بت گری پیشہ کیا بت شکنی کو چھوڑا
دبئی کی معیشت تومدتوں سےایک ایسےماحول سےوابستہ ہوچکی ہےجس میں خطے کی پیداوار کچھ ہو نہ ہو، وہ خطہ خوشحال ضرور ہوتا ہے۔
شاید یہ خبر اس قدر عام نہ ہوتی اگر کامیابی کے نشے میں چور، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اپنے ٹوئٹر پر اس کا اعلان نہ کرتا کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت نے ایک ہندو مندر بنانے کے لیے دبئی میں زمین فراہم کر دی ہے۔ یہ خبر دنیا والوں کے لیے حیران کن ہو گی کہ وہ جزیرہ نمائے عرب جہاں آج سے چودہ سو سال قبل سید الانبیاءﷺ نے شرک اور بت پرستی کا خاتمہ کر دیا تھا، اس کے ایک حصے میں انھیں کے ماننے والے مورتیوں کے گھر کی تعمیر کے لیے زمین عطا کریں گے۔
لیکن وہ جو سرکار دو عالمؐ کی پیش گوئیوں پر ایمان رکھتے ہیں اور وقت کے ساتھ ان کے یقین و ایمان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ اس ہادی برحقؐ نے کس طرح کھول کھول کر وہ سب کچھ بتایا اور ان سب علامات قیامت کی خبر دی جو انھیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے عطا فرمائی تھی۔ صحیح بخاری میں درج سرور عالمؐ کی یہ پیش گوئی ''قیامت قائم نہیں ہو گی، یہاں تک کہ دوس قبیلہ کی عورتیں ذوالخصلہ کے بت خانہ میں چکر نہ لگائیں''۔(بخاری)۔ عرب میں جاہلیت کے زمانے میں جگہ جگہ بہت سے بت خانے قائم تھے اور لوگ پوجا پاٹ کیا کرتے تھے۔
ان میں عرب کے جنوب مغرب میں دوس قبیلہ رہتا تھا جن کا بت خانہ ذوالخصلہ کے مقام پر تھا۔ دین حق پھیلا تو اس کا نام و نشان تک ختم ہو گیا۔ یوں تو دبئی ایک ایسا شہر ہے جہاں آپ کو دنیا میں موجود تقریباً ہر بڑے مذہب کی عبادت گاہیں مل جائیں گی جن میں ہندو مندر بھی شامل ہے۔ اس لیے کہ دبئی کی معیشت تو مدتوں سے ایک ایسے ماحول سے وابستہ ہو چکی ہے جس میں خطے کی پیداوار کچھ ہو نہ ہو، وہ خطہ خوشحال ضرور ہوتا ہے۔ یہ کاروبار یا معیشت کی زبان میں ''آزادانہ تجارتی منڈی،، کا ماحول ہوتا ہے۔ اس ماحول میں صرف تجارت ہی نہیں بلکہ اخلاقیات و اقدار تک سب آزاد ہو جاتے ہیں۔
دبئی سے پہلے اس طرح کا ماحول ان شہروں میں پیدا کیا گیا جنھیں یا تو امریکا یا دیگر عالمی طاقتوں نے فتح کیا تھا یا پھر وہ امریکا کی کسی جنگ میں اس کے حلیف تھے اور ان ملکوں نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو جنگی مراکز قائم کرنے کی اجازت دی تھی۔ فلپائن کا شہر منیلا اس ''ماحول'' کی اولین تجربہ گاہوں میں سے ایک تھا۔ 1901ء کے ''شکاگو ٹرابیون'' میں ایک صحافی نے منیلا شہر کی روداد بیان کی ہے، جہاں امریکی فوجی فلپائن کے عوام کو اسپین کے ظالم کیتھولک عیسائی حکمرانوں سے آزادی دلوانے پہنچے تھے۔
فلپائن کی آزادی کی جنگ کے ہیرو ''رزال'' نے اس ظلم و جبر کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح یہاں کی مقامی آبادی کو عیسائی بننے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ لیکن امریکی وہاں پہنچے، ان کی آزادی کی جنگ میں مدد کی، اپنی چھاؤنیاں بنائیں، اور پھر انھیں ایک اور بدترین غلامی کا شکار کر گئے۔ صحافی اپنی روداد میں لکھتا ہے کہ ایک پوری امریکی فوجی یونٹ کے ذمے ''آرمی ویلفیئر'' کے نام پر ایک ذمے داری سونپی گئی ہے کہ وہ ملک کے طول و عرض سے غریب گھرانوں کی تیرہ سے سولہ سترہ سال کی بچیوں کو بہلا پھسلا کر منیلا کے بازاروں میں لا بٹھائے تا کہ امریکی فوجیوں کی تفتن طبع کا انتظام ہو سکے۔ دنیا بھر میں ایسے ماحول کو ''نائٹ لائف'' یعنی رات کی زندگی کہا جاتا ہے۔ آپ آج دنیا کے کسی بھی بڑے شہر کا سیاحتی معلوماتی کتابچہ نکال کر دیکھ لیں، آپ کو ''نائٹ لائف'' کے نام سے ایک علیحدہ باب اس میں نظر آئے گا۔
منیلا جیسے کئی شہر اس دنیا کے نقشے پر آباد کیے گئے۔ ان میں سے کئی بڑے بڑے تجارتی مراکز کے طور پر آج بھی موجود ہیں اور کئی صرف اورصرف اپنی خوبصورتی یا تاریخی حیثیت کی وجہ سے سیاحتی مرکز کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اسلامی دنیا میں جنگ عظیم اول کے بعد بیروت کو خاص طور پر ان مقاصد کے لیے سجایا اور سنوارا گیا۔ عالمی طاقتوں نے وہاں کی مخلوط آبادی عیسائی، شیعہ اور سنی کو اس طرح آئینی طور پر تقسیم کیا کہ ''میرو نائٹ عیسائیوں'' کو اقتدار میں بالا دستی رہے۔
صدیوں سے روم کے زیر نگیں رہنے والے اس شہر کے مخصوص تاریخی پس منظر اور پڑوس میں یہودی ریاست کے قیام کی وجہ سے اس کا اسلامی تشخص مٹانے کے لیے اس کو اس طرح کے ''آزادانہ ماحول'' کا تحفہ دیا گیا۔ ایسے ماحول کو کاروبار کے لیے ساز گار ماحول کہا جاتا ہے۔ یہ کاروبار بھی عجیب ہوتا ہے۔ نہ وہاں کوئی کھیت ہوتے ہیں اور نہ کار خانے۔ معدنیات بھی اتنی نہیں ہوتیں کہ ملکی معیشت کا پیٹ پال سکیں۔ ایسے میں دنیا بھر کے تاجروں، سٹے بازوں، جواریوں، عیاشیوں، اوباشوں اور نام نہاد سیاحوں کو اس شہر کا راستہ دکھایا جاتا ہے۔
دبئی بھی انھی شہروں میں سے ایک ہے جس کا اپنا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں، یہاں تک کہ وہ تیل کی دولت سے بھی محروم ہے۔ تیل کی پیداوار اس کی پوری معیشت کا 2 فیصد ہے۔ لیکن 70ء اور 80ء کی دہائیوں میں اس نے سونے کی آزادانہ تجارت کا آغاز کیا اور نوے کی دہائی میں یہ بھارت کو سونا اسمگل کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا۔ اسمگلنگ کی اس دولت سے دبئی کو ایک سیاحتی مرکز میں بدلنے کے لیے وہاں تعمیراتی کاموں کا آغاز ہوا اور پام جمیرہ کے نام سے دنیا کا سب سے بڑا انسانوں کا بنایا ہوا جزیرہ سمندر کے بیچوں بیچ تعمیر کیا گیا۔ ہیروں کے کاروبار کا آغاز ہوا اور اس وقت یہ تجارت 35 ارب ڈالر تک ہے۔
سیاحتی مرکز کو ایک شاندار ایئر لائن اور ایئر پورٹ کی ضرورت تھی۔وہ ضروریات بھی پوری کیں اور دبئی ائر پورٹ شاید وہ واحد ایئر پورٹ ہے جو کسی مسلم ملک میں واقع ہے اور وہاں آپ کھانے کی دیگر ڈشوں کے درمیان عربی میں ایک چٹ نظر آئے گی جس پر لکھا ہو گا ''لحم الخنزیر'' اور انگریزی میں "Pork"۔ مسلم امہ میں صدیوں سے اسٹور کے گوشت سے ایک کراہت موجود تھی۔ غالبؔ پکڑا گیا تو انگریز نے پوچھا تم مسلمان ہو؟ کہا آدھا، کہا کیسے؟ کہنے لگا شراب پیتا ہوں سور کا گوشت نہیں کھاتا''۔ سیاحت کے عالمی مرکز نے اس مسلمان شہر کا یہ تشخص بھی ختم کر دیا۔ سیاحت وہاں کونسی ہے نہ آبشار ہیں نہ پہاڑ اور نہ ہی تاریخی مقامات، البتہ ''نائٹ لائف'' کے نام آپ کو سیاحتی کتابچے ضرور میسر آ جائیں گے۔
روس کے سائبریریا سے لے کر جاپان کے اوساکا اور بمبئی، کراچی، تہران، پیرس، بغداد، نیو یارک، لندن، بنکاک، غرض ہر شہر سے آنے والی فلائٹوں میں آپ کو مخصوص خواتین نظر آئیں گی جو ایک ماہ کے سیاحتی ویزے پر آتی ہیں اور اس ایک ماہ کے بعد وہ واپس اپنے گھروں کو لوٹتی ہیں تو خوشحالی ان کے دروازوں پر دستک دے رہی ہوتی ہے۔ دنیا بھر کا میڈیا اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو اس ''نائٹ لائف'' کی داستانیں ملیں گی۔ یورپ کے اخبارات اس شہر کو مشرق کا ایمسٹرڈیم کہتے ہیں۔ اس سارے کاروبار اور رنگا رنگی کو چلانے اور ''ماحول'' بنانے کے لیے افرادی قوت چاہیے اور دنیا بھر سے لوگ وہاں اس کاروباری ماحول کا ایندھن بنتے ہیں جن میں سب سے زیادہ تعداد بھارتیوں کی ہے جو 26 لاکھ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب مودی امارات کی بڑی مسجد دیکھنے گیا تو وہ جگہ جہاں صرف اللہ کے نام کو سر بلند ہونا چاہیے تھا، وہاں مودی مودی کے نعرے لگائے گئے کہ وہاں ایک کثیر تعداد بھارتیوں کی جمع تھی۔
ذوالخصلہ کے بت خانے کا چکر تو میرے آقا ﷺ نے ایک علامت کے طور بیان کیا ہے۔ اس باب کی احادیث پڑھیں تو ایسا لگتا ہے ہم اس دور میں زندہ ہیں جو قیامت کے قریب معرکوں کا دور ہے۔ غزوہ ہند کی پیش گوئیوں کے بارے میں پڑھتا تھا کہ کیا بھارت دنیا میں اس قدر اہمیت اختیار کر جائے گا کہ اس سے جہاد امت مسلمہ کی بقا اور شرک کے خاتمے کے لیے ضروری ہو جائے گا۔ آپؐ کی بتائی گئی نشانیوں کی جانب غور کریں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ معرکہ ہمارے دروازوں پر دستک دے رہا ہے۔
معرکوں کے میدان صرف دو ہیں۔ ایک شام اور دوسرا ہند۔ شام سیدنا امام مہدی کا ہیڈکوارٹر اور حضرت عیسیٰ کے نزول کا مقام۔ دونوں لشکروں کو جنت کی بشارت دی گئی ہے لیکن جہاد ہند کے بارے میں تو رسول اکرمؐ نے صحابہ سے حصہ لینے کا وعدہ لیا (مسند احمد) اس غزوہ کے وقت کا تعین کرتے ہوئے فرمایا ''ایک قوم میری امت میں سے ہند پر حملہ کرے گی، اللہ اس کو فتح عطا فرمائے گا یہاں تک کہ وہ ہند کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے۔ اللہ ان کے گناہوں کی مغفرت فرمائے گا۔ پھر وہ شام کی طرف لوٹیں گے تو حضرت عیسیٰ ابن مریم کو شام میں پائیں گے (الفتنن)۔ معرکہ قریب ہو تو صف بندیاں ہو جاتی ہیں۔ صف بندیاں شروع ہیں دفاعی، تجارتی اور سیاحتی معاہدے جاری ہیں۔ ایران ہو یا دبئی، امریکا ہو یا اسرائیل، مودی کے لیے چشم براہ۔ لیکن نصرت الٰہی کا اندازہ تو اسی وقت ہی ہوتا ہے جب آپ کمزور ہوں، تعداد میں کم ہوں اور وہ آپ کو فتح و کامیابی عطا کرے۔
