یوم آزادی بھی گزر گیا

تحریک پاکستان کی جدوجہد کی طویل تاریخ میں دو اہم یادگار ایام جن کو ہم قومی ایام کہیں گے۔

تحریک پاکستان کی جدوجہد کی طویل تاریخ میں دو اہم یادگار ایام جن کو ہم قومی ایام کہیں گے۔ پہلا 23 مارچ جس کو ہم ''یوم پاکستان'' سے تعبیر کرتے ہیں اور دوسرا قومی دن 14 اگست جس کو ہم یوم آزادی کا حتمی نام دیتے تھے۔ یعنی 23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان یا قرارداد لاہور جس کا باقاعدہ انعقاد لاھور کے وسطی گنجان علاقے بادشاہی مسجد جس کے عقب میں منٹو (اقبال) پارک میں ہوا۔ قرارداد کی متفقہ طور پر منظوری کے ٹھیک سات سال کے بعد یعنی 14 اگست 1947ء کو ایک اسلامی جمہوری ریاست پاکستان کا قیام ممکن ہو سکا۔

عین آزادی کے وقت جہاں لوگوں میں جذبہ حب الوطنی درکار ہوتا ہے وہاں نئے ملک کے انتظامی ڈھانچے کی ترتیب و ترکیب کے لیے مالی وسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔ جب مالیات کے حصول کی بات آئے گی تو بلاشبہ میرا قلم حبیب بینک کا ذکر کیے بغیر نہیں رکتا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی بھی طرح انکار ممکن نہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ نئی نسل اس حقیقت سے اب تک قطعی ناواقف ہو گی۔ یہ وہ مالیاتی ادارہ ہے جس نے تحریک پاکستان کی کامیابی کے لیے جنگ لڑی ہے اور ملک کی کمزور معیشت کو ایک طاقت دی ہے۔

اب آپ ہی بتائیے کہ ہم کس منہ سے اس ادارے کی مالیات جیسے حساس شعبے میں بھرپور خدمات کو فراموش کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مالیاتی ادارہ ہر سال یوم آزاد ی کے موقعے پر خطیر رقم خرچ کرتے ہوئے بڑے عقیدت و احترام اور جوش و جذبے کے ساتھ اس قومی دن کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ شہر کے کمرشل ہب میں واقع بینک کے ہیڈ آفس حبیب بینک پلازہ کو دلہن کی طرح سبز ہلالی پرچم ، ہلالی غبارے، جھنڈیوں سے نہایت خوبصورتی اور نفاست سے سجایا جاتا ہے اور شب بھر چراغاں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ملی نغموں کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔

12 اگست کا دن ہے ہم آفس میں حسب معمول اپنے آ فس میں فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہیں اچانک ہمارے جی ایم صاحب نے مجھے بلایا اور کہا کہ قمر صاحب کل ہم یوم آزادی کے سلسلے میں ایک چھوٹی سی تقریب کرنے جا رہے ہیں۔ آپ اخبار میں کالم کے حوالے سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ ایک تقریر آپ بھی کریں۔

میں نے جواب میں کہا کہ سر مجھے تقریر کرنی نہیں آتی، میں صرف اظہار خیال تحریر ہی کے ذریعے کر سکتا ہوں تو بولے آپ لکھ لیں اور لکھا ہوا پڑھ دیں۔ میں نے کچھ لمحے سوچنے کے بعد حامی بھر دی۔ اگلے دن 13 اگست کی شام 5 بجے رنگا رنگ تقریب کا آغاز ہمارے گروپ ہیڈ جناب فیصل انور کے ابتدائی کلمات سے ہوا جس میں گروپ کے تقریباً سو سے زائد عملے نے اپنی بھرپور شرکت کو یقینی بنایا۔ تحریک پاکستان سے متعلق سوالوں کا سلسلہ کوئز کے بعد ہمیں اپنی تحریر کردہ تقریر پڑھنے کا موقع ملا جو میرے معزز قارئین کی نظر ہے۔

میرے ہم وطن ساتھیو! السلام و علیکم

آج 13 اگست ہے اور آنے والا کل 14 اگست یعنی پوری قوم کے لیے خوشیوں کا قومی اور تاریخی تہوار ''یوم آزادی'' ہے۔ آزادی کیا ہے؟ آزاد اور منظم قوم کسے کہتے ہیں؟ یہ تمام متفکرانہ سوالات یقینا آپ کے ذہن میں شعوری اور لاشعوری طور پر ضرور ابھرتے ہونگے۔

درحقیقت یہ انسان کی ساری تمدنی زندگی، آزادی کے حصول اور اس کی حفاظت کی سرگزشت کا نام ہے۔ ملکی اور قومی شناخت کے لیے چار چیزیں نہایت اہم ہیں وہ چار چیزیں قومی پرچم، قومی ترانہ، قومی زبان اور آئین یا دستور جو کسی قوم کی سرفرازی، بلندی، عظمت اور اعزاز کی علامات سمجھی جاتی ہیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیکھا کہ وہا ں کے یہودی روزے سے تھے اور خوشی منا رہے تھے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ آج کے دن بنی اسرائیل فرعون کی غلامی سے آزاد ہوئے تھے۔ اس لیے اس د ن کی یاد قائم رکھنے کے لیے قومی جشن آزادی مناتے ہیں شکرانہ کا روزہ رکھتے ہیں۔


پھر فرمایا ''تم بھی اس دن کا روزہ رکھو اور جشن مسرت میں شرکت کرو اس لیے کہ آزادی صرف اسی قوم کے لیے وجہ شادمانی نہیں۔ اسے دنیا کے ہر انسان کے لیے باعث مسرت ہونا چاہیے۔ آزادی ایک فرد کی ہو یا ایک قوم کی، ایک انسان کی، یا دنیا بھر کے انسانوں کی، موجب شکر ہے۔''

آزادی ایک نعمت خداوندی ہے اور زندہ قوموں کے باعث رحمت بھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ زندہ قومیں اس اہم قومی دن پر ملک و قوم کی سا لمیت، تحفظ اور خوشحالی کی عہد کی تجدید کرتی ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے جنوبی ایشیاء کے اہم سنگم پر واقع ایک زرخیز سرزمین اسلامی جمہوریہ پاکستان جو برصغیر کی کوکھ اور تاج برطانیہ کی حاکمیت سے آزاد ہونے والی اسلامی نظریاتی اور فکری ریاست کو آزاد ہوئے الحمد اللہ آج 68 سال کا طویل عرصہ بیت چکا ہے۔

اس عرصے میں ہم اپنے ان لاکھوں ساتھیوں کی قربانیوں کو فراموش نہیں کر سکتے جو کسی نہ کسی نظریاتی محاذ پر ملک کے دفاع اور سلامتی کے لیے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا۔ ان ہی کی قربانیوں کا ثمر ہے جو آج ہم فیضیاب ہو رہے ہیں۔ حصول پاکستان کی جدوجہد کوئی ایک دن، چند ہفتہ، چند ماہ، چند سال پر محیط نہیں بلکہ یہ ڈیڑھ سو سال کی جہد مسلسل اور افرادی قوت کی قربانیوں کا ثمر ہے۔

دو قومی نظریے کے تحت 23 مارچ 1940ء کو لاھور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں سالانہ اجلاس قائد اعظم کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں شیر بنگال مولوی فضل الحق نے ایک تاریخ ساز قرارداد پیش کی جس کی تائید سب سے پہلے چوہدری خلیق الزمان نے کی اور پھر اسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔

اسی قرارداد لاہور نے تصور پاکستان کو حقیقت کا روپ دیا جس کو یوم پاکستان کا نام دیا گیا۔ یہی یوم پاکستان کی مسلسل سات سال کی جدوجہد یوم آزادی کا سبب بنی اور یوں خداداد مملکت پاکستان کا وجود ممکن ہوا جو یقینا کہنہ مشق سیاسی قائدین سرسیداحمد خان، محسن الملک، وقارالملک، مولانا محمد علی جوہر، شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال، لیاقت علی خان اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح تحریک پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

پاکستا ن دنیا میں ایسا خطہ پر واقع ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہر نعمت موجود ہے۔ جفاکش اور محنتی افراد کے ساتھ معدنی اور قدرتی وسائل و ذرایع، سیراب دریاؤں اور نہروں کا وسیع جال اس کے پہاڑوں میں مخفی معدنیات کا خزانہ، جنگلات، ابھرتا اور ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر، قدرتی حسن سے بھری سرسبز خوبصورت وادیاں اس کی عظمت کے ترانے گاتی ہیں اور اہل پاکستان سے پکار پکار کر التجا کرتی ہیں کہ اس مملکت خداداد کو دہشت گردی، ادارتی کرپشن، بیروزگاری، تخریب کاری جیسے دیگر موذی امراض سے نجات دلانے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

جو ہماری ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ یوم آزادی منانے کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ ہم اپنے رہنماؤں کی ان قربانیوں کو یاد کریں جو انھوں نے اس وطن کے حصول کے لیے دیں اور اس بات کا عہد کریں کہ ہم نے جن مقاصد کی خاطر یہ ملک حاصل کیا تھا وہ پورے کریں۔ اور اس کی حفاظت اور سا لمیت کے لیے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کریں۔

مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہم جس دھوم دھام سے یوم آزادی مناتے ہیں اس دھوم دھام سے اس کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام نہیں کرتے بلکہ صرف ون مین شو کی پالیسی کے تحت اپنی ذات کی خوشحالی کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ جب کہ خود ہمارے پیارے نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ ''وطن سے محبت جزو ایمان ہے''۔ آخر میں میں صرف یہی کہہ سکوں گا کہ

''جنت سے کہیں بڑھ کر حسیں میرا وطن ہے
ہمسر ہے فلک کی، جو زمیں میرا وطن ہے

تقریب کے شرکاء نے بھرپور تالیوں سے حوصلہ افزائی فرمائی جس کا راقم الحروف تہہ دل سے شکر گزار ہے۔ تقریب کی معاونت کے فرائض محترمی مصطفی محسن اور کائناز شاہ رخ سدوا نے انجام دیے۔ آخر میں بینک کے گروپ ہیڈ جناب فیصل انور نے دس پاؤنڈ وزنی قومی پرچم نما کیک شرکاء کی تالیوں اور پاکستان زندہ باد کے نعروں کی گونج میں کاٹ کر اس مختصر اور سادہ سی پر وقار تقریب کو اختتام کے مرحلہ تک پہنچایا۔
Load Next Story