پبلک ٹرانسپورٹ اور خواتین کے مسائل
یوں تو شہرکراچی کے مسائل بے شمار ہیں لیکن پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ دن بہ دن سنگین تر ہوتا جارہاہے
یوں تو شہرکراچی کے مسائل بے شمار ہیں لیکن پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ دن بہ دن سنگین تر ہوتا جارہاہے جو کسر باقی رہ گئی تھی وہ چنگ چی رکشاؤں کی بندش نے پوری کردی ہے، ہر چند کہ یہ غیر قانونی سواری تھی لیکن عوام کو سہولت فراہم کررہی تھی۔ اب عالم یہ ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کی قلت کے باعث ملازمت پیشہ افراد، خواتین اور طالبات جن شدید مشکلات کا سامنا کررہے ہیں اس کا تصور وہ لوگ نہیں کرسکتے جن کی اپنی سواریاں ہیں۔
شہریوں کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفرکرنا مشکل ترین ہوچکا ہے، شہری اور ملازمت پیشہ خواتین اور طالبات گھنٹوں بس اسٹاپس پرکھڑی نظر آتی ہیں جو گاڑی آتی ہے وہ پہلے ہی سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔ شہری سفر کی مشکلات سے ذہنی دباؤکا شکار ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق شہر میں ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد کم و بیش 18 لاکھ ہے، بمشکل ملنے والی بسوں میں دوران سفر خواتین کی اکثریت کو کربناک صورت حال کا سامنا ہوتا ہے، بسوں اور ویگنوں میں خواتین کے لیے علیحدہ کمپارٹمنٹ میں خواتین کوکھڑی ہوکر سفر پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ ملک کی ترقی میں خواتین اہم کردار ادا کررہی ہیں۔
لیکن کراچی میں تباہ حال پبلک ٹرانسپورٹ سے انھیں شدید پریشانی اور کرب سے گزرنا پڑ رہا ہے ملازمت پیشہ اور نوکری کرنے والی خواتین اور طالبات کو کام پر اور تعلیمی اداروں میں لازمی جانا پڑتا ہے۔ لیکن ٹرانسپورٹ کی کمی کے باعث انھیں روز کافی دیر انتظار کرنے پر مطلوبہ بس بمشکل ملتی ہے جس سے وہ ایک سے زائد گاڑیاں بدل کر یا ٹیکسی اور رکشا کے منہ مانگے کرائے ادا کرکے مطلوبہ مقام پر پہنچتی ہیں۔
بسوں اور منی بسوں میں خواتین کے بیٹھنے کی جگہ پر اکثر مردوں کو بٹھاکر اور کھڑا کرکے سفر کرایا جاتا ہے جس سے خواتین پریشان رہتی ہیں۔ جب کسی خاتون کو اپنے بچے کی تعلیم یا صحت کے سلسلے میں گھر سے باہر جانا پڑتا ہے تو ٹرانسپورٹ کی قلت کے باعث جب وہ مجبوری میں رکشا کرتی ہیں تو ڈرائیور بغیر میٹر کے رکشے میں منہ مانگی رقم پر ضد کرتے ہیں اور گیس کی بندش کا بہانہ کرکے کرائے وصول کرتے ہیں۔ بسوں اور ویگنوں میں فحش گانے چلائے جاتے ہیں جس سے خواتین کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے کیا ایسے فحش گانے ڈرائیور اور مرد مسافر اپنے گھروں میں خواتین کے ہمراہ سن سکتے ہیں؟
ماضی میں شہر کراچی میں ٹرام، سرکلر ٹرین، ڈبل ڈیکر بسیں، سرکاری اور منی بسیں، KTC بسیں اور دیگر پرائیویٹ بسیں چلا کرتی تھی تب شہر کراچی کی آبادی کم اور پبلک ٹرانسپورٹ زیادہ ہوتی تھی پھر یکے بعد دیگرے پبلک ٹرانسپورٹ بند ہوتی گئی اور آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہوتا چلا گیا۔
آزادی کے وقت ساڑھے 4 لاکھ آبادی والا شہر کراچی آباد کاری کے مراحل طے کرتے ہوئے آج 2 کروڑ آبادی کا شہر بن چکا ہے لیکن انتظامی اور تہذیبی لحاظ سے اسے میٹروپولیٹن شہر نہیں کہا جاسکتا، یہ صرف آبادی اور رقبے کے لحاظ سے دنیا کے بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے، کراچی کو پرامن روشنیوں کا شہر بنانے کے لیے اور مقامی سطح پر لوگوں کو مسائل سے نکالنے کے لیے نئی مجوزہ ضلع حکومت کو اس قدر قابل اور اتنا با اختیار ہونا چاہیے کہ وہ شہریوں کی متوقع توقعات پر پورا اترے، کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام انتہائی فرسودہ ہوگیا ہے۔
بس اسٹاپس میں بسوں کی قلت کے باعث شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے چوں کہ انھیں گھنٹوں تک گاڑیوں کا انتظار کرنے کے باوجود سفر کے لیے مطلوبہ گاڑی بہ مشکل ہی ملتی ہے جس کی وجہ سے ایک سے زائد گاڑیوں کے ذریعے یا پھر رکشے ڈرائیور کے منہ مانگے کرایہ ادا کرنے کے ذریعے مخصوص مقامات تک پہنچتے ہیں، جس سے ملازمت پیشہ افراد کو مقررہ وقت پر نہ پہنچنے کے باعث مالکان کی جانب سے شدید برہمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کل تک شہر میں چنگ چیوں کی بھرمار تھی جس سے لوگوں کو ایک طرف سہولت میسر تھی تو دوسری طرف شہریوں کو مشکلات کا بھی سامنا تھا، غیر تربیت یافتہ ڈرائیور بے ہنگم طریقے سے چنگ چی چلاتے تھے، مشاہدے کے مطابق چنگ چنی میں سفر کرنے کے دوران ڈرائیور آخری جانب کی نشستوں میں تشریف فرما خواتین کے سامنے اکثر مرد کھڑے ہوکر سفر کرتے تھے اسی طرح کا حال بسوں میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ جس سے انھیں شدید ذہنی الجھن کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ شہر میں بڑی گاڑیوں کے لیے فلائی اوورز اور پل تعمیر ہونے کے باوجود بھی ٹریفک جام ایک اہم مسئلہ ہے، جو قابو میں نہیں آرہا ہے۔
حکومت سندھ پبلک ٹرانسپورٹ کی بہتری کے لیے فوری طویل المیعاد منصوبے شروع کرے، پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کی اصلاح کی جائے ورنہ شہر کراچی سے نام نہاد پبلک ٹرانسپورٹ نام کی چیز ختم ہوجائے گی اور مجبور شہریوں کو پیدل سفر کرنا پڑے گا، ٹریفک پولیس پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کے لیے مخصوص نشستوں میں اضافے کے علاوہ لیڈیز کمپارٹمنٹ میں مردوں کے داخلے اور ان کے بیٹھنے یا کھڑے ہونے کی ممانعت پر سختی سے عمل کرائے، خواتین کے لیے علیحدہ بس سروس چلائی جائے حکومت خواتین کے لیے علیحدہ ٹرانسپورٹ سروس کے حوالے سے قانون سازی کرے، کراچی سرکلر ریلوے کے لیے مختص زمین بازیاب کرائی جائے اور اس پر جدید ترین ٹرین سروس شروع کی جائے، ٹریفک پولیس کو ٹریفک کنٹرول کرنے کی تربیت دی جائے، نئی مسافر گاڑیاں شہر کی آبادی کے تناسب سے سڑکوں پر لائی جائیں۔
شہریوں کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفرکرنا مشکل ترین ہوچکا ہے، شہری اور ملازمت پیشہ خواتین اور طالبات گھنٹوں بس اسٹاپس پرکھڑی نظر آتی ہیں جو گاڑی آتی ہے وہ پہلے ہی سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔ شہری سفر کی مشکلات سے ذہنی دباؤکا شکار ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق شہر میں ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد کم و بیش 18 لاکھ ہے، بمشکل ملنے والی بسوں میں دوران سفر خواتین کی اکثریت کو کربناک صورت حال کا سامنا ہوتا ہے، بسوں اور ویگنوں میں خواتین کے لیے علیحدہ کمپارٹمنٹ میں خواتین کوکھڑی ہوکر سفر پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ ملک کی ترقی میں خواتین اہم کردار ادا کررہی ہیں۔
لیکن کراچی میں تباہ حال پبلک ٹرانسپورٹ سے انھیں شدید پریشانی اور کرب سے گزرنا پڑ رہا ہے ملازمت پیشہ اور نوکری کرنے والی خواتین اور طالبات کو کام پر اور تعلیمی اداروں میں لازمی جانا پڑتا ہے۔ لیکن ٹرانسپورٹ کی کمی کے باعث انھیں روز کافی دیر انتظار کرنے پر مطلوبہ بس بمشکل ملتی ہے جس سے وہ ایک سے زائد گاڑیاں بدل کر یا ٹیکسی اور رکشا کے منہ مانگے کرائے ادا کرکے مطلوبہ مقام پر پہنچتی ہیں۔
بسوں اور منی بسوں میں خواتین کے بیٹھنے کی جگہ پر اکثر مردوں کو بٹھاکر اور کھڑا کرکے سفر کرایا جاتا ہے جس سے خواتین پریشان رہتی ہیں۔ جب کسی خاتون کو اپنے بچے کی تعلیم یا صحت کے سلسلے میں گھر سے باہر جانا پڑتا ہے تو ٹرانسپورٹ کی قلت کے باعث جب وہ مجبوری میں رکشا کرتی ہیں تو ڈرائیور بغیر میٹر کے رکشے میں منہ مانگی رقم پر ضد کرتے ہیں اور گیس کی بندش کا بہانہ کرکے کرائے وصول کرتے ہیں۔ بسوں اور ویگنوں میں فحش گانے چلائے جاتے ہیں جس سے خواتین کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے کیا ایسے فحش گانے ڈرائیور اور مرد مسافر اپنے گھروں میں خواتین کے ہمراہ سن سکتے ہیں؟
ماضی میں شہر کراچی میں ٹرام، سرکلر ٹرین، ڈبل ڈیکر بسیں، سرکاری اور منی بسیں، KTC بسیں اور دیگر پرائیویٹ بسیں چلا کرتی تھی تب شہر کراچی کی آبادی کم اور پبلک ٹرانسپورٹ زیادہ ہوتی تھی پھر یکے بعد دیگرے پبلک ٹرانسپورٹ بند ہوتی گئی اور آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہوتا چلا گیا۔
آزادی کے وقت ساڑھے 4 لاکھ آبادی والا شہر کراچی آباد کاری کے مراحل طے کرتے ہوئے آج 2 کروڑ آبادی کا شہر بن چکا ہے لیکن انتظامی اور تہذیبی لحاظ سے اسے میٹروپولیٹن شہر نہیں کہا جاسکتا، یہ صرف آبادی اور رقبے کے لحاظ سے دنیا کے بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے، کراچی کو پرامن روشنیوں کا شہر بنانے کے لیے اور مقامی سطح پر لوگوں کو مسائل سے نکالنے کے لیے نئی مجوزہ ضلع حکومت کو اس قدر قابل اور اتنا با اختیار ہونا چاہیے کہ وہ شہریوں کی متوقع توقعات پر پورا اترے، کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام انتہائی فرسودہ ہوگیا ہے۔
بس اسٹاپس میں بسوں کی قلت کے باعث شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے چوں کہ انھیں گھنٹوں تک گاڑیوں کا انتظار کرنے کے باوجود سفر کے لیے مطلوبہ گاڑی بہ مشکل ہی ملتی ہے جس کی وجہ سے ایک سے زائد گاڑیوں کے ذریعے یا پھر رکشے ڈرائیور کے منہ مانگے کرایہ ادا کرنے کے ذریعے مخصوص مقامات تک پہنچتے ہیں، جس سے ملازمت پیشہ افراد کو مقررہ وقت پر نہ پہنچنے کے باعث مالکان کی جانب سے شدید برہمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کل تک شہر میں چنگ چیوں کی بھرمار تھی جس سے لوگوں کو ایک طرف سہولت میسر تھی تو دوسری طرف شہریوں کو مشکلات کا بھی سامنا تھا، غیر تربیت یافتہ ڈرائیور بے ہنگم طریقے سے چنگ چی چلاتے تھے، مشاہدے کے مطابق چنگ چنی میں سفر کرنے کے دوران ڈرائیور آخری جانب کی نشستوں میں تشریف فرما خواتین کے سامنے اکثر مرد کھڑے ہوکر سفر کرتے تھے اسی طرح کا حال بسوں میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ جس سے انھیں شدید ذہنی الجھن کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ شہر میں بڑی گاڑیوں کے لیے فلائی اوورز اور پل تعمیر ہونے کے باوجود بھی ٹریفک جام ایک اہم مسئلہ ہے، جو قابو میں نہیں آرہا ہے۔
حکومت سندھ پبلک ٹرانسپورٹ کی بہتری کے لیے فوری طویل المیعاد منصوبے شروع کرے، پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کی اصلاح کی جائے ورنہ شہر کراچی سے نام نہاد پبلک ٹرانسپورٹ نام کی چیز ختم ہوجائے گی اور مجبور شہریوں کو پیدل سفر کرنا پڑے گا، ٹریفک پولیس پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کے لیے مخصوص نشستوں میں اضافے کے علاوہ لیڈیز کمپارٹمنٹ میں مردوں کے داخلے اور ان کے بیٹھنے یا کھڑے ہونے کی ممانعت پر سختی سے عمل کرائے، خواتین کے لیے علیحدہ بس سروس چلائی جائے حکومت خواتین کے لیے علیحدہ ٹرانسپورٹ سروس کے حوالے سے قانون سازی کرے، کراچی سرکلر ریلوے کے لیے مختص زمین بازیاب کرائی جائے اور اس پر جدید ترین ٹرین سروس شروع کی جائے، ٹریفک پولیس کو ٹریفک کنٹرول کرنے کی تربیت دی جائے، نئی مسافر گاڑیاں شہر کی آبادی کے تناسب سے سڑکوں پر لائی جائیں۔