ایک میٹھی سازش

آپ کی یادداشت کمزور ہوسکتی ہے لیکن میرے دماغ پر کوئی چوٹ نہیں لگی۔

muhammad.anis@expressnews.tv

آپ بھول سکتے ہیں مگر میں نہیں بھول سکتا۔ آپ کی یادداشت کمزور ہوسکتی ہے لیکن میرے دماغ پر کوئی چوٹ نہیں لگی۔ آپ کے پاس روز کوئی نیا قصہ ہوسکتا ہے مگر میں ہر روز کے مذاق کو جوڑ کر کہانی سمجھنے کا عادی ہوں۔ اوپر سے جھانک کر سمندر کے اندر دیکھنے کا شوق آپ کا ہوسکتا لیکن کیا کیجیے کہ جب تک ہم پانی میں کود نہیں جاتے ہمیں چین نہیں آتا۔ صحرا کے قصے آپ نے سنیں ہوں گے جب کہ ہم نے صحراؤں میں تپتی مٹی پر ننگے پیروں لمبا سفر کیا ہے۔ ہوسکتا ہے آپ کا جوش ہو اور آپ اب تک اپنی گلی محلے کی سیاست سے باہر جھانک نہیں سکتے ہوں مگر یہاں تو ہم نے اپنے سینے میں سارے جہاں کا درد ڈالا ہوا ہے۔ آپ اس کو اپنا اندرونی معاملہ سمجھتے ہوں اور ہم جیسے دیوانے اسے ایک گہری سازش کہتے ہوں۔ جسے دیکھیے وہ انڈیا کو ایک طاقتور بلا کے طور پر ہمیں پیش کررہا ہے۔

یہ خونی بلا واقعی اتنی طاقتور ہے یا یہ کسی کے آگے ماتھا ٹیکنے والا فرمانبردار جن ہے، جو صرف کہتا ہے کہ کیا حکم ہے میرے آقا۔ کوئی یہ کیوں نہیں کہہ رہا کہ مودی کے چہرے کا فائدہ کون اٹھانا چاہتا ہے۔ کیا مودی سرکار خود سے ہی یہ سارا ڈرامہ کررہی ہے یا پھر ساری دال ہی کالی ہے۔ ہمیں لوہے کے چنے چبانے کے لیے دیے جارہے ہیں یا پھر لوہا ہماری گردنوں میں ڈالنے کی تیاری ہورہی ہے۔ ہمیں تو بچپن سے بتایا گیا ہے کہ ہمارا اگر کوئی دوست ہے تو وہ صرف اور صرف مسلم ملک ہے۔ ہمارا برادر مسلم ملک سعودیہ، ہمارا قریبی برادر مسلم ملک متحدہ عرب امارات۔ اس برادر مسلم ملک کے اندر ہمارا جانی دشمن کیسے گھس کر بادشاہوں کی طرح گھومتا ہے۔ اس برادر ملک کے اندر کیسے وہ ہزاروں کا مجمع جمع کرلیتا۔ جسے ہم اپنا دوسرا ملک قرار دے کر وہاں اپنے کرکٹ کے میچ ''فکس'' کراتے ہیں اسی برادر مسلم ملک کے اندر کیسے مودی ہمارے خلاف تقریر کرلیتا ہے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ ایک دوست کے گھر میں دوست کی عزت کا فالودہ بنایا جارہا ہو اور دوست کی مرضی اور منشا اُس میں شامل نہ ہو۔ میں نے کہا نہ آپ کی عادت ہوسکتی ہے بھول جانے کی لیکن یہ میری عادت نہیں کہ آپ کے دیے ہوئے زخموں کو بھول جاؤں۔ جب ہم نے یمن میں ہونے والی کارروائی پر جی حضوری کرنے سے انکار کیا تو یہ ہمارا برادر مسلم ملک ہی تھا نا کہ جس نے کہا تھا کہ اس کی بھاری قیمت پاکستان کو چکانا پڑے گی۔ اسی برادر ملک میں30 سال سے کوئی بھارتی سربراہ نہیں آیا تھا اور ہم اتنے دیوانے تھے کہ اپنا سب کچھ اُس پر نچھاور کررہے تھے۔ وہ بھول گئے کہ آج جس ہوائی جہاز میں وہ گھومتے ہیں پہلی بار ہم نے ہی انھیں دیے تھے۔ آپ مجھے بتائیے کہ کیا آپ کو نہیں معلوم تھا کہ جب کبھی بھی مودی جی اپنی زبان کھولیں گے تو وہ پاکستان کے متعلق کیا کہیں گے۔ ایسے میں اتنے بڑے اسٹیڈیم کے اندر کس نے انھیں سارے انتظام کرکے دیے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ہم نے گھاس کھائی ہوئی ہے جو ہمیں نہیں معلوم ہوگا کہ اتنے سارے لوگوں کو وہاں لانے میں کس کس نے کیا کیا انتظام کیا ہے۔ میں کیا سمجھوں کہ ہمارے برادر مسلم ملک نے ہمارے خلاف کام کرنا شروع کردیا ہے؟ یا پھر ہمارے سارے دشمن مل کر ایک ہوچکے ہیں اور گہرا کھیل شروع ہوچکا ہے۔


