الطاف حسین نے فضل الرحمٰن کو ثالث مان لیا حکومت آپریشن کی نگرانی کیلیے پارلیمانی کمیٹی پر رضامند
کمیٹی پارلیمانی رہنماؤں کی مشاورت سے بنے گی، اپیکس کمیٹی گرفتاریوں پراسے اعتماد میںلے گی، ذرائع
ISLAMABAD:
جے یوآئی(ف) کے سربراہ مولانافضل الرحمن نے متحدہ کے قائد الطاف حسین کو ٹیلی فون کیا ہے جس میں ایم کیو ایم کے قائدنے مولانا فضل الرحمن کوبطور ثالث قبول کر لیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق الطاف حسین نے مولانا فضل الرحمن کی درخواست منظور کرتے ہوئے مذاکرات کیلئے حامی بھر لی ہے۔ ذرائع کے مطابق مذاکرات کا آغاز 2روز بعد رابطہ کمیٹی سے ملاقات میں ہوگا۔ دریں اثنا مولانا فضل الرحمن نے وزیراعظم کے مشیر برائے قانونی امور اشتراوصاف سے ملاقات کی ہے، ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ نوٹیفکیشن جاری ہونے سے پہلے استعفے واپس لیے جا سکتے ہیں، ملاقات میں مولانا فضل الرحمن کی قانونی ٹیم بھی موجود تھی۔
مولانا فضل الرحمن کا موقف تھا کہ ایک بار استعفے دے دیے جائیں تو واپس نہیں لیے جا سکتے، اشتر اوصاف کاموقف تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کی روشنی میں جب تک نوٹیفکیشن جاری نہیں ہو جاتا استعفے واپس لیے جا سکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے بھی اس موقف سے اتفاق کر لیا۔ ملاقات میں یہ بھی طے پایا کہ حکومت اسپیکر کو مشورہ دے گی نہ ہی ان کے صوابدیدی اختیارات پر اثر انداز ہوگی، استعفے مسترد یا قبول کرنا اسپیکر کا کام ہے۔ وفاقی حکومت نے کراچی میں جاری آپریشن میں شفافیت یقینی بنانے کے لیے پارلیمانی مانیٹرنگ کمیٹی بنانے پراصولی رضامندی ظاہر کردی ہے۔
اس ضمن میں حتمی فیصلہ وزیراعظم نوازشریف ایک دوروز میں کریںگے۔ اس پیش رفت سے آگاہ سرکاری ذرائع نے ''ایکسپریس'' کوبتایا کہ وزیراعظم نوازشریف کواعتماد ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کی نگرانی سے شفافیت یقینی بنانے کے علاوہ بہترنتائج برآمد ہوںگے۔ پارلیمانی پارٹیوںکے رہنماؤں کی مشاورت سے بننے والی یہ کمیٹی سندھ میں اپیکس کمیٹی کی کوآرڈی نیشن سے کام کرے گی۔ ذرائع کاکہنا تھاکہ اپیکس کمیٹی کراچی میںکی جانے والی گرفتاریوں، گرفتارافراد کی کسی بھی سیاسی گروپ یاپارٹی سے ممکنہ تعلق اوروہ الزامات جن کے تحت انھیںگرفتار کیاگیا، ان کے حوالے سے مجوزہ پارلیمانی مانیٹرنگ کمیٹی کواعتماد میں لے گی۔ ذرائع کاکہنا ہے کہ اس کمیٹی کے قیام سے کسی بھی سیاسی جماعت کی شکایت دور کرنے میں مددملے گی کیونکہ حکومت کسی بھی امتیازی سلوک کے بغیرآپریشن جاری رکھنے کے لیے پر عزم ہے۔
واضح رہے کہ کراچی آپریشن کی نگرانی کے لیے پارلیمانی کمیٹی کاقیام ایم کیوایم کی ان شرائط میںسے ایک ہے جواس نے پارلیمنٹ سے استعفے واپس لینے کے لیے پیش کی ہیں۔ دریںاثنا کراچی سے عامرخان نے اپنی رپورٹ میں بتایاہے کہ کراچی آپریشن کی مانیٹرنگ کے لیے حکومت نے کمیٹی بنانے کااصولی فیصلہ کرلیا ہے جس کااعلان قانونی مشاورت مکمل ہوتے ہی کردیاجائے گا،کمیٹی میں جج صاحبان، اچھی شہرت کے رٹائرڈ پولیس افسر، میڈیا اور سول سوسائٹی کے افراد شامل ہوں گے جو کراچی آپریشن کی نگرانی کریں گے ۔ این این آئی کیمطابق حکومت اس بات پر بھی رضامند ہے کہ الطاف حسین کی براہ راست تقریر ٹیلی کاسٹ ہو سکتی ہے اگر وہ قومی اداروں پر تنقید نہ کریں،ا لطاف حسین خود بھی اس حوالے سے انٹرویوز میں محتاط ہونے کا عہد کر رہے ہیں۔
جے یوآئی(ف) کے سربراہ مولانافضل الرحمن نے متحدہ کے قائد الطاف حسین کو ٹیلی فون کیا ہے جس میں ایم کیو ایم کے قائدنے مولانا فضل الرحمن کوبطور ثالث قبول کر لیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق الطاف حسین نے مولانا فضل الرحمن کی درخواست منظور کرتے ہوئے مذاکرات کیلئے حامی بھر لی ہے۔ ذرائع کے مطابق مذاکرات کا آغاز 2روز بعد رابطہ کمیٹی سے ملاقات میں ہوگا۔ دریں اثنا مولانا فضل الرحمن نے وزیراعظم کے مشیر برائے قانونی امور اشتراوصاف سے ملاقات کی ہے، ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ نوٹیفکیشن جاری ہونے سے پہلے استعفے واپس لیے جا سکتے ہیں، ملاقات میں مولانا فضل الرحمن کی قانونی ٹیم بھی موجود تھی۔
مولانا فضل الرحمن کا موقف تھا کہ ایک بار استعفے دے دیے جائیں تو واپس نہیں لیے جا سکتے، اشتر اوصاف کاموقف تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کی روشنی میں جب تک نوٹیفکیشن جاری نہیں ہو جاتا استعفے واپس لیے جا سکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے بھی اس موقف سے اتفاق کر لیا۔ ملاقات میں یہ بھی طے پایا کہ حکومت اسپیکر کو مشورہ دے گی نہ ہی ان کے صوابدیدی اختیارات پر اثر انداز ہوگی، استعفے مسترد یا قبول کرنا اسپیکر کا کام ہے۔ وفاقی حکومت نے کراچی میں جاری آپریشن میں شفافیت یقینی بنانے کے لیے پارلیمانی مانیٹرنگ کمیٹی بنانے پراصولی رضامندی ظاہر کردی ہے۔
اس ضمن میں حتمی فیصلہ وزیراعظم نوازشریف ایک دوروز میں کریںگے۔ اس پیش رفت سے آگاہ سرکاری ذرائع نے ''ایکسپریس'' کوبتایا کہ وزیراعظم نوازشریف کواعتماد ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کی نگرانی سے شفافیت یقینی بنانے کے علاوہ بہترنتائج برآمد ہوںگے۔ پارلیمانی پارٹیوںکے رہنماؤں کی مشاورت سے بننے والی یہ کمیٹی سندھ میں اپیکس کمیٹی کی کوآرڈی نیشن سے کام کرے گی۔ ذرائع کاکہنا تھاکہ اپیکس کمیٹی کراچی میںکی جانے والی گرفتاریوں، گرفتارافراد کی کسی بھی سیاسی گروپ یاپارٹی سے ممکنہ تعلق اوروہ الزامات جن کے تحت انھیںگرفتار کیاگیا، ان کے حوالے سے مجوزہ پارلیمانی مانیٹرنگ کمیٹی کواعتماد میں لے گی۔ ذرائع کاکہنا ہے کہ اس کمیٹی کے قیام سے کسی بھی سیاسی جماعت کی شکایت دور کرنے میں مددملے گی کیونکہ حکومت کسی بھی امتیازی سلوک کے بغیرآپریشن جاری رکھنے کے لیے پر عزم ہے۔
واضح رہے کہ کراچی آپریشن کی نگرانی کے لیے پارلیمانی کمیٹی کاقیام ایم کیوایم کی ان شرائط میںسے ایک ہے جواس نے پارلیمنٹ سے استعفے واپس لینے کے لیے پیش کی ہیں۔ دریںاثنا کراچی سے عامرخان نے اپنی رپورٹ میں بتایاہے کہ کراچی آپریشن کی مانیٹرنگ کے لیے حکومت نے کمیٹی بنانے کااصولی فیصلہ کرلیا ہے جس کااعلان قانونی مشاورت مکمل ہوتے ہی کردیاجائے گا،کمیٹی میں جج صاحبان، اچھی شہرت کے رٹائرڈ پولیس افسر، میڈیا اور سول سوسائٹی کے افراد شامل ہوں گے جو کراچی آپریشن کی نگرانی کریں گے ۔ این این آئی کیمطابق حکومت اس بات پر بھی رضامند ہے کہ الطاف حسین کی براہ راست تقریر ٹیلی کاسٹ ہو سکتی ہے اگر وہ قومی اداروں پر تنقید نہ کریں،ا لطاف حسین خود بھی اس حوالے سے انٹرویوز میں محتاط ہونے کا عہد کر رہے ہیں۔