لیکن وہ جو سرکار دو عالمؐ کی پیش گوئیوں پر ایمان رکھتے ہیں اور وقت کے ساتھ ان کے یقین و ایمان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ اس ہادی برحقؐ نے کس طرح کھول کھول کر وہ سب کچھ بتایا اور ان سب علامات قیامت کی خبر دی جو انھیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے عطا فرمائی تھی۔ صحیح بخاری میں درج سرور عالمؐ کی یہ پیش گوئی ''قیامت قائم نہیں ہو گی، یہاں تک کہ دوس قبیلہ کی عورتیں ذوالخصلہ کے بت خانہ میں چکر نہ لگائیں''۔(بخاری)۔ عرب میں جاہلیت کے زمانے میں جگہ جگہ بہت سے بت خانے قائم تھے اور لوگ پوجا پاٹ کیا کرتے تھے۔
ان میں عرب کے جنوب مغرب میں دوس قبیلہ رہتا تھا جن کا بت خانہ ذوالخصلہ کے مقام پر تھا۔ دین حق پھیلا تو اس کا نام و نشان تک ختم ہو گیا۔ یوں تو دبئی ایک ایسا شہر ہے جہاں آپ کو دنیا میں موجود تقریباً ہر بڑے مذہب کی عبادت گاہیں مل جائیں گی جن میں ہندو مندر بھی شامل ہے۔ اس لیے کہ دبئی کی معیشت تو مدتوں سے ایک ایسے ماحول سے وابستہ ہو چکی ہے جس میں خطے کی پیداوار کچھ ہو نہ ہو، وہ خطہ خوشحال ضرور ہوتا ہے۔ یہ کاروبار یا معیشت کی زبان میں ''آزادانہ تجارتی منڈی،، کا ماحول ہوتا ہے۔ اس ماحول میں صرف تجارت ہی نہیں بلکہ اخلاقیات و اقدار تک سب آزاد ہو جاتے ہیں۔
دبئی سے پہلے اس طرح کا ماحول ان شہروں میں پیدا کیا گیا جنھیں یا تو امریکا یا دیگر عالمی طاقتوں نے فتح کیا تھا یا پھر وہ امریکا کی کسی جنگ میں اس کے حلیف تھے اور ان ملکوں نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو جنگی مراکز قائم کرنے کی اجازت دی تھی۔ فلپائن کا شہر منیلا اس ''ماحول'' کی اولین تجربہ گاہوں میں سے ایک تھا۔ 1901ء کے ''شکاگو ٹرابیون'' میں ایک صحافی نے منیلا شہر کی روداد بیان کی ہے، جہاں امریکی فوجی فلپائن کے عوام کو اسپین کے ظالم کیتھولک عیسائی حکمرانوں سے آزادی دلوانے پہنچے تھے۔
فلپائن کی آزادی کی جنگ کے ہیرو ''رزال'' نے اس ظلم و جبر کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح یہاں کی مقامی آبادی کو عیسائی بننے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ لیکن امریکی وہاں پہنچے، ان کی آزادی کی جنگ میں مدد کی، اپنی چھاؤنیاں بنائیں، اور پھر انھیں ایک اور بدترین غلامی کا شکار کر گئے۔ صحافی اپنی روداد میں لکھتا ہے کہ ایک پوری امریکی فوجی یونٹ کے ذمے ''آرمی ویلفیئر'' کے نام پر ایک ذمے داری سونپی گئی ہے کہ وہ ملک کے طول و عرض سے غریب گھرانوں کی تیرہ سے سولہ سترہ سال کی بچیوں کو بہلا پھسلا کر منیلا کے بازاروں میں لا بٹھائے تا کہ امریکی فوجیوں کی تفتن طبع کا انتظام ہو سکے۔ دنیا بھر میں ایسے ماحول کو ''نائٹ لائف'' یعنی رات کی زندگی کہا جاتا ہے۔ آپ آج دنیا کے کسی بھی بڑے شہر کا سیاحتی معلوماتی کتابچہ نکال کر دیکھ لیں، آپ کو ''نائٹ لائف'' کے نام سے ایک علیحدہ باب اس میں نظر آئے گا۔
