لائن آف کنٹرول کا آنکھوں دیکھا حال
شیر دل جوانوں کا کہنا ہے کہ جب ہم آرمی جوائن کرتے ہیں تو اپنی جانیں اپنے وطن پر قربان کرنے کا ارادہ کر لیتے ہیں۔
فارورڈ کہوٹہ آزاد کشمیر کا ایک دور افتادہ ضلع ہے، جو کشمیر بھر میں شرح خواندگی اور قدرتی حسن کی وجہ سے ملک بھر میں مشہور ہے۔ یہ علاقہ مظفر آباد سے 162 کلومیٹر اور اسلام آباد سے 250 کلومیٹر فاصلے پر ہے، جبکہ اس ضلع کا کُل رقبہ 162 مربع کلومیٹر ہے، جو تین اطراف سے لائن آف کنٹرول میں گھرا ہوا ہے جبکہ چند کلومیڑ کی ایک پٹی سے یہ ضلع باغ اور ضلع پونچھ سے ملتا ہے۔
چراغ حسن حسرت کا آبائی تعلق بھی اس ضلع کے چھوٹے سے گاؤں سے تھا، اس کے مشرق میں پیر پنجال کا بلند و بالا پہاڑی سلسلہ ہے۔ شمال مشرق میں بھیڈوری پہاڑ اور مقبوضہ کشمیر کا ضلع اوڑی، مغرب اور جنوب مغرب سے یہ ضلع باغ اور راولاکوٹ سے جڑا ہوا ہے، جبکہ جنوب میں مقبوضہ کشمیر کا ضلع پونچھ آتا ہے، یوں یہ ضلع ''لائن آف کنٹرول'' کا اہم جنگی سیکٹرز پونچھ سیکٹر، حاجی پیر سیکٹر، اوڑی سیکٹر، نیزہ پیر سیکٹر اور پیر پنجال سیکٹر پر مشتمل ہے۔ یہاں کہ مقامی لوگوں کا ذریعہ معاش سرکاری ملازمتیں اور مال مویشی ہیں۔ اکثر آبادیاں سنگلاخ پہاڑوں پر مشتمل ہیں، گرمیوں میں جانوروں کو چرانے کے لئے لوگ اپنے مال مویشی پہاڑوں پر موجود چراگاہوں میں لے کر جاتے ہیں اور اکثر چراگاہیں لائن آف کنٹرول پر ہیں۔ گرمیوں میں جب اس ضلع کے لوگ مال مویشی لے کر اپنی اپنی چراگاہوں کی جانب جاتے ہیں تو ہندوستان کی جانب سے چھیڑ خانی اور گولا باری شروع ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے قیمتی انسانی جانوں، املاک اور مال مویشیوں کا بھاری نقصان ہوتا ہے۔
ہندوستان ان بزدلانہ اقدامات کے ذریعے یہاں کے لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانا چاہتا ہے، مگر یہاں کے جفاکش، دلیر اور نڈر لوگ ان بزدلانہ اقدامات سے کبھی بھی نہیں گھبرائے۔ اپنے مال وجان قربان کردینے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ گذشتہ دنوں اپنے آبائی ضلع فارورڈ کہوٹہ جانے کا موقع ملا۔ لینڈ سلائیڈنگ، ناکارہ سڑکیں اور کھٹارا گاڑیوں پر سفر کے بعد جب اپنے گھر پہنچا تو تھکن سے بُرا حال تھا، آرام کی غرض سے لیٹا ہی تھا کہ شدید گولہ باری کی آوازوں اور گھر کی چھت پر لوگوں کے ہجوم کی آوازوں سے آنکھ کھل گئی۔ واضح رہے کہ میرا گھر ضلع کے وسط پر موجود ایک پہاڑی چوٹی پر موجود ہے، جہاں سے سارا ضلع اور تمام جنگی محاذوں کا نظارہ آسانی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب گولہ باری ہوتی ہے تو گاؤں کے اکثر لوگ میرے گھر آکر گولہ باری کا نظارہ کرتے ہیں۔ عصر کا وقت تھا جب گولہ باری کا آغاز ہوا، ہندوستانی فوج کی جانب سے داغے جانے والے گولے اور میزائل میرے گھر کے سامنے موجود گاؤں فتح پور اور نیزہ پیر کے آس پاس موجود ڈھوکوں (ڈھوک ہند کو زبان میں پہاڑی پر موجود چراگاہوں کو کہتے ہیں) میں گر رہے تھے۔ عصر کے وقت سے شروع ہونے والی گولہ باری رات گئے تک جاری رہی جبکہ پاک فوج کی جانب سے جوابی فائرنگ نمازِ مغرب کے بعد شروع ہوئی تھی، رات گئے گولہ باری تھمنے کے بعد میں نے اپنے دوست ارشد کو فون کیا جو کہ ایک معلم ہے اور ضلع بھر میں کوئی بھی پروگرام ہو تو اسی کے ساتھ مل کر طے کرتا ہوں۔ فون پر ہم دونوں نے اگلا دن نیزہ پیر کے آس پاس موجود لوگوں میں گزارنے کا فیصلہ کیا اور اس فیصلے کو گھر والوں اور تمام عزیز و اقارب سے انتہائی خفیہ رکھا۔
نمازِ فجر کے بعد تمام گھر والے بیدار ہوگئے، ناشتہ کیا اور ارشد کے گھر کی جانب چل پڑا۔ وہاں سے ہم ضلعی ہیڈ کوارٹر گئے اور دوپہر کے بعد نیزہ پیر کی جانب سفر کا آغاز کردیا۔ فتح پور پہنچے ہی تھے کہ اطلاع ملی کہ کل ہونے والی فائرنگ اور گولہ باری کے باعث ایک خاتون جاں بحق ہوئی ہیں، جبکہ ان کی بیٹیاں اور خاوند شدید زخمی ہیں۔ آرمی کی چیک پوسٹ پر جب پہنچے تو فوجی جوانوں نے ہمیں روک لیا اور آگے جانے سے منع کردیا، کیوں کہ وہاں سے پاکستان آرمی نے تمام سول افراد کو محفوظ مقامات کی جانب منتقل کرنا شروع کردیا ہے۔ آرمی کے جوانوں کو تعارف کروایا تو انہوں نے ہمیں اپنے ساتھ کھانے میں شریک کیا اور گپ شپ شروع کردی۔ ان سے نیزہ پیر جانے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن فوجی جوانوں نے خواہش یہ کہہ کر رد کر دی کہ ہم آپ کے بھائی آپ کی حفاظت کے لئے متعین ہیں۔ آپ کو کسی صورت بھی آگے جانے نہیں دیں گے، آپ کی جان ہمیں عزیز ہے۔
خیر جوانوں سے بحث اور منت لاحاصل تھی، اب کسی افسر کا انتظار کرنے کے لئے چیک پوسٹ کے قریب آرمی کی کنٹین پر بیٹھ گئے، شام آٹھ بجے کے قریب پاک فوج کے ایک میجر صاحب آئے جو نیزہ پیر کی جانب جا رہے تھے۔ ان سے گفتگو کی اور اپنا مدعا بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنی گاڑی پر نہیں جاسکتے میرے ساتھ چلیں اور رات ہمارے ساتھ ہی گزاریں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں کے مصداق ہم دونوں میجر صاحب کے ساتھ ان کی جیپ میں بیٹھ گئے۔
پا ک فوج کی چند گاڑیاں جو جوانوں کے لئے کھانے پینے کا سامان لے کر جارہی تھیں وہ بھی ہمارے ساتھ تھیں۔ اسی دوران انڈین آرمی کی جانب سے فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا، دفاعی اعتبار سے جب رات کے وقت سفر کرنا ہو تو گاڑیوں کی لائٹس بند کر دی جاتی ہیں، ایک فوجی جوان سفید کپڑوں میں ملبوس ہمارے آگے آگے چل رہا تھا جس کے پیچھے تمام گاڑیاں جا رہی تھیں۔ خدا خدا کرکے ہم نیزہ پیر پہنچے جہاں ہندوستانی فوج کی گولہ باری جاری تھی، جبکہ پاک فوج کے جوان بھی بھرپور جوابی کارروائی کر رہے تھے۔ سفر کے دوران ہندوستانی فوج کی جانب سے داغے جانے والے گولے ہمارے دائیں بائیں گر رہے تھے۔ کلمہ طیبہ کا ورد میری اور ارشد کی زبان پر جاری تھا۔ مگر ہماری دلیر اور ناقابلِ تسخیر آرمی کے شیر دل نوجوان اطمینان سے بیٹھے رہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب ہم آرمی جوائن کرتے ہیں تو اپنی جانیں اپنے وطن پر قربان کرنے کا ارادہ کر لیتے ہیں۔ پوری رات ہم نے پاکستان آرمی کے نوجوانوں کے پاس گزاری جہاں سے انڈین آرمی کے شعلے اگلتی توپیں ہمارے سامنے تھیں اور پاک آرمی کی جانب سے انہیں خاموش کرانے کا نظارہ بھی دیکھا۔ وہاں موجود جوانوں نے ہمیں بتایا کہ بزدل بھارت فوج ہمارے شہریوں پر فائرنگ کرکے ان کا جانی و مالی نقصان کرتی ہیں، مگر ہمارا ٹارگٹ انڈین آرمی کے مورچے ہوتے ہیں جنہیں اکثر ہم مسمار کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
رات گئے فائرنگ تھمتے ہی ہمارا سونے کا ارادہ تھا مگر ان بہادر ماؤں کے دلیر سپوتوں کے ساتھ باتیں کرنے کا موقع زندگی میں بار بار نصیب تو نہیں ہوتا نا۔ آرمی کے نوجوانوں کے ایمان افروز اور جذبہ حب الوطنی سے بھرپور واقعات نے بار بار دل کو مجبور کیا کہ ان شیردل نوجوانوں کو سلیوٹ کیا جائے۔ اگلے دن صبح صبح ہم لائن آف کنٹرول پر موجود گاؤں میں لوگوں سے ملنے گئے جن کے چہرے ہمت اور جرات کی علامت تھے۔ میں نے انہیں پوچھا کہ آپ لوگ تو خوف کے سبب رات بھر سو نہیں سکتے ہوں گے؟ جس پر ایک بوڑھی خاتون آگے بڑھی اور بولی بیٹا! جس دن گولہ باری ہوتی ہے اس دن ہم آرام سے سوتے ہیں؟ میں نے حیرانگی کے عالم میں پوچھا کہ بھلا وہ کیسے؟ وہ گویا ہوئی کہ بیٹا جب گولہ باری ہوتی ہے تو مورچوں میں ہمارے فوجی جوان جاگ رہے ہوتے ہیں اور جب وہ جاگتے ہیں تو ہمیں سکون کی نیند آتی ہے۔
لائن آف کنٹرول پر جانوروں کے گوشت کے لوتھڑے بکھرے پڑے تھے، جو اس بات کی غمازی کر رہے تھے کہ بھارت نے لائن آف کنٹرول پر جانوروں کو کس بے دردی سے اپنے گولوں کے نشانوں پر رکھا ہوا ہے۔ گھروں کے دیواروں میں مارٹر کے گولوں کے نشانات اور گھروں کے صحنوں میں پڑے ہوئے گولوں کے ٹکرے بھارتی جارحیت کی داستان بیان کر رہے تھے۔ دوپہر کا کھانا وہاں موجود لوگوں کے ساتھ کھایا اور ہندوستانی فوج کی لائن آف کنٹرول پر نقل و حرکت دیکھنے کے بعد واپسی کی راہ لی۔ کیوں کہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں تھی کہ انڈین آرمی کب دوبارہ گولہ باری شروع کردے، اس لئے اپنے گھر جانے میں ہی عافیت تھی۔ اس سفر کے دوران پاک آرمی کے جذبہ حب الوطنی اور وہاں موجود لوگوں کی ہمت اور دلیری نے جو انمٹ نقوش ثبت کئے وہ تاحیات موجود رہیں گے۔
[poll id="623"]
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
چراغ حسن حسرت کا آبائی تعلق بھی اس ضلع کے چھوٹے سے گاؤں سے تھا، اس کے مشرق میں پیر پنجال کا بلند و بالا پہاڑی سلسلہ ہے۔ شمال مشرق میں بھیڈوری پہاڑ اور مقبوضہ کشمیر کا ضلع اوڑی، مغرب اور جنوب مغرب سے یہ ضلع باغ اور راولاکوٹ سے جڑا ہوا ہے، جبکہ جنوب میں مقبوضہ کشمیر کا ضلع پونچھ آتا ہے، یوں یہ ضلع ''لائن آف کنٹرول'' کا اہم جنگی سیکٹرز پونچھ سیکٹر، حاجی پیر سیکٹر، اوڑی سیکٹر، نیزہ پیر سیکٹر اور پیر پنجال سیکٹر پر مشتمل ہے۔ یہاں کہ مقامی لوگوں کا ذریعہ معاش سرکاری ملازمتیں اور مال مویشی ہیں۔ اکثر آبادیاں سنگلاخ پہاڑوں پر مشتمل ہیں، گرمیوں میں جانوروں کو چرانے کے لئے لوگ اپنے مال مویشی پہاڑوں پر موجود چراگاہوں میں لے کر جاتے ہیں اور اکثر چراگاہیں لائن آف کنٹرول پر ہیں۔ گرمیوں میں جب اس ضلع کے لوگ مال مویشی لے کر اپنی اپنی چراگاہوں کی جانب جاتے ہیں تو ہندوستان کی جانب سے چھیڑ خانی اور گولا باری شروع ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے قیمتی انسانی جانوں، املاک اور مال مویشیوں کا بھاری نقصان ہوتا ہے۔
ہندوستان ان بزدلانہ اقدامات کے ذریعے یہاں کے لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانا چاہتا ہے، مگر یہاں کے جفاکش، دلیر اور نڈر لوگ ان بزدلانہ اقدامات سے کبھی بھی نہیں گھبرائے۔ اپنے مال وجان قربان کردینے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ گذشتہ دنوں اپنے آبائی ضلع فارورڈ کہوٹہ جانے کا موقع ملا۔ لینڈ سلائیڈنگ، ناکارہ سڑکیں اور کھٹارا گاڑیوں پر سفر کے بعد جب اپنے گھر پہنچا تو تھکن سے بُرا حال تھا، آرام کی غرض سے لیٹا ہی تھا کہ شدید گولہ باری کی آوازوں اور گھر کی چھت پر لوگوں کے ہجوم کی آوازوں سے آنکھ کھل گئی۔ واضح رہے کہ میرا گھر ضلع کے وسط پر موجود ایک پہاڑی چوٹی پر موجود ہے، جہاں سے سارا ضلع اور تمام جنگی محاذوں کا نظارہ آسانی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب گولہ باری ہوتی ہے تو گاؤں کے اکثر لوگ میرے گھر آکر گولہ باری کا نظارہ کرتے ہیں۔ عصر کا وقت تھا جب گولہ باری کا آغاز ہوا، ہندوستانی فوج کی جانب سے داغے جانے والے گولے اور میزائل میرے گھر کے سامنے موجود گاؤں فتح پور اور نیزہ پیر کے آس پاس موجود ڈھوکوں (ڈھوک ہند کو زبان میں پہاڑی پر موجود چراگاہوں کو کہتے ہیں) میں گر رہے تھے۔ عصر کے وقت سے شروع ہونے والی گولہ باری رات گئے تک جاری رہی جبکہ پاک فوج کی جانب سے جوابی فائرنگ نمازِ مغرب کے بعد شروع ہوئی تھی، رات گئے گولہ باری تھمنے کے بعد میں نے اپنے دوست ارشد کو فون کیا جو کہ ایک معلم ہے اور ضلع بھر میں کوئی بھی پروگرام ہو تو اسی کے ساتھ مل کر طے کرتا ہوں۔ فون پر ہم دونوں نے اگلا دن نیزہ پیر کے آس پاس موجود لوگوں میں گزارنے کا فیصلہ کیا اور اس فیصلے کو گھر والوں اور تمام عزیز و اقارب سے انتہائی خفیہ رکھا۔
نمازِ فجر کے بعد تمام گھر والے بیدار ہوگئے، ناشتہ کیا اور ارشد کے گھر کی جانب چل پڑا۔ وہاں سے ہم ضلعی ہیڈ کوارٹر گئے اور دوپہر کے بعد نیزہ پیر کی جانب سفر کا آغاز کردیا۔ فتح پور پہنچے ہی تھے کہ اطلاع ملی کہ کل ہونے والی فائرنگ اور گولہ باری کے باعث ایک خاتون جاں بحق ہوئی ہیں، جبکہ ان کی بیٹیاں اور خاوند شدید زخمی ہیں۔ آرمی کی چیک پوسٹ پر جب پہنچے تو فوجی جوانوں نے ہمیں روک لیا اور آگے جانے سے منع کردیا، کیوں کہ وہاں سے پاکستان آرمی نے تمام سول افراد کو محفوظ مقامات کی جانب منتقل کرنا شروع کردیا ہے۔ آرمی کے جوانوں کو تعارف کروایا تو انہوں نے ہمیں اپنے ساتھ کھانے میں شریک کیا اور گپ شپ شروع کردی۔ ان سے نیزہ پیر جانے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن فوجی جوانوں نے خواہش یہ کہہ کر رد کر دی کہ ہم آپ کے بھائی آپ کی حفاظت کے لئے متعین ہیں۔ آپ کو کسی صورت بھی آگے جانے نہیں دیں گے، آپ کی جان ہمیں عزیز ہے۔
خیر جوانوں سے بحث اور منت لاحاصل تھی، اب کسی افسر کا انتظار کرنے کے لئے چیک پوسٹ کے قریب آرمی کی کنٹین پر بیٹھ گئے، شام آٹھ بجے کے قریب پاک فوج کے ایک میجر صاحب آئے جو نیزہ پیر کی جانب جا رہے تھے۔ ان سے گفتگو کی اور اپنا مدعا بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنی گاڑی پر نہیں جاسکتے میرے ساتھ چلیں اور رات ہمارے ساتھ ہی گزاریں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں کے مصداق ہم دونوں میجر صاحب کے ساتھ ان کی جیپ میں بیٹھ گئے۔
پا ک فوج کی چند گاڑیاں جو جوانوں کے لئے کھانے پینے کا سامان لے کر جارہی تھیں وہ بھی ہمارے ساتھ تھیں۔ اسی دوران انڈین آرمی کی جانب سے فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا، دفاعی اعتبار سے جب رات کے وقت سفر کرنا ہو تو گاڑیوں کی لائٹس بند کر دی جاتی ہیں، ایک فوجی جوان سفید کپڑوں میں ملبوس ہمارے آگے آگے چل رہا تھا جس کے پیچھے تمام گاڑیاں جا رہی تھیں۔ خدا خدا کرکے ہم نیزہ پیر پہنچے جہاں ہندوستانی فوج کی گولہ باری جاری تھی، جبکہ پاک فوج کے جوان بھی بھرپور جوابی کارروائی کر رہے تھے۔ سفر کے دوران ہندوستانی فوج کی جانب سے داغے جانے والے گولے ہمارے دائیں بائیں گر رہے تھے۔ کلمہ طیبہ کا ورد میری اور ارشد کی زبان پر جاری تھا۔ مگر ہماری دلیر اور ناقابلِ تسخیر آرمی کے شیر دل نوجوان اطمینان سے بیٹھے رہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب ہم آرمی جوائن کرتے ہیں تو اپنی جانیں اپنے وطن پر قربان کرنے کا ارادہ کر لیتے ہیں۔ پوری رات ہم نے پاکستان آرمی کے نوجوانوں کے پاس گزاری جہاں سے انڈین آرمی کے شعلے اگلتی توپیں ہمارے سامنے تھیں اور پاک آرمی کی جانب سے انہیں خاموش کرانے کا نظارہ بھی دیکھا۔ وہاں موجود جوانوں نے ہمیں بتایا کہ بزدل بھارت فوج ہمارے شہریوں پر فائرنگ کرکے ان کا جانی و مالی نقصان کرتی ہیں، مگر ہمارا ٹارگٹ انڈین آرمی کے مورچے ہوتے ہیں جنہیں اکثر ہم مسمار کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
رات گئے فائرنگ تھمتے ہی ہمارا سونے کا ارادہ تھا مگر ان بہادر ماؤں کے دلیر سپوتوں کے ساتھ باتیں کرنے کا موقع زندگی میں بار بار نصیب تو نہیں ہوتا نا۔ آرمی کے نوجوانوں کے ایمان افروز اور جذبہ حب الوطنی سے بھرپور واقعات نے بار بار دل کو مجبور کیا کہ ان شیردل نوجوانوں کو سلیوٹ کیا جائے۔ اگلے دن صبح صبح ہم لائن آف کنٹرول پر موجود گاؤں میں لوگوں سے ملنے گئے جن کے چہرے ہمت اور جرات کی علامت تھے۔ میں نے انہیں پوچھا کہ آپ لوگ تو خوف کے سبب رات بھر سو نہیں سکتے ہوں گے؟ جس پر ایک بوڑھی خاتون آگے بڑھی اور بولی بیٹا! جس دن گولہ باری ہوتی ہے اس دن ہم آرام سے سوتے ہیں؟ میں نے حیرانگی کے عالم میں پوچھا کہ بھلا وہ کیسے؟ وہ گویا ہوئی کہ بیٹا جب گولہ باری ہوتی ہے تو مورچوں میں ہمارے فوجی جوان جاگ رہے ہوتے ہیں اور جب وہ جاگتے ہیں تو ہمیں سکون کی نیند آتی ہے۔
لائن آف کنٹرول پر جانوروں کے گوشت کے لوتھڑے بکھرے پڑے تھے، جو اس بات کی غمازی کر رہے تھے کہ بھارت نے لائن آف کنٹرول پر جانوروں کو کس بے دردی سے اپنے گولوں کے نشانوں پر رکھا ہوا ہے۔ گھروں کے دیواروں میں مارٹر کے گولوں کے نشانات اور گھروں کے صحنوں میں پڑے ہوئے گولوں کے ٹکرے بھارتی جارحیت کی داستان بیان کر رہے تھے۔ دوپہر کا کھانا وہاں موجود لوگوں کے ساتھ کھایا اور ہندوستانی فوج کی لائن آف کنٹرول پر نقل و حرکت دیکھنے کے بعد واپسی کی راہ لی۔ کیوں کہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں تھی کہ انڈین آرمی کب دوبارہ گولہ باری شروع کردے، اس لئے اپنے گھر جانے میں ہی عافیت تھی۔ اس سفر کے دوران پاک آرمی کے جذبہ حب الوطنی اور وہاں موجود لوگوں کی ہمت اور دلیری نے جو انمٹ نقوش ثبت کئے وہ تاحیات موجود رہیں گے۔
[poll id="623"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس