کالاباغ ڈیم ناگزیر مگر چابی پیپلزپارٹی کے پاس

پاکستان میں ہر سال سیلابوں سے تباہی معمول بن گئی ہے۔

usmandamohi@yahoo.com

ABBOTABAD:
پاکستان میں ہر سال سیلابوں سے تباہی معمول بن گئی ہے۔ اس سال بھی دریاؤں میں طغیانی سے نہ صرف مالی بلکہ کافی جانی نقصان ہوا ہے۔ سال کے بیشتر مہینوں میں خشک رہنے والے ہمارے دریاؤں میں ٹھاٹھیں مارتا ہوا یہ سیلابی پانی آبادیوں، کھیتوں اور پلوں کو شدید نقصان پہنچاتا ہوا بالآخر بحیرۂ عرب میں سما گیا۔

ہم اس سیلابی پانی سے سوائے نقصان کے کوئی فائدہ نہ اٹھاسکے، کاش کہ ہم اس ٹھاٹھیں مارتے ہوئے پانی کو ذخیرہ کرسکتے تو یہ سال بھر ہمارے کھیتوں کے کام آتا، اس سے ہم بجلی بھی بناتے اور پینے کے علاوہ دیگر کاموں میں استعمال کرسکتے۔ مگر ہم اس سے فائدہ اٹھاتے کیسے، اس لیے کہ اسے ذخیرہ کرنے کے لیے ہمارے پاس اضافی ڈیم ہی نہیں ہیں۔ بدقسمتی سے اس وقت ملک میں تین کے سوا چوتھا بڑا ڈیم ہی نہیں۔

پھر مزید المیہ یہ ہے کہ ہمارا اپنا کوئی دریا بھی نہیں ہے، ملک میں بہنے والے تمام دریا مقبوضہ کشمیر سے گزر کر پاکستانی سرزمین میں داخل ہوتے ہیں، ان دریاؤں کے پانی پر بھارت کا مکمل کنٹرول ہے گو کہ 1961 کے سندھ طاس معاہدے کے تحت میں دریا جن میں جہلم، چناب اور سندھ شامل ہیں کے پانی کو پاکستان کے لیے مختص کردیاگیا ہے مگر بھارت نے ہماری کمزوری سے فائدہ اٹھاکر ان دریاؤں پر کئی ڈیمز تعمیر کرلیے ہیں جن میں بگلہار اور کشن گنگا ڈیمز قابل ذکر ہیں۔

ان ڈیمز کے ذریعے بھارت مسلسل پاکستان کے حصے کے پانی پر ڈاکہ ڈال رہا ہے، ایک طرف بھارت ہمارے حصے کے دریاؤں پر دھڑادھڑ ڈیمز تعمیر کر رہا ہے تو دوسری جانب ہمارے ہاں یہ حال ہے کہ ڈیمز کی تعمیر کے سلسلے میں قوم منقسم ہے گو کہ پانی کی کمی اور بجلی کے بحران سے پوری قوم مصیبت کا شکار ہے اور اس مصیبت کو دور کرنے کا واحد حل نئے ڈیمز کی تعمیر میں مضمر ہے مگر افسوس کہ چند سیاسی پارٹیوں نے اسے اپنی عزت اور انا کا مسئلہ بنالیاہے۔

اس وقت پاکستان تیزی سے ترقی کرتا ہوا ملک ہے مگر اسے اپنی صنعتی اور زرعی ضروریات کے لیے بجلی کی پیداوار میں کمی کا سامنا ہے۔ موجودہ زمانے میں دریاؤں کے پانی یا تیل سے بجلی پیدا کی جاتی ہے چوں کہ تیل سے پیدا کی جانے والی بجلی مہنگی پڑتی ہے چنانچہ دریاؤں کے پانی سے بجلی پیدا کرنے کو ترجیح دی جارہی ہے۔ پاکستان میں اس وقت تین بڑے ڈیمز بنائے جاچکے ہیں۔

تیسرا تربیلا ڈیم 1976 میں تعمیر ہوا تھا اور اسے تعمیر ہوئے اب تقریباً چالیس برس گزرچکے ہیں اس عرصے میں جہاں ملک میں صنعتی یونٹس کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے وہاں زرعی اراضی میں بھی توسیع ہوئی ہے پھر آبادی میں بھی کافی اضافہ ہوگیا ہے چنانچہ بجلی کی مانگ میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے تاہم بجلی کی پیداوار میں کوئی اضافہ نہیں ہوسکا ہے۔

تربیلا ڈیم کی تعمیر کے بعد ملک میں روز بروز بڑھتے ہوئے بجلی اور پانی کے بحران پر قابو پانے کے لیے پاکستان کی سابقہ حکومتوں نے کئی منصوبے بنائے مگر وہ ان پر عمل در آمد نہ کرسکیں۔ ان میں سب سے بڑا اور قابل ذکر منصوبہ کالاباغ ڈیم کا ہے جو ملک کے موجودہ بجلی اور پانی کے بحران پر قابو پانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے، یہ در اصل ایک کثیر المقاصد منصوبہ ہے جس سے نہ صرف بجلی کی ضروریات پوری ہوںگی بلکہ پانی کا مسئلہ بھی حل ہوسکے گا۔

اس منصوبے کو سب سے پہلے ضیا الحق حکومت نے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی تھی مگر نیشنل عوامی پارٹی کے لیڈروں کے احتجاج اور سندھ کے قوم پرست رہنماؤں کے تحفظات کے باعث یہ عملی جامہ نہیں پہن سکا تھا یہ منصوبہ شاید ان مخالفین کے احتجاج کے باوجود بھی تعمیر ہوجاتا اگر پیپلزپارٹی اس کے خلاف کھڑی نہ ہوتی، چوں کہ پیپلزپارٹی ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اور اس کی جڑیں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں چنانچہ کوئی بھی حکومت اس پارٹی کی مخالفت کو مول نہیں لے سکتی، ضیا الحق حکومت بھی محض پیپلزپارٹی کی مخالفت کی وجہ سے اس منصوبے میں ہاتھ ڈالنے سے گریزاں رہی اس کے بعد پرویز مشرف کی مضبوط حکومت نے اس منصوبے کو شروع کرنے کی بھرپور کوشش کی مشرف حکومت تو ڈیم کی تعمیر کے لیے ضروری ساز و سامان بھی در آمد کرلیا تھا مگر یہ حکومت بھی پیپلزپارٹی کی مخالفت کو نظر انداز نہ کرسکی۔


نواز شریف نے بھی اپنی پہلی اور دوسری حکومتوں کے ادوار میں اس پروجیکٹ کی تعمیر پر اپنی توجہ مرکوز کی مگر وہ بھی پیپلزپارٹی کی مخالفت کو برداشت کرنے کے متحمل نہ ہوسکے۔ پیپلزپارٹی اور دیگر مخالفین کا استدلال ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر سے پنجاب کو ضرور فائدہ ہوگا مگر سندھ ریگستان میں تبدیل ہوجائے گا۔ سندھ کے بعض سرکردہ قوم پرست رہنماؤں کا موقف ہے کہ سندھ میں پہلے ہی پانی کی سخت قلت ہے جس سے کسانوں کی حالت دن بدن مخدوش ہوتی جارہی ہے۔

کوٹری سے نیچے پانی میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے جس کی وجہ سے سمندری پانی سندھ کے جنوبی علاقوں تک پھیلتا چلا جارہاہے اس سے جنوبی سندھ کے مینگرو جنگلات اور ماہی گیری کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے، کالا باغ ڈیم بننے کے بعد دریا میں پانی کے بہاؤ میں مزید کمی ہوجائے گی جس سے سندھ میں مشکل حالات پیدا ہوئے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے ماہرین اور نیشنل عوامی پارٹی والوں کا اعتراض ہے کہ کالاباغ ڈیم منصوبے سے دریائے سندھ میں اٹک سے دریائے ہارو تک پانی کی سطح بلند ہوجائے گی جس کے نتیجے میں دریائے کابل کے دونوں کناروں پر بننے والی نوشہرہ شہر کی دو لاکھ آبادی شدید سیلاب کی زد میں آجائے گی ساتھ ہی نوشہرہ شہر اور آس پاس کے علاقے سیم زدہ دلدل میں تبدیل ہوجائیں گے۔

بلوچستان والوں کو بھی اس منصوبے پر اعتراض ہے کہ اس کی تعمیر کے بعد پانی کی سپلائی میں فرق آجائے گا جس سے بلوچستان کو پہلے سے جو پانی مل رہا ہے اس میں کمی واقع ہوجائے گی، نیشنل عوامی پارٹی کے اعتراض پر بعض لوگوں کا کہناہے کہ چونکہ نوشہرہ شہر سے اسفندیار ولی کے خاندان کا گہرا تعلق ہے اور یہاں ان کی زمینیں بڑے رقبے پر پھیلی ہوئی ہیں کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے انھیں ان زمینوں سے دست بردار ہونا پڑے گا، چنانچہ محض اپنے ذاتی مفاد کے خاطر پہلے ولی خان اور اب اسفندیار اس منصوبے کی مخالفت کررہے ہیں۔

پانی کی تقسیم کے مسئلے پر اس وقت بھی دونوں صوبے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں گوکہ دونوں صوبوں میں پانی کی تقسیم کے سلسلے میں ایک ''ارسا'' نام کا قومی ادارہ کام کر رہا ہے جو دونوں صوبوں کے پانی کے مسئلے کو ان کی ضروریات کے مطابق مہیا کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے ۔

گو کہ کالاباغ ڈیم منصوبے پر سب ہی کو اعتراض ہے مگر اب وقت آگیا ہے کہ اس منصوبے کو بلا تاخیر قومی یکجہتی کے ساتھ مکمل کرلیاجائے کیوں کہ ملک میں ہر سال آنے والے تباہ کن سیلاب کو روکنے کا اب یہی ایک ذریعہ رہ گیا ہے۔ مبصرین کی رائے ہے کہ املاک اور جانوں کے سالانہ ضیاع سے تو یہی بہتر ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر کی کڑوی گولی کو نگل لیا جائے۔

صوبہ سندھ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو کالاباغ ڈیم منصوبے پر جو اعتراضات ہیں ان کو دور کرنے کے لیے مختلف حکومتوں کے ادوار میں ان کی ہدایت پر واپڈا کام کرتی رہی ہے اب واپڈا کا کہناہے کہ اس منصوبے کے ڈیزائن میں انقلابی تبدیلیاں کرکے اسے ایسا بے ضرر بنادیاگیا ہے کہ اب کسی بھی صوبے کی حق تلفی نہیں ہوگی انھیں اپنی ضرورت کے مطابق پانی ملتا رہے گا اور اس سے کسی کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

ملک میں پانی کی قلت کو دور کرنے کے لیے یہ ملک میں چوتھا بڑا ذخیرہ ہوگا جس سے صنعتی اور زرعی ترقی کی رفتار میں اضافہ ہوگا۔ بجلی کی موجودہ پیداوار میں بھی 1200 میگاواٹ کا اضافہ ہوسکے گا، اس کی تعمیر کے دوران تیس ہزار لوگوں کو روزگار میسر آئے گا۔ تعمیر کی تکمیل کے بعد بھی بڑی تعداد میں لوگ روزگار سے جڑے رہیں گے، بلا شبہ حکومت نے بھاشا اور دیامر ڈیمز کی تعمیر کا کام شروع کردیا ہے مگر ان کی تعمیر میں دس سے پندرہ سال لگ سکتے ہیں جب کہ کالاباغ ڈیم منصوبہ صرف پانچ سال میں مکمل ہوجائے گا۔

اس ڈیم کی تعمیر میں پیپلزپارٹی اہم کردار ادا کرسکتی ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس کی تعمیر کی چابی پیپلزپارٹی کے ہاتھ میں ہی ہے مانا کہ وہ ضیا الحق اور پرویز مشرف کی آمرانہ حکومتوں کو اس ڈیم کی تعمیر کا کریڈٹ دینا پسند نہیں کررہی تھی مگر اس وقت تو ملک میں جمہوری حکومت قائم ہے اور یہ میثاق جمہوریت کے تحت پیپلزپارٹی کی حلیف بھی ہے۔ چنانچہ پیپلزپارٹی کی قیادت اس منصوبے کی مخالفت ترک کرکے ملک کے موجودہ پانی اور بجلی کے گمبھیر مسئلے کو حل کراسکتی ہے اور یوں اپنی پارٹی کی عوامی مقبولیت میں بھی چار چاند لگاسکتی ہے۔
Load Next Story