معاشرے کو مہذب بنا کر ہی بچوں کو تحفظ دیا جا سکتا ہے
قانون کی سختی کا زیادہ فائدہ قانون نافذ کرنےوالے سرکاری اہلکار اٹھاتےہیں اورسائلوں کا حال اورزیادہ قابل رحم بن جاتا ہے
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون، انصاف اور انسانی حقوق نے ضابطہ فوجداری قانون میں ترمیم کے بل کی منظوری دیدی جس کے تحت بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی پر عمر قید، بچوں کو ورغلا کر برہنہ ویڈیو یا تصاویر بنانے پر 7 سال قید، 5 لاکھ روپے جرمانے، بچوں کے ساتھ جان بوجھ کر فحش حرکات اور تشدد پر 3 سال قید اور 50 ہزار روپے تک جرمانہ کرنے کی سزاؤں کی سفارش کی گئی ہے۔
کمیٹی کا اجلاس چیئرمین چوہدری محمود بشیر ورک کی زیر صدارت ہوا۔ جیسا کہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس ضابطہ فوجداری میں یہ ترمیم سانحہ قصور کے تناظر میں تجویز کی گئی ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا قوانین کو زیادہ سے زیادہ سخت بنانے سے جرائم پر مکمل قابو پا لیا جائے گا یا کہ یہ قدم ارباب بست و کشاد نے رائے عامہ کا غیظ و غضب کم کرنے کی خاطر اٹھایا ہے کیونکہ قانون بنانے میں تو ایک منٹ لگتا ہے مگر اس قانون پر عملدرآمد میں صدیاں رائیگاں چلی جاتی ہیں۔
اجلاس میں فوجداری قانون میں ترمیم سے متعلق حکومتی بل اور بچوں کے حقوق سے متعلق قومی کمیشن بل پر غور کیا گیا۔ یہاں پھر سوالات کا ایک اور دروازہ کھلتا اور وہ ہے بچوں کی غور پرداخت اور دانشمندانہ پرورش۔ ان بنیادی سوالوں کو تشنہ چھوڑ کر محض قانون سازیاں کارآمد ثابت نہ ہو سکیں گی۔ قانون کی سختی کا زیادہ فائدہ قانون نافذ کرنے والے سرکاری اہلکار اٹھاتے ہیں اور سائلوں کا حال اور زیادہ قابل رحم بن جاتا ہے۔
فوجداری قانون میں ترمیم سے متعلق بل کی شق 82 کے تحت بچوں کو جرم کا ذمے دار قرار دینے کی کم از کم عمر 7 سال سے بڑھا کر 10 سال کرنے اور دفعہ 83 کے تحت بالغ تصور کرنے کی عمر 12 سے بڑھا کر 14 سال کرنیکی تجویز پیش کی گئی۔
بہر حال قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے ضابطہ فوجداری میں جو ترامیم تجویز کی ہیں' وہ اپنی جگہ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ جب تک معاشرہ مہذب نہیں ہوتا' اس وقت تک بچوں اور کمزوروں کے ساتھ ظلم و زیادتی نہیں رک سکتی لہذا ضروری یہ ہے کہ ارکان پارلیمنٹ حکومت پر تعلیم کا بجٹ زیادہ کرنے پر دباؤ ڈالیں، معاشرے میں صحت مند ثقافتی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے دباؤ ڈالیں، ایسا کر کے ہی معاشرے کو مہذب بنایا جا سکتا ہے۔
کمیٹی کا اجلاس چیئرمین چوہدری محمود بشیر ورک کی زیر صدارت ہوا۔ جیسا کہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس ضابطہ فوجداری میں یہ ترمیم سانحہ قصور کے تناظر میں تجویز کی گئی ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا قوانین کو زیادہ سے زیادہ سخت بنانے سے جرائم پر مکمل قابو پا لیا جائے گا یا کہ یہ قدم ارباب بست و کشاد نے رائے عامہ کا غیظ و غضب کم کرنے کی خاطر اٹھایا ہے کیونکہ قانون بنانے میں تو ایک منٹ لگتا ہے مگر اس قانون پر عملدرآمد میں صدیاں رائیگاں چلی جاتی ہیں۔
اجلاس میں فوجداری قانون میں ترمیم سے متعلق حکومتی بل اور بچوں کے حقوق سے متعلق قومی کمیشن بل پر غور کیا گیا۔ یہاں پھر سوالات کا ایک اور دروازہ کھلتا اور وہ ہے بچوں کی غور پرداخت اور دانشمندانہ پرورش۔ ان بنیادی سوالوں کو تشنہ چھوڑ کر محض قانون سازیاں کارآمد ثابت نہ ہو سکیں گی۔ قانون کی سختی کا زیادہ فائدہ قانون نافذ کرنے والے سرکاری اہلکار اٹھاتے ہیں اور سائلوں کا حال اور زیادہ قابل رحم بن جاتا ہے۔
فوجداری قانون میں ترمیم سے متعلق بل کی شق 82 کے تحت بچوں کو جرم کا ذمے دار قرار دینے کی کم از کم عمر 7 سال سے بڑھا کر 10 سال کرنے اور دفعہ 83 کے تحت بالغ تصور کرنے کی عمر 12 سے بڑھا کر 14 سال کرنیکی تجویز پیش کی گئی۔
بہر حال قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے ضابطہ فوجداری میں جو ترامیم تجویز کی ہیں' وہ اپنی جگہ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ جب تک معاشرہ مہذب نہیں ہوتا' اس وقت تک بچوں اور کمزوروں کے ساتھ ظلم و زیادتی نہیں رک سکتی لہذا ضروری یہ ہے کہ ارکان پارلیمنٹ حکومت پر تعلیم کا بجٹ زیادہ کرنے پر دباؤ ڈالیں، معاشرے میں صحت مند ثقافتی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے دباؤ ڈالیں، ایسا کر کے ہی معاشرے کو مہذب بنایا جا سکتا ہے۔