بانیانِ پاکستان کا مسلم قومیت کی جانب سفر

علامہ اقبال اورقائد اعظم کے تصورِپاکستان پرروشنی ڈالتی بصیرت افروزتحریر

علامہ اقبال اورقائد اعظم کے تصورِپاکستان پرروشنی ڈالتی بصیرت افروزتحریر۔ فوٹو: فائل

قائداعظم اور علامہ اقبال دونوں نے تھیوکریسی سے سخت بیزاری کا اظہار کیا ' انہوں نے ہمیشہ قدامت پسندی کی مذمت کی' ماضی ان کیلئے تحریک کا باعث ضرور تھا مگر وہ ماضی میں گم رہنے کے سخت خلاف تھے اور سختی سے آزادی رائے' مساوات' رواداری اور سماجی انصاف کے قائل تھے۔ دونوں کا جنم فرزند ہندوستان کے طور پر ہوا مگر بانیان پاکستان بننا ان کے مقدر میں لکھا تھا۔

گزشتہ صدی کے اوائل میں قائداعظم ایک عظیم محب وطن ہندوستانی کے طور پر سیاسی منظر نامے پر نمودار ہوئے ۔ دسمبر 1904ء میں انہوں نے بمبئی میں ہونے والے کانگریس کے 20 ویں اجلاس میں شرکت کی۔ اگلے سال انہوںنے تقسیم بنگال کی سخت مخالفت کی' مورلے منٹو اصلاحات کے تحت مسلمانوںکو علیحدہ حق رائے دہی دیئے جانے کو ''ہندوستانی سیاست میں زہریلے وائرس داخل کئے جانے کے مترادف قرار دیا''۔ 1906ء میں صدر کانگریس دادا بھائی نوروجی کے پرسنل سیکرٹری کی حیثیت سے انہوں نے کلکتہ سیشن میں شرکت کی اور اس بات پر فخر کا اظہار کیا کہ وہ کانگریسی ہیں۔

1913ء میں انہوںنے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی مگر ساتھ ہی یہ واضح کیا کہ مسلمانوں کے مفادات کی حمایت کا مطلب یہ نہیں کہ اجتماعی قومی مقاصد نظر انداز کر دیئے جائیں۔ مسلم لیگ میں شامل ہونے کے بعد انہوںنے کوشش کی کہ پارٹی پر ایسے عناصر کی گرفت کمزور کی جائے جو برطانوی حکومت کے خیر خواہ ہیں۔ 1916ء کے لکھنو پیکٹ کے تحت کانگریس اور مسلم لیگ نے سیلف گورنمنٹ کیلئے مشترکہ جدوجہد پر اتفاق کیا' اس پیکٹ کے روح رواں قائداعظم تھے۔ جون 1917ء کو جب اینی بیسنت کو گرفتار کر کے نظر بند کر دیا گیا' قائداعظم نے فوری ہوم رول لیگ میں شمولیت اختیار کی اور بمبئی شاخ کے صدر بن گئے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران انہوںنے برطانوی حکومت کی غیر مشروط حمایت کی مخالفت کی اور ہندوستان میں فوری سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے ہندوستان سے فوجی بھرتیوں کا عمل تیز کرنے پر برطانوی حکومت پر تنقید کی' ان دنوں گاندھی نے عدم تشدد کے اپنے فلسفے سے کچھ مدت کیلئے دوری اختیار کی ہوئی تھی اور برطانوی راج کی افادیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے دوران جنگ حکومت کا بھرپور ساتھ دیا۔ اپریل 1918ء میں دہلی میں ہونے والی وائسرائے وار کانفرنس میں بھی گاندھی نے شرکت کی اور فوجی بھرتیوں سے متعلق قرار داد کی حمایت کی۔ 1918ء میں جب رولٹ ایکٹ نافذ ہوا جس کے تحت شہری آزادیوں پر بندشیں لگائی گئیں' قائداعظم بطور احتجاج امپییرئل لچسلٹیو کونسل سے مستعفی ہو گئے۔ اپریل 1919ء کے سانحہ جلیانوالہ باغ پر وہ سخت برہم ہوئے۔ انہوںنے یہ بہیمانہ کارروائی مسترد کرتے ہوئے مختلف عوامی اجتماعات میں برطانوی حکومت کے ظالمانہ اقدام کی سخت مذمت کی۔ دوسری طرف گاندھی جی نے اس ا فسوسناک سانحے پر چھ ماہ تک کوئی سیاسی بیان جاری نہ کیا۔

