آزادی کے مفادات
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے اپنی راستبازی اور جرات سے عوام کے دلوں میں پاک فوج کا وقار بحال کر دیا ہے
اگر ہم اپنی مارشل لاؤں کی مضطرب تاریخ دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ عوام کو سب سے زیادہ بری سول حکمرانی سے شکوہ تھا جہاں ''سٹیک ہولڈرز'' کی بھی کوئی شنوائی نہیں تھی حتیٰ کہ اب نام نہاد ''جمہوریت'' میں بھی ان بے چاروں کی قطعاً کوئی شنوائی نہیں گویا بقول شاعر
خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں...
ہمارے بیشتر سیاستدان حضرات کے شخصی کردار میں خامیوں کی بھرمار ہے اور اس پر مستزاد ان کی شرمناک لالچ اور طمع۔
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے اپنی راستبازی اور جرات سے عوام کے دلوں میں پاک فوج کا وقار بحال کر دیا ہے کیونکہ جو سیاستدان اس ٹوٹی پھوٹی جمہوریت کے زور پر حکمرانی کر رہے ہیں اس میں انھوں نے مجرموں کو بھی آئین کی آڑ میں اپنی مذموم سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔
جب لوگ حد سے زیادہ مایوس ہو جاتے ہیں تو پھر وہ مایوسانہ طرز زندگی اختیار کرتے ہوئے توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ پر نکل آتے ہیں اور مسلح افواج کے بارے میں تنازعات پیدا کرنے کی سازش کرتے ہیں اور ایسے تضادات کو بیان کرتے ہیں جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔
سینیٹر مشاہد اللہ خان نے انھی الزامات کو دہرایا جو عزت مآب وزیر دفاع خواجہ آصف ان سے پہلے ہی اپنی ''شیریں بیانی'' میں بلند آہنگی سے بیان کر چکے تھے لیکن افسوس کہ عوام الناس کی طرف سے یونیفارم کے خلاف قطعاً کوئی ردعمل نہ آیا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ان کا اپنا بیان تھا یا کہ یہ معاملہ کسی بڑی منصوبہ بندی کا پیش خیمہ تھا بالخصوص اس صورت میں کہ دونوں متذکرہ شخصیات مسلم لیگ (ن) اندرونی حلقوں سے گہرا تعلق رکھتی ہیں۔
مشاہد اللہ کو تو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا لیکن اس کی کیا ضمانت ہے کہ خواجہ آصف مزید ہرزہ سرائی نہیں کریں گے؟
جب طالبان سے امن مذاکرات کی مضحکہ خیز کوشش پروان نہ چڑھ سکی تو وردی والوں کی طرف سے دو ٹوک یہ بیان آ گیا کہ اب وہ اپنی کارروائی کے لیے مکمل طور پر پرعزم ہیں خواہ حکومت اجازت دے یا نہ دے کیونکہ شمالی وزیرستان میں انتہا پسندوں کے ٹھکانے حکومت کی عدم کارکردگی کی وجہ سے پیدا ہوئے اور جب آپریشن ضرب عضب کی کامرانیاں نمایاں ہونے لگیں تو حکومت نے ہر ایک کو یہ باور کرانے کی کوشش شروع کر دی کہ آرمی حکومت کے ایماء پر ہی یہ آپریشن کر رہی ہے۔
اپریشن کو خاصے پس و پیش کے بعد آئینی تحفظ دیا گیا اور وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کے مصر ہونے پر تا کہ وہ کراچی سمیت پورے ملک میں آپریشن کیا جا سکے جس کا فیصلہ پشاور کے (APS) میں ہونے والے ہولناک سانحے پر کیا گیا۔ بدقسمتی سے نیشنل ایکشن پلان (NAP) پر ابھی تک پوری طرح عمل درامد نہیں ہو سکا بلکہ محض زبانی جمع خرچ جاری ہے۔ یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ دہشت گردوں کی کارروائیوں میں اب پہلے سی شدت معدوم ہو گئی ہے۔
پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل شجاع خانزادہ کی شہادت سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد ہمارے شہری علاقوں کے بہت اندر تک پہنچ چکے ہیں۔ ان سے ہمدردی کرنے والے اپنے مخصوص مفادات رکھتے ہیں۔ ایک اغلب امکان یہ ہے کہ خود پنجاب کے اندر بھی اس بہادر شخص کے مخالف ضرور موجود ہونگے جو ان سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہونگے۔
