تیرہ نمبرکاملک
ناکام ریاستیں پوری دنیاکے استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔
KARACHI:
ناکام ریاستیں پوری دنیاکے استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔ اقوام متحدہ اورذیلی ادارے تمام ممالک پرپوری نظررکھتے ہیں کہ وہ کس ڈگرپرگامزن ہیں۔اسی طرح کاایک ادارہ "فنڈ برائے امن" "Fund for Peace"ہے۔یہ ادارہ پورا سال تحقیق کرتارہتاہے۔اس میں موجود دانشور اور محققین کوہر طرح کی سہولت میسرکی جاتی ہے۔یہ ہرسال ایک تجزیاتی رپورٹ شایع کرتا ہے۔
اس رپورٹ کاعنوان Fragile States Index ہوتا ہے۔ اس ادارہ کی 2015ء کی رپورٹ اس وقت انٹرنیٹ پر موجود ہے اوریہ ہرایک کی دسترس میں ہے۔آج تک کسی ملک نے اس ادارہ کے تجزیے کو غلط نہیں سمجھانہ کسی فورم پرچیلنج کیا۔چنانچہ اسکوایک حتمی حیثیت حاصل ہے۔ہمارے ملک میں ایک تاثردیاجارہاہے کہ پاکستان ترقی کی شاہراہ پرگامزن ہونے والاہے۔ہماری اقتصادی ترقی کے راستے میں تمام دشواریاں اب ختم ہوچکی ہیں۔بہت قلیل سے دورانیہ میں ہم معجزے برپاکردینگے۔
ان تمام دعوؤں کی بنیاد کیا ہے،میرے علم میں نہیںمگر 2015ء کی رپورٹ کے مطالعے کے بعدطالبعلم بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوچکا ہے۔ پاکستان اس تجزیہ میں ناکام (Fragile)ملکوں میں دنیامیں تیرھویں (13) نمبر پرہے۔عراق اس وقت (12)درجے پر ہے۔ ہم سے نیچے نائجیریا (Nigeria)اورکئی افریقی ممالک ہیں۔ سب سے بہتر اورمستنددرجہ(Very Sustainable) یعنی انتہائی ترقی یافتہ ممالک کاہے۔یہ دنیاکی سب سے خوش قسمت قومیں ہیں۔
اس مقام پرفِن لینڈہے۔اس سے اوپر ڈنمارک، ناروے،سویڈن وغیرہ ہیں۔تعجب کی بات یہ بھی ہے کہ پہلے تین اعلیٰ ترین درجوں میں کوئی بھی اسلامی ملک شامل نہیں ہے۔یعنی یہ فہرست پولینڈسے شروع ہوتی ہے اورفِن لینڈ پر ختم ہوجاتی ہے۔اس میں(More stable)زیادہ مستحکم، (Sustainable) دیرپا مستحکم، اورVery Sustainableیعنی بہت زیادہ مستحکم کی درجہ بندی ہے جو قابل رشک ہے۔پاکستان انتہائی خطرناک ممالک کی فہرست میں آتاہے۔اس سے پہلے کہ میں پاکستان کے متعلق عرض کروں۔ میرے ذہن میں یہ سوال موجودہے کہ عالم اسلام کے امیر ترین ممالک،اس اعلیٰ ترین فہرست میں کیسے اور کیونکر موجود نہیں ہیں۔
