چنگ چی پر بندش اور غریب عوام کی پریشانی
اب میرے سمیت سارے لوگ ادھر ادھر سواری کے لیے کوئی اور راستہ ڈھونڈھنے میں لگ گئے۔
ISLAMABAD:
میں معمول کے مطابق گھر سے نکل کر جب کراچی کے علاقے جوہر چورنگی پر پہنچا تو وہاں پر لوگوں کا ایک بڑا ہجوم مایوسی میں چورنگی کی چاروں طرف دیکھ رہے تھے۔ وہاں قریب پہنچ کر میں نے ان سے پوچھا بھائی خیریت تو ہے چنگ چی بھی نظر نہیں آرہی ہیں اور تم لوگ بھی بڑے افسردہ کھڑے ہو۔ اس میں کافی تعداد عورتوں کی بھی تھی اور وہ لوگ شامل تھے جو مزدور ٹائپ یا پھر دفتر جانے والے چھوٹے ملازم تھے۔ ہر طرف یہ گفتگو چل رہی تھی کہ چنگ چی پر پابندی لگا دی گئی ہے کیونکہ نہ تو ان کے پاس روٹ پرمٹ ہے، نہ مالکان نے چنگ چی کی رجسٹریشن کروائی ہے اور چلانے والوں کے پاس کوئی ڈرائیونگ لائسنس بھی نہیں ہے۔ یہ سن کر سب نے کہا حکم تو درست ہے مگر اب اس کا حل کیا ہے کہ جو لوگ تقریباً دو سال سے چنگ چی پر سفر کی سہولت استعمال کرتے رہے ہیں۔
اب میرے سمیت سارے لوگ ادھر ادھر سواری کے لیے کوئی اور راستہ ڈھونڈھنے میں لگ گئے۔ جب رکشہ والے کے پاس گئے تو اس نے چار گنا زیادہ کرایہ بتایا یعنی جہاں رکشے والا جوہر چورنگی سے نیپا کے 70 روپے لیتا تھا اب 200 روپے مانگنے لگا۔ کافی دیر سے مزدا آئی جس کی چھت اور اندر کا حصہ شہد کی مکھیوں کی طرح لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہم میں سے کچھ لوگوں نے لٹکتے ہوئے کچھ جگہ پالی اور باقی اداس نظروں سے جاتی ہوئی مزدا کو دیکھتے رہے۔ اب باقی لوگوں نے موٹر سائیکل والوں سے لفٹ مانگنا شروع کیا لیکن انھیں مایوسی ہوئی سوائے چند بزرگ لوگوں کے۔ معلوم ہوا کہ کچھ لوگوں نے پیدل چلنا شروع کیا اور کچھ لوگوں نے رکشے والے سے بارگیننگ کرتے ہوئے چار پانچ آدمیوں نے مل کر پیسے دے کر اپنی ایک منزل کی طرف چل دیے۔ جہاں وہ دس روپے میں جاتے تھے اب انھیں 25 روپے دینے پڑے۔ میں بھی دوسروں کے ساتھ مل کر پیسے دے کر رکشے پر سوار ہوگیا۔ جہاں میں آنے جانے میں روزانہ 80 روپے خرچ کرتا تھا وہاں پر اب مجھے دو سے ڈھائی سو روپے خرچ کرنے پڑے اور اپنے مقررہ وقت سے ڈیڑھ گھنٹہ لیٹ پہنچا۔
جب چنگ چی اور نو سیٹر رکشہ ٹائپ (CNG)چلنا شروع ہوئے تو لوگوں کو جیسے صحرا میں کوئی نخلستان نظر آگیا ہو جس کی وجہ سے لوگوں نے ایک سکھ کا سانس لیا کیونکہ کراچی کے کئی ایسے علاقے ہیں جہاں بس، مزدا یا پھر کوچ چلتی ہو اور لوگ جو غریب ہیں کئی کلومیٹر پیدل گلیوں سے سفر کرکے مین روڈ پر آتے تھے اور پھر کسی سواری پر سوار ہوتے تھے۔ اب چنگ چی اور چھ سیٹر رکشہ آنے سے چھوٹے چھوٹے اور دور دراز علاقوں تک لوگوں کو سواری مل گئی اور انھیں ایک بڑی سہولت مل گئی جس سے ان کی آمدنی میں اضافہ ہوا اور وقت کی بچت ہوگئی اور اسٹوڈنٹس کو اسکول اور کالج جانے میں آسانی ہوگئی۔ ہم لوگ 10 روپے سے 20 روپے تک کراچی کے کئی علاقوں تک پہنچ جاتے تھے۔
