے ذہن میں جالے بنتا ہے، کیا فرقہ پرست واعظ نے جس نے وحدت کو پارہ پارہ کیا، یا اہل ِ سیاست نے جس نے ہمیں گروہ در گروہ تقسیم کرکے اجتماعیت کو بھسم کردیا۔

لیکن میری یہ تحریر ان لوگوں کے لیے نہیں ہے۔ یہ بلاگ تو عام پاکستانی کے لیے ہے جو انفرادی حیثیت میں بھی تبدیلی لاسکتا ہے۔ کیونکہ اس سے قبل ایدھی، ڈاکٹر امجد، عطالرحمان، ڈاکٹرادیب رضوی، ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، حکیم محمد سعید، میڈم رتھ فاؤ اور سینکڑوں ہزاروں افراد نے تنِ تنہا سفر شروع کیا تو لوگ آتے گئے اور قافلہ بنتا گیا۔ انہوں نے حکومتی عدم اعتماد کا شکوہ نہیں کیا نہ ہی وسائل کا رونا رویا۔ دل میں جذبہ تھا اور سرمیں کچھ کرنے کا سودا تھا۔

ایسی ہی ایک کہانی میرے استاد ممتاز ادیب و دانشور سید قاسم محمود کی ہے جنہوں نے دسمبر 1947 میں دہلی سے 28 کلومیٹر دور اپنے آبائی علاقہ کھر کھودہ کو چھوڑا کہ اپنے خوابوں کی زمین پاکستان جائیںگے۔ 1000 افراد کے اس قافلے میں ان کا پورا خاندان بھی شامل تھا۔ رات کی بارش میں ٹھٹھرتے اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ان لاچاروں کو نہر گوپال پور پل پر شیطانوں نے روک کر ایک قطار میں کھڑا کیا۔ سب کو آنکھیں کھلی رکھنے کا حکم تھا اور پھر آہنی نالوں نے شعلے اگلے اور معصوم سید زادیوں کے سفید برقعے خون میں بھیگ گئے۔ تایا، خالو، خالائیں، ماموں، چچا، پھوپھیاں، بھائی، کزن اور دوست، سب کی گردنیں ڈھلک گئیں۔ قاتل نوعمر زخمی قاسم کو مردہ جان کر چھوڑگئے جو ساری رات اپنے پیاروں کی سرد لاشوں کے پاس پڑا رہا۔ لیکن خوف سے رویا بھی نہیں کہ کہیں پھر کوئی بندوق لہراتا ہوا واپس نہ آجائے۔ اگلی صبح قاسم کس سے پوچھتا کہ کیا کرنا ہے۔ کیا تمام لاشوں کو دفنانا اس کے بس میں تھا؟ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے کہ کیا آپ اس لمحے دیوانگی سے بچ سکتے تھے؟ کیا اس 'اجل بیتی' کو کوئی بیان کرسکتا ہے؟

پانچ روز سکتے میں گزارنے کے بعد سید قاسم محمود دہلی گئے اور وہاں سے لاہور پہنچے جہاں پہلا کھانا سوکھی روٹی اور پیاز کے چند پتوں کو صورت میں ملا۔ پھر انہوں نے قلم اُٹھایا اور پاکستان کے ممتاز کالم نگار، ادیب، ڈرامہ نگار، مترجم، انسائیکلوپیڈیا ماہر، صحافی اور سائنس کی ترویج کے علمبردار بنے۔ پوری زندگی تنگدستی میں گزاری، حکومت نے حسبِ معمول نہ پوچھا۔ اس ادارے نما فرد نے پاکستان کے لیے کتنا کچھ قربان کیا، کتنا کچھ لوٹایا لیکن انہیں کوئی حکومتی ایوارڈ نہ ملا اور اگر صلہ ملا تو اپنے قارئین سے جو انہیں پڑھ کر سر دھنتے تھے اور اب بھی ان کے مداح ہیں۔


