پاکستانی خواتین میں شدت پسندی… حصہ چہارم
فریدہ شہید کے مطابق ضیاء کے دور میں ’’مذہبیت سیاست میں داخلے اور ترقی کا واحد راستہ بن گئی
فریدہ شہید کے مطابق ضیاء کے دور میں ''مذہبیت سیاست میں داخلے اور ترقی کا واحد راستہ بن گئی۔ کتابوں میں تاریخ کو از سرِ نو لکھا گیا، جس میں پاکستان مخالف مذہبی سیاسی جماعتوں کو ملکی استحکام کا علمبردار ظاہر کیا گیا۔ ہر سرکاری تقریب میں تلاوت کو لازم کر دیا گیا۔ لیکن 1988ء میں ضیاء کے انتقال کے بعد اسلام کے نام پر کیے گئے اقدامات محدود ثقافت کا درجہ پا گئے، جس سے سماجی، سیاسی اور ثقافتی سطح پر صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی۔ مردوں کو سچے شہری کا مقام حاصل ہوا، دیگر تمام اقوام پر فوقیت حاصل ہوئی، خاص طور پر عورتوں اور اقلیتوں پر۔''
دو مختلف سوالات کے ذریعے خواتین سے ان کی رائے لی گئی کہ آیا وہ کس مذہبی یا سیاسی جماعت کو پسند کرتی ہیں۔ نتائج سے واضح ہوا کہ 115 خواتین کسی سیاسی جماعت کی حامی ہیں اور 112 کسی مذہبی جماعت کو سپورٹ کرتی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ 47.7 فیصد خواتین کا خیال ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتوں کو بھی ملک میں حکومت کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ یہ رائے اس بات کو بھی واضح کرتی ہے کہ خواتین پر مذہبی قیادت کے اثرات کس قدر زیادہ ہیں، جیسا کہ 46.5 فیصد خواتین کا خیال ہے کہ صرف مذہبی لیڈر ہی اسلام کی صحیح معنوں میں خدمت کر رہے ہیں۔
سروے کے دوران تشکیل پانیوالے سیاسی حالات و واقعات کے باعث یہ بھی لازم تھا کہ خواتین سے حال ہی میں ہونے والی سیاسی پیش رفت سے متعلق پوچھا جائے تا کہ یہ دیکھا جا سکے کہ کس واقعے کے اُن پر سب سے زیادہ اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ سروے میں شامل 37.8 فیصد خواتین محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل، جب کہ 24.8 فیصد خواتین لال مسجد آپریشن کے واقعات سے سب سے زیادہ متاثر ہوئیں۔
خواتین پر ان واقعات کے اثرات کوئی غیر متوقع نتائج نہیں ہیں۔ مگر ان کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ لیکن ان دو واقعات کو منتخب کرنا یہ بھی واضح کرتا ہے کہ دوسرے اہم واقعات کے برعکس یہ دونوں واقعات خواتین سے ہی وابستہ ہیں، جو واضح کرتے ہیں کہ خواتین سے متعلق واقعات خواتین کی زیادہ توجہ حاصل کرتے ہیں۔ بینظیر بھٹو نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی خواتین کی بھرپور آواز تھیں، جب کہ لال مسجد واقعے میں خواتین طالبات نے اہم کردار سرانجام دیا۔
اس بات کا خدشہ ہے کہ خواتین کا خواتین سے یہ جذباتی لگاؤ عسکریت پسندوں کی جانب سے غلط مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتا ہے، جب وہ ایسے واقعات کو پیش کریں، جن میں مغرب میں مسلمان خواتین کو اپنے حقوق حاصل کرنے میں مسائل درپیش ہوں۔ کیونکہ ایسے واقعات مغرب کے خلاف دشمنی کے جذبات ابھار سکتے ہیں۔ محض عسکریت پسندوں کے لٹریچر سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ مسلسل ایسے واقعات کو رپورٹ کر تے ہیں، جن میں مغربی ممالک میں مسلمان خواتین کے خلاف تشدد، پابندیاں اور خاص طور پر برقعے کے استعمال سے متعلق واقعات کو بیان کیا جاتا ہے۔
