آئی ایس آئی کے سابق چیف کیخلاف بیان وفاقی وزیر مشاہد اللہ سے استعفیٰ لے لیا گیا
مشاہد اللہ خان بیرون ملک ہیں جو واپس آکروزیر اعظم کو باضابطہ طور پر اپنا استعفیٰ پیش کریں گے،وفاقی وزیراطلاعات
وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی مشاہد اللہ خان نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ظہیرالاسلام کے خلاف بیان کے بعد وزارت سے استعفیٰ دے دیا ہے جب کہ وہ مالدیپ میں ہیں اور انہیں وزیراعظم کی ہدایت پر فوری طور پر وطن واپس بلا لیا گیا ہے جہاں وہ واپس آکر وزیراعظم کوباضابطہ طور پر اپنا استعفیٰ اور وضاحت پیش کریں گے۔
وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ مشاہد اللہ نے اپنا استعفیٰ وزیراعظم ہاؤس بھجوادیاہے۔ مشاہد اللہ نے بی بی سی کو انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لفٹیننٹ جنرل رٹائرڈ ظہیرالسلام گزشتہ سال دھرنوں کے دوران سول اورفوجی قیادت کو ہٹاکر اقتدار پرقبضہ کرناچاہتے تھے۔ بی بی سی کے مطابق مشاہد اللہ کو ان کے عہدے برطرف کردیا گیا ہے، وزیر اطلاعات نے ان سے استعفیٰ لینے کی تصدیق کردی ہے۔
پرویز رشید نے کہا کہ مشاہد اللہ کوبتایا گیا ہے کہ جو انٹرویو انھوں نے دیا ہے وہ غیر ذمے دارانہ اور حقائق کے بالکل برعکس ہے۔ مشاہد اللہ اس وقت مالدیپ کے دورے پر ہیں جہاں ان کو انٹرویو کے حوالے سے وزیراعظم نواز شریف کے تاثرات پہنچائے گئے اور انھیں کہاگیا کہ وہ پاکستان تشریف لے آئیں۔ انھوں نے پاکستان واپس آنے اور استعفیٰ دینے کا فیصلہ قبول کیا۔ پرویز رشید نے کہاکہ وزیراعظم ہاؤس میں وزیراعظم کی موجودگی میں کبھی کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا، نہ کبھی کوئی ٹیپ سنی گئی اور نہ ہی سنائی گئی۔
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا کہ سول ملٹری تعلقات بہترین ہیں، ن لیگ نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ہمیں ماضی کے بخیے نہیں ادھیڑنے اورآگے بڑھنا ہے، مشاہد اللہ خان کی غیرذمے دارانہ گفتگو پر ان سے استعفیٰ لیا گیا ہے۔ ایکسپریس نیوز کے پروگرام 'جی فارغریدہ' میں میزبان غریدہ فاروقی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہن لیگ بااصول جماعت ہے اوران اصولوں کے تحت مشاہد اللہ سے استعفیٰ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ مشاہد اللہ خان نے غیرذمے دارانہ گفتگو کی جس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ انھوں نے وزیراعظم کے نام سے منسوب کرکے ٹیپ کے بارے میں بات کی لیکن ایسی کوئی ٹیپ ہے ہی نہیں، وزیراعظم ہاؤس میں اس طرح کا کوئی واقعہ نہیں ہوا، ہماری جماعت کا اس پرصرف ایک ہی موقف ہے کہ ماضی میں بہت سے ایسے واقعات ہوئے ہیں، کیا ہم نے ان کے بخیے ادھیڑنے ہیں، ہماری پارٹی فیصلہ کر چکی ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سیکھیں گے ماضی کے بخیے نہیں ادھیڑیں گے، میں نے اپنی پارٹی کا موقف بتادیا ہے، ہم کسی کے مطالبے پرکوئی بات نہیں کریں گے اگر پی ٹی آئی کے مطالبے پر ہمیں استعفے دینا ہوتے تو اس وقت دیتے جب وہ ڈی چوک میں تھے۔ مشاہد اللہ سے ن لیگ کے اصولوں کے مطابق استعفیٰ لیا ہے اورانھوں نے اصولوں کو مانتے ہوئے استعفیٰ دیا ہے، آئی بی کواختیار نہیں کہ وہ کسی کے ٹیلی فون ٹیپ کرے، ڈی جی آئی ایس پی آر کی ٹویٹ میں برہمی کا کوئی اظہار نہیں ہے، وہ ایک ادارے کے ترجمان ہیں، انھوں نے اپنے ادارے کی ترجمانی کی ہے جو ان کا حق ہے اور ایک طرح سے انھوں نے وہی باتیں کیں جو میں کر چکا تھا۔
پرویز رشید کا کہنا تھا کہ ملک میں اس وقت ریاست کے تمام ستون قومی مفاد کے حصول کے لیے متحد ہیں، فوج، پارلیمنٹ، عدلیہ سب متحد ہیں جب تمام ادارے ایک ہی موقف اپناتے ہیں تو پھر دنیا میں ہماری عزت ہوتی ہے ہمارے مقاصد ایک ہیں کہ ملک سے دہشت گردی ختم کرنا ہے، وزیراعظم جہاں پر جاتے ہیں آرمی چیف یا آئی ایس آئی چیف ان سے قبل یابعد میں اس ملک کا دورہ کرتے ہیں۔ وزیراعظم، آرمی چیف یا آئی ایس آئی چیف تینوں ایک جیسی گفتگو نہ کرتے تو چین، افغانستان، امریکا جیسے ملک ہمارے موقف کوکیوں مانتے، یہ سب ملک پاکستان کو پارٹ آف پرابلم سمجھتے تھے لیکن اب وہ پاکستان کو پارٹ آف سلوشن سمجھتے ہیں، وہی بات وزیراعظم کرتے ہیں وہی بات آرمی چیف کرتے ہیں۔ چین سے 42 ارب ڈالر ملے ہیں اگر آرمی چیف، آئی ایس آئی چیف یا وزیراعظم مختلف باتیں کریں تو یہ نہ ملیں۔ سول ملٹری تعلقات بہترین ہیں ان میں کوئی اختلاف نہیں۔
علاوہ ازیں ایم کیو ایم نے مشاہد اللہ کے بیان پر مذمتی قرارداد آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے سیکریٹریٹ میں جمع کرادی ہے۔ قرارداد میں لیگی قیادت اور مشاہد اللہ کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے اور کہا گیاکہ مشاہد اللہ نے قومی سلامتی کے ادارے کے سابق افسر پر دھرنوں سے متعلق جو الزامات لگائے ہیں وہ انتہائی سنگین ہیں، ان بیانات کے بعد کارروائی نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ متحدہ کے پارلیمانی لیڈر طاہر کھوکھر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ کی قیادت پہلے ڈھکے چھپے الفاظ میں افواج کو نشانہ بناتی تھی اب انھوں نے سرعام فوج کے خلاف اپنے مذموم مقاصدکے حصول کے لیے سازش شروع کردی ہے۔
https://www.dailymotion.com/video/x31slzt_mushahidullah-khan_news
وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ مشاہد اللہ نے اپنا استعفیٰ وزیراعظم ہاؤس بھجوادیاہے۔ مشاہد اللہ نے بی بی سی کو انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لفٹیننٹ جنرل رٹائرڈ ظہیرالسلام گزشتہ سال دھرنوں کے دوران سول اورفوجی قیادت کو ہٹاکر اقتدار پرقبضہ کرناچاہتے تھے۔ بی بی سی کے مطابق مشاہد اللہ کو ان کے عہدے برطرف کردیا گیا ہے، وزیر اطلاعات نے ان سے استعفیٰ لینے کی تصدیق کردی ہے۔
پرویز رشید نے کہا کہ مشاہد اللہ کوبتایا گیا ہے کہ جو انٹرویو انھوں نے دیا ہے وہ غیر ذمے دارانہ اور حقائق کے بالکل برعکس ہے۔ مشاہد اللہ اس وقت مالدیپ کے دورے پر ہیں جہاں ان کو انٹرویو کے حوالے سے وزیراعظم نواز شریف کے تاثرات پہنچائے گئے اور انھیں کہاگیا کہ وہ پاکستان تشریف لے آئیں۔ انھوں نے پاکستان واپس آنے اور استعفیٰ دینے کا فیصلہ قبول کیا۔ پرویز رشید نے کہاکہ وزیراعظم ہاؤس میں وزیراعظم کی موجودگی میں کبھی کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا، نہ کبھی کوئی ٹیپ سنی گئی اور نہ ہی سنائی گئی۔
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا کہ سول ملٹری تعلقات بہترین ہیں، ن لیگ نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ہمیں ماضی کے بخیے نہیں ادھیڑنے اورآگے بڑھنا ہے، مشاہد اللہ خان کی غیرذمے دارانہ گفتگو پر ان سے استعفیٰ لیا گیا ہے۔ ایکسپریس نیوز کے پروگرام 'جی فارغریدہ' میں میزبان غریدہ فاروقی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہن لیگ بااصول جماعت ہے اوران اصولوں کے تحت مشاہد اللہ سے استعفیٰ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ مشاہد اللہ خان نے غیرذمے دارانہ گفتگو کی جس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ انھوں نے وزیراعظم کے نام سے منسوب کرکے ٹیپ کے بارے میں بات کی لیکن ایسی کوئی ٹیپ ہے ہی نہیں، وزیراعظم ہاؤس میں اس طرح کا کوئی واقعہ نہیں ہوا، ہماری جماعت کا اس پرصرف ایک ہی موقف ہے کہ ماضی میں بہت سے ایسے واقعات ہوئے ہیں، کیا ہم نے ان کے بخیے ادھیڑنے ہیں، ہماری پارٹی فیصلہ کر چکی ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سیکھیں گے ماضی کے بخیے نہیں ادھیڑیں گے، میں نے اپنی پارٹی کا موقف بتادیا ہے، ہم کسی کے مطالبے پرکوئی بات نہیں کریں گے اگر پی ٹی آئی کے مطالبے پر ہمیں استعفے دینا ہوتے تو اس وقت دیتے جب وہ ڈی چوک میں تھے۔ مشاہد اللہ سے ن لیگ کے اصولوں کے مطابق استعفیٰ لیا ہے اورانھوں نے اصولوں کو مانتے ہوئے استعفیٰ دیا ہے، آئی بی کواختیار نہیں کہ وہ کسی کے ٹیلی فون ٹیپ کرے، ڈی جی آئی ایس پی آر کی ٹویٹ میں برہمی کا کوئی اظہار نہیں ہے، وہ ایک ادارے کے ترجمان ہیں، انھوں نے اپنے ادارے کی ترجمانی کی ہے جو ان کا حق ہے اور ایک طرح سے انھوں نے وہی باتیں کیں جو میں کر چکا تھا۔
پرویز رشید کا کہنا تھا کہ ملک میں اس وقت ریاست کے تمام ستون قومی مفاد کے حصول کے لیے متحد ہیں، فوج، پارلیمنٹ، عدلیہ سب متحد ہیں جب تمام ادارے ایک ہی موقف اپناتے ہیں تو پھر دنیا میں ہماری عزت ہوتی ہے ہمارے مقاصد ایک ہیں کہ ملک سے دہشت گردی ختم کرنا ہے، وزیراعظم جہاں پر جاتے ہیں آرمی چیف یا آئی ایس آئی چیف ان سے قبل یابعد میں اس ملک کا دورہ کرتے ہیں۔ وزیراعظم، آرمی چیف یا آئی ایس آئی چیف تینوں ایک جیسی گفتگو نہ کرتے تو چین، افغانستان، امریکا جیسے ملک ہمارے موقف کوکیوں مانتے، یہ سب ملک پاکستان کو پارٹ آف پرابلم سمجھتے تھے لیکن اب وہ پاکستان کو پارٹ آف سلوشن سمجھتے ہیں، وہی بات وزیراعظم کرتے ہیں وہی بات آرمی چیف کرتے ہیں۔ چین سے 42 ارب ڈالر ملے ہیں اگر آرمی چیف، آئی ایس آئی چیف یا وزیراعظم مختلف باتیں کریں تو یہ نہ ملیں۔ سول ملٹری تعلقات بہترین ہیں ان میں کوئی اختلاف نہیں۔
علاوہ ازیں ایم کیو ایم نے مشاہد اللہ کے بیان پر مذمتی قرارداد آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے سیکریٹریٹ میں جمع کرادی ہے۔ قرارداد میں لیگی قیادت اور مشاہد اللہ کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے اور کہا گیاکہ مشاہد اللہ نے قومی سلامتی کے ادارے کے سابق افسر پر دھرنوں سے متعلق جو الزامات لگائے ہیں وہ انتہائی سنگین ہیں، ان بیانات کے بعد کارروائی نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ متحدہ کے پارلیمانی لیڈر طاہر کھوکھر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ کی قیادت پہلے ڈھکے چھپے الفاظ میں افواج کو نشانہ بناتی تھی اب انھوں نے سرعام فوج کے خلاف اپنے مذموم مقاصدکے حصول کے لیے سازش شروع کردی ہے۔
https://www.dailymotion.com/video/x31slzt_mushahidullah-khan_news