اب ایک اور تصویر دیکھیے جس میں ہندوستانی پنجاب سے ایک بوڑھا شخص قرآنی آیات اور درود شریفﷺ پڑھتے ہوئے ایک ٹھیلے کو دھکیلتے ہوئے دریائے بیاس کے پاس سے گزررہا ہے۔ وہ راستے بھر ہر ایک سے یہ پوچھتا ہوا آیا ہے کہ پاکستان کتنی دور رہ گیا؟ ٹھیلے پر اس کی بیمار بیوی اور بوڑھا باپ بیٹھا ہے جب کہ اس کی بیٹی راستے میں اغوا ہوچکی اور ایک بیٹے کا جگر کرپان نے چیر ڈالا تھا لیکن وہ اللہ کا ذکر کرتے ہوئے آگے بڑھتا جارہا ہے اور جب کسی نے اسے کہا کہ یہ پاکستان ہے تو اس کی آنکھیں دریا ہوگئیں وہ پھوٹ پھوٹ کر رویا اور اللہ کا شکر کرتے ہوئے سجدے میں گرگیا۔ اب اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر خود سے پوچھئے کہ بوڑھے کے اس جذبے کا محرک کیا تھا؟

اب ادھر دیکھیے کہ ایک ایک جاں بہ لب شیرخوار بچہ تپتی ریت پر پڑا ہے اور گدھ اس کے قریب آکر بیٹھ رہے ہیں کہ کب یہ بچہ مرے اور کب وہ اس کی ہڈیاں چچوڑے۔ چند گھنٹوں پہلے 50 خاندانوں کا ایک قافلہ یہاں سے گزرا تھا کہ ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی جس سے بچہ بھی متاثر ہوا۔ مضطرب ماں سے کہا گیا تھا کہ کب تک اس بچے کو اُٹھاؤ گی؟ اسے یہیں چھوڑ دو۔ بہت تذبذب کے بعد ماں نے کانپتے ہونٹوں سے ایک جملہ ادا کیا جو کسی بدروح کی طرح اب بھی اس بیاباں میں بھٹک رہا ہوگا۔ وہ جملہ یہ تھا کو یقیناً کپکپاتے ہوئے ہونٹوں سے ادا کیا گیا ہوگا
''اچھا اسے مغرب کے بعد چھوڑدوں گی تاکہ گھپ اندھیرے میں جب میں پلٹ کر نظر دوڑاؤں تو میں اسے دیکھ نہ پاؤں''

اب آپ اپنے گھر میں چھوٹے بچوں کو دیکھیے اور اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اس بچے کو سوچیے جو پاکستان کا لفظ ادا نہیں کرسکتا تھا لیکن وطن پر قربان ہوا۔ یہ کہانی مجھے کراچی کی اس خاتون نے سنائی ہے جو اس قافلے میں شامل تھیں۔ دوسری جانب ہزاروں مسلمان لڑکیوں کو سکھ اور ہندوؤں نے اغوا کرلیا اورپھر آمنہ، آسیہ اور الماس کے نام امرجیت، الپنا اور ارداس ہوگئے جنہوں نے اپنا سب کچھ اس دھرتی کے لیے کھویا جہاں کی آزاد فضاؤں میں انہوں نے ایک سانس بھی نہ لیا تھا۔

میں مانتا ہوں کہ پاکستان میں بہت سے مسائل ہیں۔ ہماری مشکلات گھمبیر ہیں لیکن ہمت اور جذبے میں ان کا حل مضمر ہے۔ لیکن ہمارے مسائل ان بے کس افراد کے سامنے ہیچ ہیں جن پر ہجرت قہر بن کر گزری۔ لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ آپ سے بس یہی استدعا ہے کہ اگر وہ جذبہ نہیں تو کم ازکم اس بچے کی طرف دیکھیے جو عشروں قبل ایک جنگل میں بے یارو مددگار چھوڑدیا گیا، آپ کے دل کو قرار آجائے گا اور وہ جذبہ بھی جو آج کہیں کھوگیا ہے اور آپ کو اپنے مسائل معمولی نظر آنے لگیں گے۔ سوچئے کہ پاکستان کل آزاد ہوا ہے اور ہمیں اس کی تعمیر کرنی ہے۔

[poll id="599"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
Load Next Story