یہ ذریعہ ٹرانسپورٹ صرف غریب طبقے کے لیے بڑی آسانی تھی اور اس میں عورتوں اور بچوں کے لیے خاص اہمیت رکھتی تھی۔یہ کام حکومت کا ہے کہ وہ چنگ چی یا پھر 6 سیٹر سروس شروع ہوتے انھیں رجسٹر کرتے، انھیں روٹ پرمٹ دیتے اور انھیں لائسنس ایشو کرتے۔ تقریباً دو سال یہ سروس چلتی رہی اس وقت سے ٹرانسپورٹ محکمہ اور ٹریفک پولیس نے کیا کیا صرف رشوت لی اور انھیں غیر قانونی طور پر چلنے دیا ۔ سندھ کے کئی علاقوں سے اور پنجاب کے سرائیکی ایریا سے کئی بے روزگار نوجوانوں نے ادھار پر چنگ چی اور رکشہ نما 9 اور 6 سیٹر سی این جی پر چلنے والی سواری شروع کی جس کی وجہ سے پورے سندھ کی فیملیز اور باہر سے آنے والے لوگوں کو روزگار ملا ، عوام اور غریب آدمی کے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل ہوگیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ چنگ چی بچے بھی چلاتے تھے اور Careless طریقے سے چلاتے تھے جس سے کئی خطرناک حادثے ہوئے جس میں کئی لوگ مر گئے اور زخمی ہوگئے۔ صحیح نظام نہ ہونے کی وجہ سے کراچی کے کئی اہم چوراہوں اور شاہراہوں پر چنگ چی وغیرہ بے ترتیب کھڑے رہتے تھے۔ اب ان کے چلانے کا انداز بھی بے ڈھنگا اور پرخطر تھا۔ کئی اڈے بنائے گئے جو غیر قانونی تھے جسے کئی سیاسی ورکرز چلا رہے تھے اور وہ ٹریفک والوں کی مٹھی روزانہ گرم کرتے تھے۔ ٹرانسپورٹ محکمے نیند میں تھے یا انھوں نے اپنی آنکھیں جان بوجھ کر بند کردی تھیں۔ یہ کام کورٹ کا نہیں ہے کہ حکومت کے کام بھی وہ کرتی رہیں۔کورٹ تو جو بھی فیصلہ کرتی ہے وہ قانون کے دائرے میں رہ کر کرتی ہے، اور جو بھی آرڈر کیا ہے وہ صحیح ہے۔
حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے بسوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ کیا جائے اور ہر روٹ کو بسیں فراہم کی جائیں۔ اب بھی کورٹ کے حکم کی روشنی میں اقدامات کیے جائیں تاکہ چنگ چی والے بھی بے روزگار نہ ہوں اور عوام کو بھی سہولتیں مل سکیں۔ انھیں روٹ پرمٹ دیے جائیں اور انھیں لازماً رجسٹر کیا جائے اور صرف ان لوگوں کو گاڑی چلانے دی جائے جو صحت مند ہوں اور بچوں کو اس سے دور رکھا جائے اور گاڑیوں کی فٹنس باقاعدہ چیک کی جائے۔ ان کے اڈے روڈ سے تھوڑا دور رکھے جائیں تاکہ مین ٹریفک جام نہ ہو۔ اس سلسلے میں نہ صرف ٹریفک والے اپنا کردار ادا کریں بلکہ ٹرانسپورٹ محکمہ بھی ہفتہ وار چیکنگ جاری رکھے۔
