سندھ کےسیاستدانوں میں ایک کروڑ 90 لاکھ تقسیم کیےسپریم کورٹ میں بیان جمع
آج فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرتی،سربراہ بھی آئین کے پابند ہے، چیف جسٹس
سپریم کورٹ نے سیاستدانوں میں مبینہ رقوم کی تقسیم کے مقدمے میں وزارت دفاع کی جانب سے 8 کروڑ روپے کے حوالے سے جمع کرائے گئے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے درست معلومات جمع کر انیکا حکم دیا ہے۔
جب کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ فوج بھی ججز اور منتخب نمائندوں کی طرح آئین کی پابند ہے، آئین کے تحت ذمے داریاں ادا کر نا کسی پر احسان نہیں، جنرل ریٹائرڈ اسلم بیگ ہی تبدیلی لاسکتے تھے، بطور آرمی چیف صدر کے غیر قانونی حکم کو ماننے سے انکار کر دینا چاہیے تھا۔ جمعرات کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے اصغر خان کیس کی سماعت کی سماعت شروع ہوئی تو وزارت دفاع نے آئی ایس آئی کے اکائونٹس کی تفصیلات عدالت میں پیش کیں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ اکائونٹس کی تفصیلات خفیہ ہیں انھیں عام نہیں کیا جاسکتا، جس پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ جسے آپ خفیہ سمجھ رہے ہیں، وہ ریکارڈ پر پہلے سے ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی نے بتایاکہ تمام رقم تقسیم نہیں ہوئی، باقی رقم اکائونٹس میں رہی جو تفصیل مانگی وہ ان معلومات میں نہیں ہے۔ عدالت نے کہاکہ وزارت دفاع کے جواب میں 8 کروڑ روپے کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جنرل (ر) اسد درانی نے خود کہا تھا کہ 14 کروڑ روپے کی رقم میں سے 8 کروڑ بچے تھے جنھیں مخصوص اکائونٹ میں جمع کروا دیا گیا تھا۔ ریکارڈ کے مطابق ایک مرحلے پر رقم کی تقسیم کے حوالے سے جنرل (ر) آصف جنجوعہ نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ عدالت نے وزارت دفاع کے ڈائریکٹر کمانڈر شہباز کو 8 کروڑ کی درست معلومات جمع کرانے کی ہدایت کی۔ سماعت کے دوران بریگیڈیئر (ر) حامد سعید نے اپنا تحریر بیان جمع کراتے ہوئے کہا کہ ان کے بیان کے پیراگراف 1سے 8کو خفیہ رکھا جائے جبکہ پیراگراف 9 سے 14 کو خفیہ رکھنے کی ضرورت نہیں۔
جنرل ریٹائرڈ حامد سعید نے اپنے بیان میں رقوم کی تقسیم کے حوالے سے کہا کہ میری معروضات کا ایک پیرا گراف فوج کی بدنامی کا باعث بن سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ فوج کو بدنام کرنا آئین و قانون کے تحت قابل سزا جرم ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اگر فوج کی بدنامی ہو تو انھیں پھانسی ہوسکتی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی صوابدید ہے جو خفیہ رکھنا چاہتے ہیں الگ جمع کرادیں۔
بریگیڈیئر (ر)حامد سعید کا کہنا تھا کہ بیان الگ جمع کرایا تو دیگر باتیں سمجھنے میں مشکل ہوگی، ان کا تعلق ہے، عدالت سمجھتی ہے تو چاہے تمام معاملے کوخفیہ نہ رکھے اس موقع پر ایڈووکیٹ آن ریکارڈ عبدالغفور نے فاضل عدالت کو بتایا کہ رحمٰن ملک نے بطور ڈائریکٹر ایف آئی اے اس کیس میں کام کیا تھا وہ اس حوالے سے عدالت کی معاونت کرنا چاہتے ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ضرورت پیش آئی تو رحمٰن ملک سے مدد لی جائے گی بعد میں عدالت نے کہا کہ ابھی پیراگراف 1 سے 8 کو پبلک نہیں کیا جائیگا۔ چیف جسٹس نے جنرل (ر)حامد سعید سے استفسار کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ 90 کے الیکشن میں آپ کو کوئی ٹاسک دیاگیا۔
حامد سعید نے بتایا کہ جولائی 90 میں کراچی میں متعین ہوا، وہاں 16 ماہ مقرر رہا۔ جسٹس جوادخواجہ نے کہاکہ یعنی الیکشن سے پہلے آپ کو وہاں مقرر کرکے الیکشن کے بعدبلالیاگیا۔ حامد سعید نے کہا کہ جو بھی رقوم کی تفصیلات ہیں وہ تحریری جواب میں لکھ دی ہیں۔ حامد سعید نے اپنے تحریری بیان کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ چیزیں ریکارڈ پر نہیں لائیں گے تو ساری مشق بے کار ہو جائے گی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے اصرار پر ہم اسے ریکارڈ کا حصہ بنا رہے ہیں تاہم وقتی طور پر دستاویز کو عام نہیں کیا جا رہا۔
بی بی سی اردوداٹ کام کے مطابق چیف جسٹس نے حامد سعید سے استفسار کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ انھوں نے 1990ء میں سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کی تھیں جس پر حامد سعید نے کہا کہ انھوں نے اس عرصے کے دوران سندھ کے سیاستدانوں میں ایک کروڑ 90لاکھ روپے تقسیم کیے تھے جب کہ باقی رقم انھوں نے جی ایچ کیو کو واپس بھجوادی تھی۔ انھوں نے ان سیاستدانوں کے نام نہیں بتائے جنھیں ان کے بقول رقم دی گئی تھی۔ بعد میں سپریم کورٹ نے جواب کی نقل اٹارنی جنرل کو دینے کی ہدایت کی۔ سماعت کے دور ان چیف جسٹس نے کہا کہ وقتی طور پر بریگیڈیئر (ر) حامد سعید کی دستاویز کو عام نہیں کررہے، عدالت میں صرف پیراگراف 9 سے 12 تک بات ہوگی۔
سماعت کے دور ان صدر کے ملٹری سیکریٹری بریگیڈیئر محمد عامر کا جواب بھی سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ایوان صدر میں ریکارڈتلاش کیا، 90کے الیکشن سیل کی فائل نہیں ملی۔ جنرل (ر) اسلم بیگ کے وکیل اکرم شیخ نے اپنے دلائل میں عدالت سے استدعاکی کہ فوج میں اصلاحات کا حکم بھی دیاجائے،آئی ایس آئی کو فوج کے ڈسپلن میں لایا جائے اورآئی ایس آئی کوچیف ایگزیکٹو کے ماتحت کرنے کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ہمارا کام نہیں، یہ حکومت کاکام ہے، سرکاری اداروں میں خفیہ فنڈز کے خاتمہ کرنا بھی حکومت کی اتھارٹی ہے۔
انھوں نے کہا کہ آج سیاست میں فوج کی مداخلت نہیں، آرمی چیف نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ بلوچستان پر جو حکم آئین کا ہوگا وہ قبول ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اسلم بیگ 1988سے 1991ء تک فوج کے سپہ سالار رہے اسلم بیگ، صدر اسحاق کو کہہ سکتے تھے رقوم کی تقسیم میں فریق نہیں بنیں گے، انھیں اسحاق خان کے سامنے مزاحمت کرنی چاہیے تھی اور کوئی تبدیلی لاسکتا تھا تو وہ آپ کا مؤکل تھا۔ اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ 21اگست کو ایئرکریش کے بعد اسلم بیگ نے 3 گھنٹے میں ذمے داریاں سنبھال لیں، اکرم شیخ نے کہاکہ آرٹیکل 6 نہ لگایا جائے ان کا مؤکل اس کی زد میں نہیں آتا۔
اسلم بیگ کو 1989ء میں پیپلز پارٹی حکومت نے تمغۂ جمہوریت عطا کیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جب آپ اس ملک کے شہری ہیں تو آپ آئین کی پابندی کریں۔ کسی کو تمغہ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل کو (آج) گیارہ بجے تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔ نمائندہ ایکسپریس کے مطابق جماعت اسلامی کے وکیل شیخ خضر حیات نے بتایا ان کی جماعت یا اس کے کسی عہدیدار نے ایک پیسہ بھی نہیں لیا۔ اسد درانی کا الزام غلط اور من گھڑت ہے اس بارے میں کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا عدالت بھی مفروضوں پر نہیں جائے گی۔آج مقدمے کی سماعت مکمل ہو نے کا امکان ہے۔
جب کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ فوج بھی ججز اور منتخب نمائندوں کی طرح آئین کی پابند ہے، آئین کے تحت ذمے داریاں ادا کر نا کسی پر احسان نہیں، جنرل ریٹائرڈ اسلم بیگ ہی تبدیلی لاسکتے تھے، بطور آرمی چیف صدر کے غیر قانونی حکم کو ماننے سے انکار کر دینا چاہیے تھا۔ جمعرات کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے اصغر خان کیس کی سماعت کی سماعت شروع ہوئی تو وزارت دفاع نے آئی ایس آئی کے اکائونٹس کی تفصیلات عدالت میں پیش کیں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ اکائونٹس کی تفصیلات خفیہ ہیں انھیں عام نہیں کیا جاسکتا، جس پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ جسے آپ خفیہ سمجھ رہے ہیں، وہ ریکارڈ پر پہلے سے ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی نے بتایاکہ تمام رقم تقسیم نہیں ہوئی، باقی رقم اکائونٹس میں رہی جو تفصیل مانگی وہ ان معلومات میں نہیں ہے۔ عدالت نے کہاکہ وزارت دفاع کے جواب میں 8 کروڑ روپے کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جنرل (ر) اسد درانی نے خود کہا تھا کہ 14 کروڑ روپے کی رقم میں سے 8 کروڑ بچے تھے جنھیں مخصوص اکائونٹ میں جمع کروا دیا گیا تھا۔ ریکارڈ کے مطابق ایک مرحلے پر رقم کی تقسیم کے حوالے سے جنرل (ر) آصف جنجوعہ نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ عدالت نے وزارت دفاع کے ڈائریکٹر کمانڈر شہباز کو 8 کروڑ کی درست معلومات جمع کرانے کی ہدایت کی۔ سماعت کے دوران بریگیڈیئر (ر) حامد سعید نے اپنا تحریر بیان جمع کراتے ہوئے کہا کہ ان کے بیان کے پیراگراف 1سے 8کو خفیہ رکھا جائے جبکہ پیراگراف 9 سے 14 کو خفیہ رکھنے کی ضرورت نہیں۔
جنرل ریٹائرڈ حامد سعید نے اپنے بیان میں رقوم کی تقسیم کے حوالے سے کہا کہ میری معروضات کا ایک پیرا گراف فوج کی بدنامی کا باعث بن سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ فوج کو بدنام کرنا آئین و قانون کے تحت قابل سزا جرم ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اگر فوج کی بدنامی ہو تو انھیں پھانسی ہوسکتی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی صوابدید ہے جو خفیہ رکھنا چاہتے ہیں الگ جمع کرادیں۔
بریگیڈیئر (ر)حامد سعید کا کہنا تھا کہ بیان الگ جمع کرایا تو دیگر باتیں سمجھنے میں مشکل ہوگی، ان کا تعلق ہے، عدالت سمجھتی ہے تو چاہے تمام معاملے کوخفیہ نہ رکھے اس موقع پر ایڈووکیٹ آن ریکارڈ عبدالغفور نے فاضل عدالت کو بتایا کہ رحمٰن ملک نے بطور ڈائریکٹر ایف آئی اے اس کیس میں کام کیا تھا وہ اس حوالے سے عدالت کی معاونت کرنا چاہتے ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ضرورت پیش آئی تو رحمٰن ملک سے مدد لی جائے گی بعد میں عدالت نے کہا کہ ابھی پیراگراف 1 سے 8 کو پبلک نہیں کیا جائیگا۔ چیف جسٹس نے جنرل (ر)حامد سعید سے استفسار کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ 90 کے الیکشن میں آپ کو کوئی ٹاسک دیاگیا۔
حامد سعید نے بتایا کہ جولائی 90 میں کراچی میں متعین ہوا، وہاں 16 ماہ مقرر رہا۔ جسٹس جوادخواجہ نے کہاکہ یعنی الیکشن سے پہلے آپ کو وہاں مقرر کرکے الیکشن کے بعدبلالیاگیا۔ حامد سعید نے کہا کہ جو بھی رقوم کی تفصیلات ہیں وہ تحریری جواب میں لکھ دی ہیں۔ حامد سعید نے اپنے تحریری بیان کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ چیزیں ریکارڈ پر نہیں لائیں گے تو ساری مشق بے کار ہو جائے گی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے اصرار پر ہم اسے ریکارڈ کا حصہ بنا رہے ہیں تاہم وقتی طور پر دستاویز کو عام نہیں کیا جا رہا۔
بی بی سی اردوداٹ کام کے مطابق چیف جسٹس نے حامد سعید سے استفسار کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ انھوں نے 1990ء میں سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کی تھیں جس پر حامد سعید نے کہا کہ انھوں نے اس عرصے کے دوران سندھ کے سیاستدانوں میں ایک کروڑ 90لاکھ روپے تقسیم کیے تھے جب کہ باقی رقم انھوں نے جی ایچ کیو کو واپس بھجوادی تھی۔ انھوں نے ان سیاستدانوں کے نام نہیں بتائے جنھیں ان کے بقول رقم دی گئی تھی۔ بعد میں سپریم کورٹ نے جواب کی نقل اٹارنی جنرل کو دینے کی ہدایت کی۔ سماعت کے دور ان چیف جسٹس نے کہا کہ وقتی طور پر بریگیڈیئر (ر) حامد سعید کی دستاویز کو عام نہیں کررہے، عدالت میں صرف پیراگراف 9 سے 12 تک بات ہوگی۔
سماعت کے دور ان صدر کے ملٹری سیکریٹری بریگیڈیئر محمد عامر کا جواب بھی سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ایوان صدر میں ریکارڈتلاش کیا، 90کے الیکشن سیل کی فائل نہیں ملی۔ جنرل (ر) اسلم بیگ کے وکیل اکرم شیخ نے اپنے دلائل میں عدالت سے استدعاکی کہ فوج میں اصلاحات کا حکم بھی دیاجائے،آئی ایس آئی کو فوج کے ڈسپلن میں لایا جائے اورآئی ایس آئی کوچیف ایگزیکٹو کے ماتحت کرنے کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ہمارا کام نہیں، یہ حکومت کاکام ہے، سرکاری اداروں میں خفیہ فنڈز کے خاتمہ کرنا بھی حکومت کی اتھارٹی ہے۔
انھوں نے کہا کہ آج سیاست میں فوج کی مداخلت نہیں، آرمی چیف نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ بلوچستان پر جو حکم آئین کا ہوگا وہ قبول ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اسلم بیگ 1988سے 1991ء تک فوج کے سپہ سالار رہے اسلم بیگ، صدر اسحاق کو کہہ سکتے تھے رقوم کی تقسیم میں فریق نہیں بنیں گے، انھیں اسحاق خان کے سامنے مزاحمت کرنی چاہیے تھی اور کوئی تبدیلی لاسکتا تھا تو وہ آپ کا مؤکل تھا۔ اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ 21اگست کو ایئرکریش کے بعد اسلم بیگ نے 3 گھنٹے میں ذمے داریاں سنبھال لیں، اکرم شیخ نے کہاکہ آرٹیکل 6 نہ لگایا جائے ان کا مؤکل اس کی زد میں نہیں آتا۔
اسلم بیگ کو 1989ء میں پیپلز پارٹی حکومت نے تمغۂ جمہوریت عطا کیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جب آپ اس ملک کے شہری ہیں تو آپ آئین کی پابندی کریں۔ کسی کو تمغہ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل کو (آج) گیارہ بجے تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔ نمائندہ ایکسپریس کے مطابق جماعت اسلامی کے وکیل شیخ خضر حیات نے بتایا ان کی جماعت یا اس کے کسی عہدیدار نے ایک پیسہ بھی نہیں لیا۔ اسد درانی کا الزام غلط اور من گھڑت ہے اس بارے میں کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا عدالت بھی مفروضوں پر نہیں جائے گی۔آج مقدمے کی سماعت مکمل ہو نے کا امکان ہے۔