سرگزشت … آپ بیتی

سید ذوالفقار علی بخاری جو زیڈ، اے بخاری کے نام سے مشہور ہوئے اور براڈ کاسٹنگ کا اہم نام ہیں

1937ء میں سید ذوالفقار علی بخاری بی بی سی میں تربیت حاصل کرنے جب لندن پہنچے تو پورٹ مین اسکائر میں اس فلیٹ میں جا کر قیام کیا جہاں مشہور اہل قلم، آلڈوس ہکسلے اور مشہور لکھ پتی کرسٹوفر وڈ رہتے تھے۔

اپنی خود نوشت آپ بیتی ''سرگزشت'' میں بخاری لکھتے ہیں ''آلڈوس اور کرسٹوفر تو دوستی کی بنا پر جاتے وقت اپنا فلیٹ مجھے دے گئے تھے مگر لوگوں نے سمجھا کہ جو شخص آلڈوس ہکسلے اورکرسٹوفر وڈ کے فلیٹ میں آیا ہے ضرورکوئی بڑا آدمی ہو گا۔ یہاں حیثیت یہ کہ میں ایک ہزار ایک روپے ماہوارکا اسٹیشن ڈائریکٹر تھا اور بس۔ گلے میں پڑا ڈھول بجانا ہی پڑا۔ چنانچہ پورٹ مین اسکائر سے میری ملمع کی زندگی کا آغاز ہوا۔''

زید اے بخاری نے لارڈ ولنگڈن سے اپنی ملاقات کا بھی ذکر لکھا ہے۔ یہ جب وائسرائے ہند تھے تو بخاری صاحب سے ان کی قربت تھی۔ لکھتے ہیں۔ ''میں ان کے مکان پر گیا گھنٹی بجائی، ایک ملازم آیا اورکہا، اوپر لارڈ ولنگڈن تمہارا انتظارکر رہے ہیں، میں اوپرگیا تو دو تین دروازے نظرآئے۔ کچھ پتہ نہ چلا کہ کس دروازے پر دستک دوں، خیر ایک دروازے پر دستک دی اور اندر چلا گیا۔ ایک عورت اپرن باندھے جھاڑ پونچھ کر رہی تھی۔

غور سے دیکھا تو لیڈی ولنگڈن! والسرائیکل لاج میں رہنے والی لیڈی ولنگڈن، کروڑوں انسانوں پر حکومت کرنے والی، سیکڑوں ملازم رکھنے والی لیڈی ولنگڈن! مجھے دیکھا تو بڑے تپاک سے ملیں اور کہاکہ میرے میاں ساتھ والے کمرے میں ہیں۔

تم ان کے پاس جاؤ، میں جھاڑ پونچھ کر کے ابھی آتی ہوں'' بخاری صاحب بتاتے ہیں کہ لارڈ ولنگڈن سے ملاقات ہوئی اور بڑی دیر تک ہندوستان کی سیاست پر گفتگو ہوتی رہی، پھر انگلستان کی باری آئی۔ انھوں نے بخاری صاحب سے پوچھا کہ وزیر اعظم لارڈ بالڈون سے ملے۔ انھوں نے کہا، جی ہاں۔ ولنگڈن نے سوال کیا، کیا خیال ہے تمہارا اس کے بارے میں۔ بخاری صاحب نے جواب دیا ''صاحب! اگر وہ جلدی ریٹائر نہ ہوا تو پاگل ہو جائے گا'' لارڈ ولنگڈن نے پوچھا، کیوں؟ بخاری صاحب نے کہا انھوں نے بیس پچیس منٹ مجھ سے باتیں کیں اور اس دوران میں دونوں ہاتھوں سے متواتر چٹکیاں بجاتے رہے۔

زیڈ اے بخاری نے بی بی سی کے مضافاتی دفتر میں زیادہ وقت گزارا اور وہاں رہ کر یہ سیکھا کہ کام چھوٹے پیمانے پرکیوںکر چلتا ہے۔ اس تربیت کا حال بتاتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ''میں نے انگلستان میں ٹریننگ سے کچھ حاصل کیا یا نہیں اس کو چھوڑیے البتہ ایک کام ایسا کیا جو تقریباً ہر ٹریننگ پر جانے والا کرتا ہے یعنی یہ کہ ایک موٹرکار خرید لی۔ یہ میری پہلی نئی گاڑی تھی۔''

سید ذوالفقار علی بخاری جو زیڈ، اے بخاری کے نام سے مشہور ہوئے اور براڈ کاسٹنگ کا اہم نام ہیں۔ اپنی آپ بیتی کی ابتدا کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں۔ ''میری زندگی کے طوفان کی منجدھار ریڈیو ہے، جی چاہتا ہے کہ داستان کا آغاز اسی منجدھار سے کروں۔''

بخاری صاحب کی آل انڈیا ریڈیو کے سربراہ فیلڈن سے پہلی ہی ملاقات میں دوستی ہو گئی اور ایسی قربت بڑھی کہ افسری ماتحتی کا معاملہ ہی ختم ہو گیا، زیڈ اے بخاری شملہ میں مشرقی زبانوں میں امتحان دینے والے انگریزی فوجی اور انتظامی افسروں کا امتحان لے کر انھیں سند دینے والے محکمے میں کام کر رہے تھے۔ یہیں سے ریڈیو میں آنے کی سبیل ہوئی۔ دہلی میں انٹرویو ہوا اور ڈائریکٹر آف پروگرامزکے عہدے کے لیے منتخب کر لیے گئے۔ جو دوسرے تین افراد منتخب ہوئے تھے وہ سجاد سرور نیازی، اسرار الحق مجاز اور آغا اشرف تھے۔ دہلی میں علی پور روڈ پر ایک کرائے کا بنگلہ ریڈیو کے لیے لیا گیا تھا وہیں براڈ کاسٹنگ اسٹوڈیو بنائے گئے۔ بخاری صاحب اور نیازی کی دوستی کی بنیاد یہیں پڑی اور ہمالیہ کی طرح اپنی جگہ قائم رہی۔

زیڈ اے بخاری ذہین آدمی تھے، براڈ کاسٹر تھے اورکمال کے صداکار، وہ دہلی ریڈیو کے اسٹیشن ڈائریکٹر رہے، کلکتہ میں بھی اور پھر بمبئی میں اسٹیشن ڈائریکٹر رہے۔ پاکستان میں تو براڈ کاسٹنگ کے بانی ہی وہ تھے۔ ریڈیو پاکستان کو عروج ان کی سربراہی ہی میں حاصل ہوا۔ کراچی میں براڈ کاسٹنگ ہاؤس انھوں نے قائم کیا اور اس کے جدید اور خوبصورت اسٹوڈیو اپنی خاص نگرانی میں بنوائے۔

بخاری صاحب کی ''سرگزشت'' میں زیادہ تر اس زمانے کا ذکر ہے جو ہندوستان میں گزرا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ بخاری صاحب کے بڑے بھائی احمد شاہ جو پطرس بخاری کے نام سے مشہور ہیں، دہلی ریڈیو کے اسٹیشن ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور زیڈ اے بخاری کو اسسٹنٹ اسٹیشن ڈائریکٹر بنایاگیا اور یار لوگ آل انڈیا ریڈیو کو ''بخاری برادرز کارپوریشن'' کہنے لگے۔


بخاری صاحب نے ان دنوں کا ایک واقعہ بیان کیا ہے وہ لکھتے ہیں ''شاہ جارج پنجم کا انتقال ہوا، ہمیں حکم دیا گیا کہ تمام پروگرام بندکر دو صرف خبریں اور مغربی موسیقی کے ریکارڈ بجاؤ، دیکھو خبریں سناتے وقت لہجہ ایسا اختیار کرو جیسے تمہارا اپنا کوئی مر گیا ہے، میں نے ایک کارندے کو اس بات پر مقرر کیا کہ سارا دن بغیر کچھ کہے سنے اداس مغربی موسیقی کے ریکارڈ بجاتا رہے اور آغا اشرف کو خبریں پڑھنے پر مامور کیا اس زمانے میں اسٹوڈیو میں ایک گھنٹی لگی ہوتی تھی اسے دائیں طرف گھماؤ تو اناؤنسر کی آواز سنائی دیتی تھی اور بائیں طرف گھماؤ تو موسیقی کے اسٹوڈیو کا پروگرام سنائی دینے لگتا تھا۔

آغا اشرف کو سخت کھانسی آ رہی تھی مگر اس حالت میں بھی بادشاہ سلامت کی بیماری اور موت کا حال سنانے مائیکرو فون کے سامنے آ بیٹھے۔ خبروں کے دوران میں اعلان کیا، حضور ملک معظم نے انتقال سے پانچ منٹ پہلے فرمایا یہاں ان کو کھانسی آئی تو جھپٹ گھنٹی بائیں طرف گھما دی۔ موسیقی کے اسٹوڈیو کی آواز سنائی دینے لگی۔ وہاں طبلہ نواز، بابا ملنگ خاں فرمارہے تھے۔

''یہ میری ہتھوڑی کون حرام زادہ لے گیا ہے؟''

اب پورا فقرہ یوں بنا ''حضور ملک معظم نے انتقال سے پانچ منٹ پہلے فرمایا ''کہ میری ہتھوڑی کون حرام زادہ لے گیا ہے''

یہ نشر ہونا تھا کہ خدا دے اور بندہ لے، حکومت غضب ناک ہو گئی۔ خدا خدا کر کے لارڈ ولنگڈن نے معاملہ رفع دفع کرایا اور بخاری صاحب کی جان بچی ورنہ دلی سے ان کا لازمی تبادلہ ہو جاتا۔

دلی میں بخاری صاحب کے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ ایک دن ان کے دوست اور رفیق کار، سجاد سرور نیازی خوش خوش ان کے کمرے میں آئے اور کہنے لگے کہ آج وہ ایسے شخص سے مل کر آئے ہیں جو ہاتھ دیکھنے میں کامل ہے، بخاری صاحب نے سنی ان سنی کر دی، اتفاق سے دوسرے ہی دن انھیں کارونیشن ہوٹل کے بورڈ پر اس نجومی کا نام لکھا نظر آیا۔ وہ ہوٹل کی سیڑھیوں پرچڑھ گئے، اوپر آ کر نجومی کے کمرے کا نمبر پوچھا اور چق اٹھا کر اس کے کمرے میں داخل ہو گئے۔

لکھتے ہیں ''نجومی تپاک سے ملا۔ میں نے یونہی دفع الوقتی کے لیے اسے اپنا ہاتھ دکھایا۔ میرا ہاتھ دیکھ کر وہ شخص سوچ میں پڑ گیا اور ماتھے پر شکن پڑ گئے۔ اب میں گھبرایا پوچھا فرمایئے کیا دیکھا؟ پہلے تو وہ چپ رہا پھر بولا، میرا علم بتاتا ہے کہ بخاری مر چکا ہے مگر آپ میرے سامنے بیٹھے ہیں، بس آپ تشریف لے جائے''

بخاری دفتر آئے، نیازی کو یہ واقعہ سنایا اور لاحول پڑھی۔ پھر یہ ہوا کہ وہ صحن کے باغ میں جا کر مالی کو درختوں کی چھٹائی کی ہدایت دیتے ہوئے جیسے ہی ایک چبوترے پر چڑھے ان کے پاؤں تلے کی زمین پھٹ گئی اور وہ اور ان کے ساتھ مالی ایک اندھے کنویں میں گرکر بے ہوش ہو گئے۔ باہر ایک کہرام مچ گی۔

انجینئر نے شہر بھر کے ڈاکٹروں کو بلا لیا، آغا اشرف نے فیلڈن کو فون کر دیا، فائر بریگیڈ کو طلب کر لیا گیا کسی نہ کسی طرح بخاری صاحب اور مالی کو جو مردہ نظر آتے تھے کنویں سے نکالاگیا ایک نوجوان ڈاکٹر ہاشمی تھے انھوں نے بخاری صاحب کے مردہ جسم میں یکے بعد دیگرے دو انجکشن لگائے، بخاری صاحب کا دل دھڑکنے لگا اور وہ مردوں سے دوبارہ زندوں میں آ ملے۔ بخاری صاحب کی تیمارداری کے لیے نرسوں کی تلاش ہوئی نہ ملیں تو فیلڈن نے لارڈ ولنگڈن کو فون کیا۔ اس نے وائسرائے ہاؤس کی دو نرسوں کو راتوں رات موٹر میں دہلی بھیجا۔ دونوں صبح سویرے دہلی پہنچیں اور بخاری صاحب کی تیمارداری میں مصروف ہو گئیں۔

بخاری صاحب لکھتے ہیں ''کوئی پندرہ سولہ دن کے بعد میں چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا۔ نیازی کی چڑھ بن گئی، کہا کیوں، اب بتاؤ نجومی سچا تھا یا نہیں میں نے کہا، نجومی کیا سچا ہوتا، میرا خدا سچا ہے۔ میں سلام کے لیے حضرت نظام الدین اولیا اور حضرت امیر خسرو کے دربار میں حاضر ہوا اور وہاں سے رخصت ہو کر فیلڈن کے ساتھ الموڑے پہاڑ پر سادھوں کی گھپاؤں میں چلا گیا''
Load Next Story