کراچی میں امن سب کی ترجیح ہونی چاہیے
جب سے کراچی میں آپریشن شروع ہوا ہے امن و امان کی صورت حال میں نمایاں طور پر بہتری آئی ہے
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کراچی میں خاصا مصروف دن گزارا۔ انھوں نے گورنر ہاؤس سندھ میں امن و امان کے حوالے سے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں شرکت کی، پارسی برادری کی تقریب سے خطاب کیا اور جوہری توانائی کے ٹو کنٹریکٹ بورنگ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کیا۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے واضح کیا کہ کراچی آپریشن کسی قیمت پر بند نہیں ہو گا اور یہ نتائج کے حصول تک جاری رہے گا، آپریشن سے کراچی میں امن قائم ہو گیا ہے، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کا خاتمہ ہو گیا ہے، آپریشن کسی جماعت کے خلاف ہے نہ کسی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے یہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ہے، آپریشن اتفاق رائے سے شروع کیا، کراچی ہماری اولین ترجیح ہے، آپریشن کے باعث دہشت گردوں کی کارروائیوں کی صلاحیت تقریباً ختم ہو گئی ہے اور ملک میں مسلح جتھوں کے خلاف بھی آپریشن کریں گے۔
دہشت گردوں، بھتہ مافیا اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن شروع کرنے سے قبل پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی شہر کراچی کے حالات انتہائی خراب تھے۔ بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کے باعث نہ صرف عام شہری خوف و ہراس کا شکار تھے بلکہ کاروباری طبقہ پریشانی کا شکار تھا۔
کراچی سے سرمایہ بیرون ملک منتقل ہو رہا تھا۔ یہ صورت حال انتہائی سنگین تھی، شہریوں اور کاروباری طبقے نے اس بگڑتی ہوئی صورت حال کی جانب سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کی کئی بار توجہ دلائی، جس پر معاملات بہتر بنانے کے لیے انھیں کئی بار یقین دہانی کرائی گئی مگر حالات میں کوئی تبدیلی واقعہ نہ ہوئی بلکہ صورت حال روز بروز خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔
کراچی کے حالات اس وقت بھی خراب تھے جب مرکز میں پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت تھی اور یہ سلسلہ موجودہ حکومت کے دور میں بھی جاری رہا۔یہ اطلاعات بھی منظر عام پرآتی رہیں کہ جرائم پیشہ گروہوں، لینڈ مافیا، بھتہ خوروں کو بعض سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی حاصل ہے جس کے باعث وہ قانون کی گرفت میں نہیں آتے۔یہ وہ معاملات اور حالات ہیں جو کراچی میں ایپکس کمیٹی کے قیام کا باعث بنے اور پھریہاں آپریشن کا آغاز ہوا۔
جب سے کراچی میں آپریشن شروع ہوا ہے امن و امان کی صورت حال میں نمایاں طور پر بہتری آئی ہے جس کی واضح نشاندہی اس امر سے ہوتی ہے کہ اس بار عیدالفطر کے موقع پر کراچی میں 40 ارب روپے کی ریکارڈ خریداری ہوئی، شہریوں کی بڑی تعداد سیر و تفریح کے لیے باہر نکل آئی اور انھیں ایک طویل عرصہ بعد تحفظ کا احساس ہوالیکن ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کراچی میں حقیقی معنوں میں امن قائم ہو گیا ہے کیونکہ اب بھی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے ۔
گزشتہ دنوں ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی رشید گوڈیل کو گولیاں ماری گئیں ،وہ شدید زخمی ہوئے اور ابھی تک موت و حیات کی کشمکش میں ہیں ۔ان پر حملہ اس وقت ہوا جب مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں ایک وفد ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے مذاکرات کے لیے کراچی میں موجود تھا۔یوں دیکھا جائے تو کراچی میں ایسی مافیا موجود ہے جو ایسے حالات اور مواقع کی تلاش میں رہتی ہے جب وہ کوئی بڑی واردات کر سکے تاکہ کراچی میں امن قائم نہ ہو سکے ۔
دہشت گردی اس وقت پورے ملک کا مسئلہ ہے ۔کراچی میں رشید گوڈیل پر حملہ ہوا ہے تو اس سے قبل دہشت گردوں نے پنجاب کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ کو نشانہ بنایا گیا۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دہشت گردی اس ملک کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے لہٰذا وقت کا تقاضا یہی ہے کہ دہشت گردوں، جرائم پیشہ افراد کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے۔
آپریشن ضرب عضب کے باعث ملک بھر میں مجموعی طور پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں نمایاں کمی آئی ہے اب نہ صرف سول انتظامیہ بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کا بھی فرض ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے اور امن و امان کی بحالی کے لیے واضح طور پر لائحہ عمل اختیار کریں اور یہ واضح کریں کہ جرائم میں ملوث افراد کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے خواہ ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت ہی سے کیوں نہ ہو۔
یہ بھی ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں کے تحفظات کو دور کیا جائے تاکہ کراچی میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا خاتمہ کیا جا سکے، سیاسی جماعتیں، حکومت اور فوج ایک پیج پر ہوں گی تو کراچی ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان سے دہشت گردوں کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔کراچی میں دہشت گردی اور جرائم کا خاتمہ ہو جائے تو اس کے اثرات پورے ملک پر پڑیں گے ۔کراچی میں قیام امن تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کی اولین ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ کراچی میں امن ہے تو پورے پاکستان میں امن ہے۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے واضح کیا کہ کراچی آپریشن کسی قیمت پر بند نہیں ہو گا اور یہ نتائج کے حصول تک جاری رہے گا، آپریشن سے کراچی میں امن قائم ہو گیا ہے، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کا خاتمہ ہو گیا ہے، آپریشن کسی جماعت کے خلاف ہے نہ کسی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے یہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ہے، آپریشن اتفاق رائے سے شروع کیا، کراچی ہماری اولین ترجیح ہے، آپریشن کے باعث دہشت گردوں کی کارروائیوں کی صلاحیت تقریباً ختم ہو گئی ہے اور ملک میں مسلح جتھوں کے خلاف بھی آپریشن کریں گے۔
دہشت گردوں، بھتہ مافیا اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن شروع کرنے سے قبل پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی شہر کراچی کے حالات انتہائی خراب تھے۔ بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کے باعث نہ صرف عام شہری خوف و ہراس کا شکار تھے بلکہ کاروباری طبقہ پریشانی کا شکار تھا۔
کراچی سے سرمایہ بیرون ملک منتقل ہو رہا تھا۔ یہ صورت حال انتہائی سنگین تھی، شہریوں اور کاروباری طبقے نے اس بگڑتی ہوئی صورت حال کی جانب سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کی کئی بار توجہ دلائی، جس پر معاملات بہتر بنانے کے لیے انھیں کئی بار یقین دہانی کرائی گئی مگر حالات میں کوئی تبدیلی واقعہ نہ ہوئی بلکہ صورت حال روز بروز خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔
کراچی کے حالات اس وقت بھی خراب تھے جب مرکز میں پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت تھی اور یہ سلسلہ موجودہ حکومت کے دور میں بھی جاری رہا۔یہ اطلاعات بھی منظر عام پرآتی رہیں کہ جرائم پیشہ گروہوں، لینڈ مافیا، بھتہ خوروں کو بعض سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی حاصل ہے جس کے باعث وہ قانون کی گرفت میں نہیں آتے۔یہ وہ معاملات اور حالات ہیں جو کراچی میں ایپکس کمیٹی کے قیام کا باعث بنے اور پھریہاں آپریشن کا آغاز ہوا۔
جب سے کراچی میں آپریشن شروع ہوا ہے امن و امان کی صورت حال میں نمایاں طور پر بہتری آئی ہے جس کی واضح نشاندہی اس امر سے ہوتی ہے کہ اس بار عیدالفطر کے موقع پر کراچی میں 40 ارب روپے کی ریکارڈ خریداری ہوئی، شہریوں کی بڑی تعداد سیر و تفریح کے لیے باہر نکل آئی اور انھیں ایک طویل عرصہ بعد تحفظ کا احساس ہوالیکن ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کراچی میں حقیقی معنوں میں امن قائم ہو گیا ہے کیونکہ اب بھی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے ۔
گزشتہ دنوں ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی رشید گوڈیل کو گولیاں ماری گئیں ،وہ شدید زخمی ہوئے اور ابھی تک موت و حیات کی کشمکش میں ہیں ۔ان پر حملہ اس وقت ہوا جب مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں ایک وفد ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے مذاکرات کے لیے کراچی میں موجود تھا۔یوں دیکھا جائے تو کراچی میں ایسی مافیا موجود ہے جو ایسے حالات اور مواقع کی تلاش میں رہتی ہے جب وہ کوئی بڑی واردات کر سکے تاکہ کراچی میں امن قائم نہ ہو سکے ۔
دہشت گردی اس وقت پورے ملک کا مسئلہ ہے ۔کراچی میں رشید گوڈیل پر حملہ ہوا ہے تو اس سے قبل دہشت گردوں نے پنجاب کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ کو نشانہ بنایا گیا۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دہشت گردی اس ملک کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے لہٰذا وقت کا تقاضا یہی ہے کہ دہشت گردوں، جرائم پیشہ افراد کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے۔
آپریشن ضرب عضب کے باعث ملک بھر میں مجموعی طور پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں نمایاں کمی آئی ہے اب نہ صرف سول انتظامیہ بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کا بھی فرض ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے اور امن و امان کی بحالی کے لیے واضح طور پر لائحہ عمل اختیار کریں اور یہ واضح کریں کہ جرائم میں ملوث افراد کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے خواہ ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت ہی سے کیوں نہ ہو۔
یہ بھی ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں کے تحفظات کو دور کیا جائے تاکہ کراچی میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا خاتمہ کیا جا سکے، سیاسی جماعتیں، حکومت اور فوج ایک پیج پر ہوں گی تو کراچی ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان سے دہشت گردوں کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔کراچی میں دہشت گردی اور جرائم کا خاتمہ ہو جائے تو اس کے اثرات پورے ملک پر پڑیں گے ۔کراچی میں قیام امن تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کی اولین ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ کراچی میں امن ہے تو پورے پاکستان میں امن ہے۔