’’قومی ایام‘‘
کوشش کرنی چاہیے کہ عوام کا دن بھی بنایا جائے تاکہ اُن کو مالک ہونے کا احساس اور وطن کو ملکیت کا تصور پروان چڑھے۔
لاہور:
پاکستان میں تقریباً 8 قومی دن منائے جاتے ہیں اور تمام قوم کی دعا ہوتی کہ یہ ایام جمعہ یا پیر کو آیا کریں، وہ چھٹیاں لمبی ہوجائیں گی ناں۔ علاوہ ازیں، عیدیں الگ سے منائی جاتی ہیں، محرم اور عید میلادالنبیﷺ کی بھی چھٹیاں ملتی ہیں۔ کچھ صوبے صوبائی چھٹیاں بھی دے ڈالتے ہیں۔ علاوہ ازیں کچھ قومی رہنمائوں اور بانیانِ پاکستان کے یومِ پیدائش خاموشی سے گزرجاتے ہیں کیونکہ اس دن چھٹی نہیں ملتی ہے ناں! البتہ کچھ ایام ایسے بھی ہیں کہ جن کو چاہے جتنا بھی تنقید کا نشانہ بنا لیا جائے یہ پھر بھی منا لیے جاتے ہیں۔
ان میں سے اکثر ایام ہال مارک ڈیز کہلاتے ہیں، یعنی کہ پھول، کیک اور کارڈ بیچنے کے لئے بنائے گئے دن، مثلاً دوستی کا دن، امی کا دن، ابا کا دن اور جانو کا دن۔ ان ایام کو حکومت جلا نہیں بخشتی بلکہ ٹی وی چینلز دوام بخشتے ہیں۔ کرنا کچھ زیادہ نہیں پڑتا ہے، اس دن چینل اپنے ڈیجیٹل آن اسکرین گرافک یعنی کہ لوگو اور بریکنگ نیوز کی پٹیوں کو لال، گلابی کردیتے ہیں۔ مارننگ شو میں بھی اس دن کا خاص ذکر ہوتا ہے، نیوز بلیٹن میں باقاعدہ پیکج چلتا ہے، پرائم ٹائم والے شو میں بھی اس موضوع پر بات ہوتی ہے اور انٹرٹینمنٹ چینل پر بھی ایک آدھ ٹیلی فلم کھڑکا ڈالتے ہیں اور بس لگا دیا قوم کو دھندے سے۔
عموماً یہ اہتمام 14 اگست، 6 ستمبر، 23 مارچ، 5 فروری یومِ یکجہتیِ کشمیر، 9 نومبر یومِ اقبال اور 25 دسمبر یومِ پیدائشِ قائدِ اعظم کو ہی کئے جاتے تھے۔ پھر خصوصی ڈراموں کا موسم چلایا گیا اور اب سارا سال ''ری- ان- ایکٹمنٹ'' شوز اور بریکنگ نیوز سے ہی کام چل جاتا ہے۔ کس کو پڑی ہے میڈیا کا استعمال قوم کی تعمیر، ترقی اور تنوع کے لئے کیا جائے۔
وہ تو بھلا ہو وفاقی حکومت کا، جس نے پچھلے کچھ سالوں سے یومِ پاکستان، یومِ آزادی اور یومِ دفاع کو خوبصورت اور خصوصی انداز میں منانا شروع کیا گیا ہے۔ فوجی اور ثقافتی پریڈیں بھی شروع کر دی گئی ہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی کاوشیں، قوم کا مورال بلند کرتی ہیں۔ قوم جو کہ غربت سے بھی نبرد آزما ہے، ظلم و زیادتی بھی جھیل رہی ہے، دہشت گردی کی بھی شکار ہے لیکن پاکستان سے زندہ بھاگنے کی بجائے، پاکستان زندہ باد پر یقین رکھتی ہے۔