اب بھی کئی بسیں اور مزدائیں اور کوچز ایسی روڈوں پر چلتی ہیں جیساکہ کوئی جہاز ہو۔ وہ کرائے میں کمی کے باوجود پیسے وہی پرانے لے رہے ہیں۔ ان کی عادت ہے کہ اگر آپ انھیں بیچ سڑک پر بھی رکنے کے لیے ہاتھ دیں تو رک جاتے ہیں مگر جب رکنا ہو تو اسٹاپ پر بھی نہیں رکتے اور مسافر کو بھاگتے ہوئے اترنا پڑتا ہے۔ اگر شکایت کرو تو صرف چالان اور اگر زیادہ دباؤ رکھو تو ٹرانسپورٹ والے ہڑتال کردیتے ہیں اور پھر وہی عوام کو نقصان۔ کوچوں، مزدا اور بسوں میں ایک تو جیب کتروں کا خطرہ، پھر لوٹنے والے آجاتے ہیں، گھر سے آفس کے لیے نکلو تو آپ کا پالش کیا ہوا جوتا اور پریس کیے ہوئے کپڑے کا حشر ایسا ہوتا ہے جیسا کبھی سینماؤں پر ٹکٹ خریدتے ہوتا تھا۔
اس ٹرانسپورٹ کے مقابلے میں اگر چنگ چی اور 6 یا پھر 9 سیٹر والوں کو صحیح سمت پر چلایا جائے تو اس سے کئی فائدے یہ ہیں کہ آپ کو بیٹھنے کے لیے سیٹ مل جاتی ہے، آپ آرام سے اس پر سوار ہوتے ہیں اور اتر جاتے ہیں۔ لٹنے کا خطرہ کم ہوتا ہے،پیسے کم لگتے ہیں، آپ کو گرمی کے موسم میں بھی ہوا لگتی رہتی ہے، آپ کے کپڑے اور جوتے خراب نہیں ہوتے، یہ سواری آپ کو وہاں بھی مل جاتی ہے جہاں پر مزدا، کوچ یا بس نہیں آتی۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ غریب عوام کو بڑا فائدہ ہے ۔
میں معمول کے مطابق گھر سے نکل کر جب کراچی کے علاقے جوہر چورنگی پر پہنچا تو وہاں پر لوگوں کا ایک بڑا ہجوم مایوسی میں چورنگی کی چاروں طرف دیکھ رہے تھے۔ وہاں قریب پہنچ کر میں نے ان سے پوچھا بھائی خیریت تو ہے چنگ چی بھی نظر نہیں آرہی ہیں اور تم لوگ بھی بڑے افسردہ کھڑے ہو۔ اس میں کافی تعداد عورتوں کی بھی تھی اور وہ لوگ شامل تھے جو مزدور ٹائپ یا پھر دفتر جانے والے چھوٹے ملازم تھے۔ ہر طرف یہ گفتگو چل رہی تھی کہ چنگ چی پر پابندی لگا دی گئی ہے کیونکہ نہ تو ان کے پاس روٹ پرمٹ ہے، نہ مالکان نے چنگ چی کی رجسٹریشن کروائی ہے اور چلانے والوں کے پاس کوئی ڈرائیونگ لائسنس بھی نہیں ہے۔ یہ سن کر سب نے کہا حکم تو درست ہے مگر اب اس کا حل کیا ہے کہ جو لوگ تقریباً دو سال سے چنگ چی پر سفر کی سہولت استعمال کرتے رہے ہیں۔
