اوراق خزانی
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے<br />
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں
RAWALPINDI:
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں
احمد مشتاق کا یہ شعر میں نے کئی بار اپنے کالموں میں کوٹ کیا ہے کہ میرے نزدیک اس میں فن اور زندگی کے تسلسل کو جس خوب صورتی' گہرائی اور سادگی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
احمد مشتاق کا تعلق یوں تو پچھلی صدی کی پانچویں دہائی میں ابھرنے والی اس نسل سے ہے جس کے شعرا نے اردو شاعری اور بالخصوص اردو غزل کو ایک نیا اور بہت خوبصورت موڑ دیا ہے ان کے زیادہ مشہور ہم عصروں میں ناصر کاظمی' منیر نیازی' احمد فراز' ظفر اقبال' شہزاد احمد' محبوب خزاں' اطہر نفیس' شہرت بخاری' جون ایلیا' ساقی فاروقی' محسن احسان' شکیل جلالی' جمیل الدین عالی' انجم رومانی' جاوید شاہین' زہرہ نگاہ اور حبیب جالب کے نام لیے جا سکتے ہیں ۔
وہ پاک ٹی ہاؤس کے مستقل بیٹھنے والوں میں بھی تھے لیکن اس سب کے باوجود انھیں عوامی سطح پر وہ مقبولیت حاصل نہیں ہوئی جس کے وہ مندرجہ بالا فہرست میں شامل کئی شاعروں سے زیادہ مستحق تھے اس کی ایک وجہ ان کی کم گوئی' خلوت نشینی اور کم آمیزی بھی ہو سکتی ہے، مشاعروں وغیرہ میں بھی وہ بہت کم شرکت کرتے تھے اور چھپتے بھی (ایک دو رسالوں سے قطع نظر) کم کم ہی تھے، ان کی زبان میں ہلکی سی لکنت تھی لیکن اگر موضوع ان کی پسند کا ہو تو اپنے مخصوص حلقے میں کبھی کبھی میں نے انھیں کھل کر بحث کرتے بھی دیکھا ہے۔
ساٹھ کی دہائی کے وسط میں جب ان سے ذاتی تعارف ہوا تو وہ ایک غیر ملکی بینک میں ملازم تھے، کوئی بیس برس پہلے اچانک پتہ چلا کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد امریکا شفٹ ہو گئے ہیں اس دوران میں میرا سات آٹھ بار امریکا جانا ہوا لیکن باوجود کوشش کے ان سے رابطہ نہ ہو سکا شوکت فہمی اور کچھ دیگر مقامی دوستوں سے معلوم ہوا کہ وہ نہ تو کسی ادبی تقریب میں آتے جاتے ہیں اور نہ ہی ادیب برادری سے انھوں نے کوئی تعلق واسطہ رکھا ہے سو ان سے رابطہ چند ادبی رسالوں بالخصوص شمس الرحمن فاروقی کے ''شب خون'' تک محدود ہو کے رہ گیا جس میں وہ رسالہ بند ہونے تک مسلسل چھپتے رہے۔
گزشتہ برس دہلی کے ''جشن ریختہ'' میں پتہ چلا کہ وہ لوگ ان کا تازہ شعری مجموعہ شایع کر رہے ہیں میری خصوصی فرمائش پر عزیزی زمرد مغل نے تقریب کی ڈی وی ڈیز کے ساتھ مجھے اس کی ایک کاپی بھی بھجوائی ہے جس کے لیے ریختہ فاؤنڈیشن کا دلی شکریہ
''اوراق خزانی'' میں مکمل غزلوں کی تعداد 53 ہے جب کہ نا مکمل غزلوں کے اشعار' تراجم اور نظموں کا حصہ ملا جلا کر صرف اٹھارہ صفحات پر مشتمل ہے لیکن مکمل غزلوں میں بھی گنتی کی چند غزلیں بھی ایسی ہیں جن کے اشعار کی تعداد پانچ یا چھ سے زیادہ ہے مگر سب سے زیادہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کے ہر صفحے اور ہر شعر پر احمد مشتاق کے مخصوص اسلوب کی مہر صاف دکھائی دیتی ہے، فارسی میں کہتے ہیں کہ ''مشک آنست کے خود ببوید نہ کہ عطار می گوید'' جس کا آسان اور بے محاورہ ترجمہ یہ ہے کہ ''جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے'' سو مزید کوئی بات کرنے سے قبل میں نمونے کے وہ چند اشعار پیش کرتا ہوں جن کو مجھے بالکل ڈھونڈنا نہیں پڑا
پہلے بھر دیتے ہیں سامان دو عالم دل میں
پھر کسی شے کی تمنا نہیں رہنے دیتے
دل نہ میلا کرو سوکھا نہیں سارا جنگل
ابھی اک جھنڈ سے پانی کی صدا آتی ہے
کیسی ناگن ہے یہ اداسی بھی
بھری محفل میں آ کے ڈستی ہے
موت خاموشی ہے' چپ رہنے سے چپ لگ جائے گی
زندگی آواز ہے' باتیں کرو' باتیں کرو
جانے کیوں چاند ٹھہر جاتا ہے چلتے چلتے
اور اس گھر پہ جو اک عمر سے آباد نہیں
اس معرکے میں عشق بچارا کرے گا کیا
خود حسن کو ہیں جان کے لالے پڑے ہوئے
دل ناشاد کو کیوں اور بھی ناشاد کریں
وقت جو بیت گیا اب اسے کیا یاد کریں
رہنے لگا ہے شور بہت دل کے آس پاس
اب کیسے اس نواح میں تنہائی کیجیے
فٹ پاتھ پہ بھی سونے نہ دیا ترے شہر کے عزت داروں نے
ہم کتنی دور سے آئے تھے اک رات بسر کرنے کے لیے
یادیں بھی کسی سے کبھی زنجیر ہوئی ہیں
باندھو بھی ہوا کو تو ہوا آتی رہے گی
وطن بدلا مگر بدلے نہ حالات
وہی دنیا وہی اس کے سوالات
گزری ہوئی بلبلوں کا سایا
اک شاخ گلاب پر دھرا تھا
تم نے دیکھے نہیں خزاں کے رنگ
بھول جاتے بہار کے انداز
ہم سے پہلے بھی سخن ور ہوئے کیسے کیسے
ہم نے بھی تھوڑی بہت قافیہ پیمائی کی
لطف کی بات یہ ہے کہ اس پوری کتاب میں تین چار اشعار کو چھوڑ کر کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ شخص ایک طویل عرصے سے ایک اجنبی سرزمین پر سانس لے رہا ہے، ابتدا میں شمیم حنفی کا لکھا ہوا مقدمہ ایک دلچسپ اور پرمغز تحریر ہے جس سے احمد مشتاق کے شعری مزاج اور رویوں کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے آخر میں ان کے دو ایسے شعر جو گزشتہ تقریباً پچاس برس سے میرے حافظے میں پہلے دن کی طرح ترو تازہ ہیں اس اعتراف کے ساتھ کہ احمد مشتاق کی شاعری ان کے بیشتر مقبول اور نامور شاعروں کی نسبت اپنے معیار اور مرتبے کے اعتبار سے نہ صرف بہتر اور منفرد ہے بلکہ اپنے اندر ان سے زیادہ دیر زندہ رہنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔
میں نے کہا کہ دیکھ یہ میں' یہ ہوا' یہ رات
اس نے کہا کہ میری پڑھائی کا وقت ہے
رہ گیا مشتاق دل میں رنگ یاد رفتگاں
پھول مہنگے ہو گئے' قبریں پرانی ہو گئیں
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں
احمد مشتاق کا یہ شعر میں نے کئی بار اپنے کالموں میں کوٹ کیا ہے کہ میرے نزدیک اس میں فن اور زندگی کے تسلسل کو جس خوب صورتی' گہرائی اور سادگی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
احمد مشتاق کا تعلق یوں تو پچھلی صدی کی پانچویں دہائی میں ابھرنے والی اس نسل سے ہے جس کے شعرا نے اردو شاعری اور بالخصوص اردو غزل کو ایک نیا اور بہت خوبصورت موڑ دیا ہے ان کے زیادہ مشہور ہم عصروں میں ناصر کاظمی' منیر نیازی' احمد فراز' ظفر اقبال' شہزاد احمد' محبوب خزاں' اطہر نفیس' شہرت بخاری' جون ایلیا' ساقی فاروقی' محسن احسان' شکیل جلالی' جمیل الدین عالی' انجم رومانی' جاوید شاہین' زہرہ نگاہ اور حبیب جالب کے نام لیے جا سکتے ہیں ۔
وہ پاک ٹی ہاؤس کے مستقل بیٹھنے والوں میں بھی تھے لیکن اس سب کے باوجود انھیں عوامی سطح پر وہ مقبولیت حاصل نہیں ہوئی جس کے وہ مندرجہ بالا فہرست میں شامل کئی شاعروں سے زیادہ مستحق تھے اس کی ایک وجہ ان کی کم گوئی' خلوت نشینی اور کم آمیزی بھی ہو سکتی ہے، مشاعروں وغیرہ میں بھی وہ بہت کم شرکت کرتے تھے اور چھپتے بھی (ایک دو رسالوں سے قطع نظر) کم کم ہی تھے، ان کی زبان میں ہلکی سی لکنت تھی لیکن اگر موضوع ان کی پسند کا ہو تو اپنے مخصوص حلقے میں کبھی کبھی میں نے انھیں کھل کر بحث کرتے بھی دیکھا ہے۔
ساٹھ کی دہائی کے وسط میں جب ان سے ذاتی تعارف ہوا تو وہ ایک غیر ملکی بینک میں ملازم تھے، کوئی بیس برس پہلے اچانک پتہ چلا کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد امریکا شفٹ ہو گئے ہیں اس دوران میں میرا سات آٹھ بار امریکا جانا ہوا لیکن باوجود کوشش کے ان سے رابطہ نہ ہو سکا شوکت فہمی اور کچھ دیگر مقامی دوستوں سے معلوم ہوا کہ وہ نہ تو کسی ادبی تقریب میں آتے جاتے ہیں اور نہ ہی ادیب برادری سے انھوں نے کوئی تعلق واسطہ رکھا ہے سو ان سے رابطہ چند ادبی رسالوں بالخصوص شمس الرحمن فاروقی کے ''شب خون'' تک محدود ہو کے رہ گیا جس میں وہ رسالہ بند ہونے تک مسلسل چھپتے رہے۔
گزشتہ برس دہلی کے ''جشن ریختہ'' میں پتہ چلا کہ وہ لوگ ان کا تازہ شعری مجموعہ شایع کر رہے ہیں میری خصوصی فرمائش پر عزیزی زمرد مغل نے تقریب کی ڈی وی ڈیز کے ساتھ مجھے اس کی ایک کاپی بھی بھجوائی ہے جس کے لیے ریختہ فاؤنڈیشن کا دلی شکریہ
''اوراق خزانی'' میں مکمل غزلوں کی تعداد 53 ہے جب کہ نا مکمل غزلوں کے اشعار' تراجم اور نظموں کا حصہ ملا جلا کر صرف اٹھارہ صفحات پر مشتمل ہے لیکن مکمل غزلوں میں بھی گنتی کی چند غزلیں بھی ایسی ہیں جن کے اشعار کی تعداد پانچ یا چھ سے زیادہ ہے مگر سب سے زیادہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کے ہر صفحے اور ہر شعر پر احمد مشتاق کے مخصوص اسلوب کی مہر صاف دکھائی دیتی ہے، فارسی میں کہتے ہیں کہ ''مشک آنست کے خود ببوید نہ کہ عطار می گوید'' جس کا آسان اور بے محاورہ ترجمہ یہ ہے کہ ''جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے'' سو مزید کوئی بات کرنے سے قبل میں نمونے کے وہ چند اشعار پیش کرتا ہوں جن کو مجھے بالکل ڈھونڈنا نہیں پڑا
پہلے بھر دیتے ہیں سامان دو عالم دل میں
پھر کسی شے کی تمنا نہیں رہنے دیتے
دل نہ میلا کرو سوکھا نہیں سارا جنگل
ابھی اک جھنڈ سے پانی کی صدا آتی ہے
کیسی ناگن ہے یہ اداسی بھی
بھری محفل میں آ کے ڈستی ہے
موت خاموشی ہے' چپ رہنے سے چپ لگ جائے گی
زندگی آواز ہے' باتیں کرو' باتیں کرو
جانے کیوں چاند ٹھہر جاتا ہے چلتے چلتے
اور اس گھر پہ جو اک عمر سے آباد نہیں
اس معرکے میں عشق بچارا کرے گا کیا
خود حسن کو ہیں جان کے لالے پڑے ہوئے
دل ناشاد کو کیوں اور بھی ناشاد کریں
وقت جو بیت گیا اب اسے کیا یاد کریں
رہنے لگا ہے شور بہت دل کے آس پاس
اب کیسے اس نواح میں تنہائی کیجیے
فٹ پاتھ پہ بھی سونے نہ دیا ترے شہر کے عزت داروں نے
ہم کتنی دور سے آئے تھے اک رات بسر کرنے کے لیے
یادیں بھی کسی سے کبھی زنجیر ہوئی ہیں
باندھو بھی ہوا کو تو ہوا آتی رہے گی
وطن بدلا مگر بدلے نہ حالات
وہی دنیا وہی اس کے سوالات
گزری ہوئی بلبلوں کا سایا
اک شاخ گلاب پر دھرا تھا
تم نے دیکھے نہیں خزاں کے رنگ
بھول جاتے بہار کے انداز
ہم سے پہلے بھی سخن ور ہوئے کیسے کیسے
ہم نے بھی تھوڑی بہت قافیہ پیمائی کی
لطف کی بات یہ ہے کہ اس پوری کتاب میں تین چار اشعار کو چھوڑ کر کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ شخص ایک طویل عرصے سے ایک اجنبی سرزمین پر سانس لے رہا ہے، ابتدا میں شمیم حنفی کا لکھا ہوا مقدمہ ایک دلچسپ اور پرمغز تحریر ہے جس سے احمد مشتاق کے شعری مزاج اور رویوں کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے آخر میں ان کے دو ایسے شعر جو گزشتہ تقریباً پچاس برس سے میرے حافظے میں پہلے دن کی طرح ترو تازہ ہیں اس اعتراف کے ساتھ کہ احمد مشتاق کی شاعری ان کے بیشتر مقبول اور نامور شاعروں کی نسبت اپنے معیار اور مرتبے کے اعتبار سے نہ صرف بہتر اور منفرد ہے بلکہ اپنے اندر ان سے زیادہ دیر زندہ رہنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔
میں نے کہا کہ دیکھ یہ میں' یہ ہوا' یہ رات
اس نے کہا کہ میری پڑھائی کا وقت ہے
رہ گیا مشتاق دل میں رنگ یاد رفتگاں
پھول مہنگے ہو گئے' قبریں پرانی ہو گئیں