’’قصوریوں‘‘ کے چار قصور
قصور میں ایک نہیں چار جرائم کیے گئے، لڑکوں کے ساتھ زیادتی پہلا جرم تھا۔
LOS ANGELES:
قصور میں ایک نہیں چار جرائم کیے گئے، لڑکوں کے ساتھ زیادتی پہلا جرم تھا۔ اس کے بعد تین غلط کام اور کیے گئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی کوئی سمت متعین نہیں، ایک طرف مہنگائی ہے تو دوسری طرف شادی کرنے کے لیے اچھے خاصے اخراجات، رسوم و رواج نے غریب سے غریب آدمی کو نکاح کے لیے لاکھوں روپوں کا انتظام کرنے کا پابند کردیا ہے، ایک بڑا مسئلہ نوجوانوں میں جنسی ہیجان پیدا کرنے والے ذرایع ہیں۔ پہلے ناول اور افسانے تھے جو یہ کام کیا کرتے تھے۔ یہ انگریزوں کا دور تھا جب ریڈیو اور اخبارات ابلاغ کا ذریعہ تھے، پھر یہ کام فلم اور ٹی وی نے سرانجام دیا۔ یہ پاکستان کے ابتدائی دو تین عشروں کی بات تھی، پھر وی سی آر آگیا، جس نے عریانی و فحاشی کا پہلا ذریعہ بھارتی فلموں کو بنایا۔ نئی صدی شروع ہوئی تو موبائل فون، فیس بک، کمپیوٹر، ٹوئٹر اور ڈی وی ڈی نے اس کام میں مزید تیزی پیدا کردی۔ تیل پر آگ چھڑک دی یا یوں سمجھیں کہ کنوارے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں ہیجان انگیزی پیدا کردی۔
چار قصور کون سے تھے جو ''قصوریوں'' نے کیے؟ اس بات سے قبل ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری سمت چار مختلف مراکز پر ہے نہ ہم مکمل طور پر اسلامی معاشرہ ہیں اور نہ یورپی سوسائٹی۔ ہم نہ مغلوں کے زمانے میں رہ رہے ہیں جب نہ ریڈیو تھا اور نہ کمپیوٹر، نہ بجلی نہ ٹی وی نہ ڈرامے عریاں تھے اور نہ افسانے فحش۔ آج کل ہم اس جاگیردارانہ معاشرے میں بھی نہیں رہ رہے کہ جہاں پر عورتوں کے گرد آسمان تک دیوار کھینچ دی جاتی تھی، یوں یہ ہماری پہلی خامی ہے کہ ہم مکمل طور پر مذہب کی روشنی میں نہیں جی رہے ہیں، دوسرے الفاظ میں یہ کہیے کہ ہم مکمل طور پر مغربی ثقافت کو اپنانے سے انکاری ہیں۔ یہ ہماری دو ابتدائی خامیاں ہیں۔
جلد شادی اور پردے کے احکامات پر عمل بڑی حد تک جنسی آوارگی کو روکتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی کوئی اپنی مردانگی دکھاوے تو اسے جلد از جلد ٹنگا کر اس کی کھال ادھیڑ دی جائے، ہمیں یہ احکامات سخت لگتے ہیں تو ہم انھیں اپناتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔ یورپی ایجادات اور امریکی ٹیکنالوجی ہمیں بہت بھاتی ہیں۔ ہم مغربی لباس پہننے اور انگریزی بولنے کو فخر سمجھتے ہیں، ان تمام چیزوں کے باوجود بھی ایڈوانس سے ایڈوانس خاندان بھی مکمل مغربی معاشرہ اپنے اندر نہیں سمو سکتا، آج کوئی شخص کتنا ہی سیکولر اور لبرل کیوں نہ ہو وہ یہ گوارا نہیں کرے گا کہ اس کی جوان بیٹی رات دو بجے گھر آئے۔ کسی امریکی کو نصف شب بیٹی کے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ آنے پر بھی اعتراض نہ ہوگا۔ یوں ہم کچھ اسلامی احکامات اپنائے ہوئے ہیں اور کچھ مانگی تانگی رسوم و رواج، ہم نے انگریزوں سے لی ہوئی ہیں، وضع میں نصاریٰ اور تمدن میں ہنود۔ علامہ نے مرض کی نشاندہی کردی تھی چار کے بجائے ایک سمت میں چلنا علاج ہے، انڈین فلموں نے ان کے معاشرے میں جوان لڑکیوں کو غیر محفوظ کردیا ہے، ہم بلا سوچے سمجھے اسی سمت بڑھ رہے ہیں۔
بے راہ روی کا تیسرا سبب یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ کچھ حد تک جاگیردارانہ ہے، جب انگریزوں کا دور دورہ تھا تو یہ اپنے عروج پر تھا۔ سندھی، بلوچ، پنجابی اور پختون زیادہ تر دیہاتوں میں بستے تھے۔ کچھ پردے کا رواج اور کچھ قبائلی رسومات، اس مکسچر نے ایک ایسا معاشرہ جنم دیا جس میں عورت کو جانور سے بدتر سمجھا جاتا تھا، جائیداد کو خاندان میں رکھنے کے لیے کبھی اس کی شادی کسی بوڑھے سے تو کبھی کسی بچے سے کردی جاتی۔ آہستہ آہستہ جاگیرداروں نے اپنے بیٹوں کے بعد بیٹیوں کو تعلیم دلانی شروع کردی۔ ایک طرف چھوٹے لڑکے اور لڑکیوں کا باہر نکل کر اسکول کی طرف جانا تو دوسری طرف آوارہ گرد مردوں کا آسانی سے ان تک پہنچ جانا، یوں یہ تیسری خامی ہمارے معاشرے کے اندر پیدا ہوگئی، نہ ہم مکمل اسلامی معاشرے میں اور نہ مغربی اور نہ جاگیردارانہ۔
مغلیہ دور کی مثال کو ان کی اچھائی یا برائی کے حوالے سے پیش نہیں کیا جارہا۔ اس زمانے کو بغیر بجلی و ریلوے یا ڈاک و تار، ریڈیو و ٹی وی، وی سی آر و کمپیوٹر، سی ڈی و ڈی وی ڈی اور فیس بک و ٹوئٹر کے زمانے کو یاد رکھا جا رہا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نہ معاشی انقلاب نے دستک دی تھی اور نہ برصغیر میں سرمایہ دارانہ نظام نے اپنے خونخوار پنجے باہر نکالے تھے، یہ وہ دور تھا جب کوئی چیز بیچنے کے لیے عورت کا سہارا نہیں لیا جاتا تھا۔ جذباتی بلیک میلنگ کرکے یا جنسی شہوت دلاکر اشیا فروخت نہیں کی جاتی تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برائی کو فروغ دینے کے ذرایع کم تھے، یوں چھوٹے بچے اور بچیاں بڑی حد تک بزرگوں کے سامنے اور اہل محلہ کی نظروں میں ہوتے تھے۔ معاشرے کی بد فطرت اور بد نظروں سے محفوظ رہتے تھے۔
ان بدبختوں کی گندی فطرت کو اشتعال دلانے والے ذرایع محدود تھے۔ چیزوں کی بڑے پیمانے پر تیاری اور فروخت نے گندی فلموں اور مقابلہ حسن کو پروان چڑھایا۔ اصل اور اہم شخصیت گاہک کی ہوگئی کہ چیز تو اسے ہی فروخت کرنی ہے۔ وہ پسند کرلے تو کامیابی ہے اور وہ مسترد کردے تو ناکامی۔ یہ ہیں چار خامیاں کہ ہم نہ مکمل طور پر اسلامی معاشرہ تشکیل دے سکے اور نہ مکمل مغربی سوسائٹی اور نہ بھرپور جاگیردارانہ روایات اور نہ قبل از معاشی انقلاب والا سیدھا سادا سماج اب ہے۔ یوں چار مختلف سمتوں میں ہماری روانگی نے قصور جیسے واقعات کو جنم دیا ہے جس میں کم عمر لڑکوں کے ساتھ قوم لوط کے عمل کی تاریخ دہرائی گئی ہے۔
قصور کے ملزموں کے چار قصور یہ ہیں کہ انھوں نے کم عمر لڑکوں کے ساتھ زیادتی کی۔ یہ پہلا قصور ہے، دوسرا قصور یہ کہ انھوں نے اس شرمناک کام کی فلم بنائی، تیسرا قصور یہ کہ انھوں نے اس ویڈیو کو بین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت کیا۔ چوتھا قصور یہ کہ انھوں نے یہ فلم ان لڑکوں کے والدین کو دکھاکر ان سے رقم وصول کی۔ پے درپے جرائم نے درندگی کو چار گنا کردیا ہے۔ پوچھا جائے کہ قصور کے تمام رہنے والے ایسے ہیں تو ہمارا جواب ہوگا کہ نہیں، اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں۔ اگر پوچھا جائے کہ اہل قصور کے کم ظرف لوگوں نے چار قصور کیے تو ہمارا جواب ہاں میں ہوگا۔ ہمیں مرض کی وجہ کے ساتھ ساتھ علاج کے لیے دوا بھی تجویز کرنا ہوگی۔ یہ تحریر دوبارہ پڑھ کر مرض و علاج والی سطور کو انڈر لائن کردیں۔
