یو م آزادی کے بعد…
جو مظاہرہ یوم آزادی پر بالخصوص نوجوانوں میں نظر آتا ہے، کاش یہ سال کے باقی دنوں میں بھی اسی طرح قائم رہے
دل ہمارے جانے اندر سے کیسے ہی بے چین ہوں، دماغوں میں مغربی خیالات کا کتنا ہی تسلط کیوں نہ ہو مگر جہاں بات آتی ہے اپنی آزادی کا جشن منانے کی، وہاں ہمارے دل خوشی کے جذبات سے بھر جاتے ہیں۔ اڑسٹھ برس ہماری آزادی کے بعد گزر چکے مگر independence day مناتے ہوئے ہمیں یہ بھی یاد نہیں ہوتا کہ ہم کس کس معاملے میں کس طرح dependant ہیں۔ چند برسوں سے ہر عمر کے لوگوں میں یوم آزادی منانے کے حوالے سے جوش و خروش دیکھنے میں آتا ہے، ملک کے تمام شہروں میں سبز ہلالی پرچموں کی فصل اگ آتی ہے، ہر طرف پھیلے ہوئے ہر سائز کے پرچموں کا نظارہ نظر اور دل کو تراوٹ بخشتا ہے، بے اختیار دل پکار اٹھتا ہے ، '' اے باری تعالی اس ملک کے پرچم کو ہمیشہ سر بلند رکھنا، اس ملک کو رہتی دنیا تک قائم اور آزاد رکھنا ۔ آمین!! ''
جو مظاہرہ یوم آزادی پر بالخصوص نوجوانوں میں نظر آتا ہے، کاش یہ سال کے باقی دنوں میں بھی اسی طرح قائم رہے، انھیں علم ہو کہ جس آزادی کو وہ فقط ایک دن کے جشن کے طور پر مناتے ہیں وہ آزادی ان مول ہے، اس آزادی کے حصول کے لیے ہمارے آباء نے ان گنت قربانیاں دی ہیں اور آج بھی ہماری سرحدوں کے رکھوالے اس آزادی کو قائم رکھنے کے لیے اپنے ملک کو اپنے لہو کا نذرانہ پیش کرتے ہیں تو ہمیں ہر سال یہ دن منانا نصیب ہوتا ہے۔ پاکستان ہماری شناخت ہے، ہماری پہچان ہے، ہمارا نام ہے اور ہمارا مان ہے، اس ملک کے بغیر ہم کچھ نہیں، اس کی مٹی کی خوشبو عمر بھر ہمارے اندر رچی رہتی ہے، چاہے ہم جہاں بھی چلیں جائیں، ہماری جڑوں سے ہمارا رابطہ اٹوٹ ہے۔
مجھے خوشی ہوتی ہے اس وقت جب میں اسکولوں کے ننھے ننھے بچوں کو جذبے کے ساتھ ، کچھ نہ سمجھتے ہوئے، گالوں پر پینٹ کے ساتھ پاکستانی پرچم بنائے، ہاتھوں میں اپنی اپنی عمروں کیمطابق سائز کے پرچموں کو تھامے، اپنے اساتذہ کے ساتھ مل کر وطن کی محبت کے ترانے گاتے ہیں، ان کے چہرے خوشی سے سرشار ہوتے ہیں اور دلوں کی دھڑکنیں ، ترانوںکی تان کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتی ہیں۔ دو چار دن کے لیے ہی سہی، مگر انھیں والدین اور اساتذہ ملک سے محبت کا درس دیتے ہیں مگر یہ درس عارضی ہے اور وقتی جوش ہے جو جلد ہی اختتام پذیر ہو جاتا ہے، ہمارے ملک کے کسی بھی کالج میں پڑھنے والے طالبعلم کو تاریخ پاکستان کے کسی میوزیم میں لے جائیں یا اسے انٹرنیٹ پر تصاویر دکھائیں تو اسے تحریک آزادیء پاکستان کے متحرک ترین راہنماؤں کے ناموں کا بھی علم نہیں ہو گا، تاریخ سے لاعلمی ایک اہم وجہ ہے کیونکہ تاریخ کی کتابوں میں یا تو حقائق مسخ کر دیے گئے ہیں یا حذف۔ جو قومیں اپنی تاریخ کو بھول جاتی ہیں ، ان کا جغرافیہ بھی انھیں بھولنے لگتا ہے، اسی لیے تو آج کی نسل دو قومی نظرئیے سے نا آشنا ہے، بڑے دھڑلے سے کہتے ہیںکہ پاکستان کے مسائل کا حل یہ ہے کہ اسے امریکا کے حوالے کر دیا جائے، یعنی امریکا یہاں آ کر اس ملک کا انتظام و انصرام سنبھال لے، نوجوانوں کی یہ سوچ کوئی ہوائی بات نہیں ہے بلکہ ایک قطعی اور تلخ حقیقت ہے، صرف نوجوان ہی نہیں بلکہ کئی ذمے دار افراد بھی ایسی باتیں کرتے سنائی دے جاتے ہیں۔
کاش وہ جانتے کہ کس قدر قربانیوں اور کتنی جانوں کے عوض یہ ملک قائم ہوا تھا اور اسے قائم رکھنے کے لیے اب تک دی جانے والی قربانیوں کی تعداد کیا ہے؟
کاش انھیں ان کے جذبات کا احساس ہو جو اپنی جان ہتھیلیوں پر لیے پروانہ وار مادر وطن کے لیے، اس کے دشمنوں سے بر سر پیکار ہیں اور اپنے لہو سے اس ملک کی ہریالی کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔اصل ضرورت یہ نہیں کہ یوم آزادی پر اپنے بچوں کو جھنڈے خرید کر دیں، انھیں اپنے گھروں اور گاڑیوں پر لہرائیں، ان کے گالوں پر پرچم کی تصویر بنائیں، انھیں پرچم کے ہم رنگ لباس پہنائیں اور انھیں گاڑیوں میں گھما تے ہوئے بتیوں کی سجاوٹ اور ہلڑ بازی کرتے ہوئے موٹر سائیکل سوار دکھائیں۔ یوم آزادی پر انھیں باہر کھانا کھلانے لے کر جائیں جہاں اس روز دن بھر ملی نغمے بجائے جا رہے ہوں!! یہ سب ان کے لیے ایک دن کی عارضی یاد ہے، ان کے لیے اس سے زیادہ کی ضرورت ہے۔
اپنے بچوں کو وطن کی محبت سے ہمیشہ سرشار رکھیں، بچپن کی اولین عمر سے ہی جب وہ آپ کو بارہا یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ اس ملک میں رکھا ہی کیا ہے تو وہ بھی اس ملک کو اپنا عارضی ٹھکانہ سمجھتے ہیں، انھیں اس ملک میں کچھ اچھا نظر نہیں آتا کیونکہ وہ اسے آپ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ انھیں سوتے وقت جس طرح آپ سنڈریلا اور ہیری پورٹر کی کہانیاں سناتے ہیں، اسی طرح انھیں اپنے ان ہیروز کی کہانیاں سنائیں کہ جنھوں نے آزادی کی جدوجہد کی، ان جیالوں کی داستانیں سنائیں جنھوں نے جنگیں لڑیں اور غازی ہوئے یا شہید۔ انھیں بتائیں کہ ملک کیا ہے اور اس کی اہمیت کیا ہوتی ہے، اس کے بوتے پر ہم سر اٹھا کر جیتے ہیں اور دنیا میں اس نام کی پہچان کے ساتھ فخر سے چلتے ہیں۔
انھیں بتائیں کہ آزادی ایک نعمت ہے اور جو لوگ نعمتوں کی قدر نہیں کرتے،ان سے نعمتیں چھین لی جاتی ہیں، انھیں ان نعمتوں سے محروم لوگوں کی اذیتوں کا اندازہ نہیں۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو آپ کو کشمیر اور فلسطین کے لوگوں کی جدوجہد آزادی نظر آ جائے گی۔ کسی کے زیر تسلط زندگی گزارنے کا کہ جہاں آپ کو اپنے سماجی اور مذہب عقائد پر عمل کرنے کی آزادی نہ ہو۔ ہماری نسل کو تجربہ ہے نہ ہمیں، مگر ہم اس لحاظ سے بہتر ہیں کہ ہم تحریک پاکستان میں سرگرم لوگوںسے خود ملے ہوں گے، ان میں سے کئی ہمارے نانا دادا تھے اور کئی کے باپ اور چچا یا ان کے دوست۔ ہم نے ان سے تو وطن کی محبت کے اسباق سیکھے مگر بد قسمتی سے ہم نے اپنی اگلی نسل کو یہ سرمایہ منتقل نہیں کیا پھر ہم ان سے کیا توقع کر سکتے ہیں؟
آزادی صرف پرچم لہرانے کا نام نہیں ہے، اس کا مطلب اس پرچم کو ہمیشہ بلند رکھنا ہے۔ اپنے وطن سے محبت کرنا، اس کے نام اور پرچم کو دنیا بھر میں اچھے طریقے سے لے کر چلنا، اس مادر وطن کے رکھوالوں سے محبت کرنا، اس کی کمیوں کجیوں کو اغیار کے سامنے چھپانا تا کہ کوئی اس کو برا نہ کہے، اپنے اندر وہ اوصاف پیدا کرنا اور دنیا کے سامنے دکھانا کہ جنھیں دیکھ کر لوگ پوچھیں کہ یہ کس ملک کے لوگ ہیں!! جہاں جائیں، اس ملک کی اچھی پہچان بنائیں، جس دھرتی کے وجود پر ہم جنم لیتے ہیں اور جس کے سینے پر کھیل کر اس قابل ہوتے ہیں کہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں، اس دھرتی کے نام کو بدنام نہ کریں، اسے برا نہ کہیں، اسے اغیار کے حوالے کرنے کی باتیں نہ کریں۔ کوئی اس سے بڑا منافق اور بددیانت کون ہو سکتا ہے جو اسی تھالی میں چھید کرے، جس میں وہ کھاتا ہو۔
مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ہمارے بزرگ ایک سکہ بھی زمین پر گرا ہوا دیکھتے تھے تو کہتے تھے کہ اسے فوراً اٹھا لو، اس لیے نہیں کہ اس سکے کی قدر و قیمت بہت زیادہ ہوتی تھی بلکہ اس لیے کہ اس سکے پر پاکستان کا نام لکھا ہوتا تھا۔ ہمارے ایک عزیزتھے جنھوں نے ایک بار ایک بہت دلچسپ اور با معنی سوال کیا تھا ، کہنے لگے، '' رشوت میں نوٹ دینے والے اور لینے والوں کو شرم بھی نہیں آتی کہ نوٹ پر قائد ہوتے ہیں اور وہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ ان کی تصویر کے نوٹ کا استعمال کس طرح ہوتا ہے، جسے اپنے قائد سے محبت ہو گی وہ کبھی قائد کی تصویر والے نوٹ کی بے حرمتی نہیں کرے گا '' ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا ہوتا نہیں ہے مگر یہ وہ جذبہ ہے جو انسان کو اپنے ملک ، ملک کے بانیوں اور ملک سے محبت کرنے والوں کی محبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔
ملک کا خوب صورت پرچم، یوم آزادی گزارنے کے بعد جس کی ہم پروا بھی نہیں کرتے، گلیوں محلوں میں ہر طرف رل رہا ہوتا ہے اور ہر دیکھنے والے کو بتاتا ہے کہ ہمیں اس کی کتنی ناقدری ہے، کتنی لاپروائی سے ہم چیزوں کو برت کر پھینک دیتے ہیں، یہ سبز ہلالی پرچم ہماری پہچان ہے، اسے سر بلند رکھنا ہمارا فرض ہے۔ اپنے ارد گرد جہاں بھی آپ پرچم یا پرچم کا کوئی ٹکڑا بھی گرا ہوا دیکھیں تو اسے احترام سے اٹھا لیں، سنبھال کر رکھیں، اپنے بچوں کو بتائیں کہ ملک سے محبت کا تقاضہ ہے کہ ہم نہ صرف اس کے پرچم کو بلکہ اسے بھی سنبھال کر رکھیں اور دل میں جذبہ زندہ رکھیں کہ اس وطن کی طرف جو بری نظر بھی اٹھے گی اسے پھوڑ دیں گے۔ پاکستان پائندہ باد!!!
جو مظاہرہ یوم آزادی پر بالخصوص نوجوانوں میں نظر آتا ہے، کاش یہ سال کے باقی دنوں میں بھی اسی طرح قائم رہے، انھیں علم ہو کہ جس آزادی کو وہ فقط ایک دن کے جشن کے طور پر مناتے ہیں وہ آزادی ان مول ہے، اس آزادی کے حصول کے لیے ہمارے آباء نے ان گنت قربانیاں دی ہیں اور آج بھی ہماری سرحدوں کے رکھوالے اس آزادی کو قائم رکھنے کے لیے اپنے ملک کو اپنے لہو کا نذرانہ پیش کرتے ہیں تو ہمیں ہر سال یہ دن منانا نصیب ہوتا ہے۔ پاکستان ہماری شناخت ہے، ہماری پہچان ہے، ہمارا نام ہے اور ہمارا مان ہے، اس ملک کے بغیر ہم کچھ نہیں، اس کی مٹی کی خوشبو عمر بھر ہمارے اندر رچی رہتی ہے، چاہے ہم جہاں بھی چلیں جائیں، ہماری جڑوں سے ہمارا رابطہ اٹوٹ ہے۔
مجھے خوشی ہوتی ہے اس وقت جب میں اسکولوں کے ننھے ننھے بچوں کو جذبے کے ساتھ ، کچھ نہ سمجھتے ہوئے، گالوں پر پینٹ کے ساتھ پاکستانی پرچم بنائے، ہاتھوں میں اپنی اپنی عمروں کیمطابق سائز کے پرچموں کو تھامے، اپنے اساتذہ کے ساتھ مل کر وطن کی محبت کے ترانے گاتے ہیں، ان کے چہرے خوشی سے سرشار ہوتے ہیں اور دلوں کی دھڑکنیں ، ترانوںکی تان کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتی ہیں۔ دو چار دن کے لیے ہی سہی، مگر انھیں والدین اور اساتذہ ملک سے محبت کا درس دیتے ہیں مگر یہ درس عارضی ہے اور وقتی جوش ہے جو جلد ہی اختتام پذیر ہو جاتا ہے، ہمارے ملک کے کسی بھی کالج میں پڑھنے والے طالبعلم کو تاریخ پاکستان کے کسی میوزیم میں لے جائیں یا اسے انٹرنیٹ پر تصاویر دکھائیں تو اسے تحریک آزادیء پاکستان کے متحرک ترین راہنماؤں کے ناموں کا بھی علم نہیں ہو گا، تاریخ سے لاعلمی ایک اہم وجہ ہے کیونکہ تاریخ کی کتابوں میں یا تو حقائق مسخ کر دیے گئے ہیں یا حذف۔ جو قومیں اپنی تاریخ کو بھول جاتی ہیں ، ان کا جغرافیہ بھی انھیں بھولنے لگتا ہے، اسی لیے تو آج کی نسل دو قومی نظرئیے سے نا آشنا ہے، بڑے دھڑلے سے کہتے ہیںکہ پاکستان کے مسائل کا حل یہ ہے کہ اسے امریکا کے حوالے کر دیا جائے، یعنی امریکا یہاں آ کر اس ملک کا انتظام و انصرام سنبھال لے، نوجوانوں کی یہ سوچ کوئی ہوائی بات نہیں ہے بلکہ ایک قطعی اور تلخ حقیقت ہے، صرف نوجوان ہی نہیں بلکہ کئی ذمے دار افراد بھی ایسی باتیں کرتے سنائی دے جاتے ہیں۔
کاش وہ جانتے کہ کس قدر قربانیوں اور کتنی جانوں کے عوض یہ ملک قائم ہوا تھا اور اسے قائم رکھنے کے لیے اب تک دی جانے والی قربانیوں کی تعداد کیا ہے؟
