برصغیر پر ایٹمی جنگ کا منڈلاتا خطرہ

پاکستان کی طرف سے دراندازی ختم ہوچکی ہے مگر دوسری طرف بھارتی رہنما ابھی بھی دراندازی کا رونا رو رہے ہیں۔

usmandamohi@yahoo.com

مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کی 15 ویں کور کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل سبھراتا سنہا نے بھارتی میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ ایل او سی سے در اندازی صفر ہوگئی ہے، ان کے مطابق جنوری سے جولائی تک در اندازی کی آٹھ کوششیں ضرور کی گئیں، مگر انھیں مکمل طور پر ناکام بنادیا گیا، چند دن قبل بھارتی آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ سہاگ پاکستانی فوج کو چیلنج کرچکے ہیں کہ اب وہ کار گل میں داخل ہوکر دکھائے، یعنی کہ اب لائن آف کنٹرول کو ناقابل عبور بنادیا گیا ہے۔ ایک طرف بھارتی فوج کے چوٹی کے افسران مقبوضہ کشمیر میں دراندازی پر مکمل کنٹرول کا دعویٰ کررہے ہیں مگر دوسری جانب بھارتی حکومت مسلسل مقبوضہ کشمیر میں پاکستانیوں کی در اندازی کا واویلا مچارہی ہے۔

ابھی ایک ہفتہ قبل ہی گرداسپور میں بھی پاکستانی گھس بیٹھیوں کے ایک تھانے پر حملہ کرنے کا الزام پاکستان پر لگایا گیا تھا اور اب اودھم پور میں بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس کے ایک گشتی دستے پر دو پاکستانی نوجوانوں کے حملے کا تازہ الزام پاکستان پر داغا گیا ہے، لیکن ثابت ہوچکا ہے کہ گرداسپور حملے میں سکھ ملی ٹینٹس ملوث تھے اور اب اودھم پور کے حملے میں مقبوضہ کشمیر کے شہری ملوث ہیں، دونوں حملوں کی اصل صورت حال سامنے آنے کے باوجود بھارتی وفاقی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے گرداسپور واقعے کی طرح لوک سبھا میں پھر جھوٹا بیان دیا ہے کہ اودھم پور میں مارا گیا اور گرفتار نوجوان دونوں پاکستانی ہیں۔ بھارتی نیتاؤں کی یہ دروغ گوئی ان کے لیے مزید پریشانیاں بڑھا رہی ہے اور کشمیر پر ان کی گرفت روز بروز مزید کمزور ہوتی جارہی ہے۔

ایک طرف فوج کی طرف سے واضح بیان آرہا ہے کہ پاکستان کی طرف سے دراندازی ختم ہوچکی ہے مگر دوسری طرف بھارتی رہنما ابھی بھی دراندازی کا رونا رو رہے ہیں۔ معاملہ دراصل کچھ اور ہے۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی پھر پورے عروج پر پہنچ چکی ہے اور بھارتی حکومت اس تحریک سے عالمی توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان کے خلاف دراندازی کے ڈرامے رچارہی ہے۔ سری نگر اور کئی شہروں میں روز آزادی کے حق میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ پوری وادی میں سبز ہلالی پرچموں کی بہار آئی ہوئی ہے۔ کہاں نریندر مودی مقبوضہ کشمیر میں ایک بھی پاکستانی پرچم دیکھنا نہیں چاہتے تھے اور اب وہاں سیکڑوں پاکستانی پرچم لہرائے جارہے ہیں۔ نریندر مودی اپنے جھوٹے وعدوں کی وجہ سے بھارت میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں، وہ اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی فرصت میں مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا ایک صوبہ بنانا چاہتے تھے مگر انھیں اس میں بھی منہ کی کھانا پڑی۔ کہاں وہ بھارتی آئین کی شق 370 کو ختم کرنے کی جانب تیزی سے پیش قدمی کررہے تھے اور اب کہاں مکمل خاموشی طاری ہے۔

مشہور بھارتی صحافی کلدیپ نیئر نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ بھارتی آئین کی دفعہ 370 کو ختم کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے اگر یہ شق ختم کردی گئی تو کشمیر کا بھارت سے تعلق ہی ختم ہوجائے گا پھر اس کی حیثیت وہی ہوگی جو راجہ ہری سنگھ کے زمانے میں تھی۔ یہ بات دیگر بھارتی بزرگ سیاست دانوں اور قانون دانوں نے بھی جن میں رام جیٹھ ملانی اور من موہن سنگھ بھی شامل ہیں مودی کے گوش گزار کردی تھی، اس کے بعد سے مودی بغلیں جھانک رہے ہیں کہ اب کیا کریں؟ اب دراصل جو کچھ کرنا ہے وہ کشمیری حریت پسندوں کو ہی کرنا ہے اور کشمیری نہ صرف بھارتی بلکہ پوری دنیا کو اچھی طرح باور کراچکے ہیں کہ وہ کسی بھی قیمت پر بھارت کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ جب سے تحریک آزادی میں پھر سے نیا نکھار آیا ہے، مقبوضہ کشمیر کی حالت ہی تبدیل ہوچکی ہے، کشمیری رہنماؤں نے بھارتی حکومت اور اس کے رہنماؤں کے بارے میں اپنا رویہ ہی تبدیل کرلیا ہے۔ کلدیپ نیئر جیسے کٹر بھارتی مفادات کے لیے لکھنے والے بزرگ صحافی مقبوضہ کشمیر کی موجودہ تبدیل شدہ حالت کو بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دے رہے ہیں۔


کشمیریوں کی 1989 میں شروع ہونے والی تحریک اس قدر موثر ثابت ہوئی تھی کہ اس کے آگے بھارتی حکومت بے بس اور مجبور ہوگئی تھی۔ مگر کچھ مکار بھارتی مصالحت کاروں کے بیچ میں پڑنے کی وجہ سے اس تحریک کا سوائے جانوں کے ضیاع کے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا تھا۔ بھارتی کشمیر کمیٹی کے ممبران جن میں رام جیٹھ ملانی اور ایم جے اکبر قابل ذکر تھے، نے کشمیری رہنماؤں کو امید دلائی تھی کہ اگر مجاہدین ہتھیار پھینک دیں تو بھارتی حکومت ان کے آزادی کے مطالبے پر سنجیدگی سے غور کرسکتی ہے۔ کشمیری رہنماؤں نے ان پر اندھا اعتماد کرلیا تھا، کشمیری رہنماؤں کی اپیل پر مجاہدین نے مذاکرات کے لیے ہتھیاروں سے پاک پرامن ماحول مہیا کردیا تھا مگر افسوس کہ یہ بھارتی حکومت کی کشمیریوں کی تحریک کو سبوتاژ کرنے کی ایک چال تھی۔ بھارتی مصالحت کار جو خود کو غیر جانبدار اور کشمیریوں کو ظاہر کررہے تھے، دراصل بھارت سرکار کے لیے کام کررہے تھے، بعد میں انھوں نے بڑی بے شرمی سے کشمیریوں کو یہ پیغام دیا تھا کہ کشمیر کی آزادی کیسی کشمیر تو بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، چنانچہ اب تمام کشمیری رہنما ان گندم نما جو فروش بھارتیوں سے ہوشیار ہیں اور ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر اپنی تحریک کو سبوتاژ کرنے کا کوئی موقع نہیں دینا چاہتے۔

