میرا جی بھٹکا ہوا راہی

اس نے کبھی پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا کیونکہ اس کی کسی سے جان پہچان نہ تھی۔

سلطان عمران

میرا جی ایک بھٹکا ہوا راہی تھا۔ عمر بھر وہ اپنی انا کی داخلی اوگھٹ گھاٹیوں میں سنگلاخ پگڈنڈیوں کی خاک چھانتا رہا۔

اس کی کوئی منزل نہ تھی۔ اس کو صرف چلتے رہنے سے کام تھا۔ اس کی کمر جھکی ہوئی تھی۔ اس کے پیر سوجے ہوئے تھے۔ اس نے کسی سے راستہ نہ پوچھا۔ اس نے کبھی پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ کیونکہ اس کی کسی سے جان پہچان نہ تھی۔ بغلوں میں ہاتھ دبائے' سرجھکائے ان دیکھی ان سنی پراسرار گھاٹیوں میں گھومتے گھومتے ایک دن وہ ایک سونی پگڈنڈی پر گر کر مرگیا۔ اس کو زندگی سے جو کچھ لینا تھا لے چکا تھا۔ زندگی اس کے لیے اب بے لذت شے ہوچکی تھی۔ جینا بے کار ہوچکا تھا۔ اس کی ہتھیلی سے تیسرا گولا غائب ہوچکا تھا۔اس کی مٹھی کی گرفت ڈھیلی پڑچکی تھی۔

میں نے میراجی کے ساتھ کچھ عرصہ گزارا ہے۔ لیکن میں نے اس کی زندگی میں شرکت نہیں کی کیونکہ اس کی زندگی اس کی اپنی انا سے اس قدر لدی ہوئی تھی کہ کسی کی شرکت کی گنجائش ہی نہ رہی تھی۔ میں نے میرا جی کو اس کے آخری دنوں میں بمبئی میں دیکھا جب وہ کرشن چندر کے مکان میں رہتا تھا۔ یہ 1947ء کے اوائل کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں ہندوستان کے بیشتر لکھنے والے بمبئی پہنچ چکے تھے۔ بمبئی پہنچتے ہی یہ لوگ کرشن چندر کے گھر کا رخ کرتے کیونکہ بمبئی میں مکانوں کی بہت قلت تھی۔ زیادہ تر ادیب تو کرایہ ادھار لے کر بمبئی پہنچتے تھے اور اس لیے بھی کہ کرشن چندر کے مکان نے خیراتی سرائے کی سی شہرت اختیار کرلی تھی۔

جس زمانے کا میں ذکر کر رہا ہوں اس زمانے میں کرشن چندر کے یہاں آٹھ دس مشٹنڈوں کا مستقل ڈیرا تھا اور کچھ لوگ مستقل آتے رہتے تھے۔ یہ سرائے وکٹوریہ ٹرمنس سے سترہ اسٹیشن دور اندھیری کے ساحل پر واقع تھی۔ اس میں تاڑ اور ناریل کے ہرے بھرے جھنڈ تھے، آم اور چیکو کے پیڑ تھے' جنگلی پھولوں کی جھاڑیاں تھیں۔ یہاں بہار رت میں کوئل کوکتی اور طوطے شور مچاتے۔ پاکستان بننے کے بعد میں بمبئی نہیں گیا۔ کوور لاج کے متعلق مجھے کوئی نئی خبر نہیں ملی لیکن مجھے یقین ہے کہ وہاں اب بھی وہی نقشہ ہے۔ کورو لاج کی ریت ہی ایسی ہے۔ خانہ خرابوں نے اس کا رستہ دیکھ لیا ہے اور گھروالوں کو کھٹ بڑھئی کی ٹھک ٹھک کی عادت ہوچکی ہے اور مشٹنڈے افسانہ نویس' شاعر' فلمی ایکسٹرا' گویے' مزدور لیڈر اور ناکام فلم ڈائریکٹر وہاں آتے جاتے رہتے ہیں۔

کوورلاج کی نچلی منزل میں تین کمرے ہیں۔ کمرے کیا ہیں بڑے بڑے ہال ہیں۔ اس زمانے میں ان ہالوں میں بڑا سناٹا تھا۔ کرشن چندر رات دن کام میں مصروف رہتا تھا۔ اس کی بیوی کو سب کچھ برداشت کرلینے کی عادت ہوچکی تھی۔ اس کی پیاری پیاری بچیاں اسکول سے آکر بھی گھر آئی ہوئی معلوم نہیں ہوتی تھیں۔ کرشن چندر کا دوست اور بھائی مہندر وہیں رہتا تھا مگر اس کا سارا وقت دوسری منزل میں کٹتا تھا۔ کرشن کی چھوٹی بہن سرلا چپ چاپ گھر میں بیٹھی ہندی میں افسانے لکھ لکھ کے اردو میں ترجمہ کیا کرتی تھی۔ ان کمروں میں سے کوئی آواز نہیں آتی تھی۔


ایک سناٹا چھایا رہتا تھا مگر اس سناٹے سے خوف نہیں آتا تھا بلکہ عجیب طرح کے تقدس کا احساس ہوتا تھا۔ کوور لاج کی دوسری منزل تعمیر کے اعتبار سے پہلی منزل جیسی تھی۔ اس میں بھی وہی تین ہال تھے بالکل اسی وسعت اور کشادگی کے مگر ان میں ہر وقت یوں شور و شغب رہتا تھا جیسے کوئی آبشار گر رہا ہو۔ فرش لکڑی کا تھا۔ نچلی منزل والوں کو اوپر والوں کے ایک ایک قدم کا احساس ہوتا رہتا۔ ان ہالوں میں وشواستر عادل' ممتاز مفتی، ساحر لدھیانوی' کرشن چندر کی کمپنی کے تین ایکسٹرا ایکٹر آتے جاتے اور ٹھہرتے تھے۔ لیکن میرا جی کی وہاں مستقل سکونت تھی۔

مفتی اور میں لاہور سے سیدھے کوور لاج پہنچے تھے۔کرشن چندر ناشتے کی میز پر تھا۔ چھوٹی سی پتائی تھی جس پر چائے کے برتن' کچھ پراٹھے اور انڈے رکھے تھے۔ کرسیوں پر کشن کے بیوی بچے' مہندر اور میرا جی بیٹھے تھے۔ رسمی گفتگو کے بعد ہم دوسری منزل میں چلے گئے جہاں ہمیں آیندہ کئی مہینے گزارنے تھے۔اس روز میں میرا جی کو اچھی طرح نہ دیکھ سکا۔ اگلی صبح جب میں غسل خانے کی طرف جارہا تھا تو پوپھٹ رہی تھی۔ مشرقی افق سفید ہوچکا تھا۔

درمیانی کمرے کی مشرقی دیوار میں ایک بڑھائو تھا جس کے تین طرف لوہے کا جنگلہ تھا۔ اس جنگلے کے اندر ایک پھٹی پرانی دلائی پر میراجی سورج کی طرف منہ کیے' دھرنا مارے گویا دھیان لگائے بیٹھا تھا۔ پاس ہی بوسیدہ اخباروں کا ایک بنڈل رکھا تھا۔ میرا جی نے چار خانہ کھدر کی موٹی قمیض اور خاکی کاڈرائے کی پتلون پہن رکھی تھی۔ اس کے گھنے بال گڈمڈ ہورہے تھے۔ ان میں سفید اور نیم سفید بالوں کی پتلی پتلی لٹیں بھی تھیں۔ مجموعی طور پر اس کا سر راکھ کا ایک ڈھیر معلوم ہوتا تھا۔ صبح کی سنہری دھوپ اس راکھ پر خوب چمک رہی تھی۔ اس کی پشت میری طرف تھی۔

میں اس کے چہرے کے تاثرات نہ دیکھ سکا اور چپ چاپ غسل خانے کی طرف چلا گیا۔ میرے دل میں اس کے لیے ہمدردی کا دریا امنڈ آیا۔ یہ ہمدردی ایسی تھی جیسی کسی سڑے ہوئے جسم کو دیکھنے سے پیدا ہوجاتی ہے مگر اس ہمدردی میں خوف بھی شامل تھا' ایسا خوف جوکسی اسرار کو نہ سمجھ سکنے سے پیدا ہوجاتا ہے۔ ہاتھ میں ڈیٹول کی شیشی تھامے میں غسل خانے سے لوٹ کے آیا تو میرا جی جنگلے سے ٹیک لگائے کمرے کی طرف منہ کیے بیٹھا تھا۔ نہ جانے کیوں دیکھتے ہی میرے منہ سے نکلا ''اسلام علیکم'' حالانکہ میرا اسے سلام کرنے کا قطعی ارادہ نہ تھا۔

(احمد بشیر کے خاکوں پر مشتمل کتاب''جو ملے تھے راستے میں'' سے اقتباس)
Load Next Story