اس قسم کی مطبوعات خواتین پر اثرات مرتب کر سکتی ہیں اور ساتھ ہی ان میں شدت پسندی کو بڑھانے کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔ بہرحال پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے پر سروے میں شریک 58 فیصد خواتین کا خیال ہے کہ یہ غلط اقدام تھا اور پاکستان کا امریکا کا ساتھ دینے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔آبادی کا تقریباً 53 فیصد حصہ ہونے کے باجوود مردوں کے اس معاشرے میں خواتین فیصلہ کرنے کے حق سے محروم ہیں، بے شمار نا انصافیوں کے علاوہ بیش تر خواتین کو یہ حق بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی زندگیوں کے متعلق فیصلے خود کر سکیں اور مردوں کے برابر مواقعے سے فائدہ اٹھا سکیں۔ خواتین پر تشدد، بالخصوص گھریلو تشدد پاکستانی معاشرے کا بڑا مسئلہ ہے اور ہر سال کئی خواتین اپنی زندگیاں گنوا بیٹھتی ہیں۔
پروین اور ماریہ کے نتائج کے مطابق ؛پاکستانی خواتین نہ صرف سماجی ناانصافیوں کا شکار ہوتی ہیں، بلکہ وہ جسمانی، ذہنی، جذباتی اور گھریلو تشدد کا بھی شکار ہوتی ہیں، جن میں غیرت کے نام پر قتل، خاوند کی مارپیٹ، تیزاب پھینکنے کے واقعات اور خاندان والوں کی جانب سے جلائے جانے کے واقعات شامل ہیں۔ تقریباً 70 سے 90 فیصد پاکستانی خواتین مذہبی اور سماجی رسومات کے باعث گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گھریلو تشدد پاکستان میں ذاتی مسئلہ تصور کیا جاتا ہے، جیسا کہ یہ خاندان میں ہوتا ہے جس کے باعث کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی، تاہم صورت حال اب تبدیل ہو رہی ہے، جس کی وجہ شہری آبادیوں میں لڑکیوں کی شرح تعلیم میں اضافہ، خواتین میں اپنے حقوق سے متعلق آگاہی کا پیدا ہونا اور خواتین کا مختلف ملازمتیں اختیار کرنا ہے۔ مگر یہ تبدیلی دیہات کے مقابلے میں صرف شہروں میں ہی دیکھی جا سکتی ہے۔
کیونکہ دیہات میں حالات تاحال ابتر ہیں اور خواتین غیر انسانی رسومات، جیسا کہ کارو کاری، قرآن سے شادی (تاکہ خاندانی جائیداد کو خاندان میں رکھا جائے) کا شکار بنتی رہتی ہیں۔اس ضمن میں کہ خواتین اپنے کردار کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہیں۔ کیا ان حالات اور سخت گیر معاشرتی پابندیوں میں ،جن میں خواتین رہنے پر مجبور ہیں۔ خواتین میں شدت پسندی اور انتہا پسندی کے فروغ کی کیا وجوہات ہیں۔ ملائیت کی جانب سے خواتین کی جدید تعلیم پر کیے جانے والے مختلف اعتراضات، طالبان کی طرف سے خیبر پختونخوا اور فاٹا میں لڑکیوں کے اسکول تباہ کیے جانے کے واقعات اور محدود تعلیمی سہولیات کے باوجود بھی 388 جواب دہندگان کا خیال ہے کہ تعلیم لڑکیوں کے لیے بے حد ضروری ہے۔
جب کہ 49 خواتین اس کو زیادہ اہم تصور نہیں کرتی ہیں اور 6 خواتین اس پر کسی قسم کی رائے کا اظہار نہیں کرنا چاہتی ہیں۔ تاہم 33.3 فیصد ایسی خواتین جو ناخواندہ ہیں، ان کا بھی یہ خیال ہے کہ تعلیم لڑکیوں کے لیے ضروری نہیں ہے۔ طالبانائزیشن کے اثرات کے باوجود خیبر پختونخوا اور بلوچستان جیسے متعصب علاقوں کی خواتین بھی لڑکیوں کی تعلیم کی خواہاں ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی سے متعلق ایک کانفرنس، جس کا انعقاد نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن ( National Commission on the Status of Women)نے کیا تھا، مختار باچا نے کہا کہ: ''طالبان ، جدید طرز کی وہابیت کے لیے تشکیل دیے گئے تھے۔ اسلام کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ وہابی، عسکریت پسندی کی شکل میں سامنے آئے اور یہ عرب کے پیسوں کی مدد سے ہوا تھا تاکہ ہماری روشن خیال ثقافت کو تباہ کیا جا سکے۔ خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں تعلیم دی جائے۔
(جاری ہے)
دو مختلف سوالات کے ذریعے خواتین سے ان کی رائے لی گئی کہ آیا وہ کس مذہبی یا سیاسی جماعت کو پسند کرتی ہیں۔ نتائج سے واضح ہوا کہ 115 خواتین کسی سیاسی جماعت کی حامی ہیں اور 112 کسی مذہبی جماعت کو سپورٹ کرتی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ 47.7 فیصد خواتین کا خیال ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتوں کو بھی ملک میں حکومت کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ یہ رائے اس بات کو بھی واضح کرتی ہے کہ خواتین پر مذہبی قیادت کے اثرات کس قدر زیادہ ہیں، جیسا کہ 46.5 فیصد خواتین کا خیال ہے کہ صرف مذہبی لیڈر ہی اسلام کی صحیح معنوں میں خدمت کر رہے ہیں۔
سروے کے دوران تشکیل پانیوالے سیاسی حالات و واقعات کے باعث یہ بھی لازم تھا کہ خواتین سے حال ہی میں ہونے والی سیاسی پیش رفت سے متعلق پوچھا جائے تا کہ یہ دیکھا جا سکے کہ کس واقعے کے اُن پر سب سے زیادہ اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ سروے میں شامل 37.8 فیصد خواتین محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل، جب کہ 24.8 فیصد خواتین لال مسجد آپریشن کے واقعات سے سب سے زیادہ متاثر ہوئیں۔
خواتین پر ان واقعات کے اثرات کوئی غیر متوقع نتائج نہیں ہیں۔ مگر ان کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ لیکن ان دو واقعات کو منتخب کرنا یہ بھی واضح کرتا ہے کہ دوسرے اہم واقعات کے برعکس یہ دونوں واقعات خواتین سے ہی وابستہ ہیں، جو واضح کرتے ہیں کہ خواتین سے متعلق واقعات خواتین کی زیادہ توجہ حاصل کرتے ہیں۔ بینظیر بھٹو نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی خواتین کی بھرپور آواز تھیں، جب کہ لال مسجد واقعے میں خواتین طالبات نے اہم کردار سرانجام دیا۔
اس بات کا خدشہ ہے کہ خواتین کا خواتین سے یہ جذباتی لگاؤ عسکریت پسندوں کی جانب سے غلط مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتا ہے، جب وہ ایسے واقعات کو پیش کریں، جن میں مغرب میں مسلمان خواتین کو اپنے حقوق حاصل کرنے میں مسائل درپیش ہوں۔ کیونکہ ایسے واقعات مغرب کے خلاف دشمنی کے جذبات ابھار سکتے ہیں۔ محض عسکریت پسندوں کے لٹریچر سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ مسلسل ایسے واقعات کو رپورٹ کر تے ہیں، جن میں مغربی ممالک میں مسلمان خواتین کے خلاف تشدد، پابندیاں اور خاص طور پر برقعے کے استعمال سے متعلق واقعات کو بیان کیا جاتا ہے۔
اس قسم کی مطبوعات خواتین پر اثرات مرتب کر سکتی ہیں اور ساتھ ہی ان میں شدت پسندی کو بڑھانے کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔ بہرحال پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے پر سروے میں شریک 58 فیصد خواتین کا خیال ہے کہ یہ غلط اقدام تھا اور پاکستان کا امریکا کا ساتھ دینے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔آبادی کا تقریباً 53 فیصد حصہ ہونے کے باجوود مردوں کے اس معاشرے میں خواتین فیصلہ کرنے کے حق سے محروم ہیں، بے شمار نا انصافیوں کے علاوہ بیش تر خواتین کو یہ حق بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی زندگیوں کے متعلق فیصلے خود کر سکیں اور مردوں کے برابر مواقعے سے فائدہ اٹھا سکیں۔ خواتین پر تشدد، بالخصوص گھریلو تشدد پاکستانی معاشرے کا بڑا مسئلہ ہے اور ہر سال کئی خواتین اپنی زندگیاں گنوا بیٹھتی ہیں۔
پروین اور ماریہ کے نتائج کے مطابق ؛پاکستانی خواتین نہ صرف سماجی ناانصافیوں کا شکار ہوتی ہیں، بلکہ وہ جسمانی، ذہنی، جذباتی اور گھریلو تشدد کا بھی شکار ہوتی ہیں، جن میں غیرت کے نام پر قتل، خاوند کی مارپیٹ، تیزاب پھینکنے کے واقعات اور خاندان والوں کی جانب سے جلائے جانے کے واقعات شامل ہیں۔ تقریباً 70 سے 90 فیصد پاکستانی خواتین مذہبی اور سماجی رسومات کے باعث گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گھریلو تشدد پاکستان میں ذاتی مسئلہ تصور کیا جاتا ہے، جیسا کہ یہ خاندان میں ہوتا ہے جس کے باعث کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی، تاہم صورت حال اب تبدیل ہو رہی ہے، جس کی وجہ شہری آبادیوں میں لڑکیوں کی شرح تعلیم میں اضافہ، خواتین میں اپنے حقوق سے متعلق آگاہی کا پیدا ہونا اور خواتین کا مختلف ملازمتیں اختیار کرنا ہے۔ مگر یہ تبدیلی دیہات کے مقابلے میں صرف شہروں میں ہی دیکھی جا سکتی ہے۔
کیونکہ دیہات میں حالات تاحال ابتر ہیں اور خواتین غیر انسانی رسومات، جیسا کہ کارو کاری، قرآن سے شادی (تاکہ خاندانی جائیداد کو خاندان میں رکھا جائے) کا شکار بنتی رہتی ہیں۔اس ضمن میں کہ خواتین اپنے کردار کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہیں۔ کیا ان حالات اور سخت گیر معاشرتی پابندیوں میں ،جن میں خواتین رہنے پر مجبور ہیں۔ خواتین میں شدت پسندی اور انتہا پسندی کے فروغ کی کیا وجوہات ہیں۔ ملائیت کی جانب سے خواتین کی جدید تعلیم پر کیے جانے والے مختلف اعتراضات، طالبان کی طرف سے خیبر پختونخوا اور فاٹا میں لڑکیوں کے اسکول تباہ کیے جانے کے واقعات اور محدود تعلیمی سہولیات کے باوجود بھی 388 جواب دہندگان کا خیال ہے کہ تعلیم لڑکیوں کے لیے بے حد ضروری ہے۔
جب کہ 49 خواتین اس کو زیادہ اہم تصور نہیں کرتی ہیں اور 6 خواتین اس پر کسی قسم کی رائے کا اظہار نہیں کرنا چاہتی ہیں۔ تاہم 33.3 فیصد ایسی خواتین جو ناخواندہ ہیں، ان کا بھی یہ خیال ہے کہ تعلیم لڑکیوں کے لیے ضروری نہیں ہے۔ طالبانائزیشن کے اثرات کے باوجود خیبر پختونخوا اور بلوچستان جیسے متعصب علاقوں کی خواتین بھی لڑکیوں کی تعلیم کی خواہاں ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی سے متعلق ایک کانفرنس، جس کا انعقاد نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن ( National Commission on the Status of Women)نے کیا تھا، مختار باچا نے کہا کہ: ''طالبان ، جدید طرز کی وہابیت کے لیے تشکیل دیے گئے تھے۔ اسلام کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ وہابی، عسکریت پسندی کی شکل میں سامنے آئے اور یہ عرب کے پیسوں کی مدد سے ہوا تھا تاکہ ہماری روشن خیال ثقافت کو تباہ کیا جا سکے۔ خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں تعلیم دی جائے۔
(جاری ہے)