دورِ جدید کے تقاضے اور سائبر ’’وار‘‘ فیئر
ہمیں اپنے ایٹمی اثاثوں پر بے حد ناز ہے اور ہونا بھی چاہیے لیکن ان کی حفاظت کیلئے سائبر سیکورٹی کو بہت سخت کرنا پڑے گا۔
آج کل تقریباً روز ہی یہ خبر پڑھنے کو ملتی ہے کہ فلاں ہیکنک گروپ نے کوئی ویب سائٹ ہیک کرلی ہے یا کسی ہیکر نے کوئی بہت اہم ڈیٹا چرا لیا ہے اور جب کوئی بہت اہم قومی سلامتی کا ڈیٹا کسی ہیکر کے ہاتھ لگ جاتا ہے تو صورتحال انتہائی سنگین ہوجاتی ہے کیونکہ خدشات لاحق ہوجاتے ہیں کہ ہیکر کہیں ڈیٹا کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال نہ کرلے۔
ایسا ہی کچھ جولین اسانج نے بھی کیا تھا جس نے انتہائی اہم نوعیت کے دستاویزات ہیکنگ کے ذریعے چرا کر اپنی ذاتی ویب سائیٹ پر ڈال دئیے اور پوری دنیا کی توجہ حاصل کر لی۔ کسی دور میں خفیہ ایجنسیوں کے سیکرٹ ایجنٹ مختلف بھیس بدل بدل کر اپنے دشمن ملک کا ڈیٹا اور قومی سلامتی کے متعلق دستاویزات حاصل کرتے تھے اور اس پر حکومتوں کا کروڑوں روپیہ خرچ ہوتا تھا جبکہ ایجنٹ کی جان بھی خطرے میں ہوتی تھی اور پکڑے جانے کی صورت میں ملک کی بدنامی کا ڈر علیحدہ ہوتا تھا۔ اب یہ کام محض ایک کمپیوٹر پر بیٹھ کر پروگرامر باآسانی کرسکتا ہے جسے حرف عام میں ہیکر کہا جاتا ہے۔ اِس طرح نہ جان جوکھوں میں ڈالنی پڑتی ہے اور نہ ہی اس ملک کی بدنامی ہوتی ہے کیونکہ اگر کسی بھی طرح ملک کا نام آجائے تو یہ کہہ کر باآسانی بچا جاسکتا ہے کہ یہ تو کسی شخص کی انفرادی کارروائی ہے ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اگر ہم اسے بڑے تناظر میں دیکھیں تو یہی ہمیں سائبر وار فیئر کی جانب لے جاتی ہے۔ جب ایک ملک دوسرے ملک کے قیمتی رازوں تک رسائی حاصل کر لیتا ہے تو کمپیوٹر نیٹ ورک کے ذریعے وہ اس کے کمپیوٹر نظام کو بھی تباہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرلیتا ہے۔ اس کی مثال ایک خیالی منظر نامے سے دیتا ہوں۔
فرض کریں ایک طرف ایک انتہائی چھوٹا اور دفاعی اعتبار سے کمزور ملک مالدیپ ہے اور دوسری طرف ایک دفاعی اعتبار اور ایٹمی صلاحیت سے لیس امریکہ ہے، دونوں ممالک کا کسی بات پر تنازعہ ہوجاتا ہے اور جنگ کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ تمام تر کمزوری کے باوجود اُس کے پاس دنیا کے چند بہترین کمپیوٹر پروگرامرز کا گروپ ضرور موجود ہے جو ہیکنگ میں مہارت رکھتا ہے۔ وہ مالدیپ میں بیٹھے بیٹھے امریکہ کے کمپیوٹر نظام میں داخل ہوکر اسے مکمل طور پر ہیک کرلیتے ہیں اور ان کے ایٹمی اثاثوں کے کمپیوٹر نظام میں بھی داخل ہوکر اس کا مکمل کنٹرول بھی حاصل کرلیتے ہیں۔ پھرساتھ ہی امریکہ کے بجلی کے نظام کو بھی تباہ کردیتے ہیں جو انٹرنیٹ سے منسلک ہے اور پورا امریکہ تاریکی میں ڈوب جاتا ہے، ساتھ ہی ساتھ تیسرا کام وہ یہ کرتے ہیں کہ تمام بینکوں کے کمپیوٹر نظام کو بھی ہیک کرکے امریکہ کو معاشی طور پر بھی مفلوج کر دیتے ہیں۔