اگست 1920ء میں جب گاندھی نے عدم تعاون کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا جس میں تحریک خلافت اور پنجاب میں ہونے والی زیادتیوں کے معاملات یکجا کئے گئے تھے' قائداعظم نے انہیں خبردار کیا کہ وہ تحریک خلافت کی حمایت سے گریز کریں ۔ ان کی نظر میں ''مذہبی نوعیت کی یہ تحریک فسطائیت کے احیاء کا سبب بن سکتی ہے''۔ انہوں نے عدم تعاون کی تحریک میں ''نظریاتی آمریت کے خطرے'' کو بھانپ لیا۔

یوں قائداعظم ہمیشہ کے لیے کانگریس سے علیحدہ ہو گئے۔

1923ء میں ہونے والے مرکزی قانون ساز اسمبلی کے انتخاب میں قائداعظم بمبئی سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے منتخب ہوئے۔ اس وقت کے کچھ کانگریسی جو انتخابات کے بائیکاٹ کے مخالف تھے' نے سوراج پارٹی تشکیل دی جس کی قائداعظم نے حمایت کی۔

قائداعظم پہلی سیاسی شخصیت تھے جنہوں نے سائمن کمیشن کی مخالفت کی۔ اس کمیشن کا اعلان وائسرائے نے 8 نومبر 1927ء میں کیا۔ اس کمیشن کے خلاف احتجاجی تحریک بھی چلائی۔ گاندھی نے اس کمیشن کی مخالفت میں بائیکاٹ کی کوئی اپیل نہ کی۔ قائداعظم کی قیادت میں مسلم لیگ کا قومی فکر پر مبنی ٹھوس موقف برطانوی راج اور لیگ میں موجود ان کے وفاداروں دونوں کے لئے تشویش کا باعث بنا۔ ان وفاداروں نے بعدازاں مسلم لیگ چھوڑ کر نئی پارٹی بنا لی۔


قائداعظم کی طرح علامہ اقبال نے ''سوز و ساز رومی'' اور ''پیچ و تاب رازی'' کے ذریعے مسلم قومیت کی جانب سفر کے لئے طویل راستہ طے کیا۔ آغاز ''فلسفہ وحدت الوجود'' اور ہندستانی قوم پرست کے طور پر کیا' پھر Pan Islamism کے داعی بنے قوم پرستی کی نفی کی اور فلسفہ وحدت الوجود کو رد کر دیا۔ 1926ء سے1938ء تک کے زمانے میں ان کی تخلیقی صلاحیتیں اس وقت نکھر کر سامنے آئیں' جب انہوںنے الہ آباد میں خطبہ دیا' جاوید نامہ میں شہید منصور حلاج کو خراج تحسین پیش کیا' ''اسلام میں مذہبی فکر کی از سر نو تشکیل'' کے عنوان سے چھ لیکچر مرتب کئے۔ خطبہ الٰہ آباد میں علامہ اقبال نے قومیت کے آفاقی اصولوں کی بنیاد پر مسلمانوں کیلئے علیحدہ ملک پاکستان کی تخلیق کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے واضح کیا ''ہندوستان کے مختلف نسلی' جغرافیائی' مذہبی اور سماجی نظام کو پیش نظر رکھ کر کئی خود مختار ریاستیں تشکیل دینے کی بات کی جا سکتی ہے جن کی بنیاد زبان' نسل ' تاریخ' مذہب اور معاشی مفادات ہوں' اسی کی بنیاد پر ایک ہندوستان کا مستحکم آئینی ڈھانچہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔''

انہوں نے واضح کیا کہ ہندوستان کی بے پناہ سماجی تنوع کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک مضبوط آئینی ڈھانچے کی تشکیل کیلئے یہ ضروری ہے کہ ہندوستان میں خود مختار ریاستیں وجود میںلائی جائیں جن کی بنیاد لسانی' تاریخی' نسلی اور مذہبی ہم آہنگی پر مبنی ہو۔ 1937ء میںقائداعظم کے نام ایک خط میں علامہ اقبال نے اس بات پر زور دیا ''پرامن ہندوستان کیلئے ضروری ہے کہ اس ملک کو مذہبی' لسانی اور نسلی بنیادوں پر از سر نو تقسیم کیا جائے۔''

اپنے معروف خطبات میں علامہ اقبال نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ اپنی شناخت قائم رکھیں: اس دور کی مسلم اقوام گہرائی سے اپنا جائزہ لیں' عارضی طور پر خود کو ایک ہی فکری دائرے تک محدود کریں تاوقت کہ وہ مستحکم ہو کر ا لگ الگ ریاستوں کی صورت میں ایک جان ہو جائیں۔

علامہ اقبال نے مسلمانوں پر ہمیشہ زور دیا کہ وہ ماضی میں گم رہنے کی بجائے اجتہاد کے ذریعے عصر حاضر کے مسائل کا حل تلاش کریں۔ ''زندگی ایک جاری وساری عمل ہے' ہر نسل کو جو نئے مسائل پیش آئیں' انہیں ان مسائل کا حل خود نکالنے کی اجازت ہونی چاہیے''۔ ان کے مطابق ''ماضی کے جھوٹے احترام اور مصنوعی طور پر اس کے احیاء سے لوگ ابتر صورتحال کی تلافی نہیں کر سکتے۔ تاریخ کا یہ فیصلہ ہے کہ گھسے پٹے نظریات کبھی مقبولیت حاصل نہیں کرتے خصوصاً جب لوگ ہی انہیں گھسہ پٹہ قرار دے چکے ہوں۔''

علامہ اقبال کی نظر میں توحید کا مطلب برابری' یکجہتی اور آزادی ہے' ریاست کا منشاء اسی مطمع نظر کی بنیاد پر وسیع تر انسانی تنظیم کو تشکیل دینا ہے۔28مئی 1937ء کو قائد اعظم کے نام ایک خط میں علامہ اقبال نے لکھا: ''مسلمانوں میں غربت کا مسئلہ کیسے حل کیا جا سکتا ہے؟ مسلمانوں میں سماجی جمہوریت کو قابل قبول بنانا اور اسے اسلامی اصولوں کے ہم آہنگ کرنا کوئی انقلابی اقدام نہیں بلکہ اسلام کے حقیقی مطمع نظر کا احیاء ہے۔''

11اگست 1947ء کو آئین ساز اسمبلی کے افتتاح اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے پاکستانی قومیت کی اساس کو مضبوط بنیاوں پر استوار کیا۔ انہوںنے واضح کیا: ''آپ کا کسی بھی مذہب' ذات یا عقیدے سے تعلق ہو' اس کا ریاستی امور سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ کام کا آغاز کرتے ہیں کہ ہم سب ایک ریاست کے شہری اور برابر کے شہری ہیں۔ آپ کا اولین نصب العین یہی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ وقت کے ساتھ ہندو ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان مسلمان نہیں رہے گا' مذہبی طور پر نہیں کیونکہ عقیدہ ہر شخص کا نجی معاملہ ہے بلکہ سیاسی اعتبار سے، ایک ریاست کے شہری ہونے کے ناطے ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہونی چاہئے۔''

قائداعظم نے ایک کنونشن کے دوران مسلم لیگی ارکان اسمبلی کو خبردار کرتے ہوئے کہا ''ہماری جدوجہد کن مقاصد کیلئے ہے؟ یقینا یہ جدوجہد مذہبی پیشواؤں کی حکومت قائم کرنے کیلئے نہیں۔ اپنا مذہب ہمیں بھی محبوب ہے مگر دیگر اہم مسائل بھی ہیں: سماجی و معاشی زندگی' اور سیاسی طاقت کے بغیر آپ کیسے اپنی معاشی زندگی اور مذہب کا دفاع کر پائیں گے۔''

فائداعظم کا ایمان تھا کہ قومی خود مختاری کے بغیر سماجی آزادیوں کا حصول ممکن نہیں ۔ ان کے مطابق آزادی کا اصل مقصد محنت کشوں کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لانا ہے۔ انہوںنے کہا ''ہمیں غیر ملکی طاقت کے استحصال کا سامنا رہا' آج سے ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے' ہم نے اپنی تمام تر توانائیاں عام شہری کی زندگی میں بہتری لانے پر صرف کرنا ہیں۔''

ہمیں ایک حقیقی جمہوری' مساوات پر مبنی پاکستانی معاشرے کی جانب آگے بڑھنا ہے اور گوئٹے کے یہ الفاظ ذہن نشین کرنا ہیں ''صرف اسے ہی آزاد زندگی جینے کا حق حاصل ہے جو نئے سرے سے ہر روز اس پر فتح حاصل کرتا ہے۔''
Load Next Story