پاکستانی فلموں کی بین الاقوامی مارکیٹ تک رسائی ممکن ہوگئی

اب لالی وڈ کے فلمساز بھی بیرون ملک فلموں کی نمائش کے لیے کوشاں ہیں.

اب لالی وڈ کے فلمساز بھی بیرون ملک فلموں کی نمائش کے لیے کوشاں ہیں۔ فوٹو: فائل

گزشتہ چند سال پاکستان کی فلم انڈسٹری کی خوش بختی کی علامت بن گئے،طویل عرصہ بحران سے گزرنے والی فلم انڈسٹری کو سنبھلنے کا موقع مل گیا۔

1990میں شروع ہونے والا فلم انڈسٹری کا برا دورآخر کار2012 میں ختم ہوگیا اوراس کا کریڈٹ اگر ہم ان نوجوانوں کو نہ دیں تو یہ نا انصافی ہوگی جنہوں نے بہت سوچ بچار کے بعد اس چیلنج کو قبول کرلیا کہ کوئی کام مشکل نہیں اگر کوشش کی جائے تو ناممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

کہا یہ جاتا ہے کہ فلم انڈسٹری کی بحالی میں پاکستان میں بنائے جانے والے جدید سنیماؤں نے اہم کردارادا کیا ہے تو یہ بھی غلط نہیں ہوگا، بہرحال سچائی کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ نئے جدید سنیماؤں کے قیام کے بعد بھارتی فلموں کا بزنس تیزی سے بڑھا اور ان فلموں نے باکس آفس پر جو کامیابیاں حاصل کیں تو ٹی وی سے وابستہ اِن نوجوانوں کو یہ احساس ہوا کہ اگربھارتی فلمیں پاکستانی سینماؤں میں کامیاب ہوسکتی ہیں تو پاکستانی فلمیں کیوں نہیں؟ اسی سوچ نے فلم انڈسٹری کے حالات بدلنے میں اہم کردارادا کیا ۔ ٹی وی انڈسٹری سے وابستہ لوگوں نے کم بجٹ سے نئے فنکاروں کو شامل کرکے فلمیں بنانے کا تجربہ کیا جو کامیاب رہا ۔

پاکستانی فلم بین اس وقت کا انتظار کررہے تھے جہاں انہیں فلموں میں کوئی نئی چیز یا تبدیلی محسوس ہو،پاکستان میں فلم انڈسٹری کی بحالی کا عمل شروع ہونے سے اس شعبہ سے وابستہ سینئر افراد نے بھی سکھ کا سانس لیا ،حالانکہ اسے مذاق بھی کہا گیا کہ ٹی وی ڈرامے بنانے والے ایک اچھی فلم کیسے بنا سکیں گے ، لیکن جب پاکستانی فلموں نے کامیابی کا سفر شروع کیا تو نوجوانوں کی کارکردگی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے، بد قسمتی سے قیام پاکستان کے بعد سے فلم انڈسٹری کے شدید بحران کے سفر تک کسی نے بھی اس بات پر توجہ نہیں دی کہ ہماری فلم پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں بھی ریلیز ہونی چاہیے۔

ہمارے ڈسٹری بیوٹرز اور فلمساز پاکستان میں فلموں کی نمائش کرکے اور اسے کامیاب ہوتا دیکھ کر خوش ہوجاتے تھے کسی نے یہ نہیں سوچا کہ بھارت نے پوری دنیا میں کس طرح اپنی فلم انڈسٹری کی پہچان بنائی۔ بدقسمتی سے ہمارے پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز نے کبھی بھی اس نہج پر منصوبہ بندی نہیں کی تھی۔ یہ سب کنوئیں کے مینڈک کی طرح ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر عمل پیرا تھے، جس کا مقصد فلم بینوں کو تفریح دینا نہیں بلکہ صرف دیہاڑی لگانا تھا۔


فلم بینوں نے ایک جیسی کہانی اور کاسٹنگ سے تنگ ہو کر سینماؤں میں آنا چھوڑ دیا تھا جبکہ ہمارے فلم میکر اپنی غلطیوں اور خامیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے الٹا کیبل چینلز اور بھارتی فلموں کی سینماؤں میں نمائش کو ہی مورود الزام ٹھہرانے پر تلے رہے۔ نتیجتاً اسٹوڈیوز کو تالے لگ گئے، جس سے تکنیک کار، ایکسٹرا فنکاروں سمیت کثیر تعداد بے روزگار ہوگئی ۔ فلمی فنکار جو کبھی ٹی وی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے ، فلم انڈسٹری کی بدولت ملنے والی شہرت کو ٹی وی پر کیش کرانے لگے ۔ جنہوں نے اس فلم انڈسٹری سے کروڑوں کمائے انہوں نے حالات کو دیکھتے ہوئے ہاتھ کھڑے کردئیے جب انہیں کہا جاتا کہ کچھ کریں تو ان کا جواب ہوتا کہ ہم اپنا سرمایہ ضائع نہیں کرنا چاہتے۔

دلچسپ بات یہ کہ حکومت کی طرف سے فلم انڈسٹری کی بحالی کے لئے گرین سگنل ملتا تو یہی لوگ فوراً فلم انڈسٹری کی قیادت کے طور پر سامنے آجاتے۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومت میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کسی تقریب میں انڈسٹری کی بحالی کے لئے پانچ کروڑ کا اعلان کیا تو اس کے حصول کے لئے فلم انڈسٹری دو گروپوں میں بٹ گئی ۔ اب اگر ان سے پوچھا جائے کہ بھلا پانچ کروڑ میں فلم انڈسٹری کی حالت کیا سنبھلے گی۔ اگر حقیقی معنوں میں یہ فلم انڈسٹری سے مخلص ہوتے تو یہ فلم میکنگ کی جدید مشینری اور دیگر اشیاء پر ٹیکس کے خاتمے سمیت دیگر سہولیات کی بات کرتے۔

بہرحال ماضی کے اس قصہ کو اب یاد کرنے سے کیا فائدہ۔۔۔۔۔ بلاشبہ پاکستان میں بہترین فلمیں بنیں، جنہیں ہمارے ہاں تو زبردست شہرت ملی اور یہ فلمیں ہمارا اثاثہ ہیں ۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ان فلموں کو بین الاقوامی مارکیٹ تک لے جانے کی کسی نے کوشش کی تو اس کا جواب ناں ہی ہوگا۔ 2012کے بعد فلم انڈسٹری میں آنے والی تبدیلی نے بہت کچھ بدل دیا ،پاکستان میں بنائی جانے والی فلموں نے اب دنیا بھر کی مارکیٹ تک رسائی حاصل کرلی اور بہت سی پاکستانی فلموں نے بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں اپنی شاندار کارکردگی کی وجہ سے نہ صرف شہرت حاصل کی بلکہ بہت سے ایوارڈ بھی اپنے نام کئے۔

ان فلموں کو اگر پاکستانی فلموں کی وجہ پہچان ملی تو یہ ایک بڑی کامیابی کہی جاسکتی ہے، دنیا میں پاکستانی فلموں کی پسندیدگی کی وجہ سے فلمیں بنانے والوں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور اب یہ کوشش بھی ہورہی ہے کہ جو بھی فلمیں بنائی جائیں انہیں انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں نامزدگی ملے اور دنیا بھر کے فلم میکرز کے سامنے پیش کیا جاسکے۔

2014-15 میں ایک اور بہت بڑی تبدیلی پاکستانی فلموں کے حوالے سے حوصلہ افزائی کا باعث بنی کہ پاکستانی فلموں کودنیا بھر میں نمائش کے لیے پیش کرنے کا سلسلہ باقاعدگی سے شروع ہوگیا جو اس سے قبل نہیں ہوسکا تھا۔ رواں سال اس میں تیزی آئی اور حال ہی میں پاکستانی فلم'' بن روئے'' کو بیک وقت برطانیہ، امریکا، کینیڈا ، نیوزی لینڈ، دبئی، کویت اور بھارت میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا،اس فلم کو دیار غیر میں زبردست پذیرائی ملی۔ فلم کی نمائش کے موقع پر پاکستانی فنکار بھی فلم کے پریمیئر میں نظر آئے جس کی وجہ سے ان فنکاروں کے پرستاروں نے اس کا خیر مقدم کیا۔ اسی فلم نے بیلا روس کے فلم فیسٹیول میں بھی پسندیدگی کی سند حاصل کرلی، اب تک پاکستان میں 10 کروڑ کا بزنس کیا جو بہت خوش آئند بات ہے۔ فلم ساز حسن ضیاء کی فلم ''رانگ نمبر'' بھی پاکستان کے علاوہ بھارت، دبئی، آسٹریلیا اور دیگر ممالک میں ریلیز کی گئی یہ بھی کامیاب رہی ، آنے والے دنوں میں پاکستانی فلمیں'' دیکھ مگر پیار سے''، '' ہلہ گلہ''، ''کراچی سے لاہور''،''شاہ'' دیگر فلمیں بھی دنیا کے دیگر ممالک میں نمائش کے لیے پیش کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔

غیرممالک میں پاکستانی فلموں کی نمائش ایک اچھی کوشش ہے لیکن اس سلسلے میں پاکستان کی حکومت کو بھی بھر پورتعاون کرنا چاہیے، پاکستانی فلموں کو بین الاقوامی مارکیٹ تک رسائی دینے کے لیے حکومت فلم پروڈیوسرز کو سہولتیں فراہم کرے تو یہ مستقبل میں فلم انڈسٹری کے لیے زر مبادلہ کمانے کا بہترین ذریعہ ثابت ہوسکتی ہیں۔ پاکستانی فلموں کی بین الاقوامی مارکیٹ تک رسائی اور اس کی کامیابی سے اس خواب کی تعبیر مل گئی جس سے آنے والے دنوں میں ہماری فلم انڈسٹری کے لیے نئی راہیں کھلیں گی نئے راستے بنیں گے تو ترقی کی منزل آسان ہوجائے گی۔
Load Next Story