365 دنوں میں سے، قوم کو صرف 15 تا 20 دن ہی ملتے ہیں، جب یہ خوشیاں مناتی ہے۔ حالات سازگار ہوتے تو کیا ہی بات تھی، لیکن میرے خیال میں قوم کو ہر ماہ ایک یومِ تجدیدِ عہدِ وفا کی ضرورت ہے۔ ایک دن جو جمعیت و جامعیت کو جلا بخشے، ایک دن جو قوم کا اعتماد بحال کرے۔ کیونکہ اگر حکومت ایسا نہیں کرے گی تو ٹی وی چینلز اور ایف ایم سی جی کمپنیاں ضرور مواقع ڈھونڈ لائیں گیں۔ چینلز اور کمپنیاں مقابلے کے اصول پر چلتے ہیں، لیکن اگر ان کی سمت متعین نہ کی جائے تو یہ روزانہ بسنت منائیں گے، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس سے کتنی گردنیں کٹ سکتی ہیں اور ویلنٹائن ڈے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ کتنی دخترانِ ملت بھیڑیوں کی شہوت کا شکار بن سکتی ہیں۔
یہی کمپنیاں ماہِ رمضان میں ہمدردی اور یکدلی سے لبریز ہوجاتی ہیں اور 14 اگست پر دل پگھلانے والے ملّی نغمے نشر کرتی ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ حکومتِ وقت کو کم از کم 5 نئے دن تو متعارف کروانے ہی چاہئیں۔ ہم یومِ پاکستان مناتے ہیں، یومِ جمہوریہ (یومِ پاکستان دراصل یوم ِ جمہوریہ ہی تھا لیکن اب نہیں ہے) اور یومِ وفاق نہیں مناتے ہیں۔ حالانکہ منانے چاہئیں! جب تلک قوم کو جمہوریہ اور وفاق کا مطلب اور مقصد ہی سمجھ نہیں آئے گا، تب تلک قوم میں جمہوریت فروغ نہیں پائے گی۔ ایک عدد یومِ عوام بھی ہونا چاہیئے، اس دن عوام میں سے کسی کو منتخب کریں (نادرا ڈیٹا بیس سے قرعہ نکالیں)، پورا پروٹوکول دیں، ایک عام پاکستانی کو مزارِ قائد لائیں، ایک کو علامہ اقبال کے مزار لے جائیں، پھول چڑھوائیں۔ عوام کو مالک ہونے کا احساس اور وطن کو ملکیت کا تصور پروان چڑھائیں۔ ذاتی جاگیر اور خاندانی چوہدراہٹ کی بیخ کنی کریں۔ یومِ مئی تو عالمی دن ہے، یومِ ہاری و کسان بھی منائیں۔ جو اکثریت میں ہیں انہیں ان کی اہمیت کا یقین دلائیں۔
سندھ میں ٹوپی اجرک دن منایا جانے لگا ہے اور بلوچستان میں بلوچ یومِ ثقافت کا، پنجاب میں بسنت پہلے سے موجود ہے، یومِ خٹک کا بھی رواج پڑنا چاہیئے اور گلگت بلتستان کی نسبت سے نوروز بھی منانا چاہیئے۔ یہ ایام اگر سرکاری سطح پر منائے جائیں گے تو اخبارات، جرائد اور چینلز کو بھی ان کو اپنانا اور منانا پڑے گا اور اس قوم کو خود شناسی کا بھی موقع ملے گا۔ مزید یہ کہ ان ایام کو اتوار کو ہی منایا جائے۔ قوم کو چھٹیوں کی نہیں، خوشیوں کی اور حوصلے بلند کرنے کی ضرورت ہے اور یہ مواقع دفاتر اور اسکولوں میں بھی میّسر آسکتے ہیں۔ قومی ایام کے بعد، صوبائی ایام اور پھر شہری ایام پر کام کرنا چاہیئے۔ ہر شہر کی اپنی ایک منفرد اور مخصوص ثقافت ہوتی ہے اس کا چرچا ہونا چاہیئے!
