ففٹی ففٹی کے بارے میں سو فیصد سنجیدہ کالم
اگر ہماری یادداشت صحیح کام کر رہی ہے تو چند ماہ بعد ہی انور مقصود نے ففٹی ففٹی سے علیحدگی اختیار کرلی تھی ۔
باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ حکومت نے پاکستان ٹیلی ویژن کی عظمت دیرینہ بحال کرنے کے لیے پرانے دورکے بعض مقبول ترین ٹی وی پروگراموں کو ریوائیو کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن میں سرفہرست اس دور کا سب سے مقبول مزاحیہ خاکوں کا پروگرام ففٹی ففٹی ہے جو ناظرین کو سب سے پہلے 80 کی دہائی کے آغاز میں دکھایا گیا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے بے پناہ مقبولیت حاصل کرلی۔
فیصلے کے مطابق اس پروگرام کے آئیڈیا کے خالق اور بانی انور مقصود اور ان کے خاکوں کو ممکنہ حد تک بہترین انداز میں چھوٹی اسکرین پر منتقل کرنے والے پی ٹی وی کے صف اول کے پروڈیوسر شعیب منصور سے ایک مرتبہ پھر یکجا ہونے کی درخواست کی جائے گی اور اس مقصد سے ماجد جہانگیر، اسماعیل تارہ، زیبا شہناز، اشرف خان اور اس دور کے بعض دیگر فنکاروں پر مشتمل ففٹی ففٹی کی پوری ٹیم کو جمع کیا جائے گا۔
شروع میں انور مقصود نے اسے ایک ایسے مزاحیہ پروگرام کے طور پر تخلیق کیا تھا جس کا نصف مزاحیہ خاکوں اور باقی نصف گیتوں پر مشتمل ہوگا اور اسی لیے انھوں نے اس کا عنوان ففٹی ففٹی رکھا تھا۔ اس پروگرام کے لیے شعیب منصور کا انتخاب کیا گیا تھا جن کا شمار عارفین کے بعد کراچی ٹیلی ویژن کے میوزک کے بہترین پروڈیوسرز میں ہوتا تھا۔
اگر ہماری یادداشت صحیح کام کر رہی ہے تو چند ماہ بعد ہی انور مقصود نے ففٹی ففٹی سے علیحدگی اختیار کرلی تھی ۔اس سلسلے میں بعض لوگوں کا خیال تھا کہ جینیس تخلیق کاروں میں من جملہ دیگر تمام خوبیوں کے ساتھ ایک برائی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنا کریڈٹ شیئر نہیں کرنا چاہتے چنانچہ شعیب منصور بھی جو بلاشبہ انتہائی باصلاحیت بے پناہ تخلیقی مہارت اور غضب کی حس مزاح رکھنے والے ٹی وی پروڈیوسرز تھے اور اپنی ٹیم کے ساتھ بیٹھ کر مزاحیہ خاکے تخلیق کیا کرتے تھے اپنا کریڈٹ انور مقصود جیسے رائٹرز کے ساتھ شیئر کرنے کو تیار نہیں تھے۔
ہمیں خود یاد ہے کہ ایک مرتبہ کراچی ٹیلی ویژن سینٹر میں ہمارا جانا ہوا تو شعیب منصور اپنی پوری ٹیم کو لیے بیٹھے سر جوڑ کر ایک خاکے کی پنچ لائن کی تلاش کر رہے تھے۔ اس وقت ہم نے ہی Suggest کیا تھا کہ جب دبئی سے ایک شخص ریفریجریٹر سمیت الیکٹرانکس کا سامان لیے داخل ہو تو اس کا استقبال کرنے والے بال بچے اپنے باپ کے بجائے ریفریجریٹر سے لپٹ جائیں۔ یہ خاکہ اگلے ہفتے ٹیلی ویژن پر ہمیں کوئی کریڈٹ دیے بغیر چل گیا تھا حالانکہ شعیب منصور سمیت اس فیلڈ میں کام کرنے والے اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ کسی بھی خاکے میں دو چیزوں کی ہی اہمیت ہوتی ہے ایک تو اس کا موضوع اور آئیڈیا اور پھر اتنی ہی اہم اس کی پنچ لائن۔ اس میٹنگ کے بعد بھی شعیب منصور اور ہمارے درمیان ایک خلیج حائل رہی جس میں خاصا دخل ہماری اپنی طبیعت کا بھی تھا کہ اپنی خاموش اور ریزرو طبیعت کے باعث ہم اس ٹیم کا حصہ نہیں بن سکے جس کا وجود اس قسم کے پروگراموں کی کامیابی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
چنانچہ ففٹی ففٹی کے حوالے سے بھی ہم اپنا شمار Also Run میں بھی کرتے ہیں یا جیساکہ تقریب کے حوالے سے کوئی خبر شایع ہوتی ہے جس کے آخر میں لکھا جاتا ہے کہ ان ان لوگوں نے بھی تقریب میں شرکت کی۔خدا کا کرنا یہ ہوا کہ شعیب منصور جو اس زمانے میں ویسپا اسکوٹر چلایا کرتے تھے ایک شدید حادثے سے دوچار ہوئے اسپتال میں کئی ماہ زیر علاج رہے اس دوران ففٹی ففٹی کی پروڈکشن کے لیے قرعہ فال کاظم پاشا اور علی رضوی کے نام نکلا اور دونوں نے تقریباً ایک ڈیڑھ سال ففٹی ففٹی پروڈیوس کیا اور اس زمانے میں ہم ہر ہفتے ایک دو خاکے ففٹی ففٹی کے لیے لکھتے رہے جو پابندی سے ٹیلی کاسٹ ہوتے رہے اور آج تک گاہے بگاہے Repeat ہوتے رہے ہیں ۔
حیرت انگیز طور پر پی ٹی وی ہوم پر ففٹی ففٹی کے جو پرانے پروگرام دکھائے جاتے ہیں ان میں سے کچھ انور مقصود +شعیب منصور اور کچھ کاظم پاشا+علی رضوی کے پروڈیوس کردہ ہوتے ہیں دونوں میں انیس بیس کا ہی فرق ہوتا ہوگا اس یکسانیت اور معیار کو تقریباً برقرار رکھنے کا سہرہ بلاشبہ ماجد جہانگیر، اسماعیل تارہ، زیبا شہناز، اشرف خان کے سر ہے (ان اتنے ہی اچھے فنکاروں سے معذرت جن کے نام ہمیں یاد نہیں آرہے ہیں) ففٹی ففٹی کی بے پناہ کامیابی ظاہر کرتی ہے کہ کسی بھی مزاحیہ پروگرام میں تینوں شعبے اپنی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں۔ پروگرام آئیڈیا اور فارمیٹ، اسکرپٹ رائٹرز، پروڈیوسر اور اداکاروں کی ٹیم اس طرح بنیادی کریڈٹ جناب انور مقصود کا ہے جنھوں نے ایک نیا آئیڈیا اور فارمیٹ تخلیق کیا۔ اگرچہ بعد میں اس اونٹ کی طرح جو باقی لوگوں کو خیمے سے نکال باہرکرتا ہے ففٹی ففٹی کے مزاحیہ فنکاروں نے بھی گلوکاروں کو نکال باہر کیا۔
اس کے بعد شعیب منصورکو بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ چونکہ وہ Aesthetic سینس کے علاوہ بلا کی حس مزاح رکھتے تھے اور جن کو آئیڈیا تھا کہ کن باتوں سے مزاح تخلیق ہوگا جو ناظرین کو ہنسنے پر مجبور کرے گا پھر وہ کامیڈین حضرات کی ایک بڑی اچھی ٹیم بھی جمع کرنے میں کامیاب ہوگئے بعد میں شعیب منصور نے جو ڈرامے اور فلمیں تخلیق کیں ان سے ثابت ہوا کہ وہ محض مزاحیہ خاکوں کے ہی نہیں سنجیدہ ڈراموں اور فلموں کے بھی اتنے ہی کمال کے پروڈیوسر ہیں۔اب آئیے پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے مزاحیہ پروگراموں کی طرف۔ اگرچہ تقریباً تمام نجی چینلز نے اس میدان میں طبع آزمائی کی ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے بیشتر کامیڈینز کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ وہ خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے اسکرپٹ سے لے کر ایکٹنگ تک سارے کام خود کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسکرپٹ رائٹنگ کے انسٹی ٹیوشن سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔
ہمارا ایماندارانہ تجزیہ یہ ہے کہ نجی ٹی وی چینلز میں اگر کسی شخصیت نے ففٹی ففٹی جیسے معیار اور کامیابی کو حاصل کیا ہے وہ آفتاب اقبال ہیں اور اس کے قدرتی طور پر اپنے اسباب ہیں وہ ففٹی ففٹی کی طرح ایک نیا آئیڈیا اور فارمیٹ لیے چھوٹی اسکرین پر آئے وہ اسکرپٹ پر بے حد محنت کرتے ہیں ۔ ففٹی ففٹی کی طرح عصر حاضر کے ایشوز پر خاکے کرتے ہیں اور سب سے آخری اور سب سے اہم بات یہ کہ وہ ففٹی ففٹی کی طرح مزاحیہ فنکاروں کی ایک اچھی ٹیم جمع کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کا یہ بھی کریڈٹ ہے کہ انھوں نے پروگرام میں ممکنہ حد تک زیادہ سے زیادہ لوگوں کی Participation متعارف کرائی ہے وہ جس انداز کے موجد ہیں اسے اب دوسرے چینلز نے بھی اپنا لیا ہے ہمیں امید بلکہ یقین ہے کہ جناب آفتاب اقبال اپنے نئے دور میں بھی روز اول کی طرح کامیاب رہیں گے۔
اپنے بارے میں ہم ایک مرتبہ خود یہ وضاحت کرنا چاہیں گے کہ ہم نے خود کو ہمیشہ خدانخواستہ ففٹی ففٹی کے بانی یا روح رواں کی طرح نہیں بلکہ One of the writers کے طور پر متعارف کرایا ہے اور یہ بات کوئی اتنی زیادہ غلط نہیں ہے اپنا ادراک کرلینا بھی بڑی اچھی خوبی ہے ہمیں اپنی اوقات پتہ ہے ہم اپنے اس دور پر بھی فخر کرتے ہیں جب ہم پی ٹی وی کے ایک مزاحیہ پروگرام سات رنگ کے لیے جسے مرحوم معین اختر ، مشکبار فاطمہ کے ہمراہ پیش کیا کرتے تھے ہر ہفتے تین چار مزاحیہ خاکے لکھا کرتے تھے جن میں سے کم ازکم دو پروڈیوس ہوجاتے تھے۔ اس مزاحیہ خاکوں کے پروگرام کے پروڈیوسر مرغوب احمد اور مسٹر بیگ ہوا کرتے تھے۔
ہمارا تجربہ بہرحال یہ کہتا ہے کہ مزاحیہ پروگرام کتنا ہی برا بھلا اور بے ڈھنگا ہو مزاح کے بھوکے ناظرین کی اچھی خاصی تعداد دیکھ لیتی ہے اس سلسلے میں آفتاب اقبال جیسے معیاری اور جدت پسند مزاح نگاروں کا دم بڑا غنیمت ہے۔
فیصلے کے مطابق اس پروگرام کے آئیڈیا کے خالق اور بانی انور مقصود اور ان کے خاکوں کو ممکنہ حد تک بہترین انداز میں چھوٹی اسکرین پر منتقل کرنے والے پی ٹی وی کے صف اول کے پروڈیوسر شعیب منصور سے ایک مرتبہ پھر یکجا ہونے کی درخواست کی جائے گی اور اس مقصد سے ماجد جہانگیر، اسماعیل تارہ، زیبا شہناز، اشرف خان اور اس دور کے بعض دیگر فنکاروں پر مشتمل ففٹی ففٹی کی پوری ٹیم کو جمع کیا جائے گا۔
شروع میں انور مقصود نے اسے ایک ایسے مزاحیہ پروگرام کے طور پر تخلیق کیا تھا جس کا نصف مزاحیہ خاکوں اور باقی نصف گیتوں پر مشتمل ہوگا اور اسی لیے انھوں نے اس کا عنوان ففٹی ففٹی رکھا تھا۔ اس پروگرام کے لیے شعیب منصور کا انتخاب کیا گیا تھا جن کا شمار عارفین کے بعد کراچی ٹیلی ویژن کے میوزک کے بہترین پروڈیوسرز میں ہوتا تھا۔
اگر ہماری یادداشت صحیح کام کر رہی ہے تو چند ماہ بعد ہی انور مقصود نے ففٹی ففٹی سے علیحدگی اختیار کرلی تھی ۔اس سلسلے میں بعض لوگوں کا خیال تھا کہ جینیس تخلیق کاروں میں من جملہ دیگر تمام خوبیوں کے ساتھ ایک برائی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنا کریڈٹ شیئر نہیں کرنا چاہتے چنانچہ شعیب منصور بھی جو بلاشبہ انتہائی باصلاحیت بے پناہ تخلیقی مہارت اور غضب کی حس مزاح رکھنے والے ٹی وی پروڈیوسرز تھے اور اپنی ٹیم کے ساتھ بیٹھ کر مزاحیہ خاکے تخلیق کیا کرتے تھے اپنا کریڈٹ انور مقصود جیسے رائٹرز کے ساتھ شیئر کرنے کو تیار نہیں تھے۔
