لین دین ٹیکس مالی شمولیت کی حکومتی پالیسی کے خلاف ہے بینکنگ سیکٹر
بینکاری لین دین پرود ہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے سے تمام تجارتی بینکوں کے کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، سینئر بینکار
ISLAMABAD:
بینکاری لین دین پرودہولڈنگ ٹیکس عائد کیے جانے کے بعد تمام تھوک وخوردہ تجارتی مراکز اور مارکیٹوں میں تاجربرادری کی سہولت کے لیے قائم بینکوں کی برانچوں میں ٹرانزیکشنز 30 فیصدکم ہوگئی ہے اورٹرانزیکشنز پر ودہولڈنگ ٹیکس سے بچاؤ کے لیے تاجربرادری نے مختلف گروپوں کی صورت میں اندرون ملک ہنڈی حوالہ نیٹ ورک قائم کرلیا ہے۔
سینئر بینکاروں نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ بینکاری لین دین پر ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے سے تمام تجارتی بینکوں کے کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور یہ بات درست ہے کہ تاجروں نے ستمبر2015 تک ٹرانزیکشنز پر 0.3 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس نافذ ہوتے ہی بینکوں میں رقوم رکھنا کم کردی ہیں، یہی وجہ ہے کہ کراچی کے جوڑیابازار، برتن بازار، میلامائن مارکیٹ، کیمیکل مارکیٹ، صدربوہری بازار، ریگل الیکٹرانکس مارکیٹ، ایم اے جناح روڈ، میڈیسن مارکیٹ اوردیگرمارکیٹوں وتجارتی مراکز سے متصل مختلف بینکوں کی قائم برانچوں میں لین دین بتدریج کم ہوتا جارہا ہے۔ بینکاروں کا کہنا ہے کہ ودہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ کے بعد تجارتی مراکزمیں تمام بینکوں کی برانچوں میں ٹرانزیکشنزاوسطاً 30 فیصد گھٹ چکی ہے اور بینک کسٹمرز کے اس رحجان سے خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ بینک ٹرانزیکشنز کی شرح میں مزید کمی واقع ہوگی۔
بینکاروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے ریونیو کے حجم کو بڑھانے اور ٹیکس نیٹ میں توسیع کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا ہے اس سے تجارتی بینکوں کی بیشتربرانچوں کے خسارے میں جانے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ ایک بینک کے صدر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ حکومت اور اسٹیٹ بینک کی فنانشل انکلوژن (مالی شمولیت) پالیسی کے خلاف بینک ٹرانزکشن پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے، ٹیکس عائد کیے جانے سے عوام اور کاروباری افراد نے بینکوں میں پیسہ رکھنا چھوڑ دیا ہے اور ملک ایک مرتبہ پھر دستاویزی اور بینکاری کے بجائے نقد معیشت کی طرف گامزن ہوگیا ہے، حکومت نے انکم ٹیکس گوشوارے فائل کرنے والوں کی بینک لین دین پر بھی ٹیکس لاگو کیا ہے، ریٹرن فائلز اپنے ریٹرن فائل کرنے میں یہ رقم واپس کلیم کرسکتے ہیں لیکن پاکستان میں کلیم ملنے کی روایت نہیں ہے۔
بینکاروں کا کہنا ہے کہ کاروباری برادری کا تجربہ ٹیکس کلیمز واپس لینے کے حوالے سے بہت اچھا نہیں رہا ہے اور اب بھی حکومت نے اربوں روپے مالیت کے سیلزٹیکس، ڈیوٹی ڈرابیک اور کسٹم ری بیٹ کی مد میں داخل کردہ کلیمز کی ادائیگی نہیں کی۔ بینکاروں کا کہنا تھا کہ حکومت نے بینکاری لین دین پرودہولڈنگ ٹیکس عائد کرکے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ اس کی مشینری میں ریونیو کے حجم میں اضافے کی صلاحیت نہیں ہے جس کی وجہ سے حکومت کو ریونیو حجم بڑھانے اور ٹیکس نیٹ میں توسیع کے لیے مذکورہ سہل طریقہ اختیار کرنا پڑا ہے، ابتدائی طور پر حکومت نے0.6 فیصد عائد کرکے ملک میں ایک ماحول پیدا کیا بعد ازاں زبردست ردعمل آنے کے نتیجے میں اس کی شرح گھٹا کر 0.3 فیصد کردی گئی جو ستمبر2015 تک ہوگی، اس دوران حکومت ملک کے مختلف شعبوں جن میں تجارتی بینک، چیمبرز آف کامرس ودیگر تجارتی شعبے شامل ہیں سے مذکورہ ٹیکس کے حوالے سے رائے حاصل کرنا شروع کر دی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ شعبہ بینکاری کے نمائندوں نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ مذکورہ ٹیکس کی شرح کو0.01 فیصد پر لائے جبکہ دیگر تجارتی تنظیموں اور تاجرنمائندوں کی جانب سے اس ٹیکس کو یکسر واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت بھی اس سلسلے میں جلد اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل اجلاس طلب کرنے والی ہے۔