حیرت اورافسوس کااَمرہے۔سعودی عرب،ایران اورکویت کادوردورتک کوئی نام ونشان نہیں ہے۔یہ تیل کے قدرتی وسائل سے مالامال ممالک ہیں۔ان کے حکمران دنیاکے امیرترین لوگوں میں شمارکیے جاتے ہیں۔مگرجب ان کے نظام اورعام لوگوں کی صورتحال کاتعصب کے بغیرجائزہ لیاجاتاہے تویہ ممالک کسی طورپربھی ترقی یافتہ معلوم نہیں ہوتے۔ان میں بظاہرہرطرح کی سہولتیں موجود ہیں۔ شاہرائیں، بڑے عمدہ پُل،شاپنگ مالز،گاڑیاں یعنی ہرمادی شے موجودہے مگرپھربھی یہ اس معیارپرپورے نہیں اترتے کہ ان کا سویڈن، ناروے یا سنگاپورسے جزوی مقابلہ بھی کیاجاسکے۔
یہ ان تمام اُن اسلامی دانشوروں کے لیے بھی ایک لمحہ فکریہ ہے جوہمیں تاریخی لوریاں سناسناکرگہری نیند سے بیدارنہیں ہونے دیتے۔رپورٹ کی طرف نظر دوڑائیے۔ محض ایک کالم میں اس کا احاطہ کرناناممکن ہے۔میں محض جزوی طورپر چند معاملات آپکے سامنے پیش کرونگا۔ فیصلہ کرناآپکاکام ہے۔ یہ تین حصوں میںتقسیم کی گئی ہے۔ سماجی حالات(Social Indicators) اقتصادی حالات (Economic Indicators) اور آخر میں سیاسی اورفوجی معاملات یعنی (Political and Military Indicators) ان حصوں میں پھر مزیدانتہائی اہم عنوانات ہیں۔ ان کا انتہائی مستند اور سنجیدہ طریقے سے تجزیہ کیا گیا ہے۔
مثال کے طورپرسماجی شعبہ میں،گروہی تکالیف (Group Grievances) کاایک شعبہ ہے۔اس میں فرقہ واریت، مذہبی تشدد پسندی، لسانی جھگڑے،عام لوگوں کی بے بسی (Powerlesness) ترجیحی سلوک (Discrimination) جیسے اہم معاملات شامل ہیں۔ تمام شعبہ جات کے مختلف نمبررکھے گئے ہیںیعنی تمام عنوانات میں اقوام متحدہ سے منسلک ادارہ،ملکوں کوایک دوسرے کے مقابلے میں نمبردیتاہے۔جس ملک کے نمبرزیادہ ہوتے ہیں وہ ناکامی کے درجہ پرانتہائی اوپرہوتاہے۔جتنے نمبرکم ہوتے ہیں،اتناہی وہ ملک ترقی یافتہ اورکامیاب گردانا جاتا ہے۔ جیسے پہلے نمبرپرجنوبی سوڈان کے 114.5 نمبر ہیں۔یہ دنیا کی ناکام ترین ریاست ہے۔اس کے مقابلے میں فِن لینڈکے صرف17.8نمبرہیں۔
اس حوالے سے یہ دنیا کا سب سے مستحکم ملک ہے۔سویڈن کے نمبر20.2 ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے مجموعی نمبر102.9ہیں۔یہ شکستہ ممالک کی فہرست میں پوری ''شان'' سے عرصہ درازسے موجود ہے۔مشکل بات یہ بھی ہے کہ2008ء سے لے کرآج تک یعنی2015ء تک101اور103جیسے ادنیٰ ترین منزل پرمستقل طورپرموجودہے۔تجزیہ کے مطابق کسی حکومت کے آنے اورجانے سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ دعوے، اعلانات اور وعظ اپنی اپنی جگہ پرقابل احترام، مگر،معروضی معاملات جوں کے توں ہیں۔ اور شائد رہینگے۔ ناہمواراقتصادی ترقی، کے پیمانے کودیکھیے۔
اس میں چھ اہم جزئیات ہیں۔جیسے معاشرہ کے بالائی دس فیصدحصے کی آمدنی کیاہے۔اس کے مقابلے میں معاشرے کے پسماندہ یاغریب دس فیصدطبقے کے ذرایع آمدن کتنے ہیں۔ملک کے تمام حصوں میں سہولیات ایک جیسی ہیں یاان میں عدم توازن ہے۔یعنی ایک شہربہتر ہو رہا ہے اوردیگرشہرابتری کی طرف جا رہے ہیں۔ایک ہی شہر کا کچھ حصہ ترقی کی دوڑمیں دوسرے حصوں پر سبقت لے گیا ہے یا تمام حصے ایک ہی رفتارپرترقی کررہے ہیں۔ شہروں، قصبوں میں کچی آبادیاں کتنی ہیں اور کب سے موجود ہیں۔ دیہی اورشہری علاقوں میں اقتصادی وسائل کس تناسب سے تقسیم ہوتے ہیں۔
اس خانہ میں ہمارے ملک کے نمبر7.7 ہیں۔عراق تک ہم سے بہتر ہے۔ اس کے نمبر6.9 ہیں۔ خداکاشکرہے کہ ہم ہیٹی اورچاڈجیسے افریقی ممالک سے قدرے بہترہیں۔لیکن اس خانہ میں یعنی ناہمواراقتصادی ترقی کے زمرے میں ہم مکمل طورپرناکام ہوچکے ہیں۔ حقیقت ہرایک کومعلوم ہے۔کہنے کی ضرورت نہیں کہ امیراورغریب میں فرق کس خوفناک حدتک بڑھ چکا ہے اورمسلسل بڑھ رہاہے۔لاہورکی مثال لے لیجیے ۔میری نظرمیں پاکستان کابہترین شہرہے۔اس شہرکے سب سے اعلیٰ علاقہ یعنی ڈیفنس اورگلبرگ میں بھی کچی آبادیاں ہیں جہاں شہری مراعات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
آپ صبح چارسے پانچ بجے کے قریب فیروز پور روڈ اور جیل روڈپرچلے جائیے۔جہاں جہاں سبزہ اورگھاس لگی ہوئی ہے، وہیں وہیں،لاتعدادلوگ آپکوسوتے ہوئے نظر آئینگے۔ آج سے بیس برس پہلے ہم ہندوستان کے متعلق یہ طعنہ زن گفتگوکرتے تھے کہ وہاں لوگ غربت کے ہاتھوں فٹ پاتھ پرسونے پرمجبورہیں۔پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔مگرمیں جوگزارش کررہاہوں،آپ خودہرصبح اسکوملاحظہ کرسکتے ہیں۔میٹروبس کے پُل کے نیچے ہرسبزقطعہ پرآپ اپنی عوام کوسیکڑوں کی تعدادمیں سونے پر مجبور پائینگے۔ بڑی تعداد میں لوگ ایسے ہیں جواب دووقت کاکھانا نہیں کھا سکتے۔
یہ کیڑے مکوڑوں کی زندگی گزارنے پرمجبور ہیں۔ یہ بے بس لوگ ہیں۔ان کی کوئی آوازنہیں۔اب میں آپکی توجہ متفرق اشرافیہ کی طرف دلواتا ہوں۔ اس کٹیگری میں درج ہے کہ ہرملک میں ایک عمرانی معاہدہ ہوتا ہے۔یہ معاہدہ طاقتور اور کمزورطبقے کے درمیان توازن قائم کرتا ہے۔عمرانی معاہدہ امریکا میں بھی موجود ہے۔افغانستان میں بھی نافذالعمل ہے اورپاکستان میں بھی موجودہے۔اس عمرانی سمجھوتہ کے تحت جب علاقائی اورقومی سطح کے لیڈروں کے درمیان اختلاف رائے بڑھ جائے یاایک ڈیڈلاک(Dead Lock)کی کیفیت آجائے،تواس معاہدہ کوخطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں ملک کی سالمیت پردباؤبڑھ جاتا ہے۔اس میں ایک دوسرے سے متصادم اشرافیہ بھیڑیے کی طرح حملہ کرتی ہے۔وہ اپنے مفادکے لیے ہرطرح کی غیراخلاقی حرکت کرنے کے لیے تیار ہوتی ہے۔اس میں ناقص الیکشن (Flawed Election) سے لے کرسیاسی وفاداریاں تبدیل کرنا،ایک دوسرے پربیانات کے ذریعے سبقت لیجانے کی پروپیگنڈا/مہم،سب کچھ شامل ہے۔اللہ کے فضل سے ہم اس میں ابترترین حالت میں ہیں۔اس درجہ میں ہمارے نمبر9.2 ہیں۔افغانستان کے نمبر9.3ہیں اوروہ آٹھویں نمبرپر ہے۔ مگرزوال دیکھیے کہ ہیٹی (Haiti) جیسا پسماندہ ملک ہم سے اس کیٹگری میں بہترہے۔
اس کے نمبر9.1ہیں۔پہلے بھی عرض کیاتھاکہ اس رپورٹ کااحاطہ کرنا ایک کالم میں ناممکن ہے۔صرف درجہ بندی کے متعلق عرض کرونگا۔آبادی کادباؤ، اندرونی مہاجر کیمپ،لائق لوگوں کی ملک سے ہجرت، غربت، قانون کی حکمرانی،حکومت کا قانونی اوراخلاقی جواز،اندرونی اوربیرونی خطرات،ان تمام میں بحیثیت ملک ہم ناقابل فخرحدتک عدم توازن کاشکار ہیں۔ ہم اقوام عالم میں مسلسل تیرھویں (13) نمبرپرہیں جوباعث شرمندگی بھی ہے اورقابل غوربھی!ایساسب کچھ کیوں ہے۔ہم ایک ادنیٰ ملک میں کیسے تبدیل ہوگئے۔ہم ترقی کیوں نہیں کرپارہے۔
ہم بین الاقوامی صف میں پاتال میں کیسے چلے گئے۔ ہمارامستقبل کیا ہے۔تمام وسائل ہوتے ہوئے ہم اتنے غریب اورپسماندہ کیوں ہوتے جارہے ہیں۔یہ تمام سوالات ہرسوچنے والے انسان کے ذہن میں ہیں۔ جواب بھی موجودہیں۔مگرکون سنے گا۔بلکہ کیوں سنے گا۔ہم اس تیرہ نمبرکے درجہ سے کیسے بہترہونگے،اس سوال کاجواب شائدآپکے پاس ہو؟
ناکام ریاستیں پوری دنیاکے استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔ اقوام متحدہ اورذیلی ادارے تمام ممالک پرپوری نظررکھتے ہیں کہ وہ کس ڈگرپرگامزن ہیں۔اسی طرح کاایک ادارہ "فنڈ برائے امن" "Fund for Peace"ہے۔یہ ادارہ پورا سال تحقیق کرتارہتاہے۔اس میں موجود دانشور اور محققین کوہر طرح کی سہولت میسرکی جاتی ہے۔یہ ہرسال ایک تجزیاتی رپورٹ شایع کرتا ہے۔
اس رپورٹ کاعنوان Fragile States Index ہوتا ہے۔ اس ادارہ کی 2015ء کی رپورٹ اس وقت انٹرنیٹ پر موجود ہے اوریہ ہرایک کی دسترس میں ہے۔آج تک کسی ملک نے اس ادارہ کے تجزیے کو غلط نہیں سمجھانہ کسی فورم پرچیلنج کیا۔چنانچہ اسکوایک حتمی حیثیت حاصل ہے۔ہمارے ملک میں ایک تاثردیاجارہاہے کہ پاکستان ترقی کی شاہراہ پرگامزن ہونے والاہے۔ہماری اقتصادی ترقی کے راستے میں تمام دشواریاں اب ختم ہوچکی ہیں۔بہت قلیل سے دورانیہ میں ہم معجزے برپاکردینگے۔
ان تمام دعوؤں کی بنیاد کیا ہے،میرے علم میں نہیںمگر 2015ء کی رپورٹ کے مطالعے کے بعدطالبعلم بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوچکا ہے۔ پاکستان اس تجزیہ میں ناکام (Fragile)ملکوں میں دنیامیں تیرھویں (13) نمبر پرہے۔عراق اس وقت (12)درجے پر ہے۔ ہم سے نیچے نائجیریا (Nigeria)اورکئی افریقی ممالک ہیں۔ سب سے بہتر اورمستنددرجہ(Very Sustainable) یعنی انتہائی ترقی یافتہ ممالک کاہے۔یہ دنیاکی سب سے خوش قسمت قومیں ہیں۔
اس مقام پرفِن لینڈہے۔اس سے اوپر ڈنمارک، ناروے،سویڈن وغیرہ ہیں۔تعجب کی بات یہ بھی ہے کہ پہلے تین اعلیٰ ترین درجوں میں کوئی بھی اسلامی ملک شامل نہیں ہے۔یعنی یہ فہرست پولینڈسے شروع ہوتی ہے اورفِن لینڈ پر ختم ہوجاتی ہے۔اس میں(More stable)زیادہ مستحکم، (Sustainable) دیرپا مستحکم، اورVery Sustainableیعنی بہت زیادہ مستحکم کی درجہ بندی ہے جو قابل رشک ہے۔پاکستان انتہائی خطرناک ممالک کی فہرست میں آتاہے۔اس سے پہلے کہ میں پاکستان کے متعلق عرض کروں۔ میرے ذہن میں یہ سوال موجودہے کہ عالم اسلام کے امیر ترین ممالک،اس اعلیٰ ترین فہرست میں کیسے اور کیونکر موجود نہیں ہیں۔
حیرت اورافسوس کااَمرہے۔سعودی عرب،ایران اورکویت کادوردورتک کوئی نام ونشان نہیں ہے۔یہ تیل کے قدرتی وسائل سے مالامال ممالک ہیں۔ان کے حکمران دنیاکے امیرترین لوگوں میں شمارکیے جاتے ہیں۔مگرجب ان کے نظام اورعام لوگوں کی صورتحال کاتعصب کے بغیرجائزہ لیاجاتاہے تویہ ممالک کسی طورپربھی ترقی یافتہ معلوم نہیں ہوتے۔ان میں بظاہرہرطرح کی سہولتیں موجود ہیں۔ شاہرائیں، بڑے عمدہ پُل،شاپنگ مالز،گاڑیاں یعنی ہرمادی شے موجودہے مگرپھربھی یہ اس معیارپرپورے نہیں اترتے کہ ان کا سویڈن، ناروے یا سنگاپورسے جزوی مقابلہ بھی کیاجاسکے۔
یہ ان تمام اُن اسلامی دانشوروں کے لیے بھی ایک لمحہ فکریہ ہے جوہمیں تاریخی لوریاں سناسناکرگہری نیند سے بیدارنہیں ہونے دیتے۔رپورٹ کی طرف نظر دوڑائیے۔ محض ایک کالم میں اس کا احاطہ کرناناممکن ہے۔میں محض جزوی طورپر چند معاملات آپکے سامنے پیش کرونگا۔ فیصلہ کرناآپکاکام ہے۔ یہ تین حصوں میںتقسیم کی گئی ہے۔ سماجی حالات(Social Indicators) اقتصادی حالات (Economic Indicators) اور آخر میں سیاسی اورفوجی معاملات یعنی (Political and Military Indicators) ان حصوں میں پھر مزیدانتہائی اہم عنوانات ہیں۔ ان کا انتہائی مستند اور سنجیدہ طریقے سے تجزیہ کیا گیا ہے۔
مثال کے طورپرسماجی شعبہ میں،گروہی تکالیف (Group Grievances) کاایک شعبہ ہے۔اس میں فرقہ واریت، مذہبی تشدد پسندی، لسانی جھگڑے،عام لوگوں کی بے بسی (Powerlesness) ترجیحی سلوک (Discrimination) جیسے اہم معاملات شامل ہیں۔ تمام شعبہ جات کے مختلف نمبررکھے گئے ہیںیعنی تمام عنوانات میں اقوام متحدہ سے منسلک ادارہ،ملکوں کوایک دوسرے کے مقابلے میں نمبردیتاہے۔جس ملک کے نمبرزیادہ ہوتے ہیں وہ ناکامی کے درجہ پرانتہائی اوپرہوتاہے۔جتنے نمبرکم ہوتے ہیں،اتناہی وہ ملک ترقی یافتہ اورکامیاب گردانا جاتا ہے۔ جیسے پہلے نمبرپرجنوبی سوڈان کے 114.5 نمبر ہیں۔یہ دنیا کی ناکام ترین ریاست ہے۔اس کے مقابلے میں فِن لینڈکے صرف17.8نمبرہیں۔
اس حوالے سے یہ دنیا کا سب سے مستحکم ملک ہے۔سویڈن کے نمبر20.2 ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے مجموعی نمبر102.9ہیں۔یہ شکستہ ممالک کی فہرست میں پوری ''شان'' سے عرصہ درازسے موجود ہے۔مشکل بات یہ بھی ہے کہ2008ء سے لے کرآج تک یعنی2015ء تک101اور103جیسے ادنیٰ ترین منزل پرمستقل طورپرموجودہے۔تجزیہ کے مطابق کسی حکومت کے آنے اورجانے سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ دعوے، اعلانات اور وعظ اپنی اپنی جگہ پرقابل احترام، مگر،معروضی معاملات جوں کے توں ہیں۔ اور شائد رہینگے۔ ناہمواراقتصادی ترقی، کے پیمانے کودیکھیے۔
اس میں چھ اہم جزئیات ہیں۔جیسے معاشرہ کے بالائی دس فیصدحصے کی آمدنی کیاہے۔اس کے مقابلے میں معاشرے کے پسماندہ یاغریب دس فیصدطبقے کے ذرایع آمدن کتنے ہیں۔ملک کے تمام حصوں میں سہولیات ایک جیسی ہیں یاان میں عدم توازن ہے۔یعنی ایک شہربہتر ہو رہا ہے اوردیگرشہرابتری کی طرف جا رہے ہیں۔ایک ہی شہر کا کچھ حصہ ترقی کی دوڑمیں دوسرے حصوں پر سبقت لے گیا ہے یا تمام حصے ایک ہی رفتارپرترقی کررہے ہیں۔ شہروں، قصبوں میں کچی آبادیاں کتنی ہیں اور کب سے موجود ہیں۔ دیہی اورشہری علاقوں میں اقتصادی وسائل کس تناسب سے تقسیم ہوتے ہیں۔
اس خانہ میں ہمارے ملک کے نمبر7.7 ہیں۔عراق تک ہم سے بہتر ہے۔ اس کے نمبر6.9 ہیں۔ خداکاشکرہے کہ ہم ہیٹی اورچاڈجیسے افریقی ممالک سے قدرے بہترہیں۔لیکن اس خانہ میں یعنی ناہمواراقتصادی ترقی کے زمرے میں ہم مکمل طورپرناکام ہوچکے ہیں۔ حقیقت ہرایک کومعلوم ہے۔کہنے کی ضرورت نہیں کہ امیراورغریب میں فرق کس خوفناک حدتک بڑھ چکا ہے اورمسلسل بڑھ رہاہے۔لاہورکی مثال لے لیجیے ۔میری نظرمیں پاکستان کابہترین شہرہے۔اس شہرکے سب سے اعلیٰ علاقہ یعنی ڈیفنس اورگلبرگ میں بھی کچی آبادیاں ہیں جہاں شہری مراعات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
آپ صبح چارسے پانچ بجے کے قریب فیروز پور روڈ اور جیل روڈپرچلے جائیے۔جہاں جہاں سبزہ اورگھاس لگی ہوئی ہے، وہیں وہیں،لاتعدادلوگ آپکوسوتے ہوئے نظر آئینگے۔ آج سے بیس برس پہلے ہم ہندوستان کے متعلق یہ طعنہ زن گفتگوکرتے تھے کہ وہاں لوگ غربت کے ہاتھوں فٹ پاتھ پرسونے پرمجبورہیں۔پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔مگرمیں جوگزارش کررہاہوں،آپ خودہرصبح اسکوملاحظہ کرسکتے ہیں۔میٹروبس کے پُل کے نیچے ہرسبزقطعہ پرآپ اپنی عوام کوسیکڑوں کی تعدادمیں سونے پر مجبور پائینگے۔ بڑی تعداد میں لوگ ایسے ہیں جواب دووقت کاکھانا نہیں کھا سکتے۔
یہ کیڑے مکوڑوں کی زندگی گزارنے پرمجبور ہیں۔ یہ بے بس لوگ ہیں۔ان کی کوئی آوازنہیں۔اب میں آپکی توجہ متفرق اشرافیہ کی طرف دلواتا ہوں۔ اس کٹیگری میں درج ہے کہ ہرملک میں ایک عمرانی معاہدہ ہوتا ہے۔یہ معاہدہ طاقتور اور کمزورطبقے کے درمیان توازن قائم کرتا ہے۔عمرانی معاہدہ امریکا میں بھی موجود ہے۔افغانستان میں بھی نافذالعمل ہے اورپاکستان میں بھی موجودہے۔اس عمرانی سمجھوتہ کے تحت جب علاقائی اورقومی سطح کے لیڈروں کے درمیان اختلاف رائے بڑھ جائے یاایک ڈیڈلاک(Dead Lock)کی کیفیت آجائے،تواس معاہدہ کوخطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں ملک کی سالمیت پردباؤبڑھ جاتا ہے۔اس میں ایک دوسرے سے متصادم اشرافیہ بھیڑیے کی طرح حملہ کرتی ہے۔وہ اپنے مفادکے لیے ہرطرح کی غیراخلاقی حرکت کرنے کے لیے تیار ہوتی ہے۔اس میں ناقص الیکشن (Flawed Election) سے لے کرسیاسی وفاداریاں تبدیل کرنا،ایک دوسرے پربیانات کے ذریعے سبقت لیجانے کی پروپیگنڈا/مہم،سب کچھ شامل ہے۔اللہ کے فضل سے ہم اس میں ابترترین حالت میں ہیں۔اس درجہ میں ہمارے نمبر9.2 ہیں۔افغانستان کے نمبر9.3ہیں اوروہ آٹھویں نمبرپر ہے۔ مگرزوال دیکھیے کہ ہیٹی (Haiti) جیسا پسماندہ ملک ہم سے اس کیٹگری میں بہترہے۔
اس کے نمبر9.1ہیں۔پہلے بھی عرض کیاتھاکہ اس رپورٹ کااحاطہ کرنا ایک کالم میں ناممکن ہے۔صرف درجہ بندی کے متعلق عرض کرونگا۔آبادی کادباؤ، اندرونی مہاجر کیمپ،لائق لوگوں کی ملک سے ہجرت، غربت، قانون کی حکمرانی،حکومت کا قانونی اوراخلاقی جواز،اندرونی اوربیرونی خطرات،ان تمام میں بحیثیت ملک ہم ناقابل فخرحدتک عدم توازن کاشکار ہیں۔ ہم اقوام عالم میں مسلسل تیرھویں (13) نمبرپرہیں جوباعث شرمندگی بھی ہے اورقابل غوربھی!ایساسب کچھ کیوں ہے۔ہم ایک ادنیٰ ملک میں کیسے تبدیل ہوگئے۔ہم ترقی کیوں نہیں کرپارہے۔
ہم بین الاقوامی صف میں پاتال میں کیسے چلے گئے۔ ہمارامستقبل کیا ہے۔تمام وسائل ہوتے ہوئے ہم اتنے غریب اورپسماندہ کیوں ہوتے جارہے ہیں۔یہ تمام سوالات ہرسوچنے والے انسان کے ذہن میں ہیں۔ جواب بھی موجودہیں۔مگرکون سنے گا۔بلکہ کیوں سنے گا۔ہم اس تیرہ نمبرکے درجہ سے کیسے بہترہونگے،اس سوال کاجواب شائدآپکے پاس ہو؟