مودی سرکار پاکستان سے مذاکرات میں کشمیر پر بات نہ کرنے کی ہٹ دھرمی پر قائم
کشمیری رہنماؤں کو اسٹیک ہولڈر قرار دینا کسی صورت قبول نہیں، بھارتی وزیر خارجہ
GHALANAI:
بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا ہے کہ مذاکرات سے نہیں بھاگ رہے لیکن دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان مذاکرات میں کشمیر پر بات نہیں ہوگی۔
نئی دلی میں پریس کانفرنس کے دوران بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کا کہنا تھا کہ بھارت اور پاکستان میں ہونیوالی بات چیت کومذاکرت نہیں کہا جاسکتا، دونوں ممالک کے درمیان 1998 سے جامع مذاکرات شروع ہوئے، وہ مذاکرات 8 نکات پر مشتمل تھے اور اس میں کشمیر بھی شامل ہے۔ اوفا میں جامع مذاکرات کی بحالی نہیں ہوئی، دہشت گردی اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے، اوفا میں طے پایا تھا کہ نیشل سیکیورٹی ایڈوائرز کی میٹنگ میں دہشت گردی پر بات چیت ہو گی، دوسری ملاقات میں سرحد پر کشیدگی اور تیسری ملاقات میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کے معاملے پر بات ہونا تھی، بھارت نے اوفا معاہدے کے تیرہ دن بعد ہی قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات کی تجویز بھیج دی تھی، جس میں دلی مذاکرات کے لیے 23 اگست کی تاریخ دی گئی تھی، اگلے ہی روز بھارت نے دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز کی ملاقات کی لئے بھی مراسلہ بھجوایا لیکن پاکستان نے ڈی جی ایم اوز کی میٹنگ کی تاریخ نہیں دی۔
سشما سوراج نے کہا کہ جب نواز شریف نے یہ معاہدہ کیا تو پاکستان میں ان کی مخالفت شروع ہو گئی اور پاکستان نے تینوں ملاقاتوں کو سبوتاژ کرنے کی بنیاد خود رکھی اور پاکستان نے بھارتی خط کے جواب میں جامع مذاکرات کا ایجنڈا بھیج دیا، بھارت کوئی شرائط نہیں لگارہا، ہم مذاکرات سے نہیں بھاگ رہے لیکن کشمیر پر اس بار بات چیت نہیں ہوگی، بھارت میڈیا کے ذریعے سفارت کاری نہیں کررہا، اگر سرتاج عزیز آنے کو تیار ہیں تو ہم بھی بلانے کو تیار ہیں، پاکستان کا مذاکرات کو بے نتیجہ سمجھنے کا مطلب ہے کہ انہیں آنا ہی نہیں تھا۔ پاکستان شملہ سمجھوتے کی رو میں تیسرا فریق نہ بنائے اور دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کی جائے۔ پاکستان نے کشمیری رہنماؤں کو ڈنکے کی چوٹ پر اسٹیک ہولڈر کہنا شروع کردیا، بھارت کو کشمیری رہنماؤں کو اسٹیک ہولڈر قرار دینا قبول نہیں۔
بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا ہے کہ مذاکرات سے نہیں بھاگ رہے لیکن دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان مذاکرات میں کشمیر پر بات نہیں ہوگی۔
نئی دلی میں پریس کانفرنس کے دوران بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کا کہنا تھا کہ بھارت اور پاکستان میں ہونیوالی بات چیت کومذاکرت نہیں کہا جاسکتا، دونوں ممالک کے درمیان 1998 سے جامع مذاکرات شروع ہوئے، وہ مذاکرات 8 نکات پر مشتمل تھے اور اس میں کشمیر بھی شامل ہے۔ اوفا میں جامع مذاکرات کی بحالی نہیں ہوئی، دہشت گردی اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے، اوفا میں طے پایا تھا کہ نیشل سیکیورٹی ایڈوائرز کی میٹنگ میں دہشت گردی پر بات چیت ہو گی، دوسری ملاقات میں سرحد پر کشیدگی اور تیسری ملاقات میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کے معاملے پر بات ہونا تھی، بھارت نے اوفا معاہدے کے تیرہ دن بعد ہی قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات کی تجویز بھیج دی تھی، جس میں دلی مذاکرات کے لیے 23 اگست کی تاریخ دی گئی تھی، اگلے ہی روز بھارت نے دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز کی ملاقات کی لئے بھی مراسلہ بھجوایا لیکن پاکستان نے ڈی جی ایم اوز کی میٹنگ کی تاریخ نہیں دی۔
سشما سوراج نے کہا کہ جب نواز شریف نے یہ معاہدہ کیا تو پاکستان میں ان کی مخالفت شروع ہو گئی اور پاکستان نے تینوں ملاقاتوں کو سبوتاژ کرنے کی بنیاد خود رکھی اور پاکستان نے بھارتی خط کے جواب میں جامع مذاکرات کا ایجنڈا بھیج دیا، بھارت کوئی شرائط نہیں لگارہا، ہم مذاکرات سے نہیں بھاگ رہے لیکن کشمیر پر اس بار بات چیت نہیں ہوگی، بھارت میڈیا کے ذریعے سفارت کاری نہیں کررہا، اگر سرتاج عزیز آنے کو تیار ہیں تو ہم بھی بلانے کو تیار ہیں، پاکستان کا مذاکرات کو بے نتیجہ سمجھنے کا مطلب ہے کہ انہیں آنا ہی نہیں تھا۔ پاکستان شملہ سمجھوتے کی رو میں تیسرا فریق نہ بنائے اور دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کی جائے۔ پاکستان نے کشمیری رہنماؤں کو ڈنکے کی چوٹ پر اسٹیک ہولڈر کہنا شروع کردیا، بھارت کو کشمیری رہنماؤں کو اسٹیک ہولڈر قرار دینا قبول نہیں۔