سوچیے کہ ایک طرف امریکہ جیسی سپر پاور اور دوسری طرف ایک انتہائی کمزور ملک جس کے چند کمپیوٹر پروگرامرز جو محض چند منٹوں میں امریکہ کے تمام تر کمپیوٹرنظام پر کنٹرول حاصل کرکے اس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتے ہیں تو سوچیے کیا ہوگا؟
یہ منظر کسی ہالی ووڈ کی فلم کا نہیں ہے بلکہ حقیقتاً امریکا اور کئی اور ممالک کو ایسے سائبر اٹیک کا سامنا کرنا پڑا ہے جس میں امریکہ کے الیکٹریکل گرڈ کو چین اور روس نے مل کر نشانہ بنانے کی کوشش کی اور یہ بات امریکہ کی وفاقی حکومت نے خود مانی ہے اور اس کو امریکہ پر سائبر اٹیک قرار دیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب چین اور روس نے اس الزام کو ماننے سے انکار کردیا ہے، اسی طرح جولائی 2010 میں ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق امریکہ اور اسرائیل نے ملکر ایران کے ایٹمی پروگرام کے کمپیوٹر نظام میں اسٹکس نیٹ (stuxnet) نامی وائرس کو ڈالا جس نے تقریباً 1000 نیوکلئیر سینٹر فیوجز کو تباہ کردیا، جس کی وجہ سے ایران کو اپنا نیوکلیئر پروگرام 2 سال کے لیے بند کرنا پڑا اور اس کی جوابی کارروائی کے طور پر ایران نے 2012 میں امریکہ کے بینکنگ نظام کو ہیک کرلیا اور اس کو تاریخ کی پہلی سائبر جنگ کے طور پر لیا جاتا ہے۔
سائبر وار کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اِس کو سمجھنا بہت ہی مشکل ہے کہ یہ سائبر حملہ کسی ملک کی طرف سے کیا گیا ہے یا پھر اس کے پیجھے کوئی انفرادی شخص تھا۔ اسی وجہ سے اس کی حساسیت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اگر ہم اس جنگ کے حوالے سے دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ چین اور امریکہ تو ہم سے ٹیکنالوجی میں بہت آگے ہیں اور ان ممالک سے مقابلہ فی الوقت ممکن نہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم تو اپنے ہمسایہ ممالک سے بھی اس معاملہ میں بہت پیچھے ہیں۔ ایک طرف ایران نے باقاعدہ اپنی سائبر فورس تشکیل دے دی ہے جس کی مہارت پوری دنیا پر عیاں ہے اور دوسری طرف بھارت ہر سال سائبر سیکورٹی کے حوالے سے عالمی کانفرنس کا انعقاد کرکے اس ٹیکنالوجی میں اپنی مہارت اور علاقے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے مسلسل کوشاں ہے اور تو اور منگولیا جیسا دفاعی اعتبار سے کمزور ملک بھی بھارت کے ساتھ سائبر سیکورٹی کے معاہدے کر رہا ہے۔
اگرچہ ہمیں اپنے ایٹمی اثاثوں پر بے حد ناز ہے اور ہونا بھی چاہیے، ساتھ ساتھ یہ بھی دعا کرنی چاہیے کہ خدا ہمارا یہ ناز قائم رکھے لیکن ان ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کے لیے ہمیں اپنی سائبر سیکورٹی کو بہت سخت کرنا پڑے گا تاکہ کوئی بھی دشمن پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی طرف میلی نظر سے نہ دیکھ سکے۔ حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر اس شعبہ میں ترقی کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہونگے تاکہ پاکستان ہر لحاظ سے ایک مضبوط دفاعی طاقت بن سکے کیونکہ آنے والے دور میں روایتی جنگوں کے بجائے سائبر وار ہی ہوں گیں۔
[poll id="610"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
ایسا ہی کچھ جولین اسانج نے بھی کیا تھا جس نے انتہائی اہم نوعیت کے دستاویزات ہیکنگ کے ذریعے چرا کر اپنی ذاتی ویب سائیٹ پر ڈال دئیے اور پوری دنیا کی توجہ حاصل کر لی۔ کسی دور میں خفیہ ایجنسیوں کے سیکرٹ ایجنٹ مختلف بھیس بدل بدل کر اپنے دشمن ملک کا ڈیٹا اور قومی سلامتی کے متعلق دستاویزات حاصل کرتے تھے اور اس پر حکومتوں کا کروڑوں روپیہ خرچ ہوتا تھا جبکہ ایجنٹ کی جان بھی خطرے میں ہوتی تھی اور پکڑے جانے کی صورت میں ملک کی بدنامی کا ڈر علیحدہ ہوتا تھا۔ اب یہ کام محض ایک کمپیوٹر پر بیٹھ کر پروگرامر باآسانی کرسکتا ہے جسے حرف عام میں ہیکر کہا جاتا ہے۔ اِس طرح نہ جان جوکھوں میں ڈالنی پڑتی ہے اور نہ ہی اس ملک کی بدنامی ہوتی ہے کیونکہ اگر کسی بھی طرح ملک کا نام آجائے تو یہ کہہ کر باآسانی بچا جاسکتا ہے کہ یہ تو کسی شخص کی انفرادی کارروائی ہے ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اگر ہم اسے بڑے تناظر میں دیکھیں تو یہی ہمیں سائبر وار فیئر کی جانب لے جاتی ہے۔ جب ایک ملک دوسرے ملک کے قیمتی رازوں تک رسائی حاصل کر لیتا ہے تو کمپیوٹر نیٹ ورک کے ذریعے وہ اس کے کمپیوٹر نظام کو بھی تباہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرلیتا ہے۔ اس کی مثال ایک خیالی منظر نامے سے دیتا ہوں۔
فرض کریں ایک طرف ایک انتہائی چھوٹا اور دفاعی اعتبار سے کمزور ملک مالدیپ ہے اور دوسری طرف ایک دفاعی اعتبار اور ایٹمی صلاحیت سے لیس امریکہ ہے، دونوں ممالک کا کسی بات پر تنازعہ ہوجاتا ہے اور جنگ کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ تمام تر کمزوری کے باوجود اُس کے پاس دنیا کے چند بہترین کمپیوٹر پروگرامرز کا گروپ ضرور موجود ہے جو ہیکنگ میں مہارت رکھتا ہے۔ وہ مالدیپ میں بیٹھے بیٹھے امریکہ کے کمپیوٹر نظام میں داخل ہوکر اسے مکمل طور پر ہیک کرلیتے ہیں اور ان کے ایٹمی اثاثوں کے کمپیوٹر نظام میں بھی داخل ہوکر اس کا مکمل کنٹرول بھی حاصل کرلیتے ہیں۔ پھرساتھ ہی امریکہ کے بجلی کے نظام کو بھی تباہ کردیتے ہیں جو انٹرنیٹ سے منسلک ہے اور پورا امریکہ تاریکی میں ڈوب جاتا ہے، ساتھ ہی ساتھ تیسرا کام وہ یہ کرتے ہیں کہ تمام بینکوں کے کمپیوٹر نظام کو بھی ہیک کرکے امریکہ کو معاشی طور پر بھی مفلوج کر دیتے ہیں۔
سوچیے کہ ایک طرف امریکہ جیسی سپر پاور اور دوسری طرف ایک انتہائی کمزور ملک جس کے چند کمپیوٹر پروگرامرز جو محض چند منٹوں میں امریکہ کے تمام تر کمپیوٹرنظام پر کنٹرول حاصل کرکے اس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتے ہیں تو سوچیے کیا ہوگا؟
یہ منظر کسی ہالی ووڈ کی فلم کا نہیں ہے بلکہ حقیقتاً امریکا اور کئی اور ممالک کو ایسے سائبر اٹیک کا سامنا کرنا پڑا ہے جس میں امریکہ کے الیکٹریکل گرڈ کو چین اور روس نے مل کر نشانہ بنانے کی کوشش کی اور یہ بات امریکہ کی وفاقی حکومت نے خود مانی ہے اور اس کو امریکہ پر سائبر اٹیک قرار دیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب چین اور روس نے اس الزام کو ماننے سے انکار کردیا ہے، اسی طرح جولائی 2010 میں ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق امریکہ اور اسرائیل نے ملکر ایران کے ایٹمی پروگرام کے کمپیوٹر نظام میں اسٹکس نیٹ (stuxnet) نامی وائرس کو ڈالا جس نے تقریباً 1000 نیوکلئیر سینٹر فیوجز کو تباہ کردیا، جس کی وجہ سے ایران کو اپنا نیوکلیئر پروگرام 2 سال کے لیے بند کرنا پڑا اور اس کی جوابی کارروائی کے طور پر ایران نے 2012 میں امریکہ کے بینکنگ نظام کو ہیک کرلیا اور اس کو تاریخ کی پہلی سائبر جنگ کے طور پر لیا جاتا ہے۔
سائبر وار کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اِس کو سمجھنا بہت ہی مشکل ہے کہ یہ سائبر حملہ کسی ملک کی طرف سے کیا گیا ہے یا پھر اس کے پیجھے کوئی انفرادی شخص تھا۔ اسی وجہ سے اس کی حساسیت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اگر ہم اس جنگ کے حوالے سے دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ چین اور امریکہ تو ہم سے ٹیکنالوجی میں بہت آگے ہیں اور ان ممالک سے مقابلہ فی الوقت ممکن نہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم تو اپنے ہمسایہ ممالک سے بھی اس معاملہ میں بہت پیچھے ہیں۔ ایک طرف ایران نے باقاعدہ اپنی سائبر فورس تشکیل دے دی ہے جس کی مہارت پوری دنیا پر عیاں ہے اور دوسری طرف بھارت ہر سال سائبر سیکورٹی کے حوالے سے عالمی کانفرنس کا انعقاد کرکے اس ٹیکنالوجی میں اپنی مہارت اور علاقے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے مسلسل کوشاں ہے اور تو اور منگولیا جیسا دفاعی اعتبار سے کمزور ملک بھی بھارت کے ساتھ سائبر سیکورٹی کے معاہدے کر رہا ہے۔
اگرچہ ہمیں اپنے ایٹمی اثاثوں پر بے حد ناز ہے اور ہونا بھی چاہیے، ساتھ ساتھ یہ بھی دعا کرنی چاہیے کہ خدا ہمارا یہ ناز قائم رکھے لیکن ان ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کے لیے ہمیں اپنی سائبر سیکورٹی کو بہت سخت کرنا پڑے گا تاکہ کوئی بھی دشمن پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی طرف میلی نظر سے نہ دیکھ سکے۔ حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر اس شعبہ میں ترقی کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہونگے تاکہ پاکستان ہر لحاظ سے ایک مضبوط دفاعی طاقت بن سکے کیونکہ آنے والے دور میں روایتی جنگوں کے بجائے سائبر وار ہی ہوں گیں۔
[poll id="610"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس