زندگی ہر قدم ایک نئی جنگ ہے
کالم پڑھتے ہوئے اور اخبار ہاتھ میں لینے سے قبل آپ کی زندگی ایک جنگ تھی۔
کالم پڑھتے ہوئے اور اخبار ہاتھ میں لینے سے قبل آپ کی زندگی ایک جنگ تھی۔ مطالعے سے فراغت کے بعد بھی آپ کی زندگی ایک جنگ ہوگی۔ ہر خبر میں کسی ایک کی فتح کی اطلاع اور ہر اطلاع میں کسی ایک فریق کی شکست۔ 15 اگست کو جنرل حمید گل کے انتقال کی خبر نے ایک جنگ چھیڑدی۔ سوشل میڈیا پر تعریفوں کی بھرمار اور تنقیدوں کے نشتر ہر دور کی طرح اسلام پسند اور لبرلز کے درمیان ایک نئی نظریاتی جنگ۔ جنرل حمید گل آئی ایس آئی کے چیف عہدے پر دو سال فائز رہے۔ ان دو برسوں میں افغان جنگ اپنے عروج پر تھی۔
1987 میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی کی کمان سنبھالنے والے کے سامنے ہی سوویت فوجی شکست کھاکر رخصت ہوئیں۔ یوں ملک کے کمیونسٹ اور پارٹی بازوں کے حامیوں کی نظر میں وہ معتوب ٹھہرے۔ ملکی سطح پر جنگ میں جنرل حمید گل نے قبول کیا کہ اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل میں ان کا ہاتھ تھا۔ یوں بے نظیر کی بھرپور کامیابی میں رکاوٹ بننے کے اعتراف نے انھیں جیالوں کی گڈ بک (Good Book) سے نکال باہر کیا۔
اس طرح سوشل میڈیا پر ایک طرف جنرل گل پر تنقید کرنے والے کمیونسٹ و جیالے تھے تو دوسری طرف روس و پیپلزپارٹی کے مخالف اپنا ہیرو مان کر انھیں مرد مجاہد قرار دے رہے ہیں۔ اس قسم کی نظریاتی جنگ اس سے قبل بھی لڑی جاتی رہی ہیں۔ اخبارات کے صفحات، ریڈیو کا مائیک اور ٹی وی کی اسکرین اس کی گواہ ہیں۔
فرق یہ ہوتا تھا کہ پہلے ہر مقام پر ایڈیٹنگ اور سنسر جارحانہ جملوں اور حملوں کو روک کر انھیں تحریر، آواز اور تصویر کی دنیا سے نکال باہر کرتا۔ اب سوشل میڈیا پر نہ کوئی ایڈیٹر بیٹھا ہے اور نہ کوئی افسر یا ہاتھوں میں سنسر کی قینچی تھامے غیر مناسب جملے حذف کر رہا ہے۔ یوں ہر ہر فرد کی آسانی سے رسائی اور ہر عمر و ذہن کے لوگوں کی فیس بک پر پہنچ نے اس جنگ کی شدت میں اضافہ کردیا ہے۔ اکثر اوقات سینئر اظہاریہ نویس، بزرگ پروفیسر اور جانے پہچانے سیاست دان بھی اس جنگ میں کود پڑتے ہیں۔
اسلام پسند اور سیکولر طبقے کی جنگ قیام پاکستان کے فوراً بعد شروع ہوگئی تھی کوئی عشرہ بلکہ کوئی سال ایسا نہ ہوگا جب کسی نہ کسی معاملے پر یہ جنگ نہ لڑی جاتی ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ شاید ہی کوئی ہفتہ ایسا گزرتا ہے جب کسی نہ کسی معاملے پر ایسی توبات سامنے نہ آتی ہو جو دونوں گروہوں کو مقابل لے آتی ہو۔
سرخ و سبز اور دائیں و بائیں بازو کی جنگ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی خوبصورت جنگ ہے یہ اپنے اندر کچھ بد صورتی بھی لیے ہوئے رہی ہے جب ملا اور مغرب زدہ کی اصطلاحات استعمال کی گئیں۔ خوب صورت نظریاتی جنگ میں اس وقت بھی داغ لگ جاتا ہے جب یہ ذاتیات تک پہنچ جاتی ہے، اب دیکھیے یہ دلچسپ انداز کہ یہ دونوں طبقات کسی طرح ہر اہم موقع پر باہم دست و گریبان رہے ہیں۔