منیلا جیسے کئی شہر اس دنیا کے نقشے پر آباد کیے گئے۔ ان میں سے کئی بڑے بڑے تجارتی مراکز کے طور پر آج بھی موجود ہیں اور کئی صرف اورصرف اپنی خوبصورتی یا تاریخی حیثیت کی وجہ سے سیاحتی مرکز کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اسلامی دنیا میں جنگ عظیم اول کے بعد بیروت کو خاص طور پر ان مقاصد کے لیے سجایا اور سنوارا گیا۔ عالمی طاقتوں نے وہاں کی مخلوط آبادی عیسائی، شیعہ اور سنی کو اس طرح آئینی طور پر تقسیم کیا کہ ''میرو نائٹ عیسائیوں'' کو اقتدار میں بالا دستی رہے۔
صدیوں سے روم کے زیر نگیں رہنے والے اس شہر کے مخصوص تاریخی پس منظر اور پڑوس میں یہودی ریاست کے قیام کی وجہ سے اس کا اسلامی تشخص مٹانے کے لیے اس کو اس طرح کے ''آزادانہ ماحول'' کا تحفہ دیا گیا۔ ایسے ماحول کو کاروبار کے لیے ساز گار ماحول کہا جاتا ہے۔ یہ کاروبار بھی عجیب ہوتا ہے۔ نہ وہاں کوئی کھیت ہوتے ہیں اور نہ کار خانے۔ معدنیات بھی اتنی نہیں ہوتیں کہ ملکی معیشت کا پیٹ پال سکیں۔ ایسے میں دنیا بھر کے تاجروں، سٹے بازوں، جواریوں، عیاشیوں، اوباشوں اور نام نہاد سیاحوں کو اس شہر کا راستہ دکھایا جاتا ہے۔
دبئی بھی انھی شہروں میں سے ایک ہے جس کا اپنا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں، یہاں تک کہ وہ تیل کی دولت سے بھی محروم ہے۔ تیل کی پیداوار اس کی پوری معیشت کا 2 فیصد ہے۔ لیکن 70ء اور 80ء کی دہائیوں میں اس نے سونے کی آزادانہ تجارت کا آغاز کیا اور نوے کی دہائی میں یہ بھارت کو سونا اسمگل کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا۔ اسمگلنگ کی اس دولت سے دبئی کو ایک سیاحتی مرکز میں بدلنے کے لیے وہاں تعمیراتی کاموں کا آغاز ہوا اور پام جمیرہ کے نام سے دنیا کا سب سے بڑا انسانوں کا بنایا ہوا جزیرہ سمندر کے بیچوں بیچ تعمیر کیا گیا۔ ہیروں کے کاروبار کا آغاز ہوا اور اس وقت یہ تجارت 35 ارب ڈالر تک ہے۔
سیاحتی مرکز کو ایک شاندار ایئر لائن اور ایئر پورٹ کی ضرورت تھی۔وہ ضروریات بھی پوری کیں اور دبئی ائر پورٹ شاید وہ واحد ایئر پورٹ ہے جو کسی مسلم ملک میں واقع ہے اور وہاں آپ کھانے کی دیگر ڈشوں کے درمیان عربی میں ایک چٹ نظر آئے گی جس پر لکھا ہو گا ''لحم الخنزیر'' اور انگریزی میں "Pork"۔ مسلم امہ میں صدیوں سے اسٹور کے گوشت سے ایک کراہت موجود تھی۔ غالبؔ پکڑا گیا تو انگریز نے پوچھا تم مسلمان ہو؟ کہا آدھا، کہا کیسے؟ کہنے لگا شراب پیتا ہوں سور کا گوشت نہیں کھاتا''۔ سیاحت کے عالمی مرکز نے اس مسلمان شہر کا یہ تشخص بھی ختم کر دیا۔ سیاحت وہاں کونسی ہے نہ آبشار ہیں نہ پہاڑ اور نہ ہی تاریخی مقامات، البتہ ''نائٹ لائف'' کے نام آپ کو سیاحتی کتابچے ضرور میسر آ جائیں گے۔
روس کے سائبریریا سے لے کر جاپان کے اوساکا اور بمبئی، کراچی، تہران، پیرس، بغداد، نیو یارک، لندن، بنکاک، غرض ہر شہر سے آنے والی فلائٹوں میں آپ کو مخصوص خواتین نظر آئیں گی جو ایک ماہ کے سیاحتی ویزے پر آتی ہیں اور اس ایک ماہ کے بعد وہ واپس اپنے گھروں کو لوٹتی ہیں تو خوشحالی ان کے دروازوں پر دستک دے رہی ہوتی ہے۔ دنیا بھر کا میڈیا اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو اس ''نائٹ لائف'' کی داستانیں ملیں گی۔ یورپ کے اخبارات اس شہر کو مشرق کا ایمسٹرڈیم کہتے ہیں۔ اس سارے کاروبار اور رنگا رنگی کو چلانے اور ''ماحول'' بنانے کے لیے افرادی قوت چاہیے اور دنیا بھر سے لوگ وہاں اس کاروباری ماحول کا ایندھن بنتے ہیں جن میں سب سے زیادہ تعداد بھارتیوں کی ہے جو 26 لاکھ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب مودی امارات کی بڑی مسجد دیکھنے گیا تو وہ جگہ جہاں صرف اللہ کے نام کو سر بلند ہونا چاہیے تھا، وہاں مودی مودی کے نعرے لگائے گئے کہ وہاں ایک کثیر تعداد بھارتیوں کی جمع تھی۔
ذوالخصلہ کے بت خانے کا چکر تو میرے آقا ﷺ نے ایک علامت کے طور بیان کیا ہے۔ اس باب کی احادیث پڑھیں تو ایسا لگتا ہے ہم اس دور میں زندہ ہیں جو قیامت کے قریب معرکوں کا دور ہے۔ غزوہ ہند کی پیش گوئیوں کے بارے میں پڑھتا تھا کہ کیا بھارت دنیا میں اس قدر اہمیت اختیار کر جائے گا کہ اس سے جہاد امت مسلمہ کی بقا اور شرک کے خاتمے کے لیے ضروری ہو جائے گا۔ آپؐ کی بتائی گئی نشانیوں کی جانب غور کریں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ معرکہ ہمارے دروازوں پر دستک دے رہا ہے۔
معرکوں کے میدان صرف دو ہیں۔ ایک شام اور دوسرا ہند۔ شام سیدنا امام مہدی کا ہیڈکوارٹر اور حضرت عیسیٰ کے نزول کا مقام۔ دونوں لشکروں کو جنت کی بشارت دی گئی ہے لیکن جہاد ہند کے بارے میں تو رسول اکرمؐ نے صحابہ سے حصہ لینے کا وعدہ لیا (مسند احمد) اس غزوہ کے وقت کا تعین کرتے ہوئے فرمایا ''ایک قوم میری امت میں سے ہند پر حملہ کرے گی، اللہ اس کو فتح عطا فرمائے گا یہاں تک کہ وہ ہند کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے۔ اللہ ان کے گناہوں کی مغفرت فرمائے گا۔ پھر وہ شام کی طرف لوٹیں گے تو حضرت عیسیٰ ابن مریم کو شام میں پائیں گے (الفتنن)۔ معرکہ قریب ہو تو صف بندیاں ہو جاتی ہیں۔ صف بندیاں شروع ہیں دفاعی، تجارتی اور سیاحتی معاہدے جاری ہیں۔ ایران ہو یا دبئی، امریکا ہو یا اسرائیل، مودی کے لیے چشم براہ۔ لیکن نصرت الٰہی کا اندازہ تو اسی وقت ہی ہوتا ہے جب آپ کمزور ہوں، تعداد میں کم ہوں اور وہ آپ کو فتح و کامیابی عطا کرے۔