بڑھتی ہوئی درد انگیز غربت
1988ء کے بعد سے 1999ء تک ملک میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی دو دو بار حکومت رہی
BANGKOK:
وزیر اعظم نواز شریف کے قریبی عزیز اور انتہائی بااعتماد وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اعتراف کیا ہے کہ ملک کی آدھی آبادی غربت کی سطح سے نیچے ہے اور ملک کے آدھے لوگ غربت کے باعث انکم سپورٹ پروگرام کے مستحق ہیں۔
وزیر خزانہ نے اس حقیقت کا اعتراف ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے آدھے لوگوں کی ماہانہ آمدنی دس ہزار روپے بھی نہیں ہے۔ وزیر خزانہ کا یہ اعتراف نہایت تشویشناک اور ان حکومتوں کے لیے شرمناک ہے جو یہ کہتے نہیں تھکتیں کہ ملک میں غربت اور مہنگائی میں کمی ہو رہی ہے۔ موجودہ حکومت اپنی مدت کا دو سال سے زیادہ عرصہ مکمل کر چکی ہے مگر اس حکومت نے بھی اپنے عرصہ اقتدار میں مہنگائی میں مسلسل اضافہ کر کے غربت بڑھائی ہے اور ملکی معیشت میں بہتری لانے کے دعوے بھی کیے ہیں اور اسٹیٹ بینک اپنی رپورٹوں میں حکومتی دعوؤں کی تردید بھی کرتا رہا ہے۔
جس ملک کے عوام کی نصف تعداد غربت کی سطح سے نیچے ہو اس ملک کے وزیر خزانہ غیر ملکی قرضے بڑے فخر سے لیتے آ رہے ہیں جس کے نتیجے میں ملک کا ہر شخص ہی نہیں بلکہ ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ بھی مقروض پیدا ہو رہا ہے اور آئی ایم ایف سے ملنے والے ہر قرضے کے بعد ہر پاکستانی پر غیر ملکی قرضہ مزید بڑھ جاتا ہے۔
1988ء کے بعد سے 1999ء تک ملک میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی دو دو بار حکومت رہی، جس کے دوران پی پی حکومت یہ دعوے کرتی رہی کہ وہ اپنے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے منشور کے مطابق ملک کے عوام کو روٹی کپڑا اور مکان فراہم کر رہی ہے۔ پی پی کی ہر حکومت میں سرکاری اداروں میں مقررہ تعداد سے غیر ضروری بھرتیاں کر کے بیروزگاروں کو روزگار فراہم کرنے کے دعوے حقیقت بھی ہیں مگر اس کا انجام کیا ہوا۔ پاکستان اسٹیل ملز، پی آئی اے اور دیگر سرکاری ادارے جس حال پر پہنچ چکے ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔ اسٹیل ملز کے ملازمین اپنی تنخواہ کے لیے ہر ماہ وفاقی حکومت کی امداد کا انتظار کرتے ہیں جب کہ اسٹیل مل اربوں روپے کا محکمہ سوئی گیس و دیگر کا مقروض ہے۔
حکومت جو غیر ملکی قرضے لے رہی ہے، ان سے سرکاری ملازمین کو تنخواہ بھی دی جا رہی ہے۔ غیر ملکی قرضوں کا سود بھی ادا کر رہی ہے اور قرضے ادا کرنے کے لیے مزید قرضے بھی لے رہی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضے لینا بند کر دیے تھے جس کی وجہ سے غربت کم نہیں ہوئی تھی تو بڑھی بھی نہیں تھی اور ملک میں ڈالر کی ویلیو بھی کم تھی۔
یہ بھی درست ہے کہ ملک میں پیپلز پارٹی کے دور میں لوگوں کو ملازمتیں دی جاتی ہیں جس کی سزا بعد میں آنے والی مسلم لیگی حکومت بھگتتی ہے کیونکہ ہر سرکاری ادارے میں غیر ضروری بھرتیوں کی بھرمار ہوتی ہے جنھیں تنخواہیں دینا لیگی حکومت کے لیے مسئلہ بن جاتا ہے۔ مسلم لیگ کی حکومت نہ اپنے لوگ بھرتی کر سکتی ہے نہ پی پی دور میں غیر قانونی طور پر بھرتی ہونے والوں کو نکال سکتی ہے۔
حکومت اگر ایسا کرتی ہے تو اس پر لوگوں کو بھرتی کرنے کی بجائے بیروزگار کرنے کے الزامات لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ مسلم لیگ کی حکومت کو غیر ملکی قرضے لینے کی عادت پڑ چکی ہے اور وزیر خزانہ غیر ملکی قرضے بڑے فخر سے لیتے ہیں اور اسی کو معاشی ترقی اور مالی مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔ نئے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنا عہدہ سنبھالنے سے قبل کہا تھا کہ قرضے لے کر جب وزیر خزانہ فخریہ تصویر بنواتے ہیں تو ایسی تصاویر دیکھ کر ہی شرم آتی ہے۔
موجودہ وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ ملک کے آدھے لوگ انکم سپورٹ پروگرام کے مستحق ہیں تو وزیر خزانہ نے کبھی سوچا کہ ملک میں غربت کیوں بڑھ رہی ہے اور وہ خود کہاں تک اس کے ذمے دار ہیں۔
وزیر خزانہ کا زیادہ وقت اور دورے غیر ملکی قرضوں کے لیے ہوتے ہیں اور قرض دینے والے اداروں کو قرض دینے سے قبل ان کی واپسی کی فکر ہوتی ہے۔ وہ قرض اپنی شرائط پر دیتے ہیں اور حکومت پاکستان کو پابند کرتے ہیں کہ وہ اپنے عوام کو سبسڈی نہ دے بلکہ دی ہوئی سبسڈی واپس لے اور گیس، بجلی و دیگر اشیا کی قیمتیں بڑھائے۔ حکومت قرضے لینے کے لیے عالمی اداروں کی ہر شرط تسلیم کر لیتی ہے اور وزیر خزانہ عالمی اداروں سے ملک کے غریبوں کی حالت پوشیدہ رکھتے ہیں وہ وہاں حقیقت کا اعتراف نہیں کرتے۔
ہر غیر ملکی قرض ملنے کے بعد ملک میں غربت اور مہنگائی بڑھ جاتی ہے۔ عوام کی زندگی دوبھر ہو چکی ہے اور مسلم لیگ کی حکومت بھی سوا دو سال میں غربت کم کر سکی ہے نہ مہنگائی۔ لیگی حکومت میں لوگوں کو روزگار ملتا ہے نہ کوئی ریلیف البتہ مہنگائی ضرور بڑھتی رہتی ہے۔ ماضی کی دو حکومتوں میں بھی یہی ہوا اور لیگی تیسری حکومت بھی مہنگائی اور غربت مسلسل بڑھا رہی ہے اور محض دعوے ہی کیے جا رہے ہیں۔
ملک میں غربت کے باعث مہنگائی اور جرائم بڑھ رہے ہیں اور خودکشیاں جاری ہیں۔ تعلیم کے بغیر تو رہا جا سکتا ہے مگر علاج کے بغیر نہیں رہا جا سکتا اور ملک میں دواؤں کی قیمتیں اور ڈاکٹروں کی فیسیں اور اسپتالوں کے اخراجات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ غریبوں کے لیے علاج کرانا ممکن نہیں رہا جس سے ہلاکتیں بڑھ رہی ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں نہ دوائیں ہیں نہ عملہ اس لیے غریب کے پاس مرنے کے سوا کوئی چارا نہیں رہا۔
غریبوں کے لیے تو کیا متوسط طبقے کے لیے بھی گھر بنانا ناممکن ہو چکا ہے وزیر خزانہ دس ہزار روپے ماہانہ کمانے والی ملک کی نصف آبادی سے پوچھیں کہ وہ کس حال میں ہے دس ہزار روپے ماہانہ میں تو جھگیوں اور فٹ پاتھ پر بھی نہیں رہا جا سکتا۔ وزیر خزانہ کو جب ملک کے غریبوں کی حالت اور حقائق کا علم ہے تو وہ ان غریبوں کی حالت بدلنے کا معاشی پروگرام حکومت کو کیوں بنا کر نہیں دیتے تا کہ وزیر اعظم اس ملک سے غربت کے خاتمے پر توجہ دے سکیں۔ ملک کے غریب لیگی حکومت سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں اور الیکشن میں پونے تین سال باقی ہیں جو جلد گزر جائیں گے۔
وزیر اعظم نواز شریف کے قریبی عزیز اور انتہائی بااعتماد وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اعتراف کیا ہے کہ ملک کی آدھی آبادی غربت کی سطح سے نیچے ہے اور ملک کے آدھے لوگ غربت کے باعث انکم سپورٹ پروگرام کے مستحق ہیں۔
وزیر خزانہ نے اس حقیقت کا اعتراف ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے آدھے لوگوں کی ماہانہ آمدنی دس ہزار روپے بھی نہیں ہے۔ وزیر خزانہ کا یہ اعتراف نہایت تشویشناک اور ان حکومتوں کے لیے شرمناک ہے جو یہ کہتے نہیں تھکتیں کہ ملک میں غربت اور مہنگائی میں کمی ہو رہی ہے۔ موجودہ حکومت اپنی مدت کا دو سال سے زیادہ عرصہ مکمل کر چکی ہے مگر اس حکومت نے بھی اپنے عرصہ اقتدار میں مہنگائی میں مسلسل اضافہ کر کے غربت بڑھائی ہے اور ملکی معیشت میں بہتری لانے کے دعوے بھی کیے ہیں اور اسٹیٹ بینک اپنی رپورٹوں میں حکومتی دعوؤں کی تردید بھی کرتا رہا ہے۔
جس ملک کے عوام کی نصف تعداد غربت کی سطح سے نیچے ہو اس ملک کے وزیر خزانہ غیر ملکی قرضے بڑے فخر سے لیتے آ رہے ہیں جس کے نتیجے میں ملک کا ہر شخص ہی نہیں بلکہ ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ بھی مقروض پیدا ہو رہا ہے اور آئی ایم ایف سے ملنے والے ہر قرضے کے بعد ہر پاکستانی پر غیر ملکی قرضہ مزید بڑھ جاتا ہے۔
1988ء کے بعد سے 1999ء تک ملک میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی دو دو بار حکومت رہی، جس کے دوران پی پی حکومت یہ دعوے کرتی رہی کہ وہ اپنے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے منشور کے مطابق ملک کے عوام کو روٹی کپڑا اور مکان فراہم کر رہی ہے۔ پی پی کی ہر حکومت میں سرکاری اداروں میں مقررہ تعداد سے غیر ضروری بھرتیاں کر کے بیروزگاروں کو روزگار فراہم کرنے کے دعوے حقیقت بھی ہیں مگر اس کا انجام کیا ہوا۔ پاکستان اسٹیل ملز، پی آئی اے اور دیگر سرکاری ادارے جس حال پر پہنچ چکے ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔ اسٹیل ملز کے ملازمین اپنی تنخواہ کے لیے ہر ماہ وفاقی حکومت کی امداد کا انتظار کرتے ہیں جب کہ اسٹیل مل اربوں روپے کا محکمہ سوئی گیس و دیگر کا مقروض ہے۔
حکومت جو غیر ملکی قرضے لے رہی ہے، ان سے سرکاری ملازمین کو تنخواہ بھی دی جا رہی ہے۔ غیر ملکی قرضوں کا سود بھی ادا کر رہی ہے اور قرضے ادا کرنے کے لیے مزید قرضے بھی لے رہی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضے لینا بند کر دیے تھے جس کی وجہ سے غربت کم نہیں ہوئی تھی تو بڑھی بھی نہیں تھی اور ملک میں ڈالر کی ویلیو بھی کم تھی۔
یہ بھی درست ہے کہ ملک میں پیپلز پارٹی کے دور میں لوگوں کو ملازمتیں دی جاتی ہیں جس کی سزا بعد میں آنے والی مسلم لیگی حکومت بھگتتی ہے کیونکہ ہر سرکاری ادارے میں غیر ضروری بھرتیوں کی بھرمار ہوتی ہے جنھیں تنخواہیں دینا لیگی حکومت کے لیے مسئلہ بن جاتا ہے۔ مسلم لیگ کی حکومت نہ اپنے لوگ بھرتی کر سکتی ہے نہ پی پی دور میں غیر قانونی طور پر بھرتی ہونے والوں کو نکال سکتی ہے۔
حکومت اگر ایسا کرتی ہے تو اس پر لوگوں کو بھرتی کرنے کی بجائے بیروزگار کرنے کے الزامات لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ مسلم لیگ کی حکومت کو غیر ملکی قرضے لینے کی عادت پڑ چکی ہے اور وزیر خزانہ غیر ملکی قرضے بڑے فخر سے لیتے ہیں اور اسی کو معاشی ترقی اور مالی مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔ نئے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنا عہدہ سنبھالنے سے قبل کہا تھا کہ قرضے لے کر جب وزیر خزانہ فخریہ تصویر بنواتے ہیں تو ایسی تصاویر دیکھ کر ہی شرم آتی ہے۔
موجودہ وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ ملک کے آدھے لوگ انکم سپورٹ پروگرام کے مستحق ہیں تو وزیر خزانہ نے کبھی سوچا کہ ملک میں غربت کیوں بڑھ رہی ہے اور وہ خود کہاں تک اس کے ذمے دار ہیں۔
وزیر خزانہ کا زیادہ وقت اور دورے غیر ملکی قرضوں کے لیے ہوتے ہیں اور قرض دینے والے اداروں کو قرض دینے سے قبل ان کی واپسی کی فکر ہوتی ہے۔ وہ قرض اپنی شرائط پر دیتے ہیں اور حکومت پاکستان کو پابند کرتے ہیں کہ وہ اپنے عوام کو سبسڈی نہ دے بلکہ دی ہوئی سبسڈی واپس لے اور گیس، بجلی و دیگر اشیا کی قیمتیں بڑھائے۔ حکومت قرضے لینے کے لیے عالمی اداروں کی ہر شرط تسلیم کر لیتی ہے اور وزیر خزانہ عالمی اداروں سے ملک کے غریبوں کی حالت پوشیدہ رکھتے ہیں وہ وہاں حقیقت کا اعتراف نہیں کرتے۔
ہر غیر ملکی قرض ملنے کے بعد ملک میں غربت اور مہنگائی بڑھ جاتی ہے۔ عوام کی زندگی دوبھر ہو چکی ہے اور مسلم لیگ کی حکومت بھی سوا دو سال میں غربت کم کر سکی ہے نہ مہنگائی۔ لیگی حکومت میں لوگوں کو روزگار ملتا ہے نہ کوئی ریلیف البتہ مہنگائی ضرور بڑھتی رہتی ہے۔ ماضی کی دو حکومتوں میں بھی یہی ہوا اور لیگی تیسری حکومت بھی مہنگائی اور غربت مسلسل بڑھا رہی ہے اور محض دعوے ہی کیے جا رہے ہیں۔
ملک میں غربت کے باعث مہنگائی اور جرائم بڑھ رہے ہیں اور خودکشیاں جاری ہیں۔ تعلیم کے بغیر تو رہا جا سکتا ہے مگر علاج کے بغیر نہیں رہا جا سکتا اور ملک میں دواؤں کی قیمتیں اور ڈاکٹروں کی فیسیں اور اسپتالوں کے اخراجات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ غریبوں کے لیے علاج کرانا ممکن نہیں رہا جس سے ہلاکتیں بڑھ رہی ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں نہ دوائیں ہیں نہ عملہ اس لیے غریب کے پاس مرنے کے سوا کوئی چارا نہیں رہا۔
غریبوں کے لیے تو کیا متوسط طبقے کے لیے بھی گھر بنانا ناممکن ہو چکا ہے وزیر خزانہ دس ہزار روپے ماہانہ کمانے والی ملک کی نصف آبادی سے پوچھیں کہ وہ کس حال میں ہے دس ہزار روپے ماہانہ میں تو جھگیوں اور فٹ پاتھ پر بھی نہیں رہا جا سکتا۔ وزیر خزانہ کو جب ملک کے غریبوں کی حالت اور حقائق کا علم ہے تو وہ ان غریبوں کی حالت بدلنے کا معاشی پروگرام حکومت کو کیوں بنا کر نہیں دیتے تا کہ وزیر اعظم اس ملک سے غربت کے خاتمے پر توجہ دے سکیں۔ ملک کے غریب لیگی حکومت سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں اور الیکشن میں پونے تین سال باقی ہیں جو جلد گزر جائیں گے۔