ہمیں ایک طرف سے افغانستان الزامات کی زد میں لے رہا ہے دوسری طرف انڈیا کھڑا ہے۔ مذاکرات میں چین کو ساتھ ملانے پر امریکا بھی خوش نہیں ہے اور ہمارے مسلم برادر ملک بھی اسی صف میں شامل ہیں۔کھیل آسان نہیں ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ میدان میں موجود کون کون سا کھلاڑی ہماری طرف ہے اور کون کون ایسے برادر ملک ہیں جو آستین میں گھس کر ہمیں ڈسنے والے ہیں۔ تھوڑا سا غور کرنے کی ضرورت ہے یہ سب سمجھ آجائے گا کہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے۔ کیا آپ اس واقعہ کو انڈیا اور ہمارے برادر مسلم ملک سے علیحدہ کریں گے۔ آپ خود سوچیں کہ یہ بات بہت سارے حلقوں کو معلوم تھی کہ ملا عمر اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ پاکستان ایک مذاکرات کا عمل شروع کرتا ہے، دوسری طرف ایک مذاکرات کا عمل قطر میں بھی جاری تھا۔ اس مذاکراتی عمل میں امریکا زیادہ آگے آگے تھا۔ پاکستان میں ہونیوالے مذاکرات مضبوط اور ٹھیک سمت میں ہوتے ہیں کہ ایک دم برطانوی میڈیا ملا عمر کی خبر نشر کردیتا ہے، جس میں سوائے ملا عمر کے انتقال ہوجانے کے علاوہ کوئی اور ٹھوس بات نہیں تھی۔

یہ خبر کس نے اور کیوں نشر کرائی؟ اس کا نتیجہ کیا نکلا کہ طالبان میں گروپ بن گئے، مذاکرات کا عمل ملتوی ہوگیا۔ سارا عمل کس کے لیے فائدہ مند ثابت ہوا؟ بہت سے لوگوں کو یہ بات مذاق معلوم ہوئی جب پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے یہ کہا کہ گوڈیل والے حملے میں ''را'' ہوسکتی ہے۔ ہو بھی سکتا ہے لیکن کیسے۔ کیا جو لوگ پاکستان میں مذہب کے نام پر حملے کر رہے ہیں وہ پاکستان کی ریاست سے مخلص ہیں؟ ہرگز نہیں۔ تو جب ایک طرف بھارت میں ہماری دشمن حکومت ہو، افغانستان سے ہمارے خلاف بیان آرہے ہوں اور تو اور ہمارے برادر اسلامی ملک کا کردار بھی ہمارے ساتھ نہ ہو ، امریکا کی پاک چین راہداری پر رائے بھی ہم جانتے ہوں تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سارے ہماری دشمنی میں یا پھر اپنے اپنے مفادات کے لیے ایک ہوکر ہر سمت سے حملہ آور ہورہے ہیں؟ سازشیں ہر طرح سے ہوتی ہیں، کبھی کبھی لگتا ہے کہ ہمارا دوست ہمیں بہت اچھے راستے پر لے جارہا ہے لیکن درحقیقت وہ ہمیں ایک دلدل میں پھنسا رہا ہوتا ہے۔

آئیے آپ کو ایک قصہ سناتا ہوں۔میں اس بحث میں ہرگز نہیں پڑنا چاہتا کہ شاہ منصور ٹھیک تھا یا پھر اکبر۔ لیکن موضوع یہ ہے کہ اکبر کے پاس اس بات کے ثبوت تھے کہ شاہ منصور اس کے خلاف بغاوت پر لوگوں کو اکسا رہا ہے لیکن اُس نے اُسے گرفتار کرنے کے بعد رہا کیا اور اعلیٰ منصب بھی دیا۔ منصور یہ بات جانتا تھا کہ اکبر کو شکست دینے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس کی فوج میں بغاوت پیدا کردی جائے۔ اُس نے ایک بار مذہب کے نام پر بغاوت کرنے کی کوشش کی لیکن یہ سازش کامیاب نہیں ہوسکی تو اُس نے اکبر کو ایک دوسرے جال میں پھنسایا۔ فوج میں گھڑ سواروں کی بہت اہمیت ہوتی تھی، فوج میں چھوٹا منصب دار دس گھوڑوں کا ہوتا تھا، اس کے بعد سو سوار، پھر ہزار سوار اور پھر دس ہزار سواروں کا ہوتا تھا۔ جو منصب دار جتنے سوار رکھتا تھا اُس کی تنخواہ اتنی ہی زیادہ ہوتی تھی۔ اب ہوتا یہ تھا کہ منصب دار جھوٹے دعوے کرتے تھے۔ جیسے ابھی ہمارے یہاں ہوتا ہے کہ چاچا کے پاس بھی بیس گھوڑے اور بھتیجے کے پاس بھی وہ ہی بیس گھوڑے، لیکن تنخواہ چاچا اور بھتیجا دونوں الگ الگ لیتے تھے۔

منصور جانتا تھا کہ اگر منصب داروں کی اس حوالے سے گردن کھینچی جائے تو یہ لوگ بغاوت کردیں گے۔ وہ بادشاہ کے پاس گیا اور کہا کہ آپ کو لوٹا جارہا ہے اور کرپشن کا بازار گرم ہے، ضروری یہ ہے کہ یہ کرپشن روکی جائے۔ اگر ہم یہ کرپشن روکنے میں کامیاب ہوگئے تو ہمارے خزانے بھر جائیں گے۔ جیسے کہ آج کل کچھ منشی یہ سبق پڑھا رہے ہیں۔ بادشاہ یہ سمجھا کہ منصور بہت ہی فائدہ کی بات کر رہا ہے۔ اس نے فوراً ہی حکم دے دیا۔ اور پھر وہ ہی ہوا جس کی توقع منصور کو تھی۔ اس سے مغل فوج اس قدر خفا ہوئی کہ ہر طرف شور مچ گیا۔ بنگال میں بغاوت ہوگئی اور اکبر بادشاہ کا ایک اعلیٰ عہدیدار قتل ہوگیا۔ سب لوگ اسے ظلم کہنے لگے۔ منصور کا کام ہوچکا۔ اکبر کو یہ گیم اُس وقت سمجھ آیا جب بہت دیر ہوچکی تھی۔ اس لیے میں آج کل کے اکبر سے یہ گزارش کرتا ہوں کہ برائے مہربانی بہت سے منصور آپ کے اردگرد گھوم رہے ہیں، جو فائلیں آپ سے کھلوائی جارہی ہیں، درحقیقت یہ ملکی خزانے میں اضافے کے لیے نہیں بلکہ ایک میٹھی سازش ہے۔ اسے بھی آپ اُن کے ساتھ ہی ملائیں جو کچھ افغانستان سے آرہا ہے یا انڈیا سے یا پھر برادر اسلامی ملک سے۔
Load Next Story