سپریم کورٹ نے حال ہی میں فوجی عدالتوں کے قیام کو آئینی قرار دیا ہے۔ کراچی میں رینجرز کے آپریشن کے پہلے مرحلے کے دوران بہت سے ٹارگٹ کلرز' قتل و غارت کرنیوالوں اور بھتہ خوروں کو گرفتار کیا گیا لیکن ایم کیو ایم کے ردعمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے جیسے آپریشن ان کی جماعت کے خلاف ہو رہا ہے۔ ہماری رائے میں تو یہ وقت ہے کہ ایم کیو ایم خود احتسابی کا اہتمام کرے۔
رینجرز کا اگلا مرحلہ یقیناً ان مجرموں کو ہدف بنائے گا جو دہشت گردی میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے بھی رینجرز کی کارروائی کے خلاف احتجاج کیا تھا جب کہ ایف آئی اے نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کے ذرایع کو اپنا ہدف قرار دیا ہے جن میں وہ کرپٹ بیورو کریٹس اور دیگر وہ افسران جنھیں کے پیپلز پارٹی کی حکومت نے تعینات کرایا۔ اب آصف زرداری کے قریبی ساتھی خاموشی سے بیرون ملک جانے کا اشارہ کر رہے ہیں مبادا انھیں گرفتار کر لیا جائے۔
موصوف خود دبئی کی محفوظ جنت میں بیٹھ کر (بلکہ اب لندن سے) حکومت کی طنابیں ہلا رہے ہیں۔ ذوالفقار مرزا نے اپنی گردن بچانے کے لیے الزامات کے سارے پتھر زرداری پر لڑھکا دیے حالانکہ صوبے کے وزیر داخلہ ہونے کے ناطے وہ زرداری کے سب سے قریبی معتمد تھے۔ انھیں کسی قیمت پر بھی وعدہ معاف گواہ بننے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ جب وہ اقتدار میں تھے تو کس قدر متکبر تھے۔
آپریشن ضرب عضب پاکستانیوں کی زندگی میں کیسی تبدیلی لایا ہے! یہ ایک زبردست جذباتی منظر تھا جب پوری قوم نے فوج کی طرف ولولہ انگیز امیدوں سے دیکھا۔ یہ 2015ء کا یوم آزادی تھا جس کا جتنا شاندار جشن کراچی میں منایا گیا وہ کہیں اور نظر نہیں آیا۔ اگرچہ ''رابرٹ فراسٹ'' کی زبان میں یہی کہوں گا ''ابھی کوسوں کی مسافت طے کرنا ہے'' Miles to go اس آپریشن کے مثبت نتائج کی رونق عوام الناس کے چہروں پر دیکھی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی جیتی نہیں گئی لیکن ہمارے بہادر اور جانباز فوجیوں کی سوات اور فاٹا کے پہاڑوں اور کراچی کی سڑکوں پر دی جانے والی قربانیوں نے ہمارے شہریوں کا ملک کے مستقبل پر اعتماد بحال کر دیا ہے۔ میجر جنرل (اور اب لیفٹیننٹ جنرل) اعجاز احمد چوہدری نے 2010ء میں ڈی جی رینجرز کے طور پر اپنی ذمے داریاں سنبھالیں اور اس کے ساتھ ہی میجر جنرل (اب لیفٹیننٹ جنرل) رضوان اختر کے ساتھ کور نمبر5 کے کور کمانڈر کی ذمے داریاں بھی نبھا رہے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کو 2012ء میں رینجرز کا سربراہ مقرر کیا گیا۔
میجر جنرل بلال اکبر نے اپنی سپاہیانہ شان سے اپنے فرائض انجام دیے۔ کور 5 کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کو اس بات کا کریڈٹ ملنا چاہیے کہ وہ ایک سیسہ پلائی چٹان کی طرح ان کے پیچھے کھڑے رہے اور انھوں نے اپنا مشن بغیر کسی ڈر خوف یا جانبداری کے نبھایا۔ بلال اکبر اور ان کے آدمیوں کو خصوصی طور پر نوازا جانا چاہیے کیونکہ انھوں نے وردی کا وقار بحال کیا ہے۔ مشرف صاحب نے اپنے پورے فوجی کیرئیر میں کہیں کوئی لڑائی نہیں لڑی۔
انھیں اب ان برسر پیکار جانبازوں کے تجربات کا مطالعہ کر کے کچھ سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مجرموں اور ظالموں کو بالآخر شکنجے میں آنا ہی ہوتا ہے۔ یہ تاریخ کا سبق ہے جس کو تاریخ بار بار دہراتی ہے۔ برائی کچھ وقت تک قائم رہ سکتی ہے کیونکہ اس کے پیچھے درندگی اور بدعنوانی کام کر رہی ہوتی ہے لیکن فطرت کے قانون اس کو تادیر چلنے نہیں دیتے اور انھیں بالآخر مکافات عمل کا سامنا کرنا ہو گا اور اس بدلے کے لیے تیار رہنا ہو گا جس ظالمانہ طریقے سے انھوں نے دوسروں کے ساتھ برتاؤ کیا تھا۔
رینجرز اور پاکستان آرمی صحیح معنوں میں امن کے علمبردار ہیں جنہوں نے کراچی کو یوم آزادی کی خوشیاں لوٹا دی ہیں۔
خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں...