کاش انھیں ان کے جذبات کا احساس ہو جو اپنی جان ہتھیلیوں پر لیے پروانہ وار مادر وطن کے لیے، اس کے دشمنوں سے بر سر پیکار ہیں اور اپنے لہو سے اس ملک کی ہریالی کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔اصل ضرورت یہ نہیں کہ یوم آزادی پر اپنے بچوں کو جھنڈے خرید کر دیں، انھیں اپنے گھروں اور گاڑیوں پر لہرائیں، ان کے گالوں پر پرچم کی تصویر بنائیں، انھیں پرچم کے ہم رنگ لباس پہنائیں اور انھیں گاڑیوں میں گھما تے ہوئے بتیوں کی سجاوٹ اور ہلڑ بازی کرتے ہوئے موٹر سائیکل سوار دکھائیں۔ یوم آزادی پر انھیں باہر کھانا کھلانے لے کر جائیں جہاں اس روز دن بھر ملی نغمے بجائے جا رہے ہوں!! یہ سب ان کے لیے ایک دن کی عارضی یاد ہے، ان کے لیے اس سے زیادہ کی ضرورت ہے۔
اپنے بچوں کو وطن کی محبت سے ہمیشہ سرشار رکھیں، بچپن کی اولین عمر سے ہی جب وہ آپ کو بارہا یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ اس ملک میں رکھا ہی کیا ہے تو وہ بھی اس ملک کو اپنا عارضی ٹھکانہ سمجھتے ہیں، انھیں اس ملک میں کچھ اچھا نظر نہیں آتا کیونکہ وہ اسے آپ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ انھیں سوتے وقت جس طرح آپ سنڈریلا اور ہیری پورٹر کی کہانیاں سناتے ہیں، اسی طرح انھیں اپنے ان ہیروز کی کہانیاں سنائیں کہ جنھوں نے آزادی کی جدوجہد کی، ان جیالوں کی داستانیں سنائیں جنھوں نے جنگیں لڑیں اور غازی ہوئے یا شہید۔ انھیں بتائیں کہ ملک کیا ہے اور اس کی اہمیت کیا ہوتی ہے، اس کے بوتے پر ہم سر اٹھا کر جیتے ہیں اور دنیا میں اس نام کی پہچان کے ساتھ فخر سے چلتے ہیں۔
انھیں بتائیں کہ آزادی ایک نعمت ہے اور جو لوگ نعمتوں کی قدر نہیں کرتے،ان سے نعمتیں چھین لی جاتی ہیں، انھیں ان نعمتوں سے محروم لوگوں کی اذیتوں کا اندازہ نہیں۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو آپ کو کشمیر اور فلسطین کے لوگوں کی جدوجہد آزادی نظر آ جائے گی۔ کسی کے زیر تسلط زندگی گزارنے کا کہ جہاں آپ کو اپنے سماجی اور مذہب عقائد پر عمل کرنے کی آزادی نہ ہو۔ ہماری نسل کو تجربہ ہے نہ ہمیں، مگر ہم اس لحاظ سے بہتر ہیں کہ ہم تحریک پاکستان میں سرگرم لوگوںسے خود ملے ہوں گے، ان میں سے کئی ہمارے نانا دادا تھے اور کئی کے باپ اور چچا یا ان کے دوست۔ ہم نے ان سے تو وطن کی محبت کے اسباق سیکھے مگر بد قسمتی سے ہم نے اپنی اگلی نسل کو یہ سرمایہ منتقل نہیں کیا پھر ہم ان سے کیا توقع کر سکتے ہیں؟
آزادی صرف پرچم لہرانے کا نام نہیں ہے، اس کا مطلب اس پرچم کو ہمیشہ بلند رکھنا ہے۔ اپنے وطن سے محبت کرنا، اس کے نام اور پرچم کو دنیا بھر میں اچھے طریقے سے لے کر چلنا، اس مادر وطن کے رکھوالوں سے محبت کرنا، اس کی کمیوں کجیوں کو اغیار کے سامنے چھپانا تا کہ کوئی اس کو برا نہ کہے، اپنے اندر وہ اوصاف پیدا کرنا اور دنیا کے سامنے دکھانا کہ جنھیں دیکھ کر لوگ پوچھیں کہ یہ کس ملک کے لوگ ہیں!! جہاں جائیں، اس ملک کی اچھی پہچان بنائیں، جس دھرتی کے وجود پر ہم جنم لیتے ہیں اور جس کے سینے پر کھیل کر اس قابل ہوتے ہیں کہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں، اس دھرتی کے نام کو بدنام نہ کریں، اسے برا نہ کہیں، اسے اغیار کے حوالے کرنے کی باتیں نہ کریں۔ کوئی اس سے بڑا منافق اور بددیانت کون ہو سکتا ہے جو اسی تھالی میں چھید کرے، جس میں وہ کھاتا ہو۔
مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ہمارے بزرگ ایک سکہ بھی زمین پر گرا ہوا دیکھتے تھے تو کہتے تھے کہ اسے فوراً اٹھا لو، اس لیے نہیں کہ اس سکے کی قدر و قیمت بہت زیادہ ہوتی تھی بلکہ اس لیے کہ اس سکے پر پاکستان کا نام لکھا ہوتا تھا۔ ہمارے ایک عزیزتھے جنھوں نے ایک بار ایک بہت دلچسپ اور با معنی سوال کیا تھا ، کہنے لگے، '' رشوت میں نوٹ دینے والے اور لینے والوں کو شرم بھی نہیں آتی کہ نوٹ پر قائد ہوتے ہیں اور وہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ ان کی تصویر کے نوٹ کا استعمال کس طرح ہوتا ہے، جسے اپنے قائد سے محبت ہو گی وہ کبھی قائد کی تصویر والے نوٹ کی بے حرمتی نہیں کرے گا '' ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا ہوتا نہیں ہے مگر یہ وہ جذبہ ہے جو انسان کو اپنے ملک ، ملک کے بانیوں اور ملک سے محبت کرنے والوں کی محبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔
ملک کا خوب صورت پرچم، یوم آزادی گزارنے کے بعد جس کی ہم پروا بھی نہیں کرتے، گلیوں محلوں میں ہر طرف رل رہا ہوتا ہے اور ہر دیکھنے والے کو بتاتا ہے کہ ہمیں اس کی کتنی ناقدری ہے، کتنی لاپروائی سے ہم چیزوں کو برت کر پھینک دیتے ہیں، یہ سبز ہلالی پرچم ہماری پہچان ہے، اسے سر بلند رکھنا ہمارا فرض ہے۔ اپنے ارد گرد جہاں بھی آپ پرچم یا پرچم کا کوئی ٹکڑا بھی گرا ہوا دیکھیں تو اسے احترام سے اٹھا لیں، سنبھال کر رکھیں، اپنے بچوں کو بتائیں کہ ملک سے محبت کا تقاضہ ہے کہ ہم نہ صرف اس کے پرچم کو بلکہ اسے بھی سنبھال کر رکھیں اور دل میں جذبہ زندہ رکھیں کہ اس وطن کی طرف جو بری نظر بھی اٹھے گی اسے پھوڑ دیں گے۔ پاکستان پائندہ باد!!!