ڈاکٹر صاحب کوٹ مختلف تھا

سوشل میڈیا پر تنقید تو فرض عین سہی لیکن الیکڑانک میڈیا کا حال بھی دوپہر کے اخبارات سے کچھ الگ نہیں ہے۔

تصویر موقع محل کے مطابق غیر واضح سی تھی۔ لباس بھی تقریباً مکمل طور پر وہی تھا بس سارے کیے کرائے پر پانی صرف ایک کوٹ نے پھیر دیا۔

HYDERABAD:
سوشل میڈیا کبھی بھی سینئر تجزیہ کاروں کا ''موسٹ فیورٹ میڈیم'' نہیں رہا۔ (بظاہر) تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کی ضد سوشل میڈیا ہے جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ سوشل میڈیا صرف اور صرف اطلاعات و معلومات کی تیز ترین رسائی کا ایک مکمل اور مفید ذریعہ ہے۔ بہرحال سنیئر تجزیہ کاروں کا ''کاں'' کیوں کہ سفید ہی رہے گا اس لیے ہم اس بحث میں نہیں پڑتے۔ کیوں کہ ذاتی تجربہ ہے کہ جب بھی کسی عقلی دلیل کو سامنے رکھ کر بات کی جائے تو ارشاد ہوتا ہے کہ، ایک تو یہ بحث بہت کرتا ہے۔

سوشل میڈیا پر تنقید تو فرض عین سہی لیکن الیکڑانک میڈیا کا حال بھی دوپہر کے اخبارات سے کچھ الگ نہیں ہے۔ جب ایک عرصے تک دن کو شائع ہونے والے اخبارات میں کوئی کام کی چیز ڈھونڈنے سے بھی نہ ملی تو سر پھروں کے ایک ''ٹولے'' نے دن کے اخبارات کو نام ہی ''جھکڑ جھولا'' کا دے دیا۔ یہ ہے تو ٹھیٹھ پنجابی کم پوٹھوہاری زبان کا لفظ لیکن اس کو تھوڑا اردو سمجھ بوجھ کے مطابق لکھا ہے جس کے لغوی معنی آندھی طوفان کے ہیں۔ ہمارے ہاں آج کل الیکٹرانک میڈیا بھی مکمل طور پر جھکڑ جھولا کی اصطلاح پر پورا اتر رہا ہے۔ کیوں کہ الیکٹرانک میڈیا پر نظر آنے والی خبروں کا ایک بہت بڑا حصہ غیر تصدیق شدہ ہوتا ہے اور صرف بریکنگ نیوز کے چکر میں دکھا دیا جاتا ہے۔

محترم حمید گل صاحب کی وفات یقیناً ایک ایسا نقصان ہے جس کی کمی پوری نہیں کی جاسکے گی۔ لیکن اس معاملے پر بھی ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب نے اپنی علمی صلاحیت دکھانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ حمید گل صاحب کے جنازے میں آرمی چیف کی شرکت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی لیکن ڈاکٹر صاحب نے اسی رات اپنے پروگرام میں حمید گل کے جنازے کی ایک تصویر یوں لب کشائی کرکے شیئر کی کہ جیسے کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ آرمی چیف سابق آئی ایس آئی چیف کے جنازے میں شریک ہوئے ہیں۔ 'بریکنگ نیوز' اور 'ایکسکلوزو اسٹوری' کے چکر میں ڈاکٹر صاحب یہ حقیقت بھی نظر انداز کرگئے کہ جس تصویر کو وہ حمید گل صاحب کے جنازے کی ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے وہ دراصل آرمی چیف کی والدہ محترمہ کے جنازے کی تھی اور غلط تصویر کے بارے میں وہ ارشاد فرما رہے تھے کہ،
''یہ ایکسکلوزو تصویر ہے''

انتخاب بھی مکمل تھا کہ تصویر موقع محل کے مطابق غیر واضح سی تھی۔ لباس بھی تقریباً مکمل طور پر وہی تھا۔ لیکن ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب کی ''جھکڑ جھولا'' اسٹوری اور سارے کیے کرائے پر پانی صرف ایک کوٹ نے پھیر دیا۔ کیوں کہ آرمی چیف نے اپنی والدہ کے جنازے میں سرمئی رنگ کا کوٹ زیب تن کیا تھا جب کہ حمید گل صاحب کے جنازے میں وہ کالا کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ شاید ایک کوٹ کے رنگ پر ڈاکٹر صاحب کی نظر ہی نہیں پڑی ورنہ وہ اس حقیقت کو ہرگز نظر انداز نہ کرتے اور کچھ ممکن نہ ہوتا تو شاید کوٹ کا رنگ ہی تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے۔ لیکن شو مئی قسمت کے سوشل میڈیا کے ''شرارتی کاکوں'' نے کوٹ کا رنگ ISPR کے آفیشل پریس ریلیز سے نکال سامنے کیا تاکہ اگر کسی قسم کا شک ہو تو حمید گل مرحوم کے جنازے کی تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔

سوشل میڈیا کو بُرا کہنے والے الیکٹرانک میڈیا کے بڑے بڑے نام یہ تصویر بناء کسی تحقیق اور سمجھ کے آگے پھیلاتے نظر آئے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں کہ صحافت کا معیار کن اعلیٰ جہتوں تک پہنچ چکا ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ یہ بلاگ بھی الیکٹرانک میڈیا و پرنٹ میڈیا کے سرخیلوں کو گراں گزرے اور دوبارہ سوشل میڈیا پر لعن طعن کا سلسلہ بھی جاری و ساری رہے۔

ویسے اگر ڈاکٹر صاحب کی صحافت پر ہماری شرارتوں سے حرف آئے تو ہم معذرت خواہ ہیں اور ڈاکٹر صاحب کو فالو کرنے والے شاید ویسے بھی بے چارے رحم کے قابل ہیں کیوں کہ جس طرح کا تجزیہ ڈاکٹر صاحب کرتے ہیں اس سے تو تاثر یہی جاتا ہے کہ بس آج کا دن آخری اور کل قیامت ہے۔ سوشل میڈیا پر تنقید اپنی جگہ لیکن اپنی ''کَل'' کو سیدھا نہ کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ جناب ہمیں نہ تو ڈاکٹر ہونے پر اعتراض ہے نہ ہی ہمیں علمیت پر کوئی مسئلہ ہے۔ ہمیں تو مسئلہ صرف اور صرف غیر ذمہ دارانہ صحافت سے ہے۔ سوشل میڈیا پر نوجوانانِ وطن محض فراغت کو دور کرنے کے لیے اپنا وقت ضائع نہیں کررہے ہوتے بلکہ یہاں کچھ اچھا کام بھی ہورہا ہے اگر نہ ہورہا ہوتا تو ڈاکٹر صاحب کو کوٹ کا رنگ کیسے یاد دلایا جاتا؟ اگر سوشل میڈیا اتنا ہی بُرا ہوتا تو یہ بڑے بڑے نام لاکھوں کے حساب سے لائیک کو اپنی کارکردگی نہ گنوا رہے ہوتے۔


باقی آپ جتنی مرضی پیش گوئیاں کریں، جتنے مرضی پروگرامز گھنٹوں کے حساب سے کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ
''ڈاکٹر صاحب! کوٹ مختلف تھا''


[poll id="608"]

 



نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

 
Load Next Story