اب میرے سمیت سارے لوگ ادھر ادھر سواری کے لیے کوئی اور راستہ ڈھونڈھنے میں لگ گئے۔ جب رکشہ والے کے پاس گئے تو اس نے چار گنا زیادہ کرایہ بتایا یعنی جہاں رکشے والا جوہر چورنگی سے نیپا کے 70 روپے لیتا تھا اب 200 روپے مانگنے لگا۔ کافی دیر سے مزدا آئی جس کی چھت اور اندر کا حصہ شہد کی مکھیوں کی طرح لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہم میں سے کچھ لوگوں نے لٹکتے ہوئے کچھ جگہ پالی اور باقی اداس نظروں سے جاتی ہوئی مزدا کو دیکھتے رہے۔ اب باقی لوگوں نے موٹر سائیکل والوں سے لفٹ مانگنا شروع کیا لیکن انھیں مایوسی ہوئی سوائے چند بزرگ لوگوں کے۔ معلوم ہوا کہ کچھ لوگوں نے پیدل چلنا شروع کیا اور کچھ لوگوں نے رکشے والے سے بارگیننگ کرتے ہوئے چار پانچ آدمیوں نے مل کر پیسے دے کر اپنی ایک منزل کی طرف چل دیے۔ جہاں وہ دس روپے میں جاتے تھے اب انھیں 25 روپے دینے پڑے۔ میں بھی دوسروں کے ساتھ مل کر پیسے دے کر رکشے پر سوار ہوگیا۔ جہاں میں آنے جانے میں روزانہ 80 روپے خرچ کرتا تھا وہاں پر اب مجھے دو سے ڈھائی سو روپے خرچ کرنے پڑے اور اپنے مقررہ وقت سے ڈیڑھ گھنٹہ لیٹ پہنچا۔
جب چنگ چی اور نو سیٹر رکشہ ٹائپ (CNG)چلنا شروع ہوئے تو لوگوں کو جیسے صحرا میں کوئی نخلستان نظر آگیا ہو جس کی وجہ سے لوگوں نے ایک سکھ کا سانس لیا کیونکہ کراچی کے کئی ایسے علاقے ہیں جہاں بس، مزدا یا پھر کوچ چلتی ہو اور لوگ جو غریب ہیں کئی کلومیٹر پیدل گلیوں سے سفر کرکے مین روڈ پر آتے تھے اور پھر کسی سواری پر سوار ہوتے تھے۔ اب چنگ چی اور چھ سیٹر رکشہ آنے سے چھوٹے چھوٹے اور دور دراز علاقوں تک لوگوں کو سواری مل گئی اور انھیں ایک بڑی سہولت مل گئی جس سے ان کی آمدنی میں اضافہ ہوا اور وقت کی بچت ہوگئی اور اسٹوڈنٹس کو اسکول اور کالج جانے میں آسانی ہوگئی۔ ہم لوگ 10 روپے سے 20 روپے تک کراچی کے کئی علاقوں تک پہنچ جاتے تھے۔
یہ ذریعہ ٹرانسپورٹ صرف غریب طبقے کے لیے بڑی آسانی تھی اور اس میں عورتوں اور بچوں کے لیے خاص اہمیت رکھتی تھی۔یہ کام حکومت کا ہے کہ وہ چنگ چی یا پھر 6 سیٹر سروس شروع ہوتے انھیں رجسٹر کرتے، انھیں روٹ پرمٹ دیتے اور انھیں لائسنس ایشو کرتے۔ تقریباً دو سال یہ سروس چلتی رہی اس وقت سے ٹرانسپورٹ محکمہ اور ٹریفک پولیس نے کیا کیا صرف رشوت لی اور انھیں غیر قانونی طور پر چلنے دیا ۔ سندھ کے کئی علاقوں سے اور پنجاب کے سرائیکی ایریا سے کئی بے روزگار نوجوانوں نے ادھار پر چنگ چی اور رکشہ نما 9 اور 6 سیٹر سی این جی پر چلنے والی سواری شروع کی جس کی وجہ سے پورے سندھ کی فیملیز اور باہر سے آنے والے لوگوں کو روزگار ملا ، عوام اور غریب آدمی کے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل ہوگیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ چنگ چی بچے بھی چلاتے تھے اور Careless طریقے سے چلاتے تھے جس سے کئی خطرناک حادثے ہوئے جس میں کئی لوگ مر گئے اور زخمی ہوگئے۔ صحیح نظام نہ ہونے کی وجہ سے کراچی کے کئی اہم چوراہوں اور شاہراہوں پر چنگ چی وغیرہ بے ترتیب کھڑے رہتے تھے۔ اب ان کے چلانے کا انداز بھی بے ڈھنگا اور پرخطر تھا۔ کئی اڈے بنائے گئے جو غیر قانونی تھے جسے کئی سیاسی ورکرز چلا رہے تھے اور وہ ٹریفک والوں کی مٹھی روزانہ گرم کرتے تھے۔ ٹرانسپورٹ محکمے نیند میں تھے یا انھوں نے اپنی آنکھیں جان بوجھ کر بند کردی تھیں۔ یہ کام کورٹ کا نہیں ہے کہ حکومت کے کام بھی وہ کرتی رہیں۔کورٹ تو جو بھی فیصلہ کرتی ہے وہ قانون کے دائرے میں رہ کر کرتی ہے، اور جو بھی آرڈر کیا ہے وہ صحیح ہے۔
حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے بسوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ کیا جائے اور ہر روٹ کو بسیں فراہم کی جائیں۔ اب بھی کورٹ کے حکم کی روشنی میں اقدامات کیے جائیں تاکہ چنگ چی والے بھی بے روزگار نہ ہوں اور عوام کو بھی سہولتیں مل سکیں۔ انھیں روٹ پرمٹ دیے جائیں اور انھیں لازماً رجسٹر کیا جائے اور صرف ان لوگوں کو گاڑی چلانے دی جائے جو صحت مند ہوں اور بچوں کو اس سے دور رکھا جائے اور گاڑیوں کی فٹنس باقاعدہ چیک کی جائے۔ ان کے اڈے روڈ سے تھوڑا دور رکھے جائیں تاکہ مین ٹریفک جام نہ ہو۔ اس سلسلے میں نہ صرف ٹریفک والے اپنا کردار ادا کریں بلکہ ٹرانسپورٹ محکمہ بھی ہفتہ وار چیکنگ جاری رکھے۔
اب بھی کئی بسیں اور مزدائیں اور کوچز ایسی روڈوں پر چلتی ہیں جیساکہ کوئی جہاز ہو۔ وہ کرائے میں کمی کے باوجود پیسے وہی پرانے لے رہے ہیں۔ ان کی عادت ہے کہ اگر آپ انھیں بیچ سڑک پر بھی رکنے کے لیے ہاتھ دیں تو رک جاتے ہیں مگر جب رکنا ہو تو اسٹاپ پر بھی نہیں رکتے اور مسافر کو بھاگتے ہوئے اترنا پڑتا ہے۔ اگر شکایت کرو تو صرف چالان اور اگر زیادہ دباؤ رکھو تو ٹرانسپورٹ والے ہڑتال کردیتے ہیں اور پھر وہی عوام کو نقصان۔ کوچوں، مزدا اور بسوں میں ایک تو جیب کتروں کا خطرہ، پھر لوٹنے والے آجاتے ہیں، گھر سے آفس کے لیے نکلو تو آپ کا پالش کیا ہوا جوتا اور پریس کیے ہوئے کپڑے کا حشر ایسا ہوتا ہے جیسا کبھی سینماؤں پر ٹکٹ خریدتے ہوتا تھا۔
اس ٹرانسپورٹ کے مقابلے میں اگر چنگ چی اور 6 یا پھر 9 سیٹر والوں کو صحیح سمت پر چلایا جائے تو اس سے کئی فائدے یہ ہیں کہ آپ کو بیٹھنے کے لیے سیٹ مل جاتی ہے، آپ آرام سے اس پر سوار ہوتے ہیں اور اتر جاتے ہیں۔ لٹنے کا خطرہ کم ہوتا ہے،پیسے کم لگتے ہیں، آپ کو گرمی کے موسم میں بھی ہوا لگتی رہتی ہے، آپ کے کپڑے اور جوتے خراب نہیں ہوتے، یہ سواری آپ کو وہاں بھی مل جاتی ہے جہاں پر مزدا، کوچ یا بس نہیں آتی۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ غریب عوام کو بڑا فائدہ ہے ۔