چالیس کا عشرہ برصغیر میں ہیجان انگیز رہا ہے۔ قرارداد پاکستان سے شروع ہونے والے عشرے کا اختتام قرارداد مقاصد پر ہوا۔ ایک طرف علما نے پاکستان کو ایک اسلامی مملکت میں ڈھانے کے لیے منتخب پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کرلی تو دوسری طرف اپوا کا قیام عمل میں آیا۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان کی کوششوں اور وزیراعظم ہاؤس کی حوصلہ افزائی سے آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشن قائم ہوئی۔
وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی دوسری شادی نے اسلام پسند اور سیکولر طبقے کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا۔ یہ پچاس کا عشرہ تھا۔ ایک طرف ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت کو تنقید کا نشانہ بنایاگیا تو دوسری طرف سے کہا گیا کہ یورپ میں شادی شدہ مردوں کا گرل فرینڈز رکھنا اور ڈیٹنگ پر جانا ایک بیوی پر ظلم ہے، لندن سے حقوق نسواں کی علمبردار پاکستانی خاتون کا بیان آیا کہ ''یورپ کی سوسائٹی میں وزیراعظم بوگرہ نے ہمیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا'' دوسری طرف امریکی صدور اور برطانیہ کے وزیراعظم کے اپنی بیویوں کو چھوڑ کر دوسری عورتوں سے عشق و محبت کی داستانوں کو سامنے لاکر سوالات کیے گئے۔
اسلام پسندوں نے پوچھا کہ کیا اس طرح واقعات سے امریکا اور برطانیہ میں بسنے والوں کو شرمندگی ہوتی ہے؟ یوں زور دار مکالمے اخبارات کے صفحات کی زینت بنتے رہے اور دونوں طبقات کے درمیان جنگ نئے نئے موڑ لیتی رہی۔
ایوب خان کے زمانے میں ''مسلم فیملی لا آرڈیننس'' نے علما اور بیگمات کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کیا۔سیکولر طبقے نے خواتین کو پردوں اور چار دیوار میں جکڑنے کی مذمت کرکے انھیں آزادی دلانے کی بات کہی۔ اسلام پسندوں نے اسے آزادی کے پردے میں آوارگی کی اجازت حاصل کرنے کے بہانے کہا۔ یہ ساٹھ کا عشرہ تھا جس میں یہ نظریاتی جنگ جاری تھی۔ اسی دور میں ایک سنگم بھی آیا۔ ملاپ کا موقع محترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی انتخابات کی حمایت کا موقع تھا یہ وہ دور تھا جس میں سید ابوالاعلیٰ مودودی اور خان عبدالولی خان ایک پلیٹ فارم پر جمع تھے جنگ بہرحال جاری تھی۔
1970 کا سال پاکستان میں بھرپور انتخابی مہم کا سال تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی، کپڑا،مکان کی فراہمی کے لیے ''سوشلزم ہماری معیشت ہے'' کا نعرہ دیا یہ دور سوویت روس کے عروج کا دور تھا، مذہبی پارٹیوں نے اسلام آباد کے معاشی نظام کے مقابل سوشلزم کے نفاذ کے پروگرام کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ بھٹو نے پہلے اسے اسلامی سوشلزم اور پھر ''مساوات محمدی؟'' کا نام دے کر ماسکو سے چھٹکارے اور مدینے سے قربت کا اعلان کیا۔بائیں بازو کے عناصر ولی خان اور بھاشانی کو چھوڑ کر بھٹو کے ساتھی بن گئے۔
یہ زمانہ شدید نظریاتی جنگ کا زمانہ تھا۔ اس میں نہ حفظ مراتب کا خیال رکھا گیا اور نہ ذاتیات سے پرہیز کیا گیا، دائیں اور بائیں بازو کے حوالے سے بھٹو دور میں ایک جنگ کالجز اور جامعات کے انتخابات میں بھی لڑی گئی۔ ساٹھ کے عشرے میں ''ایشیا سرخ ہے'' کا نعرہ لگانے والی این ایس ایف ستر دہائی کے اختتام تک ''ایشیا سبز ہے'' کا نعرہ لگانے والی اسلامی جمعیت طلبہ سے شکست کھاچکی تھی۔
ابھی اس عشرے کے اختتام میں چار دن باقی تھے کہ روس نے افغانستان میں اپنی فوجیں اتار کر ایک نئی نظریاتی جنگ کی ابتدا کردی۔ وہی جنگ جس نے حمید گل جیسے جنرل کو ایک طبقے کی نظر میں ہیرو تو دوسرے کی نظر میں ولن بنادیا ہے۔ وہ جنگ جو اخبارات، ٹی وی، جلسے جلوسوں کے ساتھ ساتھ آج کل سوشل میڈیا پر بھی لڑی جارہی ہے۔
روس کے افغانستان میں داخلے نے واپس اور بائیں بازو کی جنگ کی شدت میں اضافہ کردیا۔ روسی ٹینکوں پر بیٹھ کر اسلام آباد پہنچنے کی بات کی گئی۔ ''چھینو چھینو پاکستان جیسے چھینا افغانستان'' کے نعرے لگائے گئے۔ جب روس کو نکال باہر کرنے کی بات کی جاتی تو اس کا جواب طنزیہ مسکراہٹ سے دیا جاتا۔ کہا جاتا کہ روس کہیں واپس جانے کے لیے داخل نہیں ہوتا۔
صدر جمی کارٹرکی شکست اور ریگن کے آنے کے ڈیڑھ سال تک افغان مجاہدین درے کے بنے اسلحے سے لڑتے رہے، پھر امریکا ویت نام میں اپنی ہار کا بدلہ لینے آگیا۔ دس سالہ جنگ میں روس کی شکست ابھی تک سابقہ کمیونسٹوں سے برداشت نہیں ہورہی۔ جنرل گل کی وفات پر سوشل میڈیا کے تنقیدی تبصرے ظاہر کرتے ہیں کہ ایک طبقے کو پاکستان کے ٹوٹنے سے زیادہ افسوس سوویت یونین کے ٹوٹنے پر ہے۔
جنرل ضیا الحق کے ''حدود آرڈیننس'' نے بھی ایک نئی نظریاتی جنگ چھیڑدی۔ اسلام زنا کو برداشت نہیں کرتا۔ جبر پر پچیس سال اور رضامندی پر دس سال کی سزا اس آرڈیننس نے طے کی تھی۔ رضامندی کو بدکاری قرار دے کر مغرب اس پر رعایت دیتا ہے۔ وہ اعتراض کا حق صرف لائف پارٹنر کو دیتا ہے کہ اس کو دھوکا دیا گیا۔ اسلام مرد و عورت کے جائز رشتے یا محرم کے علاوہ غیر مرد سے بلا ضرورت ملنے کو ناپسندیدہ قرار دیتا ہے۔ مشرف کے دور میں غیر ملکی سرمائے کی مدد سے شدید پروپیگنڈے اور جھوٹے سچے اعداد و شمار کی بنا پر حدود آرڈیننس کو غیر موثر بناکر ناقابل نفاذ کردیاگیا۔
عافیہ صدیقی اور ملالہ کے حوالے سے ہلکی پھلکی جنگ جاری ہے۔ سیکولر طبقے اور اسلام پسندوں کے درمیان کوئی شدید و بھرپور جنگ تو نہیں چھڑی لیکن جنرل حمید گل کی وفات یا جنرل ضیا کی برسی یا بھٹو کی پھانسی پانے والے دن یا اقتدار سے بے دخلی والے 5جولائی کو اس جنگ کی شدت بڑھ جاتی ہے یوں تو ہر روز کسی نہ کسی مسئلے پر اخبارات کے ادارتی صفحات اور ٹی وی کے مباحثوں پر ماضی کے حوالے سے بھی نظریاتی جنگ جاری ہے۔یہ ہمیشہ جاری رہے گی، چاہے ہم کہتے رہیں کہ جنگ کے خاتمے کے بعد رائٹ و لیفٹ ختم ہوگئے ہیں۔ یہ طبقات اپنے نظریات کے ساتھ ہمیشہ باقی رہیںگے کہ زندگی، ہر قدم ایک نئی جنگ ہے۔
1987 میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی کی کمان سنبھالنے والے کے سامنے ہی سوویت فوجی شکست کھاکر رخصت ہوئیں۔ یوں ملک کے کمیونسٹ اور پارٹی بازوں کے حامیوں کی نظر میں وہ معتوب ٹھہرے۔ ملکی سطح پر جنگ میں جنرل حمید گل نے قبول کیا کہ اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل میں ان کا ہاتھ تھا۔ یوں بے نظیر کی بھرپور کامیابی میں رکاوٹ بننے کے اعتراف نے انھیں جیالوں کی گڈ بک (Good Book) سے نکال باہر کیا۔
اس طرح سوشل میڈیا پر ایک طرف جنرل گل پر تنقید کرنے والے کمیونسٹ و جیالے تھے تو دوسری طرف روس و پیپلزپارٹی کے مخالف اپنا ہیرو مان کر انھیں مرد مجاہد قرار دے رہے ہیں۔ اس قسم کی نظریاتی جنگ اس سے قبل بھی لڑی جاتی رہی ہیں۔ اخبارات کے صفحات، ریڈیو کا مائیک اور ٹی وی کی اسکرین اس کی گواہ ہیں۔
فرق یہ ہوتا تھا کہ پہلے ہر مقام پر ایڈیٹنگ اور سنسر جارحانہ جملوں اور حملوں کو روک کر انھیں تحریر، آواز اور تصویر کی دنیا سے نکال باہر کرتا۔ اب سوشل میڈیا پر نہ کوئی ایڈیٹر بیٹھا ہے اور نہ کوئی افسر یا ہاتھوں میں سنسر کی قینچی تھامے غیر مناسب جملے حذف کر رہا ہے۔ یوں ہر ہر فرد کی آسانی سے رسائی اور ہر عمر و ذہن کے لوگوں کی فیس بک پر پہنچ نے اس جنگ کی شدت میں اضافہ کردیا ہے۔ اکثر اوقات سینئر اظہاریہ نویس، بزرگ پروفیسر اور جانے پہچانے سیاست دان بھی اس جنگ میں کود پڑتے ہیں۔
اسلام پسند اور سیکولر طبقے کی جنگ قیام پاکستان کے فوراً بعد شروع ہوگئی تھی کوئی عشرہ بلکہ کوئی سال ایسا نہ ہوگا جب کسی نہ کسی معاملے پر یہ جنگ نہ لڑی جاتی ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ شاید ہی کوئی ہفتہ ایسا گزرتا ہے جب کسی نہ کسی معاملے پر ایسی توبات سامنے نہ آتی ہو جو دونوں گروہوں کو مقابل لے آتی ہو۔
سرخ و سبز اور دائیں و بائیں بازو کی جنگ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی خوبصورت جنگ ہے یہ اپنے اندر کچھ بد صورتی بھی لیے ہوئے رہی ہے جب ملا اور مغرب زدہ کی اصطلاحات استعمال کی گئیں۔ خوب صورت نظریاتی جنگ میں اس وقت بھی داغ لگ جاتا ہے جب یہ ذاتیات تک پہنچ جاتی ہے، اب دیکھیے یہ دلچسپ انداز کہ یہ دونوں طبقات کسی طرح ہر اہم موقع پر باہم دست و گریبان رہے ہیں۔
چالیس کا عشرہ برصغیر میں ہیجان انگیز رہا ہے۔ قرارداد پاکستان سے شروع ہونے والے عشرے کا اختتام قرارداد مقاصد پر ہوا۔ ایک طرف علما نے پاکستان کو ایک اسلامی مملکت میں ڈھانے کے لیے منتخب پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کرلی تو دوسری طرف اپوا کا قیام عمل میں آیا۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان کی کوششوں اور وزیراعظم ہاؤس کی حوصلہ افزائی سے آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشن قائم ہوئی۔
وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی دوسری شادی نے اسلام پسند اور سیکولر طبقے کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا۔ یہ پچاس کا عشرہ تھا۔ ایک طرف ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت کو تنقید کا نشانہ بنایاگیا تو دوسری طرف سے کہا گیا کہ یورپ میں شادی شدہ مردوں کا گرل فرینڈز رکھنا اور ڈیٹنگ پر جانا ایک بیوی پر ظلم ہے، لندن سے حقوق نسواں کی علمبردار پاکستانی خاتون کا بیان آیا کہ ''یورپ کی سوسائٹی میں وزیراعظم بوگرہ نے ہمیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا'' دوسری طرف امریکی صدور اور برطانیہ کے وزیراعظم کے اپنی بیویوں کو چھوڑ کر دوسری عورتوں سے عشق و محبت کی داستانوں کو سامنے لاکر سوالات کیے گئے۔
اسلام پسندوں نے پوچھا کہ کیا اس طرح واقعات سے امریکا اور برطانیہ میں بسنے والوں کو شرمندگی ہوتی ہے؟ یوں زور دار مکالمے اخبارات کے صفحات کی زینت بنتے رہے اور دونوں طبقات کے درمیان جنگ نئے نئے موڑ لیتی رہی۔
ایوب خان کے زمانے میں ''مسلم فیملی لا آرڈیننس'' نے علما اور بیگمات کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کیا۔سیکولر طبقے نے خواتین کو پردوں اور چار دیوار میں جکڑنے کی مذمت کرکے انھیں آزادی دلانے کی بات کہی۔ اسلام پسندوں نے اسے آزادی کے پردے میں آوارگی کی اجازت حاصل کرنے کے بہانے کہا۔ یہ ساٹھ کا عشرہ تھا جس میں یہ نظریاتی جنگ جاری تھی۔ اسی دور میں ایک سنگم بھی آیا۔ ملاپ کا موقع محترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی انتخابات کی حمایت کا موقع تھا یہ وہ دور تھا جس میں سید ابوالاعلیٰ مودودی اور خان عبدالولی خان ایک پلیٹ فارم پر جمع تھے جنگ بہرحال جاری تھی۔
1970 کا سال پاکستان میں بھرپور انتخابی مہم کا سال تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی، کپڑا،مکان کی فراہمی کے لیے ''سوشلزم ہماری معیشت ہے'' کا نعرہ دیا یہ دور سوویت روس کے عروج کا دور تھا، مذہبی پارٹیوں نے اسلام آباد کے معاشی نظام کے مقابل سوشلزم کے نفاذ کے پروگرام کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ بھٹو نے پہلے اسے اسلامی سوشلزم اور پھر ''مساوات محمدی؟'' کا نام دے کر ماسکو سے چھٹکارے اور مدینے سے قربت کا اعلان کیا۔بائیں بازو کے عناصر ولی خان اور بھاشانی کو چھوڑ کر بھٹو کے ساتھی بن گئے۔
یہ زمانہ شدید نظریاتی جنگ کا زمانہ تھا۔ اس میں نہ حفظ مراتب کا خیال رکھا گیا اور نہ ذاتیات سے پرہیز کیا گیا، دائیں اور بائیں بازو کے حوالے سے بھٹو دور میں ایک جنگ کالجز اور جامعات کے انتخابات میں بھی لڑی گئی۔ ساٹھ کے عشرے میں ''ایشیا سرخ ہے'' کا نعرہ لگانے والی این ایس ایف ستر دہائی کے اختتام تک ''ایشیا سبز ہے'' کا نعرہ لگانے والی اسلامی جمعیت طلبہ سے شکست کھاچکی تھی۔
ابھی اس عشرے کے اختتام میں چار دن باقی تھے کہ روس نے افغانستان میں اپنی فوجیں اتار کر ایک نئی نظریاتی جنگ کی ابتدا کردی۔ وہی جنگ جس نے حمید گل جیسے جنرل کو ایک طبقے کی نظر میں ہیرو تو دوسرے کی نظر میں ولن بنادیا ہے۔ وہ جنگ جو اخبارات، ٹی وی، جلسے جلوسوں کے ساتھ ساتھ آج کل سوشل میڈیا پر بھی لڑی جارہی ہے۔
روس کے افغانستان میں داخلے نے واپس اور بائیں بازو کی جنگ کی شدت میں اضافہ کردیا۔ روسی ٹینکوں پر بیٹھ کر اسلام آباد پہنچنے کی بات کی گئی۔ ''چھینو چھینو پاکستان جیسے چھینا افغانستان'' کے نعرے لگائے گئے۔ جب روس کو نکال باہر کرنے کی بات کی جاتی تو اس کا جواب طنزیہ مسکراہٹ سے دیا جاتا۔ کہا جاتا کہ روس کہیں واپس جانے کے لیے داخل نہیں ہوتا۔
صدر جمی کارٹرکی شکست اور ریگن کے آنے کے ڈیڑھ سال تک افغان مجاہدین درے کے بنے اسلحے سے لڑتے رہے، پھر امریکا ویت نام میں اپنی ہار کا بدلہ لینے آگیا۔ دس سالہ جنگ میں روس کی شکست ابھی تک سابقہ کمیونسٹوں سے برداشت نہیں ہورہی۔ جنرل گل کی وفات پر سوشل میڈیا کے تنقیدی تبصرے ظاہر کرتے ہیں کہ ایک طبقے کو پاکستان کے ٹوٹنے سے زیادہ افسوس سوویت یونین کے ٹوٹنے پر ہے۔
جنرل ضیا الحق کے ''حدود آرڈیننس'' نے بھی ایک نئی نظریاتی جنگ چھیڑدی۔ اسلام زنا کو برداشت نہیں کرتا۔ جبر پر پچیس سال اور رضامندی پر دس سال کی سزا اس آرڈیننس نے طے کی تھی۔ رضامندی کو بدکاری قرار دے کر مغرب اس پر رعایت دیتا ہے۔ وہ اعتراض کا حق صرف لائف پارٹنر کو دیتا ہے کہ اس کو دھوکا دیا گیا۔ اسلام مرد و عورت کے جائز رشتے یا محرم کے علاوہ غیر مرد سے بلا ضرورت ملنے کو ناپسندیدہ قرار دیتا ہے۔ مشرف کے دور میں غیر ملکی سرمائے کی مدد سے شدید پروپیگنڈے اور جھوٹے سچے اعداد و شمار کی بنا پر حدود آرڈیننس کو غیر موثر بناکر ناقابل نفاذ کردیاگیا۔
عافیہ صدیقی اور ملالہ کے حوالے سے ہلکی پھلکی جنگ جاری ہے۔ سیکولر طبقے اور اسلام پسندوں کے درمیان کوئی شدید و بھرپور جنگ تو نہیں چھڑی لیکن جنرل حمید گل کی وفات یا جنرل ضیا کی برسی یا بھٹو کی پھانسی پانے والے دن یا اقتدار سے بے دخلی والے 5جولائی کو اس جنگ کی شدت بڑھ جاتی ہے یوں تو ہر روز کسی نہ کسی مسئلے پر اخبارات کے ادارتی صفحات اور ٹی وی کے مباحثوں پر ماضی کے حوالے سے بھی نظریاتی جنگ جاری ہے۔یہ ہمیشہ جاری رہے گی، چاہے ہم کہتے رہیں کہ جنگ کے خاتمے کے بعد رائٹ و لیفٹ ختم ہوگئے ہیں۔ یہ طبقات اپنے نظریات کے ساتھ ہمیشہ باقی رہیںگے کہ زندگی، ہر قدم ایک نئی جنگ ہے۔