آخری بات ہمیں 24 مئی کو یومِ انسانی ترقی ضرور منانا چاہیئے۔ آج سے 25 سال قبل اقوامِ متحدہ نے پہلی ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ اسی دن شائع کی تھی اور انسانی ترقی کا اشاریہ ڈاکٹر محبوب الحق نے تخلیق کیا تھا۔ ہمیں اس دن کو بطور جشن منانا چاہیئے اور دنیا کو بتانا چاہیئے کہ ہم اس دنیا کا بھلا چاہتے ہیں۔
[poll id="612"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
پاکستان میں تقریباً 8 قومی دن منائے جاتے ہیں اور تمام قوم کی دعا ہوتی کہ یہ ایام جمعہ یا پیر کو آیا کریں، وہ چھٹیاں لمبی ہوجائیں گی ناں۔ علاوہ ازیں، عیدیں الگ سے منائی جاتی ہیں، محرم اور عید میلادالنبیﷺ کی بھی چھٹیاں ملتی ہیں۔ کچھ صوبے صوبائی چھٹیاں بھی دے ڈالتے ہیں۔ علاوہ ازیں کچھ قومی رہنمائوں اور بانیانِ پاکستان کے یومِ پیدائش خاموشی سے گزرجاتے ہیں کیونکہ اس دن چھٹی نہیں ملتی ہے ناں! البتہ کچھ ایام ایسے بھی ہیں کہ جن کو چاہے جتنا بھی تنقید کا نشانہ بنا لیا جائے یہ پھر بھی منا لیے جاتے ہیں۔
ان میں سے اکثر ایام ہال مارک ڈیز کہلاتے ہیں، یعنی کہ پھول، کیک اور کارڈ بیچنے کے لئے بنائے گئے دن، مثلاً دوستی کا دن، امی کا دن، ابا کا دن اور جانو کا دن۔ ان ایام کو حکومت جلا نہیں بخشتی بلکہ ٹی وی چینلز دوام بخشتے ہیں۔ کرنا کچھ زیادہ نہیں پڑتا ہے، اس دن چینل اپنے ڈیجیٹل آن اسکرین گرافک یعنی کہ لوگو اور بریکنگ نیوز کی پٹیوں کو لال، گلابی کردیتے ہیں۔ مارننگ شو میں بھی اس دن کا خاص ذکر ہوتا ہے، نیوز بلیٹن میں باقاعدہ پیکج چلتا ہے، پرائم ٹائم والے شو میں بھی اس موضوع پر بات ہوتی ہے اور انٹرٹینمنٹ چینل پر بھی ایک آدھ ٹیلی فلم کھڑکا ڈالتے ہیں اور بس لگا دیا قوم کو دھندے سے۔
عموماً یہ اہتمام 14 اگست، 6 ستمبر، 23 مارچ، 5 فروری یومِ یکجہتیِ کشمیر، 9 نومبر یومِ اقبال اور 25 دسمبر یومِ پیدائشِ قائدِ اعظم کو ہی کئے جاتے تھے۔ پھر خصوصی ڈراموں کا موسم چلایا گیا اور اب سارا سال ''ری- ان- ایکٹمنٹ'' شوز اور بریکنگ نیوز سے ہی کام چل جاتا ہے۔ کس کو پڑی ہے میڈیا کا استعمال قوم کی تعمیر، ترقی اور تنوع کے لئے کیا جائے۔
وہ تو بھلا ہو وفاقی حکومت کا، جس نے پچھلے کچھ سالوں سے یومِ پاکستان، یومِ آزادی اور یومِ دفاع کو خوبصورت اور خصوصی انداز میں منانا شروع کیا گیا ہے۔ فوجی اور ثقافتی پریڈیں بھی شروع کر دی گئی ہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی کاوشیں، قوم کا مورال بلند کرتی ہیں۔ قوم جو کہ غربت سے بھی نبرد آزما ہے، ظلم و زیادتی بھی جھیل رہی ہے، دہشت گردی کی بھی شکار ہے لیکن پاکستان سے زندہ بھاگنے کی بجائے، پاکستان زندہ باد پر یقین رکھتی ہے۔
