فکسنگ کا ’’اسپاٹ‘‘ کبھی نہیں مٹ سکتا
بورڈ کو واضح پالیسی اپنانا چاہیے، کوئی بھی ملک سے بڑھ کر نہیں ہوتا
لاہور:
کئی سال بیت گئے مگر کل ہی کی بات لگتی ہے، میں لندن کے نجی دورے پر تھا، اچانک نجانے کیا سوجھی کہ اسپاٹ فکسنگ کیس کی کارروائی دیکھنے کراؤن کورٹ پہنچ گیا، میں وہاں موجود واحد پاکستانی صحافی تھا،اندر داخل ہوتے ہی سلمان بٹ اور محمد آصف نظر آئے، میں نے بہت تلاش کیا مگر دونوں کے چہروں پر پشیمانی دکھائی نہ دی،وہ بضد تھے کہ کوئی غلط کام نہیں کیا کسی سازش کا شکار ہوئے ہیں، پھر عدالتی کارروائی شروع ہوئی، بڑے بڑے کھلاڑیوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہونے والے کرکٹرز جج کو دیکھ کرخوفزدہ سے نظر آئے۔
اس کیس کا کیا نتیجہ آیا وہ سب جانتے ہیں، جیل کی گاڑی میں جب ہمارے کھلاڑیوں کو لے جایا جا رہا تھا وہ منظرکوئی کرکٹ شائق نہیں بھلا سکتا، مجھے بھی اب تک یہ واقعہ ستاتا ہے، انگلینڈ میں کرکٹ میچ کے دوران پریس کانفرنس میں اتنے کیمرے نظر نہیں آتے جو اس دن عدالت کے باہر موجود تھے، اپنے کھلاڑیوں کے کلیئرہونے کی آس میں وہاں آنے والے پاکستانی نژاد برطانوی شہری بھی سخت غمزدہ تھے، بعد میں منفی عناصر نے انھیں بھی اس طرح لعن تعن کی جیسے وہی سلمان، عامر اور آصف ہوں، وہ دکھ اور کرب کوئی کیسے بھلا سکتا ہے، پہلے ہی پاکستانیوں پر دہشت گردوں کا لیبل لگا تھا۔
اس واقعے نے بے ایمان کا لقب بھی دلا دیا۔ تینوں کرکٹرز نے اسپاٹ فکسنگ کی اور اس کی انھیں سزا بھی مل چکی مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ان میں سے2 کو تو اپنے کیے پر کوئی شرمندگی نہیں تھی، اسکینڈل سامنے آنے پر عامر نے تو فوراً ہی شاہد آفریدی کے سامنے اپنے غلطی کا اعتراف کر لیا تھا پھر آئی سی سی سے بھی مکمل تعاون کیا، مگر سلمان اور آصف نے اب کہیں جا کر مانا کہ انھوں نے فکسنگ کی تھی،دونوں ملک کی عزت سے کھیلے اور اب پھر ٹیم میں واپسی کا عزم ظاہر کر رہے ہیں، انھیں ایسا موقع دینا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا، یقیناً دوسرا چانس ملنا چاہیے مگر ملکی بدنامی کا باعث بننے والوں کو نہیں،کرکٹرز بھی ملک کے سفیر اورکروڑوں لوگوں کو ان سے امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔
اگر وہ کرپشن کریں گے توانھیں رول ماڈل سمجھنے والوں کوکیا پیغام جائے گا، انھیں ہر سال جائز طریقے سے ہی کئی کروڑ روپے مل جاتے ہیں تو پھر غلط کام کا کیا جواز ہے؟ عامر، سلمان اور آصف نے جیل کے بعد پابندی کی سزا بھگت لی، عامر تو ڈومیسٹک کرکٹ میں واپس بھی آ چکے، دیگر دونوں کو بھی آنے دینا چاہیے، یہ کہنا کہ ان کی روزی روٹی کا مسئلہ ہے سراسر غلط بات ہو گی، اگر آج بھی تینوں کے اپنے اور اہل خانہ کے اثاثے چیک کیے جائیں تو کروڑ پتی تو یقیناً ہوں گے، اگر کوئی ادارہ ٹیم میں شامل کر لے توروزگار کا ایک اور سلسلہ بھی جاری ہو جائے گا، ٹی وی پر تبصرے اور کوچنگ سمیت کئی آپشنز موجود ہیں،مگر قومی ٹیم میں واپس لینے کا سوچنا بھی گناہ ہے۔
یہ مصباح الحق اور ان جیسے دیگر ایماندار کھلاڑیوں کے منہ پر طمانچہ ہو گا جنھوں نے گری پڑی ٹیم کو مشکل وقت میں سہارا دیا، میں مانتا ہوں کہ کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں کرپشن نہ ہوتی ہو مگر کوئی کلرک رشوت لیتا پکڑا جائے تو اس سے بیرون ملک کوئی ایشو نہیں بنتا، مگر کرکٹر کے ساتھ ایسا ہو تو دنیا بھر کا میڈیا پاکستان کو خوب بدنام کرتا ہے، بعض لوگ بھارت کی مثال دیتے ہیں کہ اس کے کرکٹرز بھی فکسنگ کرتے ہیں مگر کوئی کچھ نہیں کہتا، یقیناً یہ بات درست ہے مگر کبھی نہ کبھی وہ بھی پکڑ میں آئیں گے اور پھر ہم ایسے لوگوں کی مثالیں کیوں دیتے ہیں۔
جوکرپشن میں ملوث نہیں ان کی پیروی کیوں نہیں کی جاتی؟ اگر کوئی دوسرا چور ہے تو ہم بھی چور تو نہیں بن سکتے، ویسٹ انڈیز کے سموئلز تو فون پر معلومات دینے پر ہی پابندی کی زد میں آ گئے تھے، ہمارے کرکٹرز نے تو کیمرے کے سامنے ڈیل کی، پھر اسی کے تحت نوبال کر کے اپنے گناہوں پر مہر ثبت کر دی، اس کے علاوہ بھی انھوں نے کئی ایسے کام کیے ہوں گے مگر ایک غلطی نے سارا بھانڈا پھوڑ دیا، مصباح و دیگر نے نوجوانوں کے ساتھ نئی ٹیم تشکیل دی جو بہترین تو نہیں بنی مگر بہتری کی راہ پر گامزن ضرور ہے، عامر، سلمان یا آصف کو واپس لانا ٹیم کے اتحاد کو پارا پارا کر دے گا۔
اس لیے بورڈ کو واضح پالیسی اپنانا چاہیے، کوئی بھی ملک سے بڑھ کر نہیں ہوتا، دانش کنیریا نے بھی انگلینڈ میں غلط حرکات کیں اور پابندی کا شکار ہوئے مگر اب بھی خود کو' دودھ کا دھلا 'ثابت کرنے کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں، جو غلطی تسلیم نہ کریں ایسے لوگوں کو تو کوئی معافی نہیں دینی چاہیے، ا بھی سخت اقدامات نہ کیے تو نئے کھلاڑیوں کو اچھا پیغام نہیں جائے گا،فکسنگ کا ''اسپاٹ'' ایسا نہیں جو واشنگ مشین میں ڈالنے سے دھل جائے، یہ کبھی ختم نہیں ہوتا،تینوں کرکٹرز اب جب بھی کھیلے شکوک کی زد میں رہیں گے،ایسے میں انھیں ٹیم سے دور رکھنا ہی مناسب ہوگا۔
کئی سال بیت گئے مگر کل ہی کی بات لگتی ہے، میں لندن کے نجی دورے پر تھا، اچانک نجانے کیا سوجھی کہ اسپاٹ فکسنگ کیس کی کارروائی دیکھنے کراؤن کورٹ پہنچ گیا، میں وہاں موجود واحد پاکستانی صحافی تھا،اندر داخل ہوتے ہی سلمان بٹ اور محمد آصف نظر آئے، میں نے بہت تلاش کیا مگر دونوں کے چہروں پر پشیمانی دکھائی نہ دی،وہ بضد تھے کہ کوئی غلط کام نہیں کیا کسی سازش کا شکار ہوئے ہیں، پھر عدالتی کارروائی شروع ہوئی، بڑے بڑے کھلاڑیوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہونے والے کرکٹرز جج کو دیکھ کرخوفزدہ سے نظر آئے۔
اس کیس کا کیا نتیجہ آیا وہ سب جانتے ہیں، جیل کی گاڑی میں جب ہمارے کھلاڑیوں کو لے جایا جا رہا تھا وہ منظرکوئی کرکٹ شائق نہیں بھلا سکتا، مجھے بھی اب تک یہ واقعہ ستاتا ہے، انگلینڈ میں کرکٹ میچ کے دوران پریس کانفرنس میں اتنے کیمرے نظر نہیں آتے جو اس دن عدالت کے باہر موجود تھے، اپنے کھلاڑیوں کے کلیئرہونے کی آس میں وہاں آنے والے پاکستانی نژاد برطانوی شہری بھی سخت غمزدہ تھے، بعد میں منفی عناصر نے انھیں بھی اس طرح لعن تعن کی جیسے وہی سلمان، عامر اور آصف ہوں، وہ دکھ اور کرب کوئی کیسے بھلا سکتا ہے، پہلے ہی پاکستانیوں پر دہشت گردوں کا لیبل لگا تھا۔
اس واقعے نے بے ایمان کا لقب بھی دلا دیا۔ تینوں کرکٹرز نے اسپاٹ فکسنگ کی اور اس کی انھیں سزا بھی مل چکی مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ان میں سے2 کو تو اپنے کیے پر کوئی شرمندگی نہیں تھی، اسکینڈل سامنے آنے پر عامر نے تو فوراً ہی شاہد آفریدی کے سامنے اپنے غلطی کا اعتراف کر لیا تھا پھر آئی سی سی سے بھی مکمل تعاون کیا، مگر سلمان اور آصف نے اب کہیں جا کر مانا کہ انھوں نے فکسنگ کی تھی،دونوں ملک کی عزت سے کھیلے اور اب پھر ٹیم میں واپسی کا عزم ظاہر کر رہے ہیں، انھیں ایسا موقع دینا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا، یقیناً دوسرا چانس ملنا چاہیے مگر ملکی بدنامی کا باعث بننے والوں کو نہیں،کرکٹرز بھی ملک کے سفیر اورکروڑوں لوگوں کو ان سے امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔
اگر وہ کرپشن کریں گے توانھیں رول ماڈل سمجھنے والوں کوکیا پیغام جائے گا، انھیں ہر سال جائز طریقے سے ہی کئی کروڑ روپے مل جاتے ہیں تو پھر غلط کام کا کیا جواز ہے؟ عامر، سلمان اور آصف نے جیل کے بعد پابندی کی سزا بھگت لی، عامر تو ڈومیسٹک کرکٹ میں واپس بھی آ چکے، دیگر دونوں کو بھی آنے دینا چاہیے، یہ کہنا کہ ان کی روزی روٹی کا مسئلہ ہے سراسر غلط بات ہو گی، اگر آج بھی تینوں کے اپنے اور اہل خانہ کے اثاثے چیک کیے جائیں تو کروڑ پتی تو یقیناً ہوں گے، اگر کوئی ادارہ ٹیم میں شامل کر لے توروزگار کا ایک اور سلسلہ بھی جاری ہو جائے گا، ٹی وی پر تبصرے اور کوچنگ سمیت کئی آپشنز موجود ہیں،مگر قومی ٹیم میں واپس لینے کا سوچنا بھی گناہ ہے۔
یہ مصباح الحق اور ان جیسے دیگر ایماندار کھلاڑیوں کے منہ پر طمانچہ ہو گا جنھوں نے گری پڑی ٹیم کو مشکل وقت میں سہارا دیا، میں مانتا ہوں کہ کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں کرپشن نہ ہوتی ہو مگر کوئی کلرک رشوت لیتا پکڑا جائے تو اس سے بیرون ملک کوئی ایشو نہیں بنتا، مگر کرکٹر کے ساتھ ایسا ہو تو دنیا بھر کا میڈیا پاکستان کو خوب بدنام کرتا ہے، بعض لوگ بھارت کی مثال دیتے ہیں کہ اس کے کرکٹرز بھی فکسنگ کرتے ہیں مگر کوئی کچھ نہیں کہتا، یقیناً یہ بات درست ہے مگر کبھی نہ کبھی وہ بھی پکڑ میں آئیں گے اور پھر ہم ایسے لوگوں کی مثالیں کیوں دیتے ہیں۔
جوکرپشن میں ملوث نہیں ان کی پیروی کیوں نہیں کی جاتی؟ اگر کوئی دوسرا چور ہے تو ہم بھی چور تو نہیں بن سکتے، ویسٹ انڈیز کے سموئلز تو فون پر معلومات دینے پر ہی پابندی کی زد میں آ گئے تھے، ہمارے کرکٹرز نے تو کیمرے کے سامنے ڈیل کی، پھر اسی کے تحت نوبال کر کے اپنے گناہوں پر مہر ثبت کر دی، اس کے علاوہ بھی انھوں نے کئی ایسے کام کیے ہوں گے مگر ایک غلطی نے سارا بھانڈا پھوڑ دیا، مصباح و دیگر نے نوجوانوں کے ساتھ نئی ٹیم تشکیل دی جو بہترین تو نہیں بنی مگر بہتری کی راہ پر گامزن ضرور ہے، عامر، سلمان یا آصف کو واپس لانا ٹیم کے اتحاد کو پارا پارا کر دے گا۔
اس لیے بورڈ کو واضح پالیسی اپنانا چاہیے، کوئی بھی ملک سے بڑھ کر نہیں ہوتا، دانش کنیریا نے بھی انگلینڈ میں غلط حرکات کیں اور پابندی کا شکار ہوئے مگر اب بھی خود کو' دودھ کا دھلا 'ثابت کرنے کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں، جو غلطی تسلیم نہ کریں ایسے لوگوں کو تو کوئی معافی نہیں دینی چاہیے، ا بھی سخت اقدامات نہ کیے تو نئے کھلاڑیوں کو اچھا پیغام نہیں جائے گا،فکسنگ کا ''اسپاٹ'' ایسا نہیں جو واشنگ مشین میں ڈالنے سے دھل جائے، یہ کبھی ختم نہیں ہوتا،تینوں کرکٹرز اب جب بھی کھیلے شکوک کی زد میں رہیں گے،ایسے میں انھیں ٹیم سے دور رکھنا ہی مناسب ہوگا۔