جنگ کے سائے
گو کہ تقسیم سے قبل کئی ایسے مواقعے آئے جب قربت کی گھڑی آئی کہ لگا تقسیم ٹل گئی
تقسیم ہند سے قبل اگر آپ لیڈروں کی تصویریں دیکھیں تو ایسا محسوس ہوگا کہ اصولی طور پر ان کے مابین کوئی بڑا اختلاف یا خلیج نہیں ہے۔ ہر موقعے کی جو تصویریں موجود ہیں ان میں ہر تصویر میں گاندھی، قائد اعظم اور نہرو آپس میں اس طرح کھڑے تصویرکھنچوارہے ہیں جیسے ان میں کوئی نفاق نہیں اور نہ آپس میں کوئی ایسی کشیدگی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے پاس آنے کو تیار نہیں ہیں۔
گو کہ تقسیم سے قبل کئی ایسے مواقعے آئے جب قربت کی گھڑی آئی کہ لگا تقسیم ٹل گئی اور ایسا لگا کہ جناح، نہرو کی بے ترتیب گفتگو سے اختلاف کر بیٹھے اور اب علیحدگی یقینی ہو گئی تو بھی ظاہری روابط میں کسی قسم کی بد مزگی نہیں، اگر ہے بھی تو اصولی اختلاف، یہ نہیں کہ اختلاف کی سزا موت جیسا کہ آج نظر آرہا ہے کہ بات بات پر موت کا رقص جاری ہے۔ بھارت میں آئے دن جلوس نکل رہے ہوتے تھے کہ بٹ کے رہے گا ہندوستان، بن کے رہے گا پاکستان، کسی بھی شہر کو آفت زدہ، فساد زدہ قرار دینے کے لیے یہ جلوس کافی تھا، یہ تو اس دور کی بات ہے ۔
بھارت سے اختلاف کرتے ہوئے ملک تقسیم کرلیا پھر بھی مذہبی اجتماعات کے لیے جمعہ اور عید کی نماز کے لیے پولیس کی نفری تعینات، یہ عمل صرف پاکستان میں نہیں دیگر مسلم ممالک میں بھی یہ رویہ موجود ہے۔ اس کی اصل وجہ عام طور سے مسلم ممالک میں مطلق العنان حکومتیں مسلم ممالک میں زیادہ ہیں اس لیے آئے دن تشریحات شرع پر اختلافات پیدا ہورہا ہے، پہلے تو صرف فلسطین اور اریٹریا کا غم تھا یا لے دے کے کشمیر کا مگر اب تو مشرق وسطیٰ لہو لہان ہے، اپنے ہی لوگ اپنے ہاتھوں قتل ہیں مگر اب ایک ابہام تو طشت از بام ہوا کہ مسلمانوں کی آپسی جنگ وجدال کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہے۔
ذرا غور تو فرمایئے، شام ایک چھوٹا سا ملک اس پر آئی ایس کا ہاتھ، کردوں کا ہاتھ، ترکی کی چپقلش، ہر طرف سے مشکلات میں پھنسنے والا، در بدری مسلمانوں کی، لیبیا کے مسلمانوں کا حال دیکھیے کشتیوں میں دنیا کے ساحلوں کی در بدری راستے میں ہزاروں کی اموات، در در کی ٹھوکریں مسلمانوں کے نصیب میں کیوں؟ تاریخ کی خوش فہمیاں کہ حکومت کرنے کا اختیار صرف ہم کو ہے، شرع و آئین پر مدار صرف ہمارا حق ہے اور جو ہم سمجھ رہے ہیں وہی حق ہے باقی سب باطل ہیں۔
اقتدار کا عفریت کسی کو کسی کے حقوق نہیں دیتا، مسلمانوں میں بات چیت سے مسائل کو حل کرنے نہیں دیتا۔ افغانستان تو ہمارے پڑوس میں ہے یہاں جب سوویت یونین کا اثر بڑھا تو پاکستان نے افغانستان کو سوویت جارحیت سے نجات دلائی اور انقلاب ثور ناکام ہوا۔ لیکن جو کچھ بھی پاکستان میں ہوا وہ انقلاب ثور کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔ ڈیموگرافی بدلی، کلچر بدلا، علاقے کا امن جاتا رہا، تہذیب بدلی، پٹاخوں کی جگہ خوشی کے موقعے پر بندوقیں چلتیں، بحث کے بدلے گولی چلی اور ختم نہ ہونے والا سلسلہ چل پڑا۔ ایک نئے طرز کی سیاست نے قدم جمائے اس لیے ضرب عضب کا خیال وضع کرنے کی ضرورت پیش آنے لگی۔
گلی کوچوں میں گولیاں، مخالف کو منطق کے بجائے گولیوں سے ہٹایا جائے اور اس مقصد کے لیے ایسے موقعے پرگولی چلائی جائے تاکہ ملزم صاف بچ جائے پہلے چھوٹی چھوٹی جنگیں گلی کوچوں میں چھڑ گئیں، جیسا کہ کراچی کے گلی کوچے پرسکون رہنے کے بعد جلد ہی پھر بد امنی کی زد میں آگئے، اگر سچ پوچھا جائے تو یہ کلچر امریکی فوجی آپریشن کا نتیجہ ہے، امریکی آپریشن تو اچھا ہوا کہ افغانستان میں رہ کر اور اسی سرزمین میں رہنے کے بعد محدود ہوگیا اور ضرب عضب نے اس کی حدیں مسدودکردیں ورنہ یہ جنگ کراچی اور کے پی کے (KPK) کے گلی کوچوں میں لڑی جاتیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ جب طالبان سے گفتگو کا آغاز ہوا تھا تو پاکستان کے اینکر پرسن بات چیت کے گیت گارہے تھے اور عوام کو خوف زدہ کررہے تھے کہ اگر طالبان سے بات چیت جاری نہ رکھی گئی تو پاک سرزمین خدانخواستہ خونا خون ہوجائے گی، ان اینکر پرسن حضرات کو کون ضمانتیں دیتا ہے اور یہ کس کی زبان بولتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو ایسی دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں جو حکومت کے ہیں نہ حزب مخالف کے اور نہ ملکی مفاد کے بلکہ غیر ملکی مقاصد کے اشارے پر کام کررہے ہیں۔
چونکہ یہ حضرات امریکی مفادات کے لیے کام کررہے ہیں اس لیے ملک میں دور رس تعمیراتی سرگرمیاں، معاشی سربلندیوں کے لیے کام نہیں کرنا چاہتے۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ عوام اپنے مسائل میں الجھے رہیں، روزانہ آٹے، دال، چاول بس سے آفس، آفس سے گھر کے مسائل میں پھنسا رہے، آج سی این جی ہے یا نہیں؟ بس یہی زندگی ہے لہٰذا حکومت کی تبدیلی، روز مرہ کے نرخ نامے پر غور ہی نہیں ہے، بجلی کے نرخ 30 فی صد بڑھ گئے یا 40 فی صد لوگ تیار ہیں نہ کوئی صارفین کی کمیٹی ہے اور نہ سیاسی پارٹی کا یہ رشتہ ہے کہ وہ روز مرہ کے مسائل کی دیکھ بھال کرے۔
پاکستان کی سیاسی پارٹیاں بنتی ہی اس لیے نہیں کہ وہ عوام کے مفادات کا خیال کریں گی بلکہ عوام کے درمیان خلیج پیدا کریں جس قدر عوام میں فاصلے بڑھیں گے اسی قدر سیاسی پارٹیوں کے مقاصد پورے ہوں گے کیوں کہ سیاسی پارٹیاں جمع کرنے کے لیے نہیں بلکہ تفریق کے لیے معرض وجود میں آئی ہیں، صدر ضیا الحق نے جو فصل اُگائی تھی اس کے ثمرات اب بٹورے جارہے ہیں، یہ فصل کب تک کٹے گی اور امن کب لوٹے گا، زر مبادلہ کے ذخائر کسی ملک کے 18 ارب یا 20 ارب ڈالر ہوں یا یہ کوئی زر مبادلہ ہے، یہ معاشی اہداف ملک میں ایک ہفتے میں دگنے ہوجاتیں بشرطیکہ امن لوٹ آئے، ملک کے شہروں میں ہر ملک کے ٹورسٹ نظر آئیں۔
سوات، کالام، ناران، کراچی کے بوہری بازار، ہوٹل، انڈسٹری دوبارہ زندہ ہوجائے، اسٹریٹ کرائم تو اﷲ اﷲ کرکے ختم ہوئے شہر کی رونقیں لوٹ رہی ہیں مگر سیاست کے افق پر نمایاں فرق نظر نہیں آرہا جس سے ملک کے خدوخال میں فرق نمایاں نظر آئے۔ امید کم ہی نظر آرہی ہے سیاسی پارٹیوں نے ایک جانب کھڑے ہوکر فوجی قوانین تو رائج کرادیے مگر فکری طور پر دونوں ایک صفحے پر موجود نہیں اور دونوں کی سوچیں جدا ہیں اگر صورت حال میں تغیر نہ ہوا تو خدشہ اس بات کا ہے کہ فوج کو کہیں ریفرنڈم کا سہارا نہ لینا پڑے اور تمام سیاسی سرگرمیاں ماند پڑ جائیں لہٰذا سیاسی پارٹیوں کو تدبر کے سہارے پر چلنا ہوگا۔
سیاسی پارٹیوں نے کئی بار کی فوجی مداخلت سے بہت کچھ سیکھا ہے لہٰذا فوج نے بھی کئی بار کی سیاسی کوتاہی سے کچھ تو سیکھا ہی ہوگا اور اپنے اندر سیاسی تدبر پیدا کیا ہوگا۔ پاکستان کے ان معروضی حالات کا فائدہ سیاسی پارٹیوں نے تو نہیں البتہ بھارت نے اٹھایا ہے کہ جب سے ضرب عضب کا پرچم پاکستان نے بلند کیا ہے بھارت نے پوری ورکنگ باؤنڈری پر سرحدی حدود کی خلاف ورزی شروع کردی ہے وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ پاکستان پر دباؤ ڈال کر وہ شرپسندوں کی مدد کر رہا ہے مگر وہ دور رس نگاہیں نہیں رکھتا۔
کیوں کہ خدانخواستہ اگر پاکستان کی شمالی مشرقی سرحدیں کمزور ہوگئیں تو پھر وہ قربانیاں جو اپنے شہروں اور آبادیوں کو بچانے کے لیے پاکستان دے رہا ہے بھارت کو دینی ہوں گی لیکن جو لوگ آج بھارت میں حکمران ہیں یہ وہ نہیں جو قائد اعظم کے احباب تھے بلکہ وہ لوگ آج بھارت کے حکمران ہیں جو اس فکر سے تعلق رکھتے ہیں جو گاندھی جی کے سخت خلاف تھے۔ گاندھی نے پاکستان کو اس کا حق معاشی دلانے کے لیے مرن برت رکھا تھا اور اس کی پاداش میں انتہا پسند نتھو رام گوڈسے کی گولی کا نشانہ بنے لہٰذا سرحدی چھیڑ چھاڑ سے خطرہ یہ ہے کہ کہیں یہ جنگ کے سائے اصل جنگ میں تبدیل نہ ہوجائیں۔
گو کہ تقسیم سے قبل کئی ایسے مواقعے آئے جب قربت کی گھڑی آئی کہ لگا تقسیم ٹل گئی اور ایسا لگا کہ جناح، نہرو کی بے ترتیب گفتگو سے اختلاف کر بیٹھے اور اب علیحدگی یقینی ہو گئی تو بھی ظاہری روابط میں کسی قسم کی بد مزگی نہیں، اگر ہے بھی تو اصولی اختلاف، یہ نہیں کہ اختلاف کی سزا موت جیسا کہ آج نظر آرہا ہے کہ بات بات پر موت کا رقص جاری ہے۔ بھارت میں آئے دن جلوس نکل رہے ہوتے تھے کہ بٹ کے رہے گا ہندوستان، بن کے رہے گا پاکستان، کسی بھی شہر کو آفت زدہ، فساد زدہ قرار دینے کے لیے یہ جلوس کافی تھا، یہ تو اس دور کی بات ہے ۔
بھارت سے اختلاف کرتے ہوئے ملک تقسیم کرلیا پھر بھی مذہبی اجتماعات کے لیے جمعہ اور عید کی نماز کے لیے پولیس کی نفری تعینات، یہ عمل صرف پاکستان میں نہیں دیگر مسلم ممالک میں بھی یہ رویہ موجود ہے۔ اس کی اصل وجہ عام طور سے مسلم ممالک میں مطلق العنان حکومتیں مسلم ممالک میں زیادہ ہیں اس لیے آئے دن تشریحات شرع پر اختلافات پیدا ہورہا ہے، پہلے تو صرف فلسطین اور اریٹریا کا غم تھا یا لے دے کے کشمیر کا مگر اب تو مشرق وسطیٰ لہو لہان ہے، اپنے ہی لوگ اپنے ہاتھوں قتل ہیں مگر اب ایک ابہام تو طشت از بام ہوا کہ مسلمانوں کی آپسی جنگ وجدال کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہے۔
ذرا غور تو فرمایئے، شام ایک چھوٹا سا ملک اس پر آئی ایس کا ہاتھ، کردوں کا ہاتھ، ترکی کی چپقلش، ہر طرف سے مشکلات میں پھنسنے والا، در بدری مسلمانوں کی، لیبیا کے مسلمانوں کا حال دیکھیے کشتیوں میں دنیا کے ساحلوں کی در بدری راستے میں ہزاروں کی اموات، در در کی ٹھوکریں مسلمانوں کے نصیب میں کیوں؟ تاریخ کی خوش فہمیاں کہ حکومت کرنے کا اختیار صرف ہم کو ہے، شرع و آئین پر مدار صرف ہمارا حق ہے اور جو ہم سمجھ رہے ہیں وہی حق ہے باقی سب باطل ہیں۔
اقتدار کا عفریت کسی کو کسی کے حقوق نہیں دیتا، مسلمانوں میں بات چیت سے مسائل کو حل کرنے نہیں دیتا۔ افغانستان تو ہمارے پڑوس میں ہے یہاں جب سوویت یونین کا اثر بڑھا تو پاکستان نے افغانستان کو سوویت جارحیت سے نجات دلائی اور انقلاب ثور ناکام ہوا۔ لیکن جو کچھ بھی پاکستان میں ہوا وہ انقلاب ثور کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔ ڈیموگرافی بدلی، کلچر بدلا، علاقے کا امن جاتا رہا، تہذیب بدلی، پٹاخوں کی جگہ خوشی کے موقعے پر بندوقیں چلتیں، بحث کے بدلے گولی چلی اور ختم نہ ہونے والا سلسلہ چل پڑا۔ ایک نئے طرز کی سیاست نے قدم جمائے اس لیے ضرب عضب کا خیال وضع کرنے کی ضرورت پیش آنے لگی۔
گلی کوچوں میں گولیاں، مخالف کو منطق کے بجائے گولیوں سے ہٹایا جائے اور اس مقصد کے لیے ایسے موقعے پرگولی چلائی جائے تاکہ ملزم صاف بچ جائے پہلے چھوٹی چھوٹی جنگیں گلی کوچوں میں چھڑ گئیں، جیسا کہ کراچی کے گلی کوچے پرسکون رہنے کے بعد جلد ہی پھر بد امنی کی زد میں آگئے، اگر سچ پوچھا جائے تو یہ کلچر امریکی فوجی آپریشن کا نتیجہ ہے، امریکی آپریشن تو اچھا ہوا کہ افغانستان میں رہ کر اور اسی سرزمین میں رہنے کے بعد محدود ہوگیا اور ضرب عضب نے اس کی حدیں مسدودکردیں ورنہ یہ جنگ کراچی اور کے پی کے (KPK) کے گلی کوچوں میں لڑی جاتیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ جب طالبان سے گفتگو کا آغاز ہوا تھا تو پاکستان کے اینکر پرسن بات چیت کے گیت گارہے تھے اور عوام کو خوف زدہ کررہے تھے کہ اگر طالبان سے بات چیت جاری نہ رکھی گئی تو پاک سرزمین خدانخواستہ خونا خون ہوجائے گی، ان اینکر پرسن حضرات کو کون ضمانتیں دیتا ہے اور یہ کس کی زبان بولتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو ایسی دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں جو حکومت کے ہیں نہ حزب مخالف کے اور نہ ملکی مفاد کے بلکہ غیر ملکی مقاصد کے اشارے پر کام کررہے ہیں۔
چونکہ یہ حضرات امریکی مفادات کے لیے کام کررہے ہیں اس لیے ملک میں دور رس تعمیراتی سرگرمیاں، معاشی سربلندیوں کے لیے کام نہیں کرنا چاہتے۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ عوام اپنے مسائل میں الجھے رہیں، روزانہ آٹے، دال، چاول بس سے آفس، آفس سے گھر کے مسائل میں پھنسا رہے، آج سی این جی ہے یا نہیں؟ بس یہی زندگی ہے لہٰذا حکومت کی تبدیلی، روز مرہ کے نرخ نامے پر غور ہی نہیں ہے، بجلی کے نرخ 30 فی صد بڑھ گئے یا 40 فی صد لوگ تیار ہیں نہ کوئی صارفین کی کمیٹی ہے اور نہ سیاسی پارٹی کا یہ رشتہ ہے کہ وہ روز مرہ کے مسائل کی دیکھ بھال کرے۔
پاکستان کی سیاسی پارٹیاں بنتی ہی اس لیے نہیں کہ وہ عوام کے مفادات کا خیال کریں گی بلکہ عوام کے درمیان خلیج پیدا کریں جس قدر عوام میں فاصلے بڑھیں گے اسی قدر سیاسی پارٹیوں کے مقاصد پورے ہوں گے کیوں کہ سیاسی پارٹیاں جمع کرنے کے لیے نہیں بلکہ تفریق کے لیے معرض وجود میں آئی ہیں، صدر ضیا الحق نے جو فصل اُگائی تھی اس کے ثمرات اب بٹورے جارہے ہیں، یہ فصل کب تک کٹے گی اور امن کب لوٹے گا، زر مبادلہ کے ذخائر کسی ملک کے 18 ارب یا 20 ارب ڈالر ہوں یا یہ کوئی زر مبادلہ ہے، یہ معاشی اہداف ملک میں ایک ہفتے میں دگنے ہوجاتیں بشرطیکہ امن لوٹ آئے، ملک کے شہروں میں ہر ملک کے ٹورسٹ نظر آئیں۔
سوات، کالام، ناران، کراچی کے بوہری بازار، ہوٹل، انڈسٹری دوبارہ زندہ ہوجائے، اسٹریٹ کرائم تو اﷲ اﷲ کرکے ختم ہوئے شہر کی رونقیں لوٹ رہی ہیں مگر سیاست کے افق پر نمایاں فرق نظر نہیں آرہا جس سے ملک کے خدوخال میں فرق نمایاں نظر آئے۔ امید کم ہی نظر آرہی ہے سیاسی پارٹیوں نے ایک جانب کھڑے ہوکر فوجی قوانین تو رائج کرادیے مگر فکری طور پر دونوں ایک صفحے پر موجود نہیں اور دونوں کی سوچیں جدا ہیں اگر صورت حال میں تغیر نہ ہوا تو خدشہ اس بات کا ہے کہ فوج کو کہیں ریفرنڈم کا سہارا نہ لینا پڑے اور تمام سیاسی سرگرمیاں ماند پڑ جائیں لہٰذا سیاسی پارٹیوں کو تدبر کے سہارے پر چلنا ہوگا۔
سیاسی پارٹیوں نے کئی بار کی فوجی مداخلت سے بہت کچھ سیکھا ہے لہٰذا فوج نے بھی کئی بار کی سیاسی کوتاہی سے کچھ تو سیکھا ہی ہوگا اور اپنے اندر سیاسی تدبر پیدا کیا ہوگا۔ پاکستان کے ان معروضی حالات کا فائدہ سیاسی پارٹیوں نے تو نہیں البتہ بھارت نے اٹھایا ہے کہ جب سے ضرب عضب کا پرچم پاکستان نے بلند کیا ہے بھارت نے پوری ورکنگ باؤنڈری پر سرحدی حدود کی خلاف ورزی شروع کردی ہے وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ پاکستان پر دباؤ ڈال کر وہ شرپسندوں کی مدد کر رہا ہے مگر وہ دور رس نگاہیں نہیں رکھتا۔
کیوں کہ خدانخواستہ اگر پاکستان کی شمالی مشرقی سرحدیں کمزور ہوگئیں تو پھر وہ قربانیاں جو اپنے شہروں اور آبادیوں کو بچانے کے لیے پاکستان دے رہا ہے بھارت کو دینی ہوں گی لیکن جو لوگ آج بھارت میں حکمران ہیں یہ وہ نہیں جو قائد اعظم کے احباب تھے بلکہ وہ لوگ آج بھارت کے حکمران ہیں جو اس فکر سے تعلق رکھتے ہیں جو گاندھی جی کے سخت خلاف تھے۔ گاندھی نے پاکستان کو اس کا حق معاشی دلانے کے لیے مرن برت رکھا تھا اور اس کی پاداش میں انتہا پسند نتھو رام گوڈسے کی گولی کا نشانہ بنے لہٰذا سرحدی چھیڑ چھاڑ سے خطرہ یہ ہے کہ کہیں یہ جنگ کے سائے اصل جنگ میں تبدیل نہ ہوجائیں۔