محسوس ہوگا کہ کالم نے بیان کردیا، معاشرے کی چار سمتوں میں روانگی کے ساتھ ''قصوریوں'' کے چار قصور۔
قصور میں ایک نہیں چار جرائم کیے گئے، لڑکوں کے ساتھ زیادتی پہلا جرم تھا۔ اس کے بعد تین غلط کام اور کیے گئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی کوئی سمت متعین نہیں، ایک طرف مہنگائی ہے تو دوسری طرف شادی کرنے کے لیے اچھے خاصے اخراجات، رسوم و رواج نے غریب سے غریب آدمی کو نکاح کے لیے لاکھوں روپوں کا انتظام کرنے کا پابند کردیا ہے، ایک بڑا مسئلہ نوجوانوں میں جنسی ہیجان پیدا کرنے والے ذرایع ہیں۔ پہلے ناول اور افسانے تھے جو یہ کام کیا کرتے تھے۔ یہ انگریزوں کا دور تھا جب ریڈیو اور اخبارات ابلاغ کا ذریعہ تھے، پھر یہ کام فلم اور ٹی وی نے سرانجام دیا۔ یہ پاکستان کے ابتدائی دو تین عشروں کی بات تھی، پھر وی سی آر آگیا، جس نے عریانی و فحاشی کا پہلا ذریعہ بھارتی فلموں کو بنایا۔ نئی صدی شروع ہوئی تو موبائل فون، فیس بک، کمپیوٹر، ٹوئٹر اور ڈی وی ڈی نے اس کام میں مزید تیزی پیدا کردی۔ تیل پر آگ چھڑک دی یا یوں سمجھیں کہ کنوارے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں ہیجان انگیزی پیدا کردی۔
چار قصور کون سے تھے جو ''قصوریوں'' نے کیے؟ اس بات سے قبل ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری سمت چار مختلف مراکز پر ہے نہ ہم مکمل طور پر اسلامی معاشرہ ہیں اور نہ یورپی سوسائٹی۔ ہم نہ مغلوں کے زمانے میں رہ رہے ہیں جب نہ ریڈیو تھا اور نہ کمپیوٹر، نہ بجلی نہ ٹی وی نہ ڈرامے عریاں تھے اور نہ افسانے فحش۔ آج کل ہم اس جاگیردارانہ معاشرے میں بھی نہیں رہ رہے کہ جہاں پر عورتوں کے گرد آسمان تک دیوار کھینچ دی جاتی تھی، یوں یہ ہماری پہلی خامی ہے کہ ہم مکمل طور پر مذہب کی روشنی میں نہیں جی رہے ہیں، دوسرے الفاظ میں یہ کہیے کہ ہم مکمل طور پر مغربی ثقافت کو اپنانے سے انکاری ہیں۔ یہ ہماری دو ابتدائی خامیاں ہیں۔
جلد شادی اور پردے کے احکامات پر عمل بڑی حد تک جنسی آوارگی کو روکتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی کوئی اپنی مردانگی دکھاوے تو اسے جلد از جلد ٹنگا کر اس کی کھال ادھیڑ دی جائے، ہمیں یہ احکامات سخت لگتے ہیں تو ہم انھیں اپناتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔ یورپی ایجادات اور امریکی ٹیکنالوجی ہمیں بہت بھاتی ہیں۔ ہم مغربی لباس پہننے اور انگریزی بولنے کو فخر سمجھتے ہیں، ان تمام چیزوں کے باوجود بھی ایڈوانس سے ایڈوانس خاندان بھی مکمل مغربی معاشرہ اپنے اندر نہیں سمو سکتا، آج کوئی شخص کتنا ہی سیکولر اور لبرل کیوں نہ ہو وہ یہ گوارا نہیں کرے گا کہ اس کی جوان بیٹی رات دو بجے گھر آئے۔ کسی امریکی کو نصف شب بیٹی کے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ آنے پر بھی اعتراض نہ ہوگا۔ یوں ہم کچھ اسلامی احکامات اپنائے ہوئے ہیں اور کچھ مانگی تانگی رسوم و رواج، ہم نے انگریزوں سے لی ہوئی ہیں، وضع میں نصاریٰ اور تمدن میں ہنود۔ علامہ نے مرض کی نشاندہی کردی تھی چار کے بجائے ایک سمت میں چلنا علاج ہے، انڈین فلموں نے ان کے معاشرے میں جوان لڑکیوں کو غیر محفوظ کردیا ہے، ہم بلا سوچے سمجھے اسی سمت بڑھ رہے ہیں۔
بے راہ روی کا تیسرا سبب یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ کچھ حد تک جاگیردارانہ ہے، جب انگریزوں کا دور دورہ تھا تو یہ اپنے عروج پر تھا۔ سندھی، بلوچ، پنجابی اور پختون زیادہ تر دیہاتوں میں بستے تھے۔ کچھ پردے کا رواج اور کچھ قبائلی رسومات، اس مکسچر نے ایک ایسا معاشرہ جنم دیا جس میں عورت کو جانور سے بدتر سمجھا جاتا تھا، جائیداد کو خاندان میں رکھنے کے لیے کبھی اس کی شادی کسی بوڑھے سے تو کبھی کسی بچے سے کردی جاتی۔ آہستہ آہستہ جاگیرداروں نے اپنے بیٹوں کے بعد بیٹیوں کو تعلیم دلانی شروع کردی۔ ایک طرف چھوٹے لڑکے اور لڑکیوں کا باہر نکل کر اسکول کی طرف جانا تو دوسری طرف آوارہ گرد مردوں کا آسانی سے ان تک پہنچ جانا، یوں یہ تیسری خامی ہمارے معاشرے کے اندر پیدا ہوگئی، نہ ہم مکمل اسلامی معاشرے میں اور نہ مغربی اور نہ جاگیردارانہ۔
مغلیہ دور کی مثال کو ان کی اچھائی یا برائی کے حوالے سے پیش نہیں کیا جارہا۔ اس زمانے کو بغیر بجلی و ریلوے یا ڈاک و تار، ریڈیو و ٹی وی، وی سی آر و کمپیوٹر، سی ڈی و ڈی وی ڈی اور فیس بک و ٹوئٹر کے زمانے کو یاد رکھا جا رہا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نہ معاشی انقلاب نے دستک دی تھی اور نہ برصغیر میں سرمایہ دارانہ نظام نے اپنے خونخوار پنجے باہر نکالے تھے، یہ وہ دور تھا جب کوئی چیز بیچنے کے لیے عورت کا سہارا نہیں لیا جاتا تھا۔ جذباتی بلیک میلنگ کرکے یا جنسی شہوت دلاکر اشیا فروخت نہیں کی جاتی تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برائی کو فروغ دینے کے ذرایع کم تھے، یوں چھوٹے بچے اور بچیاں بڑی حد تک بزرگوں کے سامنے اور اہل محلہ کی نظروں میں ہوتے تھے۔ معاشرے کی بد فطرت اور بد نظروں سے محفوظ رہتے تھے۔
ان بدبختوں کی گندی فطرت کو اشتعال دلانے والے ذرایع محدود تھے۔ چیزوں کی بڑے پیمانے پر تیاری اور فروخت نے گندی فلموں اور مقابلہ حسن کو پروان چڑھایا۔ اصل اور اہم شخصیت گاہک کی ہوگئی کہ چیز تو اسے ہی فروخت کرنی ہے۔ وہ پسند کرلے تو کامیابی ہے اور وہ مسترد کردے تو ناکامی۔ یہ ہیں چار خامیاں کہ ہم نہ مکمل طور پر اسلامی معاشرہ تشکیل دے سکے اور نہ مکمل مغربی سوسائٹی اور نہ بھرپور جاگیردارانہ روایات اور نہ قبل از معاشی انقلاب والا سیدھا سادا سماج اب ہے۔ یوں چار مختلف سمتوں میں ہماری روانگی نے قصور جیسے واقعات کو جنم دیا ہے جس میں کم عمر لڑکوں کے ساتھ قوم لوط کے عمل کی تاریخ دہرائی گئی ہے۔
قصور کے ملزموں کے چار قصور یہ ہیں کہ انھوں نے کم عمر لڑکوں کے ساتھ زیادتی کی۔ یہ پہلا قصور ہے، دوسرا قصور یہ کہ انھوں نے اس شرمناک کام کی فلم بنائی، تیسرا قصور یہ کہ انھوں نے اس ویڈیو کو بین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت کیا۔ چوتھا قصور یہ کہ انھوں نے یہ فلم ان لڑکوں کے والدین کو دکھاکر ان سے رقم وصول کی۔ پے درپے جرائم نے درندگی کو چار گنا کردیا ہے۔ پوچھا جائے کہ قصور کے تمام رہنے والے ایسے ہیں تو ہمارا جواب ہوگا کہ نہیں، اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں۔ اگر پوچھا جائے کہ اہل قصور کے کم ظرف لوگوں نے چار قصور کیے تو ہمارا جواب ہاں میں ہوگا۔ ہمیں مرض کی وجہ کے ساتھ ساتھ علاج کے لیے دوا بھی تجویز کرنا ہوگی۔ یہ تحریر دوبارہ پڑھ کر مرض و علاج والی سطور کو انڈر لائن کردیں۔
محسوس ہوگا کہ کالم نے بیان کردیا، معاشرے کی چار سمتوں میں روانگی کے ساتھ ''قصوریوں'' کے چار قصور۔