365 دنوں میں سے، قوم کو صرف 15 تا 20 دن ہی ملتے ہیں، جب یہ خوشیاں مناتی ہے۔ حالات سازگار ہوتے تو کیا ہی بات تھی، لیکن میرے خیال میں قوم کو ہر ماہ ایک یومِ تجدیدِ عہدِ وفا کی ضرورت ہے۔ ایک دن جو جمعیت و جامعیت کو جلا بخشے، ایک دن جو قوم کا اعتماد بحال کرے۔ کیونکہ اگر حکومت ایسا نہیں کرے گی تو ٹی وی چینلز اور ایف ایم سی جی کمپنیاں ضرور مواقع ڈھونڈ لائیں گیں۔ چینلز اور کمپنیاں مقابلے کے اصول پر چلتے ہیں، لیکن اگر ان کی سمت متعین نہ کی جائے تو یہ روزانہ بسنت منائیں گے، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس سے کتنی گردنیں کٹ سکتی ہیں اور ویلنٹائن ڈے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ کتنی دخترانِ ملت بھیڑیوں کی شہوت کا شکار بن سکتی ہیں۔
یہی کمپنیاں ماہِ رمضان میں ہمدردی اور یکدلی سے لبریز ہوجاتی ہیں اور 14 اگست پر دل پگھلانے والے ملّی نغمے نشر کرتی ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ حکومتِ وقت کو کم از کم 5 نئے دن تو متعارف کروانے ہی چاہئیں۔ ہم یومِ پاکستان مناتے ہیں، یومِ جمہوریہ (یومِ پاکستان دراصل یوم ِ جمہوریہ ہی تھا لیکن اب نہیں ہے) اور یومِ وفاق نہیں مناتے ہیں۔ حالانکہ منانے چاہئیں! جب تلک قوم کو جمہوریہ اور وفاق کا مطلب اور مقصد ہی سمجھ نہیں آئے گا، تب تلک قوم میں جمہوریت فروغ نہیں پائے گی۔ ایک عدد یومِ عوام بھی ہونا چاہیئے، اس دن عوام میں سے کسی کو منتخب کریں (نادرا ڈیٹا بیس سے قرعہ نکالیں)، پورا پروٹوکول دیں، ایک عام پاکستانی کو مزارِ قائد لائیں، ایک کو علامہ اقبال کے مزار لے جائیں، پھول چڑھوائیں۔ عوام کو مالک ہونے کا احساس اور وطن کو ملکیت کا تصور پروان چڑھائیں۔ ذاتی جاگیر اور خاندانی چوہدراہٹ کی بیخ کنی کریں۔ یومِ مئی تو عالمی دن ہے، یومِ ہاری و کسان بھی منائیں۔ جو اکثریت میں ہیں انہیں ان کی اہمیت کا یقین دلائیں۔
سندھ میں ٹوپی اجرک دن منایا جانے لگا ہے اور بلوچستان میں بلوچ یومِ ثقافت کا، پنجاب میں بسنت پہلے سے موجود ہے، یومِ خٹک کا بھی رواج پڑنا چاہیئے اور گلگت بلتستان کی نسبت سے نوروز بھی منانا چاہیئے۔ یہ ایام اگر سرکاری سطح پر منائے جائیں گے تو اخبارات، جرائد اور چینلز کو بھی ان کو اپنانا اور منانا پڑے گا اور اس قوم کو خود شناسی کا بھی موقع ملے گا۔ مزید یہ کہ ان ایام کو اتوار کو ہی منایا جائے۔ قوم کو چھٹیوں کی نہیں، خوشیوں کی اور حوصلے بلند کرنے کی ضرورت ہے اور یہ مواقع دفاتر اور اسکولوں میں بھی میّسر آسکتے ہیں۔ قومی ایام کے بعد، صوبائی ایام اور پھر شہری ایام پر کام کرنا چاہیئے۔ ہر شہر کی اپنی ایک منفرد اور مخصوص ثقافت ہوتی ہے اس کا چرچا ہونا چاہیئے!
آخری بات ہمیں 24 مئی کو یومِ انسانی ترقی ضرور منانا چاہیئے۔ آج سے 25 سال قبل اقوامِ متحدہ نے پہلی ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ اسی دن شائع کی تھی اور انسانی ترقی کا اشاریہ ڈاکٹر محبوب الحق نے تخلیق کیا تھا۔ ہمیں اس دن کو بطور جشن منانا چاہیئے اور دنیا کو بتانا چاہیئے کہ ہم اس دنیا کا بھلا چاہتے ہیں۔
[poll id="612"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس