میرا سوہنا شہر قصور
بہت بڑے صوفی بزرگ شاعر حضرت بابا بلھے شاہؒ کا شہر قصور، بابا جی کے حوالے سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔
بہت بڑے صوفی بزرگ شاعر حضرت بابا بلھے شاہؒ کا شہر قصور، بابا جی کے حوالے سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ اسی شہر کی مٹی میں بابا بلھے شاہ یہ کہتے ہوئے اپنی قبر میں اترے کہ ''بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں، گور پیا کوئی ہور'' یعنی بلھے شاہ میں نے مرنا نہیں ہے، قبر میں کوئی اور پڑا ہوا ہے۔ ایک اور جگہ بابا جی فرماتے ہیں ''بلھے شاہ او سدا ای جیوندے، جینا کیتیاں نیک کمائیاں نیں'' یعنی بلھے شاہ وہ لوگ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں جنھوں نے زندگی میں نیکیاں کمائی ہوں۔
ہمارے والد محترم صوفی عنایت اللہ اپنی کتاب ''ارمغان صوفی'' میں حضرت سید بلھے شاہ قادری ستاری رحمۃ اللہ علیہ کے عنوان سے لکھتے ہیں ''آپ حضرت شاہ عنایت ولی قادری رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے۔ حضرت سید بلھے شاہؒ کو اپنے سید ہونے کا کوئی غرور نہیں تھا۔ آپ نہایت شریف النفس تھے، آپ انسانیت کے قائل تھے اور تمام مخلوق خدا کو یکساں اور برابر سمجھتے تھے۔ آپ کی تصانیف کا مجموعہ جو ''قانون عشق'' کے نام سے مشہور ہے، پنجابی زبان جس میں مٹھاس بھری ہوئی ہے، لیکن بعض جگہ سچی بات مغرور لوگوں کو کڑوی بھی لگتی ہے۔ آپ کا کلام دریائے رموز، خزینہ توحید ربانی ہے۔ آپ کا کلام عاشقوں کے دل کا سرور، عارفوں اور صوفیائے کرام کی آنکھوں کے لیے ٹھنڈک اور نور ہے۔ آپ نے اپنے کلام میں انسانی اقدار کا سبق دیا ہے۔ آپ کا نظریہ یہ تھا کہ جس کے اعمال اچھے وہی مقبول ہے۔ حضرت بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے کلام بلند مقام میں مسئلہ توحید بیان فرما کر مردہ دلوں کو زندہ کردیا ہے۔ آپ کے فیض سے پاکستان ہندوستان مالا مال ہے۔ آپ کا مزار فیض آثار قصور شہر میں ہر خاص و عام کے لیے زیارت گاہ موجود ہے۔''
آپ کو جن سے انسیت تھی، آپ جن کے مرید تھے، وہ بزرگ حضرت شاہ عنایت ولی آرائیں ذات سے تعلق رکھتے تھے۔ جب کہ حضرت بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ سید زادے تھے۔ لیکن پیری مریدی کے اس تعلق نے دنیا کو سبق دیا ہے کہ اصل حقیقت اچھے اعمال ہیں۔
حضرت بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ خود فرماتے ہیں:
نہ پچھو ذات صفات مری
اوہو آدم والی ذات مری
بابا بلھے شاہؒ کے اس کلام کا جو مفہوم میں سمجھتا ہوں وہ بیان کرتا ہوں۔ ''میری ذات صفات مت پوچھو، وہی آدم والی میری ذات ہے۔ بس میری بنیاد انسان ہے اور مجھے عشق ہولارے دے رہا ہے۔ مکے میں میری نماز کی نیت ہے، بت خانے میں میری محبت ہے، میں ہار گیا، مگر گھر گھر میری جیت ہے، جو ہارتا ہے وہی جیتتا ہے۔''
قصور شہر بابا بلھے شاہؒ کا جہاں ڈیرا ہے، صوفی کا دروازہ سب کے لیے کھلا رہتا ہے۔ یہاں دین مذہب عقیدے کی قید نہیں ہے۔ (سکھوں کے بارہ گروؤں میں بابا بلھے شاہؒ ، وارث شاہؒ، بابا فرید شکرگنج بھی شامل ہیں)۔ یہ تمام صوفی بزرگ شاعر تھے۔ ان کا کلام سکھ مذہب کی مقدس کتاب گرنتھ صاحب میں سکھوں نے شامل کیا ہے۔ یہ صوفی بزرگ شاعر معرفت الٰہی کے پرچارک تھے۔ ہمارے نبیؐ تمام عالم کے لیے رحمت ہیں، اسی طرح ان بزرگوں کا کلام تمام انسانیت کے لیے ہے۔ حضرت بابا بلھے شاہ کی مشہور کافی سے بات اور واضح ہوجائے گی۔
''کی جاناں میں کون بلہیا... کی جاناں میں کون... نہ میں مومن وچ مسیتاں... نہ میں وچ کفر دیاں ریتاں... نہ میں پاکاں وچ پلیتاں... نہ میں موسیٰ نہ فرعون... کی جاناں میں کون... نہ میں اندر بھید کتاباں... نہ وچ بھنگاں نہ شراباں... نہ وچ رنداں' مست خراباں... نہ وچ جاگن سون... کی جانا میں کون ... نہ میں بھید مذہب دا پایا... نہ میں آدم حوّا جایا... نہ میں اپنا نام دھرایا... نہ وچ بیٹھن نہ وچ بھون... کی جاناں میں کون''۔
بابا بلھے شاہؒ سب جانتے تھے کہ آگے آگے دنیا کیا کیا رنگ دکھائے گی۔ انسان کیا کیا گل کھلائے گا۔ بابا جی برسوں پہلے سب دیکھ رہے تھے اور ہم آج سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ اللہ اپنے من پسند بندوں کو مستقبل میں جھانکنے والی آنکھ عطا کردیتا ہے۔ نبی تو اب کوئی نہیں آئے گا مگر اللہ کے ولی آتے رہیں گے اور لوگوں کو حقیقت دنیا سے آگاہ کرتے رہیں گے۔ آگے لوگوں کی مرضی وہ دھیان دیتے ہیں یا نہیں۔
بابا بلھے شاہؒ مستقبل میں شاید اتنا بھیانک منظر دیکھ رہے تھے۔ انھیں اپنے اردگرد بھیڑیے، درندے نظر آرہے تھے اور وہ بول اٹھے:
چل بلہیا چل اوتھے چلیے، جتھے سارے انّے
نہ کوئی ساڈی ذات پچھانے، نہ کوئی سانوں منّے
یعنی ''چل بلہیا چل اس جگہ جہاں سب اندھے رہتے ہوں اور نہ کوئی مجھے پہچانے اور نہ کوئی مجھے مانے۔''
آج کیا ہوا، خاص بلھے شاہؒ کے شہر میں۔ انسان اس درجہ گرچکا ہے کہ اسے خدا یاد ہی نہیں۔ نہ وہ خدا سے ڈرتا ہے نہ قانون سے۔ قانون کے رکھوالے ان زمینی خداؤں کی جوتیوں کی نوک پر ہیں۔ سنا تو یہی تھا کہ لوگ چھپ کر گناہ کرتے ہیں، مگر قصور میں بچوں کے ساتھ بدفعلی کرتے ہوئے فلمیں بنائی گئیں اور پھر وہ فلمیں بازاروں میں عام فروخت کے لیے رکھ دی گئیں۔ دنیا بھر میں فلمیں بھیجی گئیں۔ انسانیت تار تار ہوئی۔ شاید یہ بھی میں کم لکھ رہا ہوں، ظلم و بربریت اس سے کہیں زیادہ ہوئی ہے۔ یہ کیا ہوا ہے؟ یہ ایک سوال ہے۔ ذرا سوال کے بارے میں سوچیے۔ یہ درندے کون ہیں۔ ان کا حدود اربع کیا ہے۔ یہ اس درجہ سفاک اور قانون شکن ہیں کہ گناہ کی باقاعدہ تشہیر بھی کرتے ہیں۔ عوام کی طرف سے پھینکا گیا جوتا آئی جی پولیس ہی نہیں حکمرانوں کے خلاف اعلان جنگ ہے۔
ان ننگ انسانیت مجرموں کے خلاف انتہائی سزا پر عمل ضروری ہے۔ گناہ گار تو شرمسار ہوتا ہے اپنے گناہ کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے، مگر یہ کیسے مکروہ لوگ ہیں جو اپنے گناہوں کو طشت ازبام بھی کر رہے ہیں۔ ان کا قلع قمع ضروری ہے۔
ابھی قصور کا معاملہ چل رہا ہے اور رحیم یارخان سے خبر آئی ہے کہ چودہ سالہ محمد اکرام کے ساتھ دو دن تک بدفعلی کی گئی، اس کے ماں باپ تھانے گئے تو پولیس نے ایف آئی آر کاٹنے کے لیے پچاس ہزار روپے مانگے۔ محمد اکرام تھانے سے نکل کر ریل کی پٹڑی پر لیٹ گیا اور مرگیا۔ اب بچے کی لاش سڑک پر رکھ کر ماں باپ، عزیز رشتے دار رو دھو رہے ہیں۔ یہ کون پولیس والے ہیں؟ جو قصور کے واقعے سے ذرہ برابر نہیں دہلے۔
اے ضرب عضب! ذرا تُو ہی ان سفاک لوگوں کے خلاف کام دکھا۔ یہ سب ہو رہا ہے ، حکمران اور ان کے بچے قانون سے بالاتر دکھائی دیتے ہیں،کون انصاف دے گا؟
ہمارے والد محترم صوفی عنایت اللہ اپنی کتاب ''ارمغان صوفی'' میں حضرت سید بلھے شاہ قادری ستاری رحمۃ اللہ علیہ کے عنوان سے لکھتے ہیں ''آپ حضرت شاہ عنایت ولی قادری رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے۔ حضرت سید بلھے شاہؒ کو اپنے سید ہونے کا کوئی غرور نہیں تھا۔ آپ نہایت شریف النفس تھے، آپ انسانیت کے قائل تھے اور تمام مخلوق خدا کو یکساں اور برابر سمجھتے تھے۔ آپ کی تصانیف کا مجموعہ جو ''قانون عشق'' کے نام سے مشہور ہے، پنجابی زبان جس میں مٹھاس بھری ہوئی ہے، لیکن بعض جگہ سچی بات مغرور لوگوں کو کڑوی بھی لگتی ہے۔ آپ کا کلام دریائے رموز، خزینہ توحید ربانی ہے۔ آپ کا کلام عاشقوں کے دل کا سرور، عارفوں اور صوفیائے کرام کی آنکھوں کے لیے ٹھنڈک اور نور ہے۔ آپ نے اپنے کلام میں انسانی اقدار کا سبق دیا ہے۔ آپ کا نظریہ یہ تھا کہ جس کے اعمال اچھے وہی مقبول ہے۔ حضرت بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے کلام بلند مقام میں مسئلہ توحید بیان فرما کر مردہ دلوں کو زندہ کردیا ہے۔ آپ کے فیض سے پاکستان ہندوستان مالا مال ہے۔ آپ کا مزار فیض آثار قصور شہر میں ہر خاص و عام کے لیے زیارت گاہ موجود ہے۔''
آپ کو جن سے انسیت تھی، آپ جن کے مرید تھے، وہ بزرگ حضرت شاہ عنایت ولی آرائیں ذات سے تعلق رکھتے تھے۔ جب کہ حضرت بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ سید زادے تھے۔ لیکن پیری مریدی کے اس تعلق نے دنیا کو سبق دیا ہے کہ اصل حقیقت اچھے اعمال ہیں۔
حضرت بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ خود فرماتے ہیں:
نہ پچھو ذات صفات مری
اوہو آدم والی ذات مری
بابا بلھے شاہؒ کے اس کلام کا جو مفہوم میں سمجھتا ہوں وہ بیان کرتا ہوں۔ ''میری ذات صفات مت پوچھو، وہی آدم والی میری ذات ہے۔ بس میری بنیاد انسان ہے اور مجھے عشق ہولارے دے رہا ہے۔ مکے میں میری نماز کی نیت ہے، بت خانے میں میری محبت ہے، میں ہار گیا، مگر گھر گھر میری جیت ہے، جو ہارتا ہے وہی جیتتا ہے۔''
قصور شہر بابا بلھے شاہؒ کا جہاں ڈیرا ہے، صوفی کا دروازہ سب کے لیے کھلا رہتا ہے۔ یہاں دین مذہب عقیدے کی قید نہیں ہے۔ (سکھوں کے بارہ گروؤں میں بابا بلھے شاہؒ ، وارث شاہؒ، بابا فرید شکرگنج بھی شامل ہیں)۔ یہ تمام صوفی بزرگ شاعر تھے۔ ان کا کلام سکھ مذہب کی مقدس کتاب گرنتھ صاحب میں سکھوں نے شامل کیا ہے۔ یہ صوفی بزرگ شاعر معرفت الٰہی کے پرچارک تھے۔ ہمارے نبیؐ تمام عالم کے لیے رحمت ہیں، اسی طرح ان بزرگوں کا کلام تمام انسانیت کے لیے ہے۔ حضرت بابا بلھے شاہ کی مشہور کافی سے بات اور واضح ہوجائے گی۔
''کی جاناں میں کون بلہیا... کی جاناں میں کون... نہ میں مومن وچ مسیتاں... نہ میں وچ کفر دیاں ریتاں... نہ میں پاکاں وچ پلیتاں... نہ میں موسیٰ نہ فرعون... کی جاناں میں کون... نہ میں اندر بھید کتاباں... نہ وچ بھنگاں نہ شراباں... نہ وچ رنداں' مست خراباں... نہ وچ جاگن سون... کی جانا میں کون ... نہ میں بھید مذہب دا پایا... نہ میں آدم حوّا جایا... نہ میں اپنا نام دھرایا... نہ وچ بیٹھن نہ وچ بھون... کی جاناں میں کون''۔
بابا بلھے شاہؒ سب جانتے تھے کہ آگے آگے دنیا کیا کیا رنگ دکھائے گی۔ انسان کیا کیا گل کھلائے گا۔ بابا جی برسوں پہلے سب دیکھ رہے تھے اور ہم آج سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ اللہ اپنے من پسند بندوں کو مستقبل میں جھانکنے والی آنکھ عطا کردیتا ہے۔ نبی تو اب کوئی نہیں آئے گا مگر اللہ کے ولی آتے رہیں گے اور لوگوں کو حقیقت دنیا سے آگاہ کرتے رہیں گے۔ آگے لوگوں کی مرضی وہ دھیان دیتے ہیں یا نہیں۔
بابا بلھے شاہؒ مستقبل میں شاید اتنا بھیانک منظر دیکھ رہے تھے۔ انھیں اپنے اردگرد بھیڑیے، درندے نظر آرہے تھے اور وہ بول اٹھے:
چل بلہیا چل اوتھے چلیے، جتھے سارے انّے
نہ کوئی ساڈی ذات پچھانے، نہ کوئی سانوں منّے
یعنی ''چل بلہیا چل اس جگہ جہاں سب اندھے رہتے ہوں اور نہ کوئی مجھے پہچانے اور نہ کوئی مجھے مانے۔''
آج کیا ہوا، خاص بلھے شاہؒ کے شہر میں۔ انسان اس درجہ گرچکا ہے کہ اسے خدا یاد ہی نہیں۔ نہ وہ خدا سے ڈرتا ہے نہ قانون سے۔ قانون کے رکھوالے ان زمینی خداؤں کی جوتیوں کی نوک پر ہیں۔ سنا تو یہی تھا کہ لوگ چھپ کر گناہ کرتے ہیں، مگر قصور میں بچوں کے ساتھ بدفعلی کرتے ہوئے فلمیں بنائی گئیں اور پھر وہ فلمیں بازاروں میں عام فروخت کے لیے رکھ دی گئیں۔ دنیا بھر میں فلمیں بھیجی گئیں۔ انسانیت تار تار ہوئی۔ شاید یہ بھی میں کم لکھ رہا ہوں، ظلم و بربریت اس سے کہیں زیادہ ہوئی ہے۔ یہ کیا ہوا ہے؟ یہ ایک سوال ہے۔ ذرا سوال کے بارے میں سوچیے۔ یہ درندے کون ہیں۔ ان کا حدود اربع کیا ہے۔ یہ اس درجہ سفاک اور قانون شکن ہیں کہ گناہ کی باقاعدہ تشہیر بھی کرتے ہیں۔ عوام کی طرف سے پھینکا گیا جوتا آئی جی پولیس ہی نہیں حکمرانوں کے خلاف اعلان جنگ ہے۔
ان ننگ انسانیت مجرموں کے خلاف انتہائی سزا پر عمل ضروری ہے۔ گناہ گار تو شرمسار ہوتا ہے اپنے گناہ کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے، مگر یہ کیسے مکروہ لوگ ہیں جو اپنے گناہوں کو طشت ازبام بھی کر رہے ہیں۔ ان کا قلع قمع ضروری ہے۔
ابھی قصور کا معاملہ چل رہا ہے اور رحیم یارخان سے خبر آئی ہے کہ چودہ سالہ محمد اکرام کے ساتھ دو دن تک بدفعلی کی گئی، اس کے ماں باپ تھانے گئے تو پولیس نے ایف آئی آر کاٹنے کے لیے پچاس ہزار روپے مانگے۔ محمد اکرام تھانے سے نکل کر ریل کی پٹڑی پر لیٹ گیا اور مرگیا۔ اب بچے کی لاش سڑک پر رکھ کر ماں باپ، عزیز رشتے دار رو دھو رہے ہیں۔ یہ کون پولیس والے ہیں؟ جو قصور کے واقعے سے ذرہ برابر نہیں دہلے۔
اے ضرب عضب! ذرا تُو ہی ان سفاک لوگوں کے خلاف کام دکھا۔ یہ سب ہو رہا ہے ، حکمران اور ان کے بچے قانون سے بالاتر دکھائی دیتے ہیں،کون انصاف دے گا؟