کیا ہم آزاد ہیں

ایک جغرافیائی خطے کوتدبیرسے حاصل کرلینا آزادی کا پہلازینہ ہے

raomanzarhayat@gmail.com

ایک جغرافیائی خطے کوتدبیرسے حاصل کرلینا آزادی کا پہلازینہ ہے۔یہ بذات خودکوئی ادنیٰ یاچھوٹی بات نہیں۔ مگر اس تحفہ کوعام لوگوں کی بھلائی کے لیے استعمال کرنااصل کام ہے۔ انتہائی سادہ الفاظ میں معاشرے کی ناہمواریوں کو بتدریج دور کرنا،لوگوں کومعاشی،معاشرتی اورمذہبی انصاف مہیا کرنا آزادی کے اہم مقاصدہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم نے آزادی کوکس طرح استعمال کیایاکرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسرے جزوپربات کرنا باعثِ تکلیف وآزاربھی ہے اورکافی حدتک شرمندگی کاباعث بھی!

لگی بندھی جذباتیت میں گُندھی ہوئی دلیل اوربحث سے باہرنکلناچاہتاہوں۔ہرصاحبِ علم جانتاہے کہ پاکستان حاصل کرنے کے مقاصدکیاتھے۔مگریہ بیان کرنا کہ تمام یا محض چندمقاصدبھی حاصل کرنے میں مکمل ناکامی کیسے ظہور پذیر ہوئی۔مشکل سے مشکل تربات ہے۔آہستہ آہستہ، غیر جذباتی طریقے سے بحث کرناناممکن ہوتاجارہاہے۔کوئی سننے کو تیار نہیں اورکوئی بولنے کوبھی تیارنہیں۔میں محتاط الفاظ استعمال کرتے ہوئے صرف یہ عرض کرناچاہوں گاکہ ہمارا مقتدر طبقہ، آزادی کے ثمرات کوعام لوگوں تک پہنچانے میں مکمل ناکام رہا ہے۔اس بالائی طبقہ کاہمارے ملک سے دور دور تک کاواسطہ نہیں۔مگرہمارے تنزلی کے جبرنے مخصوص طبقے کو کروڑوں لوگوں کی قسمت اورمقدرکامالک بنادیاہے۔نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ پستی کاایک سفرہے جوکسی قیمت پر رُک ہی نہیں رہا۔ویسے اسے کوئی روکنابھی نہیں چاہتا۔ لوگوں کی پستی میں ہی اس طبقہ کی بقاہے۔

اپنے ملک کے حالات کوتعصب کی عینک کواتار کر دیکھیے۔ آپ کوہرشہر،قصبہ اورمحلہ میں طاقتورعناصرکی مادرپدر آزادی کے ناجائزثمرات پیہم نظرآئیں گے۔ساتھ ساتھ عام آدمی کی مشکلات،مجبوری،بے بسی اورمحرومی بھی صاف اور برہنہ حالت میں ایستادہ دکھائی دیگی۔پاکستان بنتے ہی جعلی کلیموں پرلوٹ مارکاجوسلسلہ شروع ہوا،وہ آج تک قائم ہے۔ پنجاب،سندھ اوردیگرصوبوں کے بورڈآف ریوینیو کے دفاتر میں چلے جائیے۔آج بھی یعنی 2015ء میں بھی لوگ متروکہ جائیدادکے لیے مقدمہ بازی میں مصروف نظر آئینگے۔جنہوں نے ناجائزکلیموں کے ذریعے جائیداد ہتھیائی تھی۔وہ تو کب کے فیضیاب ہوکرارب پتی بن چکے۔ مگر کمزوراوربے بس انسان آج بھی بورڈکے اہلکاروں کے سامنے ہاتھ باندھ کرکھڑے اپناحق ملنے کا انتظار کررہے ہیں۔صالح محمد،لائل پورکی جناح کالونی میں رہتاتھا۔ خدادادصلاحیتوں سے مالامال۔مگردنیاوی تعلیم میں مالی استطاعت نہ ہونے پر پیچھے رہ گیاتھا۔ بلاکا مصورتھا۔یہ فن اس نے پرانے اساتذہ کی بنائی ہوئی تصاویر سے خودہی سیکھ سیکھ کرحاصل کیاتھا۔

پنسل سے بنائی ہوئی تصاویر دیکھ کرایسے لگتاتھاکہ ابھی ابھی مصوری کایہ شہکار بولنا شروع کردیگا۔ آپ مصوری کوچھوڑدیجیے۔موسیقی کی طرف آئیے۔وہ تقریباً ہر ساز انتہائی ماہرانہ طریقے سے بجالیتا تھا۔ بینجوپر اتنا عبور حاصل تھاکہ لوگ صرف بینجوسننے کے لیے دور دور سے آتے تھے۔ وہ لاہورآکرخواجہ خورشید انور، بابانظامی اوران جیسے لوگوں کی صحبت میں بیٹھتاتھا۔عملاًوہ انکاملازم بن جاتا تھا۔ ایک راگ سیکھنے کے لیے وہ خان صاحبان کی مہینوں خدمت کرتا تھا۔ ان کے گھرکے سارے کام کرتاتھا۔چارپانچ سال میں وہ موسیقی پربھی عبورحاصل کرچکاتھا۔اس کے ساتھ ساتھ وہ شطرنج کھیلنے کاماہرترین کھلاڑی بھی تھا۔ خودبھی شطرنج کاملکی سطح کانامورکھلاڑی تھا۔اس کے بعداسکابیٹااس فیلڈمیں ملکی چمپئن رہا ہے۔باپ کی طرح بیٹابھی بے روزگاری کے جہنم میںسانس لینے پرمجبورہے۔صالح محمدکے متعلق بتانے کامقصدصرف یہ ہے کہ وہ ایک جینئس(Genius) سطح کا نوجوان تھا۔

1947ء میںاسکاتمام خاندان کرنال سے لائل پورآ گیا۔بدقسمتی سے لائل پورمیں خاندان کوایک دس مرلہ کاگھرکلیم میں ملا۔یہ مکان ایک اوسط درجے کی آبادی، سَنت نگرمیں موجود تھا۔ اس کا والد، جوانی میں فوت ہوگیا۔وہ اس مکان کے اپنے نام منتقلی کے محض آدھے کاغذ بنواپایا تھا۔ گھر پرقبضہ بھی صالح محمداوراس کے خاندان کاتھا۔والدکی وفات کے بعد،صالح محمدمختلف سرکاری دفاترکے چکرلگاتارہا۔کبھی لائل پورکبھی لاہور، کبھی ایک اہلکار اورکبھی دوسر ااہلکار۔ وہ 1965 سے لے کر1980ء تک اپنے جدی گھرکے کاغذات مکمل نہ کرواسکا۔ہرایک کومعلوم تھاکہ اسکاکلیم صحیح ہے۔اس کا انداراج بھی نصف حدتک مکمل ہوچکا تھا۔مگرپندرہ سال میں کسی بابو سے پندرہ جائزسطریں نہ لکھوا سکا۔لائل پور کے ایک سیاسی شخص نے جب اس مکان پر شفقت کی نظرپھیری توصالح محمدمکمل طورپربربادہو گیا۔سیاسی رہنمانے اسے چندٹکے کے عوض اپنا مکان بیچنے کاحکم دیا۔


یہ نوجوان شخص معاملات کی نزاکت کااندازہ نہ لگاسکا۔اس نے یہ کہہ کرانکارکردیاکہ مکان اس کے والدنے ہندوستان میں موجود اپنے گھرکے عوض حاصل کیاتھا۔لہذاوہ اسکوکسی قیمت پر فروخت نہیں کریگا۔مگروہ یہ اندازہ نہیں کرسکاکہ اس ملک کے طاقتورطبقہ کوآزادی اتنی راس آئی ہے کہ وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔ یہ ملک بناہی ان کے لیے ہے۔گھرپرسیاسی رہنمانے بڑے آرام سے قبضہ کرلیا۔قبضہ ختم کروانے کی عدالتی کارروائی میں پورے تیس برس لگے۔خیرابھی بھی کام اُدھوراتھا۔اسے بتایاگیاکہ پنجاب میں بورڈآف ریوینیوسے ایک ٹرانسفر لیٹر حاصل کرنا ہے۔یہ ایک رسمی سی کارروائی ہے۔جیسے ہی T.O جاری ہوگا، مکان اس کے نام ہوجائیگا۔صالح محمدتین سال کے دوران مہینے میں متعدد بار لاہورآتاتھا۔لاہورمیں اس نے ایک وکیل بھی کررکھا تھا۔ رات کوریلوے اسٹیشن پرسوتاتھااورصبح صبح عدالتی دفترپہنچ جاتا تھا۔کبھی اسکاوکیل غیرحاضر ہوتا تھا، کبھی بورڈ کابابو مصروف ہوتاتھا۔تین برس اورگزر گئے۔ صالح محمدایک دن عدالت سے نکل کرکڑی دھوپ میں بس کے اڈے کی جانب پیدل جارہاتھاکہ دل کادورہ پڑا۔

چند لمحوں میں دنیائے رنگ وبوسے گزرگیا۔ انتقال کے بعد اب اسکابڑابیٹاہرمہینے لاہور آتا ہے۔ وہ بھی رات اسٹیشن پر بسر کرتا ہے ۔صبح صبح، باقاعدگی سے بورڈمیں پیش ہوتاہے۔انتہائی دکھ اورتکلیف سے پیشی کی نئی تاریخ لیتاہے۔اس کے بعد سر جھکاکرواپس فیصل آباد چلا جاتا ہے۔ساٹھ سالوں میں تین نسلیں گزرگئیں۔مگرآج تک ان لوگوں کادس مرلہ کامکان ان کے نام نہ ہوپایا۔اسکامقدمہ پچاس برس سے مسلسل چل رہاہے اور چلتا رہیگا۔ شائداس کی اگلی نسل بھی انھی عدالتوں میں دھکے کھاتی رہے گی۔وہ نوجوان اب میرے پاس آکر خاموشی سے بیٹھ جاتاہے۔میں اس کا کام کروانے کے لیے فون کرتا ہوں۔ وہ جواب کا انتظار کیے بغیر مجھے یہ کہہ کرچلا جاتا ہے کہ بیس دن بعد اگلی تاریخ ہے۔وہ دوبارہ آئیگا۔تین نسلیں ذلت میں برباد ہوگئیں۔ صالح محمد، اسکاوالد،اوراسکابیٹا۔یہ ہے عام آدمی کی جوہری حیثیت اور حکومت کی نظر میں اس کی قدر و منزلت! سرکاری کارروائی کو چھوڑ دیجیے۔ کسی بھی صوبہ کی سول سیکریٹریٹ پرطائرانہ نظر ڈالیے۔

آپکو اردلی، نائب قاصد، فراش، چپڑاسیوں جیسے عظیم محنت کشوں کی اولاد اورآنے والی نسلیں بھی وہی کام کرتی نظرآئینگی جوان کے بزرگ کرتے تھے۔وہ اس پر شکر ادا کرتے نظرآئیں گے۔مبارک علی پنجاب سیکریٹریٹ میں نائب قاصدتھا۔اس کی ڈیوٹی مختلف محکموں میں رہی۔کبھی فنانس ڈیپارٹمنٹ کی اندھی گلیاں اور کبھی ہوم ڈیپارٹمنٹ کاادنیٰ ساماحول۔وہ انتہائی مستعد سا شخص تھا۔ اسے چائے بنانے کے لیے کہیں، توفَٹ سے چائے کی پیالی آپ کے سامنے لے آتاتھا۔ایسے لگتا تھا کہ اسے اپنے کام سے عشق ہے۔ ہر آنے جانے والے شخص کی عزت کرتا تھا۔ اپنی حیثیت کے مطابق چائے یاقہوہ پیش کرتا تھا۔ ایک دن کہنے لگاکہ اس کا والد،بھی سیکریٹریٹ میں چپڑاسی تھا۔ ریٹائرڈہونے کے نزدیک اس نے اپنے صاحب کو التجا کرکے،مجھے نائب قاصد بھرتی کروا دیا۔ چند سال پہلے فون پرکہنے لگاکہ اب وہ بھی ساٹھ برس کاہونے والا ہے۔ ریٹائرڈمنٹ میں محض چند ماہ رہ گئے ہیں۔لہذااب اسے اپنے بیٹے کے لیے نوکری چاہیے۔ بیٹابارہ جماعتیں پاس ہے۔

خیراس نے چند سینئر بابوؤں کی منت کرکے اپنے بیٹے کوبھی سرکاری نوکری دلوادی۔ وہ بھی نائب قاصدبھرتی ہوگیا۔ مبارک اب کہاں ہے۔ میرے علم میں نہیں۔البتہ اس کا بیٹا انھیں دفاتر کے بابوؤں کوچائے بناکر پلاتا ہے جہاں اس کا دادا اور اسکاوالدچائے بناتاتھا۔آپکوان دونوں سچے واقعات میں کوئی تعلق نظرنہیں آئیگا۔ تعلق ہے بھی نہیں۔ایک خاندان اپنے دس مرلے کے خستہ مکان کاجائز کلیم حاصل کرتے کرتے برباد ہوگیا۔ دوسرا خاندان اپنی نسلوں کونائب قاصد سے بہترمستقبل فراہم نہ کرسکا۔ایک لائل پورکا باسی اور دوسرا لاہور کا۔ مگر صاحبان زیست!آپ ان دونوں کے نام فراموش کر دیجیے۔ آپ ان کو پاکستان کاعام ساشہری گردانیے۔ درحقیقت وہ عام سے شہری ہی ہیں۔کسی طاقت، رعب اور استطاعت کے بغیر!آپکواس ملک کے ہرگلی، محلہ، شہر اورقصبہ میں مبارک اورصالح محمدجیسے لاکھوں نہیں، بلکہ کروڑوں لوگ نظرآئینگے۔

ایک نسل ذلت ورسوائی کے گردمیں رزق خاک ہوتی ہے۔تودوسری نسل اس سے زیادہ خوارہونے کے لیے کھڑی ہوتی ہے۔باپ بورڈ آف ریوینیو کے دفترکے چکرلگالگاکرمرجاتاہے توبیٹا بھیاسی پگڈنڈی پر چلنے پرمجبورہوتاہے۔میرااس آزادملک میں ہرشخص سے ایک سوال ہے۔ درست ہے کہ آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اس سے کوئی روگردانی نہیں۔ مگر ہماری آزادی نے معاشی اور معاشرتی انصاف کا دروازہ کیوں نہیں کھولا۔ نائب قاصد کابیٹا بھی نائب قاصد،بلکہ دادابھی نائب قاصد یعنی غلام ابن غلام ابن غلام!صالح محمدکاباپ بھی دفتروں میں چکر لگا لگاکر تہہ خاک جا سویا۔ اس کے بعدصالح محمد بھی، اور اب اس کے بعداس کا بیٹا بھی! سائل ابن سائل ابن سائل۔
Load Next Story