ثنا نے فلموں میں گانوں پر ہونےوالا رقص رشتہ داروں کی شادی کا ڈانس قراردیدیا
فلم کا معیاربہتر ہوا ہے لیکن کہانی، میوزک اوررقص سمیت وہ لوازمات کم ہوگئے جسے دیکھنے لوگ سینما گھر آتے ہیں
فلم اسٹارثنا نے موجودہ دورمیں بننے والی فلموں کے گیتوں پراداکاراؤں کے رقص کو ''ماموں یا چچاکی بیٹی کا شادی میں ڈانس'' قرار دے دیا۔ فلمی ہیروئن کو دیکھنے کی جو خواہش لے کرفلم بین سینما گھروں میں جاتے تھے، اب وہ دکھائی نہیں دیتا۔
ماضی میں فلمی ہیروئن کے نام پرٹکٹیں فروخت ہوتی تھیں جب کہ آج ایسا نہیں ہے۔ فلم کے معیارمیں بہتری آئی ہے لیکن کہانی، میوزک اور رقص سمیت وہ لوازمات کم دکھائی دیتے ہیں جس کودیکھنے کے لیے لوگ اپنی فیملیز کے ہمراہ سینما گھروں کا رخ کرتے ہیں۔
نوجوان فلم میکرز کو گروپ بندی سے نکل کرمل کرچلنا ہوگا۔ ان خیالات کااظہار ثنا نے گزشتہ روز ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں وہی فلمیں زیادہ بزنس کرتی ہیں جوہرلحاظ سے فلم بینوں کو انٹرٹین کرتی ہیں۔ بلاشبہ پاکستان میں سینما گھروں کی تعداد میں اضافے اورجدید ٹیکنالوجی نے ایک مرتبہ پھر سے لوگوں کو سینما کا رخ کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ لوگ اپنی فیملیز کے ہمراہ فلم دیکھنا چاہتے ہیں اوراب فیملیز کی بڑی تعداد سینما گھروں میں دکھائی دیتی ہے لیکن انھیں وہ تفریح نہیں مل پارہی جس سے وہ محظوظ ہونا چاہتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت میں بننے والی فلموں میں جہاں کہانی، لوکیشنز اور فنکار کے انتخاب پر خوب توجہ دی جاتی ہے، وہیں میوزک اوررقص کو فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔
مگرہمارے ہاں میوزک اوررقص پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ فلم کے گیت پررقص کا ایک الگ اور منفرد انداز ہوتا ہے مگرآج کل جتنی بھی فلموں میں ہیروئنوں کو پرفارم کرتے ہوئے میں نے دیکھا ہے تومجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ جیسے میں کسی شادی کی وڈیو دیکھ رہی ہوں، جس میں لڑکیاں ڈھولک کی تھاپ پررقص کرتی ہیں۔ ہمیں اس شعبے پرخاص توجہ دینا ہوگی۔
اس کے علاوہ نوجوان فلم میکرز کواپنی گروپ بندی سے باہرنکل کرسینئر فلم میکرزسے استفادہ کرنا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ جب یہ لوگ مل کرکام کرینگے توپھرفلموں کے معیارمیں حیرت انگیزتبدیلی آئے گی جوہمیں انٹرنیشنل مارکیٹ تک رسائی دلوائے گی۔
ماضی میں فلمی ہیروئن کے نام پرٹکٹیں فروخت ہوتی تھیں جب کہ آج ایسا نہیں ہے۔ فلم کے معیارمیں بہتری آئی ہے لیکن کہانی، میوزک اور رقص سمیت وہ لوازمات کم دکھائی دیتے ہیں جس کودیکھنے کے لیے لوگ اپنی فیملیز کے ہمراہ سینما گھروں کا رخ کرتے ہیں۔
نوجوان فلم میکرز کو گروپ بندی سے نکل کرمل کرچلنا ہوگا۔ ان خیالات کااظہار ثنا نے گزشتہ روز ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں وہی فلمیں زیادہ بزنس کرتی ہیں جوہرلحاظ سے فلم بینوں کو انٹرٹین کرتی ہیں۔ بلاشبہ پاکستان میں سینما گھروں کی تعداد میں اضافے اورجدید ٹیکنالوجی نے ایک مرتبہ پھر سے لوگوں کو سینما کا رخ کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ لوگ اپنی فیملیز کے ہمراہ فلم دیکھنا چاہتے ہیں اوراب فیملیز کی بڑی تعداد سینما گھروں میں دکھائی دیتی ہے لیکن انھیں وہ تفریح نہیں مل پارہی جس سے وہ محظوظ ہونا چاہتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت میں بننے والی فلموں میں جہاں کہانی، لوکیشنز اور فنکار کے انتخاب پر خوب توجہ دی جاتی ہے، وہیں میوزک اوررقص کو فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔
مگرہمارے ہاں میوزک اوررقص پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ فلم کے گیت پررقص کا ایک الگ اور منفرد انداز ہوتا ہے مگرآج کل جتنی بھی فلموں میں ہیروئنوں کو پرفارم کرتے ہوئے میں نے دیکھا ہے تومجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ جیسے میں کسی شادی کی وڈیو دیکھ رہی ہوں، جس میں لڑکیاں ڈھولک کی تھاپ پررقص کرتی ہیں۔ ہمیں اس شعبے پرخاص توجہ دینا ہوگی۔
اس کے علاوہ نوجوان فلم میکرز کواپنی گروپ بندی سے باہرنکل کرسینئر فلم میکرزسے استفادہ کرنا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ جب یہ لوگ مل کرکام کرینگے توپھرفلموں کے معیارمیں حیرت انگیزتبدیلی آئے گی جوہمیں انٹرنیشنل مارکیٹ تک رسائی دلوائے گی۔