ہیپاٹائٹس کا تیزی سے بڑھتا سیلاب
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ ہماری پاکستانی قوم گزشتہ 68 برسوں سے مسیحا کی تلاش میں سرگرداں ہے
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ ہماری پاکستانی قوم گزشتہ 68 برسوں سے مسیحا کی تلاش میں سرگرداں ہے جو ملک کو درپیش سنگین بحران و مسائل سے نجات دلادے۔ دراصل کسی مسیحا کی پیدائش کے لیے درست وقت اور صحیح انسان کا امتزاج ضروری ہے جب کہ پاکستان کے کرپٹ نظام اور لولی لنگڑی طرز جمہوریت میں مسیحا کی پیدائش ممکن نہیں۔
شیخ سعدی کا کہنا ہے کہ اگر کوئی مسافر صحیح راستے سے بھٹکنے کے باعث غلط راستے پر چلتا ہے تو وقت گزرنے کے ساتھ وہ اپنی راہ سے اتنا دور ہوتا جائے گا کہ جس کے بعد وہ صحیح راستے پر واپس بھی آنا چاہے تو نہیں آسکتا۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے آکسیجن ٹینٹ میں سسک سسک کر جی رہے ہیں، ایسے میں آج اگر کوئی مسیحا اتفاقاً آکر ملک کے حالات سدھارنے کی کوشش بھی کرے تو اس کے مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے کئی عشرے درکار ہوں گے۔ ہمارے حکمران اور دیگر سرکاری اہلکار بلٹ پروف گاڑیوں یا فول پروف سیکیورٹی کے حصار میں روپوش رہتے ہیں جب کہ کروڑوں عوام دہشت گردوں، تخریب کاروں، بھتہ خوروں، ٹارگٹ کلر اور منشیات فروشوں کے رحم و کرم پر پڑے ہوئے ہیں۔
حال ہی میں دنیا بھر میں عالمی ادارہ صحت کے زیراہتمام ''ورلڈ ہیپاٹائٹس ڈے'' منایا گیا۔ جس کے ذریعے بڑے سنسنی خیز اعداد و شمار اس مرض کے حوالے سے سامنے آئے ہیں جس نے ہر ذی ہوش کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔ ''عالمی ادارہ صحت'' کے مطابق آج پوری دنیا میں 50 کروڑ سے زائد افراد ہیپاٹائٹس کا شکار ہیں اور سالانہ اس مرض سے 10 لاکھ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں 4 کروڑ سے زائد افراد اس مرض میں مبتلا ہیں اور یوں وطن عزیز میں ہر چوتھا آدمی ہیپاٹائٹس سے متاثر ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کسی مرض، کسی واقعے یا کسی ذات کے حوالے سے ''عالمی دن'' منانے یا اس کے پرچار کا واحد مقصد یہ ہوتا ہے کہ عوام الناس کو اس واقعے، اس مرض یا اس ذات کی بابت تفصیل سے گوش گزار کیا جائے، لیکن اسے ہم وطنوں کی حد درجہ مصروفیات سے تعبیر کرلیں یا ان کی افتاد طبع اسے جان لیں وہ کسی مسئلے، کسی مرض، کسی واقعے، کسی ذات سے کچھ سیکھنے سمجھنے یا جاننے کے لیے ذرہ برابر آمادہ نہیں، نتیجے میں ہمارا، ہمارے معاشرے کا حال عرصہ دراز سے پتلا ہی چلا آرہا ہے، ہم من حیث القوم ایسے بن کر رہ گئے ہیں کہ ہم کسی چیز کا کوئی نوٹس اول تو سرے سے لیتے ہی نہیں اور اگر لے بھی لیں تو اس کا دورانیہ بہت ہی مختصر ہوتا ہے، اس کے بعد ہم سب اپنے اپنے معمولات میں جت جاتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس اے کے 1.4 ملین، ہیپاٹائٹس بی کے 2 ملین اور ہیپاٹائٹس سی کے 150 ملین سے زائد لوگ شکار ہیں اور اس مرض سے سالانہ ایک ملین سے زائد افراد ہلاک ہو رہے ہیں اور ان کی تعداد میں ہر سال ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے۔ جیساکہ اکثریت جانتی ہے کہ اس مرض کا حملہ جگر پر ہوتا ہے اور یہ مرض جگر میں ہی پلتا بڑھتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جگر کے اس مرض کے پھیلاؤ میں سب سے بڑا خطرہ ایسے مریض ہیں جو اپنے مرض سے آگاہ نہیں ہوتے اور وہ اسے دیگر صحت مند افراد میں منتقل کردیتے ہیں اور یوں اس مرض کو بڑی حد تک عام طور سے چھوت کی بیماری بھی کہا جاسکتا ہے۔
اس خطرناک مرض کے ماہرین کے مطابق ہیپاٹائٹس پانچ قسم کے وائرس پر مشتمل ہوتا ہے جسے اے، بی،سی، ڈی اور ای میں تقسیم کیا گیا ہے، یہ مرض پیدائش کے دوران ماں سے بچوں میں منتقل ہوسکتا ہے اور اس کے علاوہ آلودہ پانی اور ناقص خوراک ہیپاٹائٹس کے پھیلنے کی بڑی وجہ ہے۔ ہیپاٹائٹس بی، سی اور ڈی استعمال شدہ سرنج، خون کی منتقلی اور دیگر وجوہات سے پیدا ہوتا ہے اور خواتین میں ہیپاٹائٹس کی بڑی وجوہ میں ''بیوٹی پارلر اور مساج سینٹرز'' کا کردار اہمیت کا حامل ہے جب کہ مردوں میں حجامت کے لیے استعمال ہونے والے غیر معیاری آلات اور ڈینٹل کلینکس میں غیر تسلی بخش اوزار دندان، ہیپاٹائٹس پھیلانے کی اہم وجہ ہیں۔
ہیپاٹائٹس کی علامت میں بخار کا چڑھنا اترنا، تھکاوٹ، بھوک کا ختم ہوجانا، متلی، قے، پیٹ کا درد، گہرے رنگ کا پیشاب، جوڑوں کا درد اور یرقان نمایاں عوامل ہیں۔ ہیپاٹائٹس سی عام طور پر سب سے خطرناک اور جان لیوا کیٹیگری اس مرض کی سمجھی جاتی ہے جو 90 فیصد جگر پر اپنے اثرات مرتب کر دیتی ہے، لیکن بے احتیاطی سے 80 فیصد افراد اس کیفیت میں مبتلا ہوکر جان جان آفرین کے حوالے کردیتے ہیں، اس قسم کے مریضوں کو جگر کی پیوند کاری کی اشد ضرورت ہوتی ہے، افسوس کہ اس کے اہتمام و انتظام کے لیے سرکاری سطح پر کوئی ادارہ قائم نہیں اور اسی وجہ سے جگر کی پیوند کاری بہت مہنگا طریقہ علاج ہے وہ بھی چند نجی اسپتالوں کی حد تک۔
مقام افسوس اور لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس کا مرض بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ یومیہ 410 افراد اس سے دوچار ہوکر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جب کہ سالانہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں ہیپاٹائٹس کی شرح دنیا کے دوسرے ممالک سے زیادہ ہے اور پاکستان کی کل آبادی میں 10 فیصد حصہ اس مرض میں مبتلا ہے اور ہمارے ارباب اختیار کے لیے یہ اعداد و شمار غور طلب بھی ہیں اور فکرانگیز بھی۔
پاکستان میں محکمہ صحت کے اعداد و شمار پر نگاہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ پورے ملک میں اول تو اس سلسلے میں بے حسی چھائی ہوئی ہے۔ بالخصوص کراچی جیسے بڑے اور صنعتی شہر میں اس کے تدارک کے لیے کوئی شافی طریقہ سرکاری طور پر رائج نہیں، اس کے برعکس پنجاب میں محکمہ صحت ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام کے تحت سالانہ ڈیڑھ ارب روپے خرچ کرتی ہے اور آیندہ دو سال کے لیے 4750 ملین روپے فراہم کیے گئے، مرض کے خاتمے کے لیے گولیاں متعارف کرا دی گئی ہیں، وگرنہ انجکشن پرانا طریقہ علاج چلا آرہا ہے۔
اس مرض یعنی ہیپاٹائٹس کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ غلط تشخیص یا مرض جڑ پکڑ جانے کے باوجود مریض کی بے خبری سے یہ مرض جگر کے کینسر میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ کتنے دکھ یا ستم ظریفی جو چاہے فرض کرلیں کہ صحت کے حوالے سے اتنی سنگین صورتحال کے باوجود حکومت ایک اچھے مسیحا کا روپ اختیار کرنے سے قاصر چلی آرہی ہے۔ اس مرض کی ایک سنگینی اور بھی ہے اور وہ یہ کہ اس سے بچاؤ کے لیے عام طور پر جو طریقہ علاج رائج ہے اس کی ادویات اور انجکشن حد درجہ مہنگے ہیں جنھیں عام آدمی کوشش کے باوجود افورڈ نہیں کرسکتا۔
ہماری موجودہ ریاست جو صرف اور صرف موٹر وے اور گرین بسیں ہی بنانے اور چلانے پر کمربستہ ہے اسے صحت عامہ کی اس سنگینی اور بدحالی کا فوری نوٹس لینا چاہیے ،حکومت ہی کی ذمے داری ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح ہیپاٹائٹس کے علاج کے لیے ضروری ادویات کے بغیر کسی رکاوٹ کے فراہمی یقینی بنائے اس کے ساتھ ساتھ خاطر خواہ فنڈز کے اجرا کے ساتھ ان کا درست استعمال بھی ممکن بنایا جائے تاکہ اس جان لیوا بڑھتے ہوئے مرض میں مبتلا مریضوں کو بغیر کسی دشواری کے علاج معالجے کی تمام تر سہولتیں بلاتخصیص میسر آسکیں۔
اس حوالے سے سرکاری اور نجی اداروں میں باہمی تعاون کو بھی فروغ دیا جانا وقت کی شدید ضرورت ہے، اس کے ساتھ ساتھ ادویہ ساز کمپنیز، سیکٹر، بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں اور تحقیقی اداروں کو باہم مل کر اس مرض کے خاتمے کے لیے اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
شیخ سعدی کا کہنا ہے کہ اگر کوئی مسافر صحیح راستے سے بھٹکنے کے باعث غلط راستے پر چلتا ہے تو وقت گزرنے کے ساتھ وہ اپنی راہ سے اتنا دور ہوتا جائے گا کہ جس کے بعد وہ صحیح راستے پر واپس بھی آنا چاہے تو نہیں آسکتا۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے آکسیجن ٹینٹ میں سسک سسک کر جی رہے ہیں، ایسے میں آج اگر کوئی مسیحا اتفاقاً آکر ملک کے حالات سدھارنے کی کوشش بھی کرے تو اس کے مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے کئی عشرے درکار ہوں گے۔ ہمارے حکمران اور دیگر سرکاری اہلکار بلٹ پروف گاڑیوں یا فول پروف سیکیورٹی کے حصار میں روپوش رہتے ہیں جب کہ کروڑوں عوام دہشت گردوں، تخریب کاروں، بھتہ خوروں، ٹارگٹ کلر اور منشیات فروشوں کے رحم و کرم پر پڑے ہوئے ہیں۔
حال ہی میں دنیا بھر میں عالمی ادارہ صحت کے زیراہتمام ''ورلڈ ہیپاٹائٹس ڈے'' منایا گیا۔ جس کے ذریعے بڑے سنسنی خیز اعداد و شمار اس مرض کے حوالے سے سامنے آئے ہیں جس نے ہر ذی ہوش کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔ ''عالمی ادارہ صحت'' کے مطابق آج پوری دنیا میں 50 کروڑ سے زائد افراد ہیپاٹائٹس کا شکار ہیں اور سالانہ اس مرض سے 10 لاکھ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں 4 کروڑ سے زائد افراد اس مرض میں مبتلا ہیں اور یوں وطن عزیز میں ہر چوتھا آدمی ہیپاٹائٹس سے متاثر ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کسی مرض، کسی واقعے یا کسی ذات کے حوالے سے ''عالمی دن'' منانے یا اس کے پرچار کا واحد مقصد یہ ہوتا ہے کہ عوام الناس کو اس واقعے، اس مرض یا اس ذات کی بابت تفصیل سے گوش گزار کیا جائے، لیکن اسے ہم وطنوں کی حد درجہ مصروفیات سے تعبیر کرلیں یا ان کی افتاد طبع اسے جان لیں وہ کسی مسئلے، کسی مرض، کسی واقعے، کسی ذات سے کچھ سیکھنے سمجھنے یا جاننے کے لیے ذرہ برابر آمادہ نہیں، نتیجے میں ہمارا، ہمارے معاشرے کا حال عرصہ دراز سے پتلا ہی چلا آرہا ہے، ہم من حیث القوم ایسے بن کر رہ گئے ہیں کہ ہم کسی چیز کا کوئی نوٹس اول تو سرے سے لیتے ہی نہیں اور اگر لے بھی لیں تو اس کا دورانیہ بہت ہی مختصر ہوتا ہے، اس کے بعد ہم سب اپنے اپنے معمولات میں جت جاتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس اے کے 1.4 ملین، ہیپاٹائٹس بی کے 2 ملین اور ہیپاٹائٹس سی کے 150 ملین سے زائد لوگ شکار ہیں اور اس مرض سے سالانہ ایک ملین سے زائد افراد ہلاک ہو رہے ہیں اور ان کی تعداد میں ہر سال ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے۔ جیساکہ اکثریت جانتی ہے کہ اس مرض کا حملہ جگر پر ہوتا ہے اور یہ مرض جگر میں ہی پلتا بڑھتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جگر کے اس مرض کے پھیلاؤ میں سب سے بڑا خطرہ ایسے مریض ہیں جو اپنے مرض سے آگاہ نہیں ہوتے اور وہ اسے دیگر صحت مند افراد میں منتقل کردیتے ہیں اور یوں اس مرض کو بڑی حد تک عام طور سے چھوت کی بیماری بھی کہا جاسکتا ہے۔
اس خطرناک مرض کے ماہرین کے مطابق ہیپاٹائٹس پانچ قسم کے وائرس پر مشتمل ہوتا ہے جسے اے، بی،سی، ڈی اور ای میں تقسیم کیا گیا ہے، یہ مرض پیدائش کے دوران ماں سے بچوں میں منتقل ہوسکتا ہے اور اس کے علاوہ آلودہ پانی اور ناقص خوراک ہیپاٹائٹس کے پھیلنے کی بڑی وجہ ہے۔ ہیپاٹائٹس بی، سی اور ڈی استعمال شدہ سرنج، خون کی منتقلی اور دیگر وجوہات سے پیدا ہوتا ہے اور خواتین میں ہیپاٹائٹس کی بڑی وجوہ میں ''بیوٹی پارلر اور مساج سینٹرز'' کا کردار اہمیت کا حامل ہے جب کہ مردوں میں حجامت کے لیے استعمال ہونے والے غیر معیاری آلات اور ڈینٹل کلینکس میں غیر تسلی بخش اوزار دندان، ہیپاٹائٹس پھیلانے کی اہم وجہ ہیں۔
ہیپاٹائٹس کی علامت میں بخار کا چڑھنا اترنا، تھکاوٹ، بھوک کا ختم ہوجانا، متلی، قے، پیٹ کا درد، گہرے رنگ کا پیشاب، جوڑوں کا درد اور یرقان نمایاں عوامل ہیں۔ ہیپاٹائٹس سی عام طور پر سب سے خطرناک اور جان لیوا کیٹیگری اس مرض کی سمجھی جاتی ہے جو 90 فیصد جگر پر اپنے اثرات مرتب کر دیتی ہے، لیکن بے احتیاطی سے 80 فیصد افراد اس کیفیت میں مبتلا ہوکر جان جان آفرین کے حوالے کردیتے ہیں، اس قسم کے مریضوں کو جگر کی پیوند کاری کی اشد ضرورت ہوتی ہے، افسوس کہ اس کے اہتمام و انتظام کے لیے سرکاری سطح پر کوئی ادارہ قائم نہیں اور اسی وجہ سے جگر کی پیوند کاری بہت مہنگا طریقہ علاج ہے وہ بھی چند نجی اسپتالوں کی حد تک۔
مقام افسوس اور لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس کا مرض بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ یومیہ 410 افراد اس سے دوچار ہوکر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جب کہ سالانہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں ہیپاٹائٹس کی شرح دنیا کے دوسرے ممالک سے زیادہ ہے اور پاکستان کی کل آبادی میں 10 فیصد حصہ اس مرض میں مبتلا ہے اور ہمارے ارباب اختیار کے لیے یہ اعداد و شمار غور طلب بھی ہیں اور فکرانگیز بھی۔
پاکستان میں محکمہ صحت کے اعداد و شمار پر نگاہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ پورے ملک میں اول تو اس سلسلے میں بے حسی چھائی ہوئی ہے۔ بالخصوص کراچی جیسے بڑے اور صنعتی شہر میں اس کے تدارک کے لیے کوئی شافی طریقہ سرکاری طور پر رائج نہیں، اس کے برعکس پنجاب میں محکمہ صحت ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام کے تحت سالانہ ڈیڑھ ارب روپے خرچ کرتی ہے اور آیندہ دو سال کے لیے 4750 ملین روپے فراہم کیے گئے، مرض کے خاتمے کے لیے گولیاں متعارف کرا دی گئی ہیں، وگرنہ انجکشن پرانا طریقہ علاج چلا آرہا ہے۔
اس مرض یعنی ہیپاٹائٹس کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ غلط تشخیص یا مرض جڑ پکڑ جانے کے باوجود مریض کی بے خبری سے یہ مرض جگر کے کینسر میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ کتنے دکھ یا ستم ظریفی جو چاہے فرض کرلیں کہ صحت کے حوالے سے اتنی سنگین صورتحال کے باوجود حکومت ایک اچھے مسیحا کا روپ اختیار کرنے سے قاصر چلی آرہی ہے۔ اس مرض کی ایک سنگینی اور بھی ہے اور وہ یہ کہ اس سے بچاؤ کے لیے عام طور پر جو طریقہ علاج رائج ہے اس کی ادویات اور انجکشن حد درجہ مہنگے ہیں جنھیں عام آدمی کوشش کے باوجود افورڈ نہیں کرسکتا۔
ہماری موجودہ ریاست جو صرف اور صرف موٹر وے اور گرین بسیں ہی بنانے اور چلانے پر کمربستہ ہے اسے صحت عامہ کی اس سنگینی اور بدحالی کا فوری نوٹس لینا چاہیے ،حکومت ہی کی ذمے داری ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح ہیپاٹائٹس کے علاج کے لیے ضروری ادویات کے بغیر کسی رکاوٹ کے فراہمی یقینی بنائے اس کے ساتھ ساتھ خاطر خواہ فنڈز کے اجرا کے ساتھ ان کا درست استعمال بھی ممکن بنایا جائے تاکہ اس جان لیوا بڑھتے ہوئے مرض میں مبتلا مریضوں کو بغیر کسی دشواری کے علاج معالجے کی تمام تر سہولتیں بلاتخصیص میسر آسکیں۔
اس حوالے سے سرکاری اور نجی اداروں میں باہمی تعاون کو بھی فروغ دیا جانا وقت کی شدید ضرورت ہے، اس کے ساتھ ساتھ ادویہ ساز کمپنیز، سیکٹر، بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں اور تحقیقی اداروں کو باہم مل کر اس مرض کے خاتمے کے لیے اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کرنے کی ضرورت ہے۔