بلوچستان لوک کہانیوں کے تناظر میں

پانی جیسی حیات بخش شے بھی ایک ہی جگہ جامد ہو جائے تو زندگی مار ہو جاتی ہے

khanabadosh81@gmail.com

ISLAMABAD:
کیا بلوچستان میں سیاست کے سوا اور کچھ نہیں؟... کتنا اچھا سوال ہے گو کہ سماجی حرکیات کا کوئی بھی عنصر 'غیر سیاسی' نہیں ہوتا۔ مگر ایسے کئی موضوعات ہیں جن پر براہِ راست سیاسی تعلق کے بنا بھی بات ہو سکتی ہے۔ سو' اچھا لگتا ہے کہ جب بھی معمول سے ہٹ کر کچھ لکھنے کا، بولنے کا، کرنے کا موقع ملے۔ معمولات یوں بھی جوہڑ کی طرح ہوتے ہیں۔

پانی جیسی حیات بخش شے بھی ایک ہی جگہ جامد ہو جائے تو زندگی مار ہو جاتی ہے اور بالخصوص جب پروین شاکر کے بہ قول 'حالاتِ حاضرہ کو برسوں ہو گئے' ہوں ، نیز انھیں بدلنے پہ قادر قوتیں کسی قسم کی تبدیلی کی روادار نہ ہوں (طاقتور بھلا کب تبدیلی چاہتا ہے)، تب بہتری اسی میں ہے کہ معمول سے ہٹ کر بات کی جائے۔ کہانیوں کا تو منبع ہے یہ وطن ۔ قدم قدم پہ بکھرے پڑے ہیں قصے۔ ہمارے صرف ایک قلمکار نے سو ناول لکھ ڈالے ہیں بلوچی میں۔ یہ لوک کہانیاں ہماری لوک دانش کا زبردست مرقع ہیں۔ قابلِ فخر قومی اثاثہ ہیں یہ۔ تو آیئے خانہ بدوش کے دیس کو آج اسی لوک دانش کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔

لوک کہانیوں کی ایک اچھی بات یہ ہے کہ ان کے مصنفین نامعلوم ہیں۔ یہ سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی داستانیں ہیں۔ یوں گویا یہ پوری نسلِ انسانی کا اثاثہ ہیں۔ آج کی 'چوپال' کے لیے جو دو مختصر کہانیاں میں نے منتخب کی ہیں جو ہمارے اوائلی سماج میں خواتین کے قابلِ رشک مقام کی نشان دہی کرتی ہیں۔ ''ایک بادشاہ نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ مجھے ہر چیز کا بیج لا کر دو ۔ وزیر گھر آیا اور پریشان ہو کر بیٹھ گیا ۔

اس کی بیٹی نے سبب پوچھا باپ نے کہا بادشاہ نے حکم دیا ہے، صبح سورج نکلنے تک مجھے ہر چیز کا بیج لا کر دو۔ بیٹی نے کہا، آپ پریشان نہ ہوں، صبح ہوتے ہی میں بیج آپ کو لا کر دوں گی وزیر دل میں بہت پریشان تھا جیسے تیسے کر کے رات کٹ گئی تو صبح سویرے بیٹی نے ایک برتن میں پانی ڈال کر باپ کو دے دیا اور کہا کہ اسے بادشاہ کے سامنے پیش کرے۔ وزیر اسے لے کر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا، جناب بیج یہی ہے۔ بادشاہ اس کی دانائی سے بہت خوش ہوا۔

'عورت کی عقل اس کی ایڑی میں ہوتی ہے' جیسے دقیانوسی محاورے گئے بھاڑ میں۔ عورت کی عقل زندہ باد، دانا مردوں کو جنم دینے والی عورت زندہ باد۔......آئیے اب دوسری اور میری پسندیدہ ترین کہانیوں میں سے ایک، پڑھتے ہیں؛

''چار لوگ سفر پہ نکلے۔ ان میں سے ایک بڑھئی تھا، دوسرا درزی، تیسرا سنار اور چوتھا ایک درویش۔ راستے میں انھیں رات پڑ گئی۔ لٹیروں کا خدشہ تھا۔ اس لیے طے یہ پایا کہ رات کے ایک ایک پہر تک ایک شخص پہرہ دے گا اور تین سوئیں گے۔ اس طرح سب آرام بھی کر لیں گے اور محفوظ بھی رہیں گے۔ پہلے پہر بڑھئی کی باری آئی۔ بڑھی نے سوچا کہ رات کٹتی نہیں، کوئی کام کرنا چاہیے۔ اس نے اپنے اوزار لیے اور ایک درخت کی لکڑی سے عورت کا بُت بنانا شروع کیا۔ بہت خوب صورت طریقے سے اس نے درخت کے تنے کو بُت میں بدل دیا اور یوں اس کے پہرے کا وقت پورا ہو گیا۔


اس کے بعد درزی کی باری آئی۔ درزی نے باہر آ کر دیکھا کہ کسی آدمی کا بُت بنا ہوا ہے۔ اس نے سوچا کیوں نہ اس کے لیے کپڑے سی لوں اور پہناؤں، یوں وقت بھی کٹ جائے گا۔ اس طرح اس نے کپڑے سی کر پہنائے اور اس کی چوکیداری کا وقت ختم ہو گیا۔ اس کے بعد سُنار کی باری آئی۔ اُس نے جو بت دیکھا تو سوچا کیوں نہ اس کے لیے زیور بنائے جائیں۔ اس نے زیور بنائے اور بُت کو پہنائے۔ اس کے بعد درویش کی باری آئی۔ اس نے جو ایک خوبصورت عورت کا بت دیکھا تو سوچا کاش کہ اس میں جان ہوتی۔ یہ سوچ کر اس نے عبادت شروع کی اور دُعا مانگی کہ اے اللہ، میری ساری عمر کی عبادت کے بدلے اس بُت میں جان ڈال دے۔ دریش کی دعا پوری ہوئی، اور بُت میں جان آ گئی ۔

اتنے میں صبح ہو گئی۔ اب یہ چاروں آپس میں لڑنے لگے۔ ہر ایک کا دعویٰ تھا کہ یہ عورت میری ہے۔ جھگڑا بڑھ گیا تو انھوں نے طے کیا کہ علاقے کے قاضی کے پاس جاتے ہیں اور اس سے انصاف کی درخواست کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنا مقدمہ قاضی کے پاس لائے اور درخواست کی آپ فیصلہ کریں کہ یہ عورت کس کی ہے۔

قاضی نے تمام قصہ سننے کے بعد غور و تفکر کیا اور پھر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہنے لگا، یہ عورت درویش کی تو نہیں ہو سکتی کیوں کہ درویش نے دعائے نیک کی' جیسے کوئی بھی بیمار ہو جائے، تواسے درویش کے پاس لے جاتے ہیں اور وہ اس کی تندرستی کے لیے دعا کرتا ہے۔ تو یہ ایسے ہے جیسے کسی طبیب کے پاس لے جایا جانے والا مریض اس کے علاج سے تندرست ہو جائے تو طبیب دعویٰ کرے کہ اب یہ میرا ہے۔

ظاہر ہے ایسا نہیں ہو سکتا۔ ترکھان نے اپنی ہنر مندی دکھائی اور تعریف کی صورت میں اس کا صلہ پایا۔ فنکار کے فن کا صلہ داد ہی ہے، تو ہم اس کے فن کی داد دیتے ہیں۔ سُنار نے تو محض اس کے حسن کی تراش کے لیے زیور پہنائے، وہ چاہے تو اپنے زیور واپس لے سکتا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیوں کہ حسن زیور کا محتاج نہیں۔ رہ گیا درزی، جس نے کپڑے پہنائے اور بازی لے گیا۔ وہ دلہا ہو گا، کیونکہ اس نے دلہن کو کپڑے پہنائے ہیں۔ عورت اس کی ہو گی، جس نے اسے کپڑے پہنائے۔''

ایک منٹ رکیے... میری گزارش ہے کہ آخری فقرہ کم از کم تین مرتبہ پڑھنے کے بعد آگے بڑھیں اور اب بتائیں کہ عورتوں کے حقوق کے نام پر پنج ستارہ ہوٹلوں میں ہونے والی کتنی کانفرنسوں، فیمیزم کے کتنے نعروں، دعوؤں اور واعظوں پہ بھاری ہے یہ ایک فقرہ۔ میرے دعوے پہ تعلیٰ کا ذرا سا بھی شائبہ ہو، تو ایک مرتبہ پھر فقرے سے رجوع کیجیے، الفاظ کے روایتی مفہوم پہ مت جائیے۔

اس کی روح میں اتر کر دیکھیں، یہ آپ کو سرشارنہ کر دے تو آپ کی بد دعائیں، میرا مقدر۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جو شخص دن میں ایک بار روزانہ اس فقرے کا ورد کرتا رہا، عورت کی تعظیم اس کی سرشت کا حصہ بن جائے گی، وہ پورا انسان بن جائے گا۔ اور یہی ہماری فوک دانش کا بنیادی وصف ہے؛ یہ ہمیں 'نیم' نہیں رہنے دیتی (نہ نیم ملا، نہ نیم حکیم، نہ نیم باغی، نہ نیم غدار...) یہ ہمیں 'مکمل' کر دیتی ہے۔ بلوچستان، ہمیں مکمل انسان بناتا ہے۔

شرط یہ ہے کہ اسے بھی مکمل قبول کیا جائے، محض اپنی مرضی کا حصہ لے کر، اپنی من چاہی تشریح نہ کی جائے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ ہم پھر سیاست کی جان لوٹ رہے ہیں تو نشست یہیں تمام کرتے ہیں؛ آپ ایک بار پھر کہانیاں پڑھ لیں۔ یہ آپ کو وقت کے زیاں کا ہرگز احساس نہ ہونے دیں گی۔
Load Next Story