تبدیلی کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ
سوچا کہ جب اخبارات اشتہارات اور اعداد و شمارات کہہ رہے ہیں تو سچ ہی کہہ رہے ہوں گے
یہ تو ہمیں معلوم ہے بلکہ آپ کو بھی پتہ ہو گا کہ یہ دنیا ایک حیرت کدہ ہے اور بزرگوں نے بھی کہا ہے کہ ہر نئے دن کے ساتھ کچھ نہ کچھ ''نیا'' ہوتا رہتا ہے ... لیکن اتنا بڑا ''حیرت کدہ'' ہو گا یہ ہم تو کیا بزرگ بھی نہیں جانتے تھے اور پھر خاص طور پر جب سے ہمارے پیارے پیارے صوبے کے پی کے یعنی خیر پخیر میں پی ٹی آئی اینڈ کمپنی بلکہ گروپ آف کمپنیز نے زمام اقتدار بلکہ زمام انصاف سنبھالا ہے تب سے تو ہر صبح فتح ۔۔۔ ہر شام فتح، ہے صحت کا پیغام فتح ۔۔۔ وہ تو اچھا ہے کہ ہمارے اعصاب ذرا قابو میں ہیں اور بہت جلد اپنی آنکھوں پر دونوں ہاتھ رکھ لیتے ہیں ورنہ حیرت کے مارے آنکھوں کے ڈیلے کب کے گر چکے ہوتے اور نہ جانے کس گلی میں بچے بالک اس سے گوٹیاں کھیل رہے ہوتے، کل بھی اچانک پہلے ایک خبر بلکہ بیان پڑھ کر پہلے ہماری آنکھیں کھلیں اور پھر کھلتی چلی گئیں قریب قریب پھٹ کر ''گوٹیاں'' نکلنے ہی والی تھیں کہ ہم نے دونوں ہتھیلیوں کو جما کر روک لیا
میں نے روکا رات غالب کو وگرنہ دیکھتے
اس کے سیل گریہ میں گردوں کف سیلاب تھا
وہ مختلف محکموں کی طرف سے روزانہ جمبو قسم کے اشتہارات میں تو ایک جہان حیرت پہلے سے چل رہا تھا' بدل رہا ہے خیبر پختون خوا ... بدل رہا ہے خیبر پختون خوا، بدل رہا ہے خبر پختون خوا اور اس میں ٹائٹل کے نیچے حیرت کے جو چھوٹے چھوٹے حیرت کدے اعداد و شمار کی صورت میں ہوتے ہیں ان پر اب ہم نے حیران ہونا چھوڑ ہی دیا ہے کیوں کہ
پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
سوچا کہ جب اخبارات اشتہارات اور اعداد و شمارات کہہ رہے ہیں تو سچ ہی کہہ رہے ہوں گے اب کون یہ پتہ لگاتا پھرے کہ صوبے میں کیا کیا ختم ہو رہا ہے اور کیا کیا پیدا ہو رہا ہے، محکمہ صحت نے کتنے مردوں کو جینے سے بچایا، محکمہ تعلیم نے کتنے ڈگری ہولڈروں کو اپنی ڈگریاں پھاڑ کر لٹریسی کو زندہ باد کیا، امن و امان نے جرائم اور فساد کا کیسا کیسا اور کتنا کتنا کچومر نکال دیا، قانون نافذ کرنے والوں نے کتنی سڑکوں پر کانٹا تار اور سیمنٹ کی سلیں نافذ کیں، محکمہ حیوانات نے کتنے لاکھ جانوروں کو حج کرائے اور محکمہ تعمیرات نے کتنے تاج محل کھڑے کر لیے کیوں کہ یہاں تو
دل نے اک اینٹ پہ تعمیر کیا تاج محل
تم نے اک بات کہی لاکھ فسانے نکلے
مطلب یہ کہ وہ عام روٹین کے ''حیرت کدے'' تو اب ہمارا روز کا کام ہو گیا تھا اور ہمیں پکا پکا یقین ہو گیا کہ اخبارات، اشتہارات اور اعداد و شمارات بالکل سچ کہہ رہے ہوں گے اور سچ کے سوا اور کچھ بھی نہیں کہہ رہے ہوں گے کہ ''بدل رہا ہے خیبر پختون خوا'' جب اتنے لوگ کہہ رہے ہیں اتنے زور و شور سے کہہ رہے ہیں تو یقیناً بدل رہا ہو گا ۔۔۔۔ لیکن ساری گڑ بڑ ''بدل رہا ہے'' سے پیدا ہو گئی، مطلب یہ کہ ہم تو ''ٹو پروگریس'' سمجھ رہے تھے اور ادھر سب کچھ ہو بھی چکا تھا جس تبدیلی کے استقبال کے ہم یہاں وہاں پھول کلیاں جمع کر کے ہار پرو رہے تھے کھجور کی ٹہنیاں اور چمک دار کپڑے جمع کر رہے تھے وہ آ بھی چکی ہے۔
لگا نا ۔۔۔ آپ کو بھی جھٹکا ۔۔۔ ایسا ہی جھٹکا ہمیں بھی لگا جب ہمیں یہ اطلاع ملی کہ تبدیلی آچکی ہے اور ذریعہ بھی نہایت وثوق دار ہے، دیر میں پی ٹی آئی کے بالکل نئے نویلے آرگنائزر جناب ملک فخر حیات نے ایک پرہجوم اور میڈیائی کانفرنس میں یہ خبر سنائی ہے کہ خیبر پختون خوا میں تبدیلی آچکی ہے اور اب اس کا رخ باقی پاکستان کی طرف ہے کیوں کہ سارے ملک کی نگاہیں بنی گالہ اور جناب عمران خان پر لگی ہوئی ہیں
حضر سلطاں کو رکھے خالق اکبر سرسبز
شاہ کے باغ میں یہ تازہ نہال اچھا ہے
جہاں تک پورے یا باقی ماندہ پاکستان کی آنکھوں کا تعلق ہے ان کے بارے میں ہم کچھ زیادہ وثوق سے نہیں کہہ سکتے کیوں کہ یہ پیدائشی طور پر کچھ ''بھینگی'' سی ہیں اس لیے کوئی پتہ نہیں چلتا کہ کس طرف لگی ہوئی ہیں اور کس طرف واقعی لگی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں کیوں کہ بہت پہلے ہی ان آنکھوں کے بارے میں ایک سالکہ آشا بھونسلے نے کہا تھا کہ ''کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ'' بلکہ ایک اور سالک یا سالکہ نے کہا تھا کہ یہ بڑی دغا باز آنکھیں ہیں۔
تاکتی کسی کو ہیں، دیکھتی کسی کو ہیں وعدے وعید کسی سے کرتی ہیں اور ہوتی کسی اور کی ہیں جب کہ شادی کسی دور کے کسی اور سے کر لیتی ہیں، لیکن پھر بھی اگر یہ آنکھیں جو خیبر پختون خوا کو چھوڑ کر باقی تین مویوں کی بتائی جاتی ہیں بنی گالہ اور عمران خان پر لگی ہوئی ہوں تو ہوں گی ہمیں تو اس تبدیلی کا رونا رونا ہے جس کے لیے ہم اٹک پل پر ہار لیے کھڑے ہیں اور وہ ادھر نہ جانے کس راستے اور روٹ سے آ بھی چکی ہے، ویسے تو ہمیں بہت سخت گلہ ہے کہ ہمارے ساتھ اچھا نہیں ہوا ہم تو اخباروں اشتہاروں اور اعداد و شماروں پر بھروسہ کر کے خیر مقدم کے لیے کھڑے تھے اور
ہم تھے مرنے کو کھڑے پاس نہ آیا نہ سہی
آخر اس شوخ کی ترکش میں کوئی تیر بھی تھا
ہمارے ذہن میں روٹ کی اس تبدیلی کی صرف ایک ہی وجہ آسکتی ہے اور وہ یہ کہ شاید اٹک کے معروف راستے پر وایا نوشہرہ آنے میں کسی خطرے کی ''بو'' ہو گی کیوں کہ ''تبدیلی'' کے بہت سارے دشمن بھی بیان کیے جاتے ہیں کیا پتہ وایا نوشہرہ روٹ پر کہیں تخریب کاری کا کوئی منصوبہ کسی نے بنایا ہو، چنانچہ متبادل راستہ صرف ہزارہ وایا صوابی ٹو دیر بالا ہو سکتا ہے کیوں کہ ہزارہ میں بھی محفوظ ہاتھ بڑے مضبوط ہیں، پھر صوابی میں بھی حکومت کے دوسرے شیئر ہولڈر عوامی اتحاد کا بول بالا ہے بلکہ اس کا طوطی، مینا، کوا، بٹیر سب بولتے ہیں اور دیر بالا تو ظاہر ہے کہ ایک اور شیئر ہولڈر کی حفاظت میں ہے چنانچہ خلاف توقع تبدیلی وہاں پراسرار طور پر پہنچ گئی ہو گی۔
جس کی اطلاع جناب ملک فخر حیات نے میڈیا اور عوام دونوں کو دے ڈالی جو پی ٹی آئی کے نئے آرگنائزر بتائے جاتے ہیں اگرچہ یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ منتخب آرگنائزر ہے یا مقررہ کردہ کیوں کہ اس میں بھی بہت فرق ہوتا ہے، منتخب آرگنائزر کا کوئی خاص بھروسہ نہیں کیا جا سکتا لیکن مقررہ کردہ لوگوں کی بڑی ویلیو ہوتی ہے خیر ہمیں تو صرف ''تبدیلی'' سے غرض ہے یعنی وہ جو پشتو میں کہا جاتا ہے کہ ''اخوندلہ خودے پئی وی کہ د خر وی کہ سپئی وی'' اس جملے کا پورا ترجمہ تو ممکن نہیں ہے لیکن اتنا مفہوم بتا سکتے ہیں ۔۔۔ کہ اخوند کو تو دودھ چاہیے گائے کا ہو یا ڈبے کا، ہمیں تو تبدیلی سے غرض ہے چاہے وہ کسی بھی راستے سے آئے اور یہ بات پایہ تصدیق کو پہنچ چکی ہے کہ وہ اخباروں، اشتہاروں اور اعداد و شماروں میں جس کی آمد کے چرچے تھے وہ فصل گل آ بھی چکی
ہر سمت پریشاں تری آمد کے قرینے
دھوکے ہمیں کیا کیا دیے اس ''مشتہری'' نے
توقع تو یہ ہے کہ جب پہنچ چکی ہے تو تھکن وغیرہ اتارنے کے بعد اس طرف کا رخ بھی کرے گی اور ہمارے خرابے کو بھی اپنے قدوم منیمت لزوم سے شرفیاب کرے گی کیوں کہ ہم بھی ایک عرصے سے فراقیہ گانے گا رہے تھے کہ
نسیما جانب بنی گالہ گزر کن
بگو آں نازنیں شمشاد مارا
بہ تشریف قدوم خود زمانے
مشرف کن خراب آباد مارا
میں نے روکا رات غالب کو وگرنہ دیکھتے
اس کے سیل گریہ میں گردوں کف سیلاب تھا
وہ مختلف محکموں کی طرف سے روزانہ جمبو قسم کے اشتہارات میں تو ایک جہان حیرت پہلے سے چل رہا تھا' بدل رہا ہے خیبر پختون خوا ... بدل رہا ہے خیبر پختون خوا، بدل رہا ہے خبر پختون خوا اور اس میں ٹائٹل کے نیچے حیرت کے جو چھوٹے چھوٹے حیرت کدے اعداد و شمار کی صورت میں ہوتے ہیں ان پر اب ہم نے حیران ہونا چھوڑ ہی دیا ہے کیوں کہ
پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
سوچا کہ جب اخبارات اشتہارات اور اعداد و شمارات کہہ رہے ہیں تو سچ ہی کہہ رہے ہوں گے اب کون یہ پتہ لگاتا پھرے کہ صوبے میں کیا کیا ختم ہو رہا ہے اور کیا کیا پیدا ہو رہا ہے، محکمہ صحت نے کتنے مردوں کو جینے سے بچایا، محکمہ تعلیم نے کتنے ڈگری ہولڈروں کو اپنی ڈگریاں پھاڑ کر لٹریسی کو زندہ باد کیا، امن و امان نے جرائم اور فساد کا کیسا کیسا اور کتنا کتنا کچومر نکال دیا، قانون نافذ کرنے والوں نے کتنی سڑکوں پر کانٹا تار اور سیمنٹ کی سلیں نافذ کیں، محکمہ حیوانات نے کتنے لاکھ جانوروں کو حج کرائے اور محکمہ تعمیرات نے کتنے تاج محل کھڑے کر لیے کیوں کہ یہاں تو
دل نے اک اینٹ پہ تعمیر کیا تاج محل
تم نے اک بات کہی لاکھ فسانے نکلے
مطلب یہ کہ وہ عام روٹین کے ''حیرت کدے'' تو اب ہمارا روز کا کام ہو گیا تھا اور ہمیں پکا پکا یقین ہو گیا کہ اخبارات، اشتہارات اور اعداد و شمارات بالکل سچ کہہ رہے ہوں گے اور سچ کے سوا اور کچھ بھی نہیں کہہ رہے ہوں گے کہ ''بدل رہا ہے خیبر پختون خوا'' جب اتنے لوگ کہہ رہے ہیں اتنے زور و شور سے کہہ رہے ہیں تو یقیناً بدل رہا ہو گا ۔۔۔۔ لیکن ساری گڑ بڑ ''بدل رہا ہے'' سے پیدا ہو گئی، مطلب یہ کہ ہم تو ''ٹو پروگریس'' سمجھ رہے تھے اور ادھر سب کچھ ہو بھی چکا تھا جس تبدیلی کے استقبال کے ہم یہاں وہاں پھول کلیاں جمع کر کے ہار پرو رہے تھے کھجور کی ٹہنیاں اور چمک دار کپڑے جمع کر رہے تھے وہ آ بھی چکی ہے۔
لگا نا ۔۔۔ آپ کو بھی جھٹکا ۔۔۔ ایسا ہی جھٹکا ہمیں بھی لگا جب ہمیں یہ اطلاع ملی کہ تبدیلی آچکی ہے اور ذریعہ بھی نہایت وثوق دار ہے، دیر میں پی ٹی آئی کے بالکل نئے نویلے آرگنائزر جناب ملک فخر حیات نے ایک پرہجوم اور میڈیائی کانفرنس میں یہ خبر سنائی ہے کہ خیبر پختون خوا میں تبدیلی آچکی ہے اور اب اس کا رخ باقی پاکستان کی طرف ہے کیوں کہ سارے ملک کی نگاہیں بنی گالہ اور جناب عمران خان پر لگی ہوئی ہیں
حضر سلطاں کو رکھے خالق اکبر سرسبز
شاہ کے باغ میں یہ تازہ نہال اچھا ہے
جہاں تک پورے یا باقی ماندہ پاکستان کی آنکھوں کا تعلق ہے ان کے بارے میں ہم کچھ زیادہ وثوق سے نہیں کہہ سکتے کیوں کہ یہ پیدائشی طور پر کچھ ''بھینگی'' سی ہیں اس لیے کوئی پتہ نہیں چلتا کہ کس طرف لگی ہوئی ہیں اور کس طرف واقعی لگی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں کیوں کہ بہت پہلے ہی ان آنکھوں کے بارے میں ایک سالکہ آشا بھونسلے نے کہا تھا کہ ''کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ'' بلکہ ایک اور سالک یا سالکہ نے کہا تھا کہ یہ بڑی دغا باز آنکھیں ہیں۔
تاکتی کسی کو ہیں، دیکھتی کسی کو ہیں وعدے وعید کسی سے کرتی ہیں اور ہوتی کسی اور کی ہیں جب کہ شادی کسی دور کے کسی اور سے کر لیتی ہیں، لیکن پھر بھی اگر یہ آنکھیں جو خیبر پختون خوا کو چھوڑ کر باقی تین مویوں کی بتائی جاتی ہیں بنی گالہ اور عمران خان پر لگی ہوئی ہوں تو ہوں گی ہمیں تو اس تبدیلی کا رونا رونا ہے جس کے لیے ہم اٹک پل پر ہار لیے کھڑے ہیں اور وہ ادھر نہ جانے کس راستے اور روٹ سے آ بھی چکی ہے، ویسے تو ہمیں بہت سخت گلہ ہے کہ ہمارے ساتھ اچھا نہیں ہوا ہم تو اخباروں اشتہاروں اور اعداد و شماروں پر بھروسہ کر کے خیر مقدم کے لیے کھڑے تھے اور
ہم تھے مرنے کو کھڑے پاس نہ آیا نہ سہی
آخر اس شوخ کی ترکش میں کوئی تیر بھی تھا
ہمارے ذہن میں روٹ کی اس تبدیلی کی صرف ایک ہی وجہ آسکتی ہے اور وہ یہ کہ شاید اٹک کے معروف راستے پر وایا نوشہرہ آنے میں کسی خطرے کی ''بو'' ہو گی کیوں کہ ''تبدیلی'' کے بہت سارے دشمن بھی بیان کیے جاتے ہیں کیا پتہ وایا نوشہرہ روٹ پر کہیں تخریب کاری کا کوئی منصوبہ کسی نے بنایا ہو، چنانچہ متبادل راستہ صرف ہزارہ وایا صوابی ٹو دیر بالا ہو سکتا ہے کیوں کہ ہزارہ میں بھی محفوظ ہاتھ بڑے مضبوط ہیں، پھر صوابی میں بھی حکومت کے دوسرے شیئر ہولڈر عوامی اتحاد کا بول بالا ہے بلکہ اس کا طوطی، مینا، کوا، بٹیر سب بولتے ہیں اور دیر بالا تو ظاہر ہے کہ ایک اور شیئر ہولڈر کی حفاظت میں ہے چنانچہ خلاف توقع تبدیلی وہاں پراسرار طور پر پہنچ گئی ہو گی۔
جس کی اطلاع جناب ملک فخر حیات نے میڈیا اور عوام دونوں کو دے ڈالی جو پی ٹی آئی کے نئے آرگنائزر بتائے جاتے ہیں اگرچہ یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ منتخب آرگنائزر ہے یا مقررہ کردہ کیوں کہ اس میں بھی بہت فرق ہوتا ہے، منتخب آرگنائزر کا کوئی خاص بھروسہ نہیں کیا جا سکتا لیکن مقررہ کردہ لوگوں کی بڑی ویلیو ہوتی ہے خیر ہمیں تو صرف ''تبدیلی'' سے غرض ہے یعنی وہ جو پشتو میں کہا جاتا ہے کہ ''اخوندلہ خودے پئی وی کہ د خر وی کہ سپئی وی'' اس جملے کا پورا ترجمہ تو ممکن نہیں ہے لیکن اتنا مفہوم بتا سکتے ہیں ۔۔۔ کہ اخوند کو تو دودھ چاہیے گائے کا ہو یا ڈبے کا، ہمیں تو تبدیلی سے غرض ہے چاہے وہ کسی بھی راستے سے آئے اور یہ بات پایہ تصدیق کو پہنچ چکی ہے کہ وہ اخباروں، اشتہاروں اور اعداد و شماروں میں جس کی آمد کے چرچے تھے وہ فصل گل آ بھی چکی
ہر سمت پریشاں تری آمد کے قرینے
دھوکے ہمیں کیا کیا دیے اس ''مشتہری'' نے
توقع تو یہ ہے کہ جب پہنچ چکی ہے تو تھکن وغیرہ اتارنے کے بعد اس طرف کا رخ بھی کرے گی اور ہمارے خرابے کو بھی اپنے قدوم منیمت لزوم سے شرفیاب کرے گی کیوں کہ ہم بھی ایک عرصے سے فراقیہ گانے گا رہے تھے کہ
نسیما جانب بنی گالہ گزر کن
بگو آں نازنیں شمشاد مارا
بہ تشریف قدوم خود زمانے
مشرف کن خراب آباد مارا