کلدیپ نیئر اپنے ایک مضمون میں مودی کے ہندوتوا کے پرچار پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''اس وقت بھارت میں سیکولرازم دم توڑچکا ہے، ہر طرف ہندوتوا کا پرچار ہے۔ آزاد خیالی کے بجائے مذہب اور ذات پات کے زہریلے اثرات پھیل رہے ہیں، اس وقت گاندھی کے قاتل نتھورام گوڈسے کے حق میں آوازیں بلند ہورہی ہیں، اگر یہی حالت رہی تو پھر مسلمانوں کی اکثریت والی ریاست کشمیر غیر محفوظ ہوجائے گی۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارت کشمیریوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے ہر طرح کے جتن کررہا ہے، اپنے خزانے کو بھی پانی کی طرح بہارہا ہے، وہ پاکستان میں صرف اس لیے دہشت گردی کرارہا ہے تاکہ پاکستان اس سے سبق لے کر کشمیر کا نام لینا چھوڑ دے۔ اس سلسلے میں وہ پاکستان پر ماضی میں تین بڑی جنگیں بھی تھوپ چکا ہے۔ پاکستان کو عالمی سطح پر بے آبرو کرنے کے لیے ہر طرح کا بھونڈا حربہ استعمال کررہا ہے مگر اس تمام کچھ کے باوجود نہ تو پاکستان کشمیریوں کی حمایت سے باز آیا اور نہ ہی کشمیریوں نے جو اب تک ایک لاکھ جانیں قربان کرچکے ہیں پاکستان کا ساتھ چھوڑا ہے۔

غور سے دیکھا جائے تو کشمیر بھارت کے لیے ایک دائمی مصیبت بن گیا ہے جس کے ہوتے ہوئے وہ نہ تو بھرپور ترقی کرسکتا ہے، اپنے لیے خوشحالی کے خواب کو حقیقت بناسکتا ہے اور نہ ہی عالمی قیادت کا حق دار بن سکتا ہے۔ وہ لاکھ کوشش کے باوجود بھی محض کشمیر کی وجہ سے سلامتی کونسل کا مستقل رکن نہیں بن سکا کیوں کہ وہ کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کی قراردادوں کا منحرف ہے اور سلامتی کونسل کا مجرم ہوتے ہوئے وہ اس اہم ادارے کا مستقل رکن بننے کے لیے کیوں کر عالمی برادری کا اعتماد حاصل کرسکتا ہے، وہ اپنی سلامتی کو محفوظ بنانے اور اپنے پڑوسیوں کو ڈرانے کے لیے جو جدید اسلحے کے ڈھیر لگارہا ہے، اب موجودہ حالات میں اس کا یہ نظریہ بھی عبث ثابت ہوگیا ہے کیوں کہ کشمیر کی وجہ سے اس نے پاکستان کو اپنا دشمن نمبر ایک بنالیا ہے اور پاکستانی رہنما واضح کرچکے ہیں کہ پاکستان بھارت کے جدید اور قسم قسم کے روایتی ہتھیاروں کی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا، چنانچہ وقت آنے پر وہ اپنے جوہری ہتھیار پر ہی انحصار کرے گا، چنانچہ پاکستانی رہنماؤں کے ان واضح بیانات نے بھارتی عوام کی ہی نہیں بلکہ دانشوروں اور سیاست دانوں تک کی راتوں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔

کاش کہ بھارتی حکمران ہیروشیما اور ناگاساکی کی ایٹم بم سے ہولناک تباہی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مذموم عزائم میں لچک پیدا کرلیتے تو آج بھارتی عوام ایٹمی جنگ کے خوف میں مبتلا نہ ہوتے۔ کلدیپ نیئر نے برملا اعتراف کیا ہے کہ ''بھارتی عوام ان دنوں پاک بھارت ایٹمی جنگ کے خطرے کے پیش نظر انتہائی خوف و ہراس کے عالم میں زندگی بسر کررہے ہیں'' اب ایسے حالات میں بھارت کب تک کشمیریوں کو اپنا غلام بناکر رکھ سکتا ہے، شاید اب جلد یا بدیر کشمیریوں کے لیے خوشخبری کا نقارہ بجنے والا ہے۔
Load Next Story