بینکاری لین دین پرودہولڈنگ ٹیکس عائد کیے جانے کے بعد تمام تھوک وخوردہ تجارتی مراکز اور مارکیٹوں میں تاجربرادری کی سہولت کے لیے قائم بینکوں کی برانچوں میں ٹرانزیکشنز 30 فیصدکم ہوگئی ہے اورٹرانزیکشنز پر ودہولڈنگ ٹیکس سے بچاؤ کے لیے تاجربرادری نے مختلف گروپوں کی صورت میں اندرون ملک ہنڈی حوالہ نیٹ ورک قائم کرلیا ہے۔
سینئر بینکاروں نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ بینکاری لین دین پر ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے سے تمام تجارتی بینکوں کے کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور یہ بات درست ہے کہ تاجروں نے ستمبر2015 تک ٹرانزیکشنز پر 0.3 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس نافذ ہوتے ہی بینکوں میں رقوم رکھنا کم کردی ہیں، یہی وجہ ہے کہ کراچی کے جوڑیابازار، برتن بازار، میلامائن مارکیٹ، کیمیکل مارکیٹ، صدربوہری بازار، ریگل الیکٹرانکس مارکیٹ، ایم اے جناح روڈ، میڈیسن مارکیٹ اوردیگرمارکیٹوں وتجارتی مراکز سے متصل مختلف بینکوں کی قائم برانچوں میں لین دین بتدریج کم ہوتا جارہا ہے۔ بینکاروں کا کہنا ہے کہ ودہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ کے بعد تجارتی مراکزمیں تمام بینکوں کی برانچوں میں ٹرانزیکشنزاوسطاً 30 فیصد گھٹ چکی ہے اور بینک کسٹمرز کے اس رحجان سے خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ بینک ٹرانزیکشنز کی شرح میں مزید کمی واقع ہوگی۔
بینکاروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے ریونیو کے حجم کو بڑھانے اور ٹیکس نیٹ میں توسیع کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا ہے اس سے تجارتی بینکوں کی بیشتربرانچوں کے خسارے میں جانے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ ایک بینک کے صدر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ حکومت اور اسٹیٹ بینک کی فنانشل انکلوژن (مالی شمولیت) پالیسی کے خلاف بینک ٹرانزکشن پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے، ٹیکس عائد کیے جانے سے عوام اور کاروباری افراد نے بینکوں میں پیسہ رکھنا چھوڑ دیا ہے اور ملک ایک مرتبہ پھر دستاویزی اور بینکاری کے بجائے نقد معیشت کی طرف گامزن ہوگیا ہے، حکومت نے انکم ٹیکس گوشوارے فائل کرنے والوں کی بینک لین دین پر بھی ٹیکس لاگو کیا ہے، ریٹرن فائلز اپنے ریٹرن فائل کرنے میں یہ رقم واپس کلیم کرسکتے ہیں لیکن پاکستان میں کلیم ملنے کی روایت نہیں ہے۔
بینکاروں کا کہنا ہے کہ کاروباری برادری کا تجربہ ٹیکس کلیمز واپس لینے کے حوالے سے بہت اچھا نہیں رہا ہے اور اب بھی حکومت نے اربوں روپے مالیت کے سیلزٹیکس، ڈیوٹی ڈرابیک اور کسٹم ری بیٹ کی مد میں داخل کردہ کلیمز کی ادائیگی نہیں کی۔ بینکاروں کا کہنا تھا کہ حکومت نے بینکاری لین دین پرودہولڈنگ ٹیکس عائد کرکے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ اس کی مشینری میں ریونیو کے حجم میں اضافے کی صلاحیت نہیں ہے جس کی وجہ سے حکومت کو ریونیو حجم بڑھانے اور ٹیکس نیٹ میں توسیع کے لیے مذکورہ سہل طریقہ اختیار کرنا پڑا ہے، ابتدائی طور پر حکومت نے0.6 فیصد عائد کرکے ملک میں ایک ماحول پیدا کیا بعد ازاں زبردست ردعمل آنے کے نتیجے میں اس کی شرح گھٹا کر 0.3 فیصد کردی گئی جو ستمبر2015 تک ہوگی، اس دوران حکومت ملک کے مختلف شعبوں جن میں تجارتی بینک، چیمبرز آف کامرس ودیگر تجارتی شعبے شامل ہیں سے مذکورہ ٹیکس کے حوالے سے رائے حاصل کرنا شروع کر دی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ شعبہ بینکاری کے نمائندوں نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ مذکورہ ٹیکس کی شرح کو0.01 فیصد پر لائے جبکہ دیگر تجارتی تنظیموں اور تاجرنمائندوں کی جانب سے اس ٹیکس کو یکسر واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت بھی اس سلسلے میں جلد اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل اجلاس طلب کرنے والی ہے۔