ہمیں خود یاد ہے کہ ایک مرتبہ کراچی ٹیلی ویژن سینٹر میں ہمارا جانا ہوا تو شعیب منصور اپنی پوری ٹیم کو لیے بیٹھے سر جوڑ کر ایک خاکے کی پنچ لائن کی تلاش کر رہے تھے۔ اس وقت ہم نے ہی Suggest کیا تھا کہ جب دبئی سے ایک شخص ریفریجریٹر سمیت الیکٹرانکس کا سامان لیے داخل ہو تو اس کا استقبال کرنے والے بال بچے اپنے باپ کے بجائے ریفریجریٹر سے لپٹ جائیں۔ یہ خاکہ اگلے ہفتے ٹیلی ویژن پر ہمیں کوئی کریڈٹ دیے بغیر چل گیا تھا حالانکہ شعیب منصور سمیت اس فیلڈ میں کام کرنے والے اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ کسی بھی خاکے میں دو چیزوں کی ہی اہمیت ہوتی ہے ایک تو اس کا موضوع اور آئیڈیا اور پھر اتنی ہی اہم اس کی پنچ لائن۔ اس میٹنگ کے بعد بھی شعیب منصور اور ہمارے درمیان ایک خلیج حائل رہی جس میں خاصا دخل ہماری اپنی طبیعت کا بھی تھا کہ اپنی خاموش اور ریزرو طبیعت کے باعث ہم اس ٹیم کا حصہ نہیں بن سکے جس کا وجود اس قسم کے پروگراموں کی کامیابی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
چنانچہ ففٹی ففٹی کے حوالے سے بھی ہم اپنا شمار Also Run میں بھی کرتے ہیں یا جیساکہ تقریب کے حوالے سے کوئی خبر شایع ہوتی ہے جس کے آخر میں لکھا جاتا ہے کہ ان ان لوگوں نے بھی تقریب میں شرکت کی۔خدا کا کرنا یہ ہوا کہ شعیب منصور جو اس زمانے میں ویسپا اسکوٹر چلایا کرتے تھے ایک شدید حادثے سے دوچار ہوئے اسپتال میں کئی ماہ زیر علاج رہے اس دوران ففٹی ففٹی کی پروڈکشن کے لیے قرعہ فال کاظم پاشا اور علی رضوی کے نام نکلا اور دونوں نے تقریباً ایک ڈیڑھ سال ففٹی ففٹی پروڈیوس کیا اور اس زمانے میں ہم ہر ہفتے ایک دو خاکے ففٹی ففٹی کے لیے لکھتے رہے جو پابندی سے ٹیلی کاسٹ ہوتے رہے اور آج تک گاہے بگاہے Repeat ہوتے رہے ہیں ۔
حیرت انگیز طور پر پی ٹی وی ہوم پر ففٹی ففٹی کے جو پرانے پروگرام دکھائے جاتے ہیں ان میں سے کچھ انور مقصود +شعیب منصور اور کچھ کاظم پاشا+علی رضوی کے پروڈیوس کردہ ہوتے ہیں دونوں میں انیس بیس کا ہی فرق ہوتا ہوگا اس یکسانیت اور معیار کو تقریباً برقرار رکھنے کا سہرہ بلاشبہ ماجد جہانگیر، اسماعیل تارہ، زیبا شہناز، اشرف خان کے سر ہے (ان اتنے ہی اچھے فنکاروں سے معذرت جن کے نام ہمیں یاد نہیں آرہے ہیں) ففٹی ففٹی کی بے پناہ کامیابی ظاہر کرتی ہے کہ کسی بھی مزاحیہ پروگرام میں تینوں شعبے اپنی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں۔ پروگرام آئیڈیا اور فارمیٹ، اسکرپٹ رائٹرز، پروڈیوسر اور اداکاروں کی ٹیم اس طرح بنیادی کریڈٹ جناب انور مقصود کا ہے جنھوں نے ایک نیا آئیڈیا اور فارمیٹ تخلیق کیا۔ اگرچہ بعد میں اس اونٹ کی طرح جو باقی لوگوں کو خیمے سے نکال باہرکرتا ہے ففٹی ففٹی کے مزاحیہ فنکاروں نے بھی گلوکاروں کو نکال باہر کیا۔
اس کے بعد شعیب منصورکو بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ چونکہ وہ Aesthetic سینس کے علاوہ بلا کی حس مزاح رکھتے تھے اور جن کو آئیڈیا تھا کہ کن باتوں سے مزاح تخلیق ہوگا جو ناظرین کو ہنسنے پر مجبور کرے گا پھر وہ کامیڈین حضرات کی ایک بڑی اچھی ٹیم بھی جمع کرنے میں کامیاب ہوگئے بعد میں شعیب منصور نے جو ڈرامے اور فلمیں تخلیق کیں ان سے ثابت ہوا کہ وہ محض مزاحیہ خاکوں کے ہی نہیں سنجیدہ ڈراموں اور فلموں کے بھی اتنے ہی کمال کے پروڈیوسر ہیں۔اب آئیے پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے مزاحیہ پروگراموں کی طرف۔ اگرچہ تقریباً تمام نجی چینلز نے اس میدان میں طبع آزمائی کی ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے بیشتر کامیڈینز کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ وہ خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے اسکرپٹ سے لے کر ایکٹنگ تک سارے کام خود کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسکرپٹ رائٹنگ کے انسٹی ٹیوشن سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔
ہمارا ایماندارانہ تجزیہ یہ ہے کہ نجی ٹی وی چینلز میں اگر کسی شخصیت نے ففٹی ففٹی جیسے معیار اور کامیابی کو حاصل کیا ہے وہ آفتاب اقبال ہیں اور اس کے قدرتی طور پر اپنے اسباب ہیں وہ ففٹی ففٹی کی طرح ایک نیا آئیڈیا اور فارمیٹ لیے چھوٹی اسکرین پر آئے وہ اسکرپٹ پر بے حد محنت کرتے ہیں ۔ ففٹی ففٹی کی طرح عصر حاضر کے ایشوز پر خاکے کرتے ہیں اور سب سے آخری اور سب سے اہم بات یہ کہ وہ ففٹی ففٹی کی طرح مزاحیہ فنکاروں کی ایک اچھی ٹیم جمع کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کا یہ بھی کریڈٹ ہے کہ انھوں نے پروگرام میں ممکنہ حد تک زیادہ سے زیادہ لوگوں کی Participation متعارف کرائی ہے وہ جس انداز کے موجد ہیں اسے اب دوسرے چینلز نے بھی اپنا لیا ہے ہمیں امید بلکہ یقین ہے کہ جناب آفتاب اقبال اپنے نئے دور میں بھی روز اول کی طرح کامیاب رہیں گے۔
اپنے بارے میں ہم ایک مرتبہ خود یہ وضاحت کرنا چاہیں گے کہ ہم نے خود کو ہمیشہ خدانخواستہ ففٹی ففٹی کے بانی یا روح رواں کی طرح نہیں بلکہ One of the writers کے طور پر متعارف کرایا ہے اور یہ بات کوئی اتنی زیادہ غلط نہیں ہے اپنا ادراک کرلینا بھی بڑی اچھی خوبی ہے ہمیں اپنی اوقات پتہ ہے ہم اپنے اس دور پر بھی فخر کرتے ہیں جب ہم پی ٹی وی کے ایک مزاحیہ پروگرام سات رنگ کے لیے جسے مرحوم معین اختر ، مشکبار فاطمہ کے ہمراہ پیش کیا کرتے تھے ہر ہفتے تین چار مزاحیہ خاکے لکھا کرتے تھے جن میں سے کم ازکم دو پروڈیوس ہوجاتے تھے۔ اس مزاحیہ خاکوں کے پروگرام کے پروڈیوسر مرغوب احمد اور مسٹر بیگ ہوا کرتے تھے۔
ہمارا تجربہ بہرحال یہ کہتا ہے کہ مزاحیہ پروگرام کتنا ہی برا بھلا اور بے ڈھنگا ہو مزاح کے بھوکے ناظرین کی اچھی خاصی تعداد دیکھ لیتی ہے اس سلسلے میں آفتاب اقبال جیسے معیاری اور جدت پسند مزاح نگاروں کا دم بڑا غنیمت ہے۔