ہمارے بیشتر سیاستدان حضرات کے شخصی کردار میں خامیوں کی بھرمار ہے اور اس پر مستزاد ان کی شرمناک لالچ اور طمع۔
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے اپنی راستبازی اور جرات سے عوام کے دلوں میں پاک فوج کا وقار بحال کر دیا ہے کیونکہ جو سیاستدان اس ٹوٹی پھوٹی جمہوریت کے زور پر حکمرانی کر رہے ہیں اس میں انھوں نے مجرموں کو بھی آئین کی آڑ میں اپنی مذموم سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔
جب لوگ حد سے زیادہ مایوس ہو جاتے ہیں تو پھر وہ مایوسانہ طرز زندگی اختیار کرتے ہوئے توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ پر نکل آتے ہیں اور مسلح افواج کے بارے میں تنازعات پیدا کرنے کی سازش کرتے ہیں اور ایسے تضادات کو بیان کرتے ہیں جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔
سینیٹر مشاہد اللہ خان نے انھی الزامات کو دہرایا جو عزت مآب وزیر دفاع خواجہ آصف ان سے پہلے ہی اپنی ''شیریں بیانی'' میں بلند آہنگی سے بیان کر چکے تھے لیکن افسوس کہ عوام الناس کی طرف سے یونیفارم کے خلاف قطعاً کوئی ردعمل نہ آیا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ان کا اپنا بیان تھا یا کہ یہ معاملہ کسی بڑی منصوبہ بندی کا پیش خیمہ تھا بالخصوص اس صورت میں کہ دونوں متذکرہ شخصیات مسلم لیگ (ن) اندرونی حلقوں سے گہرا تعلق رکھتی ہیں۔
مشاہد اللہ کو تو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا لیکن اس کی کیا ضمانت ہے کہ خواجہ آصف مزید ہرزہ سرائی نہیں کریں گے؟
جب طالبان سے امن مذاکرات کی مضحکہ خیز کوشش پروان نہ چڑھ سکی تو وردی والوں کی طرف سے دو ٹوک یہ بیان آ گیا کہ اب وہ اپنی کارروائی کے لیے مکمل طور پر پرعزم ہیں خواہ حکومت اجازت دے یا نہ دے کیونکہ شمالی وزیرستان میں انتہا پسندوں کے ٹھکانے حکومت کی عدم کارکردگی کی وجہ سے پیدا ہوئے اور جب آپریشن ضرب عضب کی کامرانیاں نمایاں ہونے لگیں تو حکومت نے ہر ایک کو یہ باور کرانے کی کوشش شروع کر دی کہ آرمی حکومت کے ایماء پر ہی یہ آپریشن کر رہی ہے۔
اپریشن کو خاصے پس و پیش کے بعد آئینی تحفظ دیا گیا اور وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کے مصر ہونے پر تا کہ وہ کراچی سمیت پورے ملک میں آپریشن کیا جا سکے جس کا فیصلہ پشاور کے (APS) میں ہونے والے ہولناک سانحے پر کیا گیا۔ بدقسمتی سے نیشنل ایکشن پلان (NAP) پر ابھی تک پوری طرح عمل درامد نہیں ہو سکا بلکہ محض زبانی جمع خرچ جاری ہے۔ یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ دہشت گردوں کی کارروائیوں میں اب پہلے سی شدت معدوم ہو گئی ہے۔
پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل شجاع خانزادہ کی شہادت سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد ہمارے شہری علاقوں کے بہت اندر تک پہنچ چکے ہیں۔ ان سے ہمدردی کرنے والے اپنے مخصوص مفادات رکھتے ہیں۔ ایک اغلب امکان یہ ہے کہ خود پنجاب کے اندر بھی اس بہادر شخص کے مخالف ضرور موجود ہونگے جو ان سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہونگے۔
سپریم کورٹ نے حال ہی میں فوجی عدالتوں کے قیام کو آئینی قرار دیا ہے۔ کراچی میں رینجرز کے آپریشن کے پہلے مرحلے کے دوران بہت سے ٹارگٹ کلرز' قتل و غارت کرنیوالوں اور بھتہ خوروں کو گرفتار کیا گیا لیکن ایم کیو ایم کے ردعمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے جیسے آپریشن ان کی جماعت کے خلاف ہو رہا ہے۔ ہماری رائے میں تو یہ وقت ہے کہ ایم کیو ایم خود احتسابی کا اہتمام کرے۔
رینجرز کا اگلا مرحلہ یقیناً ان مجرموں کو ہدف بنائے گا جو دہشت گردی میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے بھی رینجرز کی کارروائی کے خلاف احتجاج کیا تھا جب کہ ایف آئی اے نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کے ذرایع کو اپنا ہدف قرار دیا ہے جن میں وہ کرپٹ بیورو کریٹس اور دیگر وہ افسران جنھیں کے پیپلز پارٹی کی حکومت نے تعینات کرایا۔ اب آصف زرداری کے قریبی ساتھی خاموشی سے بیرون ملک جانے کا اشارہ کر رہے ہیں مبادا انھیں گرفتار کر لیا جائے۔
موصوف خود دبئی کی محفوظ جنت میں بیٹھ کر (بلکہ اب لندن سے) حکومت کی طنابیں ہلا رہے ہیں۔ ذوالفقار مرزا نے اپنی گردن بچانے کے لیے الزامات کے سارے پتھر زرداری پر لڑھکا دیے حالانکہ صوبے کے وزیر داخلہ ہونے کے ناطے وہ زرداری کے سب سے قریبی معتمد تھے۔ انھیں کسی قیمت پر بھی وعدہ معاف گواہ بننے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ جب وہ اقتدار میں تھے تو کس قدر متکبر تھے۔
آپریشن ضرب عضب پاکستانیوں کی زندگی میں کیسی تبدیلی لایا ہے! یہ ایک زبردست جذباتی منظر تھا جب پوری قوم نے فوج کی طرف ولولہ انگیز امیدوں سے دیکھا۔ یہ 2015ء کا یوم آزادی تھا جس کا جتنا شاندار جشن کراچی میں منایا گیا وہ کہیں اور نظر نہیں آیا۔ اگرچہ ''رابرٹ فراسٹ'' کی زبان میں یہی کہوں گا ''ابھی کوسوں کی مسافت طے کرنا ہے'' Miles to go اس آپریشن کے مثبت نتائج کی رونق عوام الناس کے چہروں پر دیکھی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی جیتی نہیں گئی لیکن ہمارے بہادر اور جانباز فوجیوں کی سوات اور فاٹا کے پہاڑوں اور کراچی کی سڑکوں پر دی جانے والی قربانیوں نے ہمارے شہریوں کا ملک کے مستقبل پر اعتماد بحال کر دیا ہے۔ میجر جنرل (اور اب لیفٹیننٹ جنرل) اعجاز احمد چوہدری نے 2010ء میں ڈی جی رینجرز کے طور پر اپنی ذمے داریاں سنبھالیں اور اس کے ساتھ ہی میجر جنرل (اب لیفٹیننٹ جنرل) رضوان اختر کے ساتھ کور نمبر5 کے کور کمانڈر کی ذمے داریاں بھی نبھا رہے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کو 2012ء میں رینجرز کا سربراہ مقرر کیا گیا۔
میجر جنرل بلال اکبر نے اپنی سپاہیانہ شان سے اپنے فرائض انجام دیے۔ کور 5 کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کو اس بات کا کریڈٹ ملنا چاہیے کہ وہ ایک سیسہ پلائی چٹان کی طرح ان کے پیچھے کھڑے رہے اور انھوں نے اپنا مشن بغیر کسی ڈر خوف یا جانبداری کے نبھایا۔ بلال اکبر اور ان کے آدمیوں کو خصوصی طور پر نوازا جانا چاہیے کیونکہ انھوں نے وردی کا وقار بحال کیا ہے۔ مشرف صاحب نے اپنے پورے فوجی کیرئیر میں کہیں کوئی لڑائی نہیں لڑی۔
انھیں اب ان برسر پیکار جانبازوں کے تجربات کا مطالعہ کر کے کچھ سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مجرموں اور ظالموں کو بالآخر شکنجے میں آنا ہی ہوتا ہے۔ یہ تاریخ کا سبق ہے جس کو تاریخ بار بار دہراتی ہے۔ برائی کچھ وقت تک قائم رہ سکتی ہے کیونکہ اس کے پیچھے درندگی اور بدعنوانی کام کر رہی ہوتی ہے لیکن فطرت کے قانون اس کو تادیر چلنے نہیں دیتے اور انھیں بالآخر مکافات عمل کا سامنا کرنا ہو گا اور اس بدلے کے لیے تیار رہنا ہو گا جس ظالمانہ طریقے سے انھوں نے دوسروں کے ساتھ برتاؤ کیا تھا۔
رینجرز اور پاکستان آرمی صحیح معنوں میں امن کے علمبردار ہیں جنہوں نے کراچی کو یوم آزادی کی خوشیاں لوٹا دی ہیں۔