بددلی سے خود اذیتی تک
بددلی کی دوسری حالت خود اذیتی کی ہے جس سے میں وہ شخص اپنے آپ کو تکلیف دے کر سکون محسوس کرتا ہے۔
بددلی ایک ایسی ذہنی حالت ہے کہ جس کی وجہ سے انسان نہ صرف پریشان رہتا ہے بلکہ چاہتے ہوئے بھی اپنی پوری استعداد سے کام نہیں کرپاتا۔ بددلی کہ وجہ سے بہت سے معاشرتی اور معاشی مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔ جب تک بد دلی کی وجوہات کو تلاش کو نہیں کیا جائے گا۔ وہ شخص یا خاندان یا ادارہ پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکتا۔ بددلی کے مکمل خاتمے پر ہی خوش دلی یا دل جمعی جنم لیتی ہے جس سے کوئی بھی انسان اپنی استعداد سے بڑا کر کام کرنے کی صلاحیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔
بد دلی کے عمومی مظہر آپ کو اپنی عام زندگی میں بے شمار جگہ نظر آتے ہیں۔ آپ کو نہ صرف اپنے دفتر میں اسٹاف کی جانب سے دفتری کام میں بددلی نظر آتی ہے بلکہ آپ بچوں کو بھی اکثر تعلیم سے بھی بددل پائیں گے، اور یہ معاملہ اکثر گھر میں بھی نظر آتا ہے کہ والدہ یا بیوی کی اپنے گھر کے امور سے بددلی نظرآتی ہے۔
سب سے پہلے بددلی کو سمجھنے کو کوشش کرتے ہیں۔ آپ نے بازار میں اکثر دیکھا ہوگا کہ ایک ہی چیزیں مثلا کپڑے کی کئی دکانیں موجود ہیں۔ لیکن ان میں سے کچھ دکانیں اکثر گاہکوں سے خالی رہتی ہیں۔ جب کہ کچھ میں ضرورت سے زیادہ رش ہوتا ہے۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ جب خالی دکان اور رش والی دکان ایک ہی جگہ ایک ہی بازار میں واقع ہیں اور ایک جیسی پروڈکٹ ہی فروخت کررہی ہیں اور یہ پروڈکٹ شاید ایک ہی ٹیکسٹال ملز میں تیار بھی ہوئی ہوگی، تو اِن تمام مشترک چیزوں کے باوجود ایک دکان پر گاہک زیادہ اور ایک پر کم کیوں ہیں؟
عام طور پر لوگ اس کو قسمت یا نصیب سے تشبیہہ دیتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ کامیاب دکان پر قدرت (خدا/اللہ) کی طرف خاص انعام ہے جب کہ ناکام دکان دار کا اپنا کوئی قصور نہیں بلکہ یہ تو قسمت کا کھیل ہے یا اس کا نصیب ہی خراب ہے۔ جب کہ ماہرین کے مطابق یہ اس دکان دار کی اپنی ذاتی حرکتوں کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ جس میں سب سے بڑی وجہ بد دلی ہے۔ مثلاً وہ اپنے کام کو اُس طرح نہیں کررہا جس طرح اُس کے کرنے کا حق ہے۔ اگر وہ اپنی اصلاح کرلیں اور اپنی ذہنی بیماری کو دور کرلیں، تو وہ باآسانی اپنی ناکامیوں پر قابو پاکر کامیاب بزنس مین بن سکتا ہے۔
بددلی جو کہ ایک بہت ہی معمولی سی نفسیاتی بیماری ہے جس میں اِس بیماری کے حامل افراد ایک خاص مقام پر رُک جاتے ہیں اور جب اُنہیں کسی کام پر غصہ آجائے یا نفرت ہوجائے تو ہمشیہ وہ کام مجبوری سے ہی کیا جاتا ہے۔ بددلی کی وجہ سے وہ شخص نہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ اس بیماری کی وجہ سے گھر کے معاملات، کاروبار یا وہ ادارہ جس سے وہ منسلک ہوتا ہے کی مجموعی کارکردگی پر بھی انتہائی برے اثرات مرتبہ ہوتے ہیں۔
بددلی کی دوسری حالت خود اذیتی کی ہے جس سے میں وہ شخص اپنے آپ کو تکلیف دے کر سکون محسوس کرتا ہے۔ یہ کافی خطرہ ناک حالت ہوتی ہے۔ جس کی انتہائی حالت خودکشی کی ہوتی ہے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ عموما گھروں میں خواتین بد دلی کی وجہ سے خود اذیتی میں مبتلا ہوجاتی ہیں اور خود کو تکلیف دینا شروع کردیتی ہیں۔ مثلاً سخت کام کرنا، شدید گرمی میں دھوپ میں کپڑے دھونا، اپنی عمومی صفائی یعنی اپنے حلیے اور لباس کی صفائی کا خیال نہیں، جو ضروری بلکہ لازمی غذائیت کی ان کو ضرورت ہوتی ہے۔ اپنی صحت کر برقرار رکھنے کے لیے دودھ، مکھن، انڈے، گوشت وغیرہ گھر میں موجود ہونے کے باوجود استعمال نہ کرنا۔ جب کوئی ان سے یہ پوچھتا ہے کہ آپ یہ سب استعمال کیوں نہیں کرتے تو وہ غلط ہونے کے باوجود خود کو درست ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کریں گی۔
ہمارے ہاں خواتین شادی کے بعد ہجرت کے عمل سے گزرتی ہیں۔ جس کی وجہ سے اکثریت خراب اور نامناسب رویوں کے باعث باآسانی بددلی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو زیادہ عزت واحترام دیں، مناسب سیر و تفریح کے مواقع فراہم کریں، اس کے احساس محرومی کو دور کرنے کے لئے اس کے عدم تحفظ کے احساس کو دور کرنا بہت ضروری ہے۔
بچوں میں تعلیمی معاملات میں عموماً بددلی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اکثر والدین ان مسائل کو روایتی انداز میں حل کرنے کی ناکام کوشش اِس طرح کرتے ہیں کہ وہ بچہ کے لئے مزید ٹیوشن کا انتظام کردیتے ہیں۔ لیکن اکثر دیکھنے میں آیا کہ بددلی کا شکار طالب علم اسکول، کالج اور ٹیوشن پڑھنے کے باوجود بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پاتے بلکہ ان کی تعلیمی پوزیشن مزید خراب ہوجاتی ہے۔ جب کہ کئی والدین یا استاد بچوں پر جسمانی تشدد شروع کردیتے ہیں۔ اس سے شدید بددلی کا شکار (یعنی خود اذیتی میں مبتلا) بچوں کو سکون ملتا ہے اور اُستاد یا والدین کو اکثر کہتے سنا گیا کہ یہ بچہ ڈھیٹ ہوگیا ہے، اب اس پر مار کا بھی اثر نہیں ہوتا۔ حالانکہ اِس مسئلہ کا حل نہایت آسان ہے اور وہ حل یہ ہے کہ اگر بچوں کو اِس بات کی چھوٹ دی جائے کہ وہ اپنی مرضی کے مضمون یا شعبہ جس میں وہ زیادہ دل جمعی سے کام کرسکتے ہیں، کا انتخاب کریں تو یقینی طور پر نہ صرف بچے ٹھیک راہ پر واپس آجائیں گے بلکہ اچھے نتائج بھی دینا شروع کردیں گے۔
دفتر یا کاروبار کی جگہ میں عموماً اسٹاف کی اپنی آرگنائزیشن سے بددلی دیکھنے میں نظر آتی ہے۔ دفتر میں بددلی کے خاتمہ کے لئے ضروری ہے کہ اسٹاف کی تنخواہ ان کی کارکردگی سے منسلک کی جائے۔ اس طرح نہ صرف اُن کی کارکردگی بڑھے گی بلکہ وہ کام کو وقت پر کرنے کی کوشش بھی کریں گے
بعض دفتروں میں ہر 15 دن بعد تنخواہ کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ ایک نجی سروے کے مطابق ''پاکستان میں اسٹاف ایسی کمپینیوں میں کام کرنا پسند کرتے ہیں جہاں 30 تاریخ کو تنخواہ دی جاتی ہے''۔ اس کے علاوہ کارکردگی کی بنیاد پر عہدے میں اضافہ کرنا بھی خوش دلی میں اضافہ کرتا ہے اور ان کی کمپنی سے وابستگی پختہ ہوجاتی ہے۔ پھر اپنے اسٹاف کا دوسرے کے سامنے عزت واحترام سے تعارف کروانا بھی اچھا سمجھا جاتا ہے جیسے ''اِن سے ملیں یہ ہیں حمزہ، عبداللہ ہمارے بہت محنتی ساتھی''۔
بددلی کے شکار افراد کے علاج کے لئے ضروری ہے کہ اُن کو نہ صرف زیادہ وقت دیا جائے اُن کو زیادہ پیار، عزت واحترام بھی دینا ہوگا۔ اس کے ساتھ اس کے ان منفی خیالات، جذبات کو تلاش کرنا ہوگا جس کی وجہ سے وہ بددلی کا شکار ہے۔ اگر ایسا کرلیا گیا تو قوی اُمید ہے کہ معاشرے میں سرائیت اِس بیماری کو جلد ختم کیا جاسکتا ہے۔
[poll id="616"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
بد دلی کے عمومی مظہر آپ کو اپنی عام زندگی میں بے شمار جگہ نظر آتے ہیں۔ آپ کو نہ صرف اپنے دفتر میں اسٹاف کی جانب سے دفتری کام میں بددلی نظر آتی ہے بلکہ آپ بچوں کو بھی اکثر تعلیم سے بھی بددل پائیں گے، اور یہ معاملہ اکثر گھر میں بھی نظر آتا ہے کہ والدہ یا بیوی کی اپنے گھر کے امور سے بددلی نظرآتی ہے۔
سب سے پہلے بددلی کو سمجھنے کو کوشش کرتے ہیں۔ آپ نے بازار میں اکثر دیکھا ہوگا کہ ایک ہی چیزیں مثلا کپڑے کی کئی دکانیں موجود ہیں۔ لیکن ان میں سے کچھ دکانیں اکثر گاہکوں سے خالی رہتی ہیں۔ جب کہ کچھ میں ضرورت سے زیادہ رش ہوتا ہے۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ جب خالی دکان اور رش والی دکان ایک ہی جگہ ایک ہی بازار میں واقع ہیں اور ایک جیسی پروڈکٹ ہی فروخت کررہی ہیں اور یہ پروڈکٹ شاید ایک ہی ٹیکسٹال ملز میں تیار بھی ہوئی ہوگی، تو اِن تمام مشترک چیزوں کے باوجود ایک دکان پر گاہک زیادہ اور ایک پر کم کیوں ہیں؟
عام طور پر لوگ اس کو قسمت یا نصیب سے تشبیہہ دیتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ کامیاب دکان پر قدرت (خدا/اللہ) کی طرف خاص انعام ہے جب کہ ناکام دکان دار کا اپنا کوئی قصور نہیں بلکہ یہ تو قسمت کا کھیل ہے یا اس کا نصیب ہی خراب ہے۔ جب کہ ماہرین کے مطابق یہ اس دکان دار کی اپنی ذاتی حرکتوں کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ جس میں سب سے بڑی وجہ بد دلی ہے۔ مثلاً وہ اپنے کام کو اُس طرح نہیں کررہا جس طرح اُس کے کرنے کا حق ہے۔ اگر وہ اپنی اصلاح کرلیں اور اپنی ذہنی بیماری کو دور کرلیں، تو وہ باآسانی اپنی ناکامیوں پر قابو پاکر کامیاب بزنس مین بن سکتا ہے۔
بددلی جو کہ ایک بہت ہی معمولی سی نفسیاتی بیماری ہے جس میں اِس بیماری کے حامل افراد ایک خاص مقام پر رُک جاتے ہیں اور جب اُنہیں کسی کام پر غصہ آجائے یا نفرت ہوجائے تو ہمشیہ وہ کام مجبوری سے ہی کیا جاتا ہے۔ بددلی کی وجہ سے وہ شخص نہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ اس بیماری کی وجہ سے گھر کے معاملات، کاروبار یا وہ ادارہ جس سے وہ منسلک ہوتا ہے کی مجموعی کارکردگی پر بھی انتہائی برے اثرات مرتبہ ہوتے ہیں۔
بددلی کی دوسری حالت خود اذیتی کی ہے جس سے میں وہ شخص اپنے آپ کو تکلیف دے کر سکون محسوس کرتا ہے۔ یہ کافی خطرہ ناک حالت ہوتی ہے۔ جس کی انتہائی حالت خودکشی کی ہوتی ہے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ عموما گھروں میں خواتین بد دلی کی وجہ سے خود اذیتی میں مبتلا ہوجاتی ہیں اور خود کو تکلیف دینا شروع کردیتی ہیں۔ مثلاً سخت کام کرنا، شدید گرمی میں دھوپ میں کپڑے دھونا، اپنی عمومی صفائی یعنی اپنے حلیے اور لباس کی صفائی کا خیال نہیں، جو ضروری بلکہ لازمی غذائیت کی ان کو ضرورت ہوتی ہے۔ اپنی صحت کر برقرار رکھنے کے لیے دودھ، مکھن، انڈے، گوشت وغیرہ گھر میں موجود ہونے کے باوجود استعمال نہ کرنا۔ جب کوئی ان سے یہ پوچھتا ہے کہ آپ یہ سب استعمال کیوں نہیں کرتے تو وہ غلط ہونے کے باوجود خود کو درست ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کریں گی۔
ہمارے ہاں خواتین شادی کے بعد ہجرت کے عمل سے گزرتی ہیں۔ جس کی وجہ سے اکثریت خراب اور نامناسب رویوں کے باعث باآسانی بددلی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو زیادہ عزت واحترام دیں، مناسب سیر و تفریح کے مواقع فراہم کریں، اس کے احساس محرومی کو دور کرنے کے لئے اس کے عدم تحفظ کے احساس کو دور کرنا بہت ضروری ہے۔
بچوں میں تعلیمی معاملات میں عموماً بددلی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اکثر والدین ان مسائل کو روایتی انداز میں حل کرنے کی ناکام کوشش اِس طرح کرتے ہیں کہ وہ بچہ کے لئے مزید ٹیوشن کا انتظام کردیتے ہیں۔ لیکن اکثر دیکھنے میں آیا کہ بددلی کا شکار طالب علم اسکول، کالج اور ٹیوشن پڑھنے کے باوجود بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پاتے بلکہ ان کی تعلیمی پوزیشن مزید خراب ہوجاتی ہے۔ جب کہ کئی والدین یا استاد بچوں پر جسمانی تشدد شروع کردیتے ہیں۔ اس سے شدید بددلی کا شکار (یعنی خود اذیتی میں مبتلا) بچوں کو سکون ملتا ہے اور اُستاد یا والدین کو اکثر کہتے سنا گیا کہ یہ بچہ ڈھیٹ ہوگیا ہے، اب اس پر مار کا بھی اثر نہیں ہوتا۔ حالانکہ اِس مسئلہ کا حل نہایت آسان ہے اور وہ حل یہ ہے کہ اگر بچوں کو اِس بات کی چھوٹ دی جائے کہ وہ اپنی مرضی کے مضمون یا شعبہ جس میں وہ زیادہ دل جمعی سے کام کرسکتے ہیں، کا انتخاب کریں تو یقینی طور پر نہ صرف بچے ٹھیک راہ پر واپس آجائیں گے بلکہ اچھے نتائج بھی دینا شروع کردیں گے۔
دفتر یا کاروبار کی جگہ میں عموماً اسٹاف کی اپنی آرگنائزیشن سے بددلی دیکھنے میں نظر آتی ہے۔ دفتر میں بددلی کے خاتمہ کے لئے ضروری ہے کہ اسٹاف کی تنخواہ ان کی کارکردگی سے منسلک کی جائے۔ اس طرح نہ صرف اُن کی کارکردگی بڑھے گی بلکہ وہ کام کو وقت پر کرنے کی کوشش بھی کریں گے
بعض دفتروں میں ہر 15 دن بعد تنخواہ کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ ایک نجی سروے کے مطابق ''پاکستان میں اسٹاف ایسی کمپینیوں میں کام کرنا پسند کرتے ہیں جہاں 30 تاریخ کو تنخواہ دی جاتی ہے''۔ اس کے علاوہ کارکردگی کی بنیاد پر عہدے میں اضافہ کرنا بھی خوش دلی میں اضافہ کرتا ہے اور ان کی کمپنی سے وابستگی پختہ ہوجاتی ہے۔ پھر اپنے اسٹاف کا دوسرے کے سامنے عزت واحترام سے تعارف کروانا بھی اچھا سمجھا جاتا ہے جیسے ''اِن سے ملیں یہ ہیں حمزہ، عبداللہ ہمارے بہت محنتی ساتھی''۔
بددلی کے شکار افراد کے علاج کے لئے ضروری ہے کہ اُن کو نہ صرف زیادہ وقت دیا جائے اُن کو زیادہ پیار، عزت واحترام بھی دینا ہوگا۔ اس کے ساتھ اس کے ان منفی خیالات، جذبات کو تلاش کرنا ہوگا جس کی وجہ سے وہ بددلی کا شکار ہے۔ اگر ایسا کرلیا گیا تو قوی اُمید ہے کہ معاشرے میں سرائیت اِس بیماری کو جلد ختم کیا جاسکتا ہے۔
[poll id="616"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس