تحقیق و جستجو کا زندہ معجزہ آخری حصہ
ہماری طرز معاشرت اور ہمارے ان لوگوں کے بارے میں تفصیلات اور معلومات کیسے حاصل تھیں
لاہور:
گارسیں دتاسی کی کتاب پڑھتے ہوئے یقین نہیں آتا کہ ایک شخص جس نے کبھی ہندوستان کی سرزمین پر قدم نہیں رکھا جس کے زمانے میں انٹرنیٹ ایجاد نہیں ہوا تھا، طالب علموں کے پُرلطف جملوں کے مطابق 'گوگل آپا' یا 'گوگل باجی' پیدا نہیں ہوئی تھیں اور سیکڑوں ہزاروں برس پرانی تاریخ، جغرافیے، ادب، سیاست اور دنیا کے تمام معاملات 'گوگلیائے' نہیں جاسکتے تھے، ایسے زمانے میں گارسیں کو اردو اور ہندی ادب کے، ہماری طرز معاشرت اور ہمارے ان لوگوں کے بارے میں تفصیلات اور معلومات کیسے حاصل تھیں، جن میں سے بیشتر اس وقت بھی نیم گم نامی کی حالت میں تھے اور آج تو شاید وہ صرف گارسیں دتاسی کی 'تاریخ ادیباتِ اردو' کے صفحوں پر ہی اپنی ایک جھلک دکھاتے ہیں اور بس۔
اس شخص نے ایک دور افتادہ سرزمین اور غیر زبان سے ایسا عشق کیا کہ رہتی دنیا تک اس کی لکھی ہوئی کتاب یادگار رہے گی۔ اس کی یہ کتاب تقریباً 800 صدیوں پر پھیلی ہوئی ایک زبان کا احاطہ کرتی ہے اور اس کے بولنے والوں اور اس کے شاعروں اور ادیبوں کی زندگی کا باریکی سے جائزہ لیتی ہے۔ وہ عظیم آباد میں پیدا ہونے والے شیخ محمد عابد دل کے بارے میں لکھتا ہے کہ دل، محمد روشن جوشش کے بڑے بھائی اور جسونت ناگر کے بیٹے ہیں۔ وہ یہ بھی بیان کرتا ہے کہ دل اور جوشش خود مسلمان تھے لیکن ان کے والد کا تعلق ہندو مذہب سے تھا۔ راجا رام موہن رائے کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ انھوں نے مذہب اسلام کو پورے طور پر قبول نہیں کیا تھا لیکن وہ موحد ہونے کا دعویٰ کرتے تھے اور اس طرح یہودی، نصرانی یا مسلمان کہے جاسکتے تھے۔
اس نے جن ادیبوں، شاعروں اور محققوں کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے، ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں ایسی تفصیلات بیان کی ہیں جنھیں پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ فرانس کے کتب خانوں میں رکھے ہوئے اردو، فارسی اور ہندی کے تذکروں سے اس نے ایک ایسے روادار اور روشن خیال سماج کی نقش گری کی ہے جو کچھ ہی دنوں بعد نفرت اور فرقہ واریت کی آگ میں بھسم ہونے والا تھا۔
ونگر سنگھ کا نام آج بھلا کسے یاد ہے، شاید ان کے پڑ پوتے اورسگڑ پوتے بھی انھیں فراموش کرچکے ہوں، لیکن دتاسی ہمیں بتاتا ہے کہ وہ 'خیال' کے مصنف ہیں جو ایک قسم کا مختصر ڈرامہ ہے اور جس کو راجستھان میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔ جے رابسن نے ان کا ایک خیال شایع کیا ہے۔ یہ شکاورت ٹھاکر کا قصہ ہے جسے انگریزوں نے آگرہ میں قید کرلیا تھا اور جو عجیب و غریب انداز سے وہاں سے چھوٹ کر نکلا تھا۔
اس کی کتاب میں ہمیں ان خواتین کا ذکر بھی ملتا ہے جن میں سے بیشتر ڈیرہ دارنیاں تھیں اور سماج میں انھیں ایک خاص مقام حاصل تھا۔ ایسی ہی ایک خاتون 'دلبر' کے ضمن میں لکھتا ہے کہ 'ان کو چھوٹی بیگم بھی کہتے ہیں، پھر ' گلدستہ نازنیناں' کے ہندوستانی تذکرہ نویس کا یہ جملہ نقل کیا ہے کہ 'معشوقہ جاں نواز، سراپا نازِ پُرانداز، مسیح دم، خورشید رو، ماہ طلعت سیم تن، بلوریں ذقن، نازک اندام، خوش خرام، زیبا کلام... قلم میں یہ طاقت کہاں جو ایک شمعِ حسن و جمال اور وضاحتِ قیل و قال دلبر مذکورہ کے لکھے''۔
یہ ایک شاہد بازاری کا ذکر ہے تو دوسری طرف نواب آصف الدولہ کی بیگم کا نقشہ یوں کھینچتا ہے کہ وہ ملکہ ہوتے ہوئے بھی اپنی رات عبادت کرنے اور قرآن پڑھنے میں گزارتی تھیں۔
میاں جنگی لال دل گیر کے بارے میں ہمیں بتاتا ہے کہ وہ کائستھ تھے اور اردو کے مشہور مرثیہ نگار۔ مسلمان ہونے سے پہلے بیدم تخلص کرتے تھے۔ مسلمان ہونے سے پہلے انھوں نے جو دیوان مرتب کیا تھا وہ اسلام قبول کرتے ہی دریا میں ڈبو دیا اور اس کے بعد حضرت علیؓ، حسنؓ اور حسینؓ کی شان میں مرثیے لکھتے رہے۔
دتاسی کا زمانہ وہ ہے جب کراچی کو فتح کیے ہوئے انگریزوں کو کچھ ہی برس گزرے تھے اور ہندوستان میں اس شہر کا نام ابھی نہیں چمکا تھا لیکن دتاسی مرزا محمد شفیع کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ کراچی کے فارسی اردو اخبار ''مطلع خورشید'' کے مضمون نگار ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب مولانا محمد حسین آزاد اپنے استاد ذوق کو غالب سے بڑا شاعر ثابت کررہے تھے، عین اسی زمانے میں فرانس کے ایک شہر میں بیٹھا ہوا گارسیں دتاسی غالب کے بارے میں لکھتا ہے کہ 'ہندوستان میں کوئی ایسا تعلیم یافتہ آدمی نہیں ہے جو ان کی استادی اور ان کے کلام کی بلندی کا قائل نہ ہو'۔ اور یہ بھی بیان کرتا ہے کہ آخری وقت تک انھوں نے جو کچھ کہا ہے اس میں بھی زندگی کی حرارت و تازگی اور طبیعت کی شگفتگی و خوش مذاقی کا اثر نمایاں ہے۔ ان کے لطیفے روزمرہ کی گفتگو میں کھانے میں نمک کا کام دیتے ہیں'۔ دتاسی نے مارچ 1869ء کے 'اودھ اخبار' میں غالب کی یادگار قائم کرنے کی تجویز کو تفصیل سے نقل کیا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ کہنے کو یہ 'تاریخ ادیبات اردو' ہے جب کہ درحقیقت یہ مغل ہندوستان اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور اقتدار کے بعد ملکہ وکٹوریہ کے راج کا ادبی، سماجی، تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی جائزہ ہے۔ اس آئینے میں ہمیں ایک کثیر المشرب سماج کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ اس میں ازبک، ترک، مغل، برہمن، کائستھ، بودھ مت کے ماننے والے، مسیحی، سکھ اور برہموسماج، آریہ سماج، اہل حدیث، بریلوی، غرض کون سا مذہب اور مسلک ہے جس کے لوگ اس کتاب کے صفحوں پر نظر نہیں آتے۔
ان میں بادشاہوں، شہزادوں، نوابوں، راجوں، مہاراجوں اور رئیسوں کے ساتھ ساتھ عطار، کمہار، قصاب اور زرگر شاعری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنے دیوان رکھتے ہیں اور ان کی زبان کو سند کا درجہ حاصل ہے۔ اس میں صرف شعراء کے ہی نہیں نثر نگاروں، لغت نویسوں، مترجمین اور ناقدین کے نام اور کام بھی نظر آتے ہیں۔ کوئی انجیل کا ترجمہ کررہا ہے اور کوئی شیکسپیر کے کسی ڈرامے کا، مسلمان اور عیسائی ہیں جو ایک دوسرے کے مذہب پر اعتراضات کررہے ہیں، شیعہ سنی مناظرہ قلم بند ہورہا ہے۔ سائنسی اور تکنیکی موضوعات پر کتابیں لکھی جارہی ہیں، شعبہ منصفی کے فیصلے 'سرکلرات' کے عنوان سے اردو میں منتقل ہورہے ہیں۔ آتش بازی، دست کاری اور دوسرے ہنر اردو میں لکھے جارہے ہیں۔
ایک ایسا سماج ہے جس میں مسلمان، ہندو یا عیسائی ہورہے ہیں اسی طرح ہندو اپنا مذہب ترک کرکے مسلمانوں کا مذہب اختیار کررہے ہیں۔ اس کے باوجود نہ ہندو مسلم فساد ہورہا ہے، نہ عیسائی ہندوؤں یا مسلمانوں کو قتل کررہے ہیں۔ رواداری کا ایک دریا ہے جس میں سب تیر رہے ہیں اور جو کٹر پنتھی ہیں وہ بھی کسی کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھاتے اور مغل اور برطانوی قانون کا احترام کرنے پر مجبور ہیں۔
اردو ادب کی یہ تاریخ جب لکھی گئی، اس وقت وہ اڑان بھر رہی تھی اور آج ایک مراعات یافتہ زبان ہے۔ اس کا پھیلاؤ سات براعظموں میں ہے اور پاکستان میں آئینی طور پر اسے قومی زبان ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ ایسے میں کچھ لوگوں کی طرف سے محض اردو کی 'حالت زار' پر آہ و بکا کرنا یا اس کے 'حقوق' کے لیے آواز بلند کرنا، پاکستان کی ان قومی زبانوں کے ساتھ زیادتی ہے جو انگریزی اور اردو کی یلغار میں ہیں۔
گارسیں دتاسی کی یہ کتاب ہمیں بہت سے نکتے تعلیم کرتی ہے۔ ان میں سب سے بالاتر یہ ہے کہ ہر زبان اہم ہے اور وہ لوگ جو کسی جمی جمائی زبان کے بولنے والے ہیں، ان کا فرض ہے کہ وہ دوسری زبانوں کے بارے میں اسی ربط خاص اور تعلق خاطر کا مظاہرہ کریں جو ہمیں گارسیں دتاسی کے یہاں نظر آتا ہے۔ ہم میں سے کوئی براہوی یا گجراتی، کھوار، برشنسکی، شینا، بلتی یا ڈھاٹکی کے شاعروں اور ادیبوں کی اسی ژرف نگاہی سے تلاش کیوں نہ کرے جس کا مظاہرہ دتاسی نے کیا۔ دتاسی کی تحقیق و جستجو کا قرض ہم اسی طور ادا کرسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ ایسا کرتے ہوئے اس نے اردو کی سرپرستی نہیں کی تھی۔ وہ ہر نوعیت کے سیاسی یا ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر ایک دور افتادہ زبان کے عشق میں گرفتار ہوا تھا اور یہ عشق اسے اردو زبان کی تاریخ میں امر کرگیا۔
گارسیں دتاسی کی کتاب پڑھتے ہوئے یقین نہیں آتا کہ ایک شخص جس نے کبھی ہندوستان کی سرزمین پر قدم نہیں رکھا جس کے زمانے میں انٹرنیٹ ایجاد نہیں ہوا تھا، طالب علموں کے پُرلطف جملوں کے مطابق 'گوگل آپا' یا 'گوگل باجی' پیدا نہیں ہوئی تھیں اور سیکڑوں ہزاروں برس پرانی تاریخ، جغرافیے، ادب، سیاست اور دنیا کے تمام معاملات 'گوگلیائے' نہیں جاسکتے تھے، ایسے زمانے میں گارسیں کو اردو اور ہندی ادب کے، ہماری طرز معاشرت اور ہمارے ان لوگوں کے بارے میں تفصیلات اور معلومات کیسے حاصل تھیں، جن میں سے بیشتر اس وقت بھی نیم گم نامی کی حالت میں تھے اور آج تو شاید وہ صرف گارسیں دتاسی کی 'تاریخ ادیباتِ اردو' کے صفحوں پر ہی اپنی ایک جھلک دکھاتے ہیں اور بس۔
اس شخص نے ایک دور افتادہ سرزمین اور غیر زبان سے ایسا عشق کیا کہ رہتی دنیا تک اس کی لکھی ہوئی کتاب یادگار رہے گی۔ اس کی یہ کتاب تقریباً 800 صدیوں پر پھیلی ہوئی ایک زبان کا احاطہ کرتی ہے اور اس کے بولنے والوں اور اس کے شاعروں اور ادیبوں کی زندگی کا باریکی سے جائزہ لیتی ہے۔ وہ عظیم آباد میں پیدا ہونے والے شیخ محمد عابد دل کے بارے میں لکھتا ہے کہ دل، محمد روشن جوشش کے بڑے بھائی اور جسونت ناگر کے بیٹے ہیں۔ وہ یہ بھی بیان کرتا ہے کہ دل اور جوشش خود مسلمان تھے لیکن ان کے والد کا تعلق ہندو مذہب سے تھا۔ راجا رام موہن رائے کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ انھوں نے مذہب اسلام کو پورے طور پر قبول نہیں کیا تھا لیکن وہ موحد ہونے کا دعویٰ کرتے تھے اور اس طرح یہودی، نصرانی یا مسلمان کہے جاسکتے تھے۔
اس نے جن ادیبوں، شاعروں اور محققوں کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے، ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں ایسی تفصیلات بیان کی ہیں جنھیں پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ فرانس کے کتب خانوں میں رکھے ہوئے اردو، فارسی اور ہندی کے تذکروں سے اس نے ایک ایسے روادار اور روشن خیال سماج کی نقش گری کی ہے جو کچھ ہی دنوں بعد نفرت اور فرقہ واریت کی آگ میں بھسم ہونے والا تھا۔
ونگر سنگھ کا نام آج بھلا کسے یاد ہے، شاید ان کے پڑ پوتے اورسگڑ پوتے بھی انھیں فراموش کرچکے ہوں، لیکن دتاسی ہمیں بتاتا ہے کہ وہ 'خیال' کے مصنف ہیں جو ایک قسم کا مختصر ڈرامہ ہے اور جس کو راجستھان میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔ جے رابسن نے ان کا ایک خیال شایع کیا ہے۔ یہ شکاورت ٹھاکر کا قصہ ہے جسے انگریزوں نے آگرہ میں قید کرلیا تھا اور جو عجیب و غریب انداز سے وہاں سے چھوٹ کر نکلا تھا۔
اس کی کتاب میں ہمیں ان خواتین کا ذکر بھی ملتا ہے جن میں سے بیشتر ڈیرہ دارنیاں تھیں اور سماج میں انھیں ایک خاص مقام حاصل تھا۔ ایسی ہی ایک خاتون 'دلبر' کے ضمن میں لکھتا ہے کہ 'ان کو چھوٹی بیگم بھی کہتے ہیں، پھر ' گلدستہ نازنیناں' کے ہندوستانی تذکرہ نویس کا یہ جملہ نقل کیا ہے کہ 'معشوقہ جاں نواز، سراپا نازِ پُرانداز، مسیح دم، خورشید رو، ماہ طلعت سیم تن، بلوریں ذقن، نازک اندام، خوش خرام، زیبا کلام... قلم میں یہ طاقت کہاں جو ایک شمعِ حسن و جمال اور وضاحتِ قیل و قال دلبر مذکورہ کے لکھے''۔
یہ ایک شاہد بازاری کا ذکر ہے تو دوسری طرف نواب آصف الدولہ کی بیگم کا نقشہ یوں کھینچتا ہے کہ وہ ملکہ ہوتے ہوئے بھی اپنی رات عبادت کرنے اور قرآن پڑھنے میں گزارتی تھیں۔
میاں جنگی لال دل گیر کے بارے میں ہمیں بتاتا ہے کہ وہ کائستھ تھے اور اردو کے مشہور مرثیہ نگار۔ مسلمان ہونے سے پہلے بیدم تخلص کرتے تھے۔ مسلمان ہونے سے پہلے انھوں نے جو دیوان مرتب کیا تھا وہ اسلام قبول کرتے ہی دریا میں ڈبو دیا اور اس کے بعد حضرت علیؓ، حسنؓ اور حسینؓ کی شان میں مرثیے لکھتے رہے۔
دتاسی کا زمانہ وہ ہے جب کراچی کو فتح کیے ہوئے انگریزوں کو کچھ ہی برس گزرے تھے اور ہندوستان میں اس شہر کا نام ابھی نہیں چمکا تھا لیکن دتاسی مرزا محمد شفیع کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ کراچی کے فارسی اردو اخبار ''مطلع خورشید'' کے مضمون نگار ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب مولانا محمد حسین آزاد اپنے استاد ذوق کو غالب سے بڑا شاعر ثابت کررہے تھے، عین اسی زمانے میں فرانس کے ایک شہر میں بیٹھا ہوا گارسیں دتاسی غالب کے بارے میں لکھتا ہے کہ 'ہندوستان میں کوئی ایسا تعلیم یافتہ آدمی نہیں ہے جو ان کی استادی اور ان کے کلام کی بلندی کا قائل نہ ہو'۔ اور یہ بھی بیان کرتا ہے کہ آخری وقت تک انھوں نے جو کچھ کہا ہے اس میں بھی زندگی کی حرارت و تازگی اور طبیعت کی شگفتگی و خوش مذاقی کا اثر نمایاں ہے۔ ان کے لطیفے روزمرہ کی گفتگو میں کھانے میں نمک کا کام دیتے ہیں'۔ دتاسی نے مارچ 1869ء کے 'اودھ اخبار' میں غالب کی یادگار قائم کرنے کی تجویز کو تفصیل سے نقل کیا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ کہنے کو یہ 'تاریخ ادیبات اردو' ہے جب کہ درحقیقت یہ مغل ہندوستان اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور اقتدار کے بعد ملکہ وکٹوریہ کے راج کا ادبی، سماجی، تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی جائزہ ہے۔ اس آئینے میں ہمیں ایک کثیر المشرب سماج کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ اس میں ازبک، ترک، مغل، برہمن، کائستھ، بودھ مت کے ماننے والے، مسیحی، سکھ اور برہموسماج، آریہ سماج، اہل حدیث، بریلوی، غرض کون سا مذہب اور مسلک ہے جس کے لوگ اس کتاب کے صفحوں پر نظر نہیں آتے۔
ان میں بادشاہوں، شہزادوں، نوابوں، راجوں، مہاراجوں اور رئیسوں کے ساتھ ساتھ عطار، کمہار، قصاب اور زرگر شاعری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنے دیوان رکھتے ہیں اور ان کی زبان کو سند کا درجہ حاصل ہے۔ اس میں صرف شعراء کے ہی نہیں نثر نگاروں، لغت نویسوں، مترجمین اور ناقدین کے نام اور کام بھی نظر آتے ہیں۔ کوئی انجیل کا ترجمہ کررہا ہے اور کوئی شیکسپیر کے کسی ڈرامے کا، مسلمان اور عیسائی ہیں جو ایک دوسرے کے مذہب پر اعتراضات کررہے ہیں، شیعہ سنی مناظرہ قلم بند ہورہا ہے۔ سائنسی اور تکنیکی موضوعات پر کتابیں لکھی جارہی ہیں، شعبہ منصفی کے فیصلے 'سرکلرات' کے عنوان سے اردو میں منتقل ہورہے ہیں۔ آتش بازی، دست کاری اور دوسرے ہنر اردو میں لکھے جارہے ہیں۔
ایک ایسا سماج ہے جس میں مسلمان، ہندو یا عیسائی ہورہے ہیں اسی طرح ہندو اپنا مذہب ترک کرکے مسلمانوں کا مذہب اختیار کررہے ہیں۔ اس کے باوجود نہ ہندو مسلم فساد ہورہا ہے، نہ عیسائی ہندوؤں یا مسلمانوں کو قتل کررہے ہیں۔ رواداری کا ایک دریا ہے جس میں سب تیر رہے ہیں اور جو کٹر پنتھی ہیں وہ بھی کسی کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھاتے اور مغل اور برطانوی قانون کا احترام کرنے پر مجبور ہیں۔
اردو ادب کی یہ تاریخ جب لکھی گئی، اس وقت وہ اڑان بھر رہی تھی اور آج ایک مراعات یافتہ زبان ہے۔ اس کا پھیلاؤ سات براعظموں میں ہے اور پاکستان میں آئینی طور پر اسے قومی زبان ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ ایسے میں کچھ لوگوں کی طرف سے محض اردو کی 'حالت زار' پر آہ و بکا کرنا یا اس کے 'حقوق' کے لیے آواز بلند کرنا، پاکستان کی ان قومی زبانوں کے ساتھ زیادتی ہے جو انگریزی اور اردو کی یلغار میں ہیں۔
گارسیں دتاسی کی یہ کتاب ہمیں بہت سے نکتے تعلیم کرتی ہے۔ ان میں سب سے بالاتر یہ ہے کہ ہر زبان اہم ہے اور وہ لوگ جو کسی جمی جمائی زبان کے بولنے والے ہیں، ان کا فرض ہے کہ وہ دوسری زبانوں کے بارے میں اسی ربط خاص اور تعلق خاطر کا مظاہرہ کریں جو ہمیں گارسیں دتاسی کے یہاں نظر آتا ہے۔ ہم میں سے کوئی براہوی یا گجراتی، کھوار، برشنسکی، شینا، بلتی یا ڈھاٹکی کے شاعروں اور ادیبوں کی اسی ژرف نگاہی سے تلاش کیوں نہ کرے جس کا مظاہرہ دتاسی نے کیا۔ دتاسی کی تحقیق و جستجو کا قرض ہم اسی طور ادا کرسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ ایسا کرتے ہوئے اس نے اردو کی سرپرستی نہیں کی تھی۔ وہ ہر نوعیت کے سیاسی یا ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر ایک دور افتادہ زبان کے عشق میں گرفتار ہوا تھا اور یہ عشق اسے اردو زبان کی تاریخ میں امر کرگیا۔