کامیابیوں کا سہرا
ہرچھوٹی بڑی بات پر سوموٹو لے کر وہ قوم کا ہر مسئلہ حل کرنے چل پڑے ، لیکن ہوا یوں کہ کوئی مسئلہ بھی حل نہ ہوا
تمام تر اختلافات کے باوجود ایک بات جو فیلڈ مارشل ایوب خان سے منسوب کی جاتی ہے کہ ہمارے ملک میں مختصر عرصے میںاگر سب سے زیادہ ترقیاتی کام ہوئے تو وہ اُنہی کے دس سالہ دورِآمریت میں ہوئے۔
یہ بڑے بڑے ڈیم اورفیکٹریوں، ملوں اورکارخانوں کا جال اگر اِس وطنِ عزیز میں کسی دور میں بچھایا گیا تو وہ ایوب خان کے دور ہی میں بچھایا گیا۔ اگر سرکاری فائلوں کو ٹٹولا جائے اورحقائق کو مزید کریدا جائے تو پاکستان کے اٹامک پروگرام اور اسٹیل ملز کی اصل منصوبہ بندی بھی ہمیں اُسی دورکی مرہونِ منت دکھائی دے گی ،لیکن ہم نے اُس محسنِ پاکستان کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ ایوب کتا ہائے ہائے اور ایوب مردہ باد کے نعروں سے اُسے رخصت ہونے پر مجبورکیا کیا۔ ہم وہ قوم ہیں جس نے ہر غیر جمہوری ڈکٹیٹر اورآمرکا استقبال بڑے پُرجوش اور والہانہ انداز میں کیا۔
اُسے اپنا مسیحا، ناخدا اور نجات دہندہ سمجھ کر، تعریف وتوصیف کے پُل بندھ کر اُسے اپنی ہر اُمید اور تمنا کا مرکزومحور بنالیا، لیکن صرف چند سال بعد ہی اُس سے بیزارو متنفر ہوکر اُسے ذلیل وخوار کرکے اقتدار کے ایوانوں سے بیدخل کیا۔ یہ ہمارا مشغلہ ہی نہیں بلکہ وطیرہ بن چکا ہے کہ ہر چمکتی چیزکو سونا سمجھ کر اُسے پوجنے لگتے ہیں ۔جنرل ایوب خان کے بعد آنے والے ہر فوجی حکمران کے ساتھ بھی ہمارا یہی رویہ اور یہ طریقہ رہا ہے۔جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف کو بھی ہم نے اپنے ایسے ہی رویوں سے پہلے پہل بہت خوش کیا ۔ جب تک وہ وردی میں رہے اُنہیں دس دس بار منتخب کرنے کا یقین دلاتے رہے اور جیسے ہی اُنہوں نے وردی اُتاری وہ ہماری تضحیک و تحقیر کا نشانہ بن کر ز مین بوس کردیے گئے۔
ہمارایہی کچھ برتاؤ سویلین حکمرانوں کے ساتھ بھی رہا ہے۔بھٹو، اصغر خان، بے نظیر اور نواز شریف سبھی کو ہم نے اپنے ابتدا میں اِسی محبت اور پیار سے نوازا، اور جلد ہی بیزار ہوکر اُن کی بھی شان میں وہی گستاخیاں کیں جو ہم غیر جمہوری حکمرانوں کے ساتھ کرتے رہے۔ بانیِ پاکستان محمد علی جناح اِس لحاظ سے خوش قسمت واقع ہوئے کہ وہ پاکستان بنانے کے فوراً بعد اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے ورنہ کوئی بعید نہ تھا کہ ہم اُن کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھتے اور تو اور سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بھی ہم نے ایسی ہی والہانہ محبت سے سرشارکیا کہ وہ خود کو ساری قوم کو پسندیدہ شخص سمجھنے لگے۔
ہرچھوٹی بڑی بات پر سوموٹو لے کر وہ قوم کا ہر مسئلہ حل کرنے چل پڑے ، لیکن ہوا یوں کہ کوئی مسئلہ بھی حل نہ ہوا اور وہ اپنے نامہ اعمال میں ناکامیاں اورنامرادیاں ہی درج کروا کے رخصت ہوگئے۔گزشتہ برس ہماری اِس قوم نے طاہرالقادری اور عمران خان کو بھی انقلاب اور تبدیلی کا عظیم قائد اور سپہ سالار سمجھ کر اُن کی خوب پذیرائی کی۔126دنوں تک اُن کے قصیدے پڑھے اور مدح سرائی کی۔مگر بہت جلد ہی اُن سے بھی مایوس ہوکرکسی اورکی تلاش میں نکل پڑے۔
اب ہم اپنے چیف آف آرمی جنرل راحیل شریف کو بھی ایسی خوش گمانیوں میں مبتلا کرنا چاہ رہے ہیںجو وہ نہیں ہونا چاہیں گے، یہ درست بات ہے کہ موجودہ آرمی چیف ایک نہایت مخلص، باہمت اور بہادر شخص ہیں۔ ہمارے ملک سے اگر آج دہشت گردی کا خاتمہ ہورہا ہے تو اُس میں اُن کا کرداریقیناً قابلِ تحسین ہے لیکن تعریف و توصیٖ کے بعد اسی شخص کی مخالفت کے طرز عمل سے ہمیں بچنا چاہیے، جب کہ ہم اپنے سویلین حکمرانوں کی کاوشوں اورکارکردگی کو بالکل نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
بلاشبہ ملک میں اگر آج معاشی بہتری آرہی ہے ، لوگ خوشحال ہورہے ہیں، فارن ایکسچینج کے ذخائر بڑھ رہے ہیں۔افراطِ زرکی شرح کم ہورہی ہے۔ملک کا انفرا اسٹریکچرتبدیل ہو رہا ہے، ریلوے کا نظام بہتری کی نشاندہی کررہا ہے تو اِن سب کامیابیوں کے پیچھے کون سے ہاتھ کارفرما ہیں۔نئی نئی سڑکیں، موٹر ویز اوراکنامک کوریڈور پر تیزی کے ساتھ کا م ہورہا ہے تو وہ کس کی کوششوں کے سبب ممکن ہورہا ہے۔
اگر موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومت کی مانند صرف وقت گذارا کررہی ہوتی اورکرپشن کے ریکارڈ قائم کر رہی ہوتی تو یہ سب کامیابیاں ادھوری ہی رہ جاتیں اور وطنِ عزیز مزید تباہی وبربادی کا شکار ہورہاہوتا ۔سیاسی حکمرانوں کا کام ہے تعمیر وترقی کے منصوبے بنانا اور اُنہیں شروع کرنا اور امن و امان کا قیام سیکیورٹی اداروں کی ذمے داری ہے۔ جیسا کہ دیکھا جارہا ہے کہ دونوں فریق اپنا اپنا فرض مکمل دیانتداری سے اداکررہے ہیں۔
سویلین اور عسکری قیادت کی یہ ہم آہنگی ہمارے کچھ دوستوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی۔ اُن کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح اِن دونوں کے درمیان اختلاف اور بد اعتمادی پیداکی جائے اور وہ صرف ایک ہی صورت میں ہوسکتی ہے کہ ایک فریق کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں اور خامیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے اور دوسری جانب صرف ایک فریق کی تعریفوں کے اتنے پُل باندھ دیے جائیں کہ وہ خود کو عقلِ کُل سمجھتے ہوئے سارے ملک میں حکمرانی کا حقدار تصورکرنے لگے۔
موجودہ حکومت ملک و قوم کی خوشحالی کے جوکام سرانجام دے رہی ہے، اُن کے بارے میں پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ یہ صرف خانصاحب کے دھرنوں کے مرہونِ منت ہے۔ حکمران عمران خان کے ڈر سے ترقیاتی منصوبے بنارہے ہیں اور اُن پر تیزی سے عمل کررہے ہیں۔مگر اب کہا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ صرف جنرل راحیل شریف ہی کروارہے ہیں۔ملک کے اندر جو تبدیلی رونما ہو رہی ہے وہ سب کچھ صرف ایک ہی شخص کی کوششوں اورکاوشوں کا نتیجہ ہے۔
ہمارے کچھ خوش فہم حضرات تو اِس قدر ناعاقبت اندیش ہیںکہ وہ اُٹھتے بیٹھے ٹی وی ٹاک شوز میں جمہوریت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں ۔اُن کی دلی خواہش ہے کہ ایک بار پھر اِس ملک میں جمہوریت کا بستر گول کردیا جائے اور جسے وہ اپنا مسیحا اور نجات دہندہ سمجھ رہے ہیں خود آگے بڑھ کے اقتدار سنبھال لے اور پھر وہ اُس کے ساتھ بھی وہی سلوک کریں جو وہ ایوب خان سمیت دیگر غیر جمہوری حکمرانوں کے ساتھ کرتے آئیں ہیں۔
ہمارا یہی لا اُبالی اور غیر ذمے دارانہ طرزعمل کسی ایک سمت میں آگے بڑھنے نہیں دیتا۔آج جب تک سیکیورٹی اداروں کے ہاتھ ہمارے گریبانوں تک نہیں پہنچے ہیں یہ ہمیں بہت اچھے لگ رہے ہیں۔ مگر جب اِن کی گرفت ہمیں بھی گھیر لے گی تو ہماری چیخیں نکلنا شروع ہو جائیں گی۔آج یہی ادارے متحدہ اور سند ھ حکومت کو شاید اچھے نہ لگتے ہوں تو اُس کی بھی یہی ایک وجہ ہے۔وہ اِن اداروں کے خلاف تو کچھ کر نہیں سکتے لیکن اُنہیں اِس سے باز رکھنے کے لیے وفاق پر اپنا دباؤ ڈال سکتے ہیں۔
متحدہ کے اسمبلیوں سے استعفے اور اپیکس کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں وزیرِ اعلیٰ سندھ کی وزیرِ اعظم سے شکایت اُن کی اِسی دباؤ کی واضح نشاندہی کرتی ہے۔ میاں نوازشریف نے اگر آپریشن جوں کا توں جاری رکھنے کا ایک بار پھر اعادہ کیا ہے تو اُس کا کریڈٹ بہر حال اُنہیں ملنا چاہیے۔
اُنہیں اگر اپنااقتدار بچانا مقصود ہوتا تو وہ کچھ لینے اور دینے کی بات کرتے ۔ اُن کے رویے میں لچک کے عنصرکا نہ ہونا اُن کے اُس غیر متزلزل عزم کااظہارکرتا ہے کہ وہ اِس ملک کو آگے لے کر جانا چاہتے ہیں خواہ اُن کا اقتدار خطروں ہی سے دوچار ہی کیوں نہ ہو جائے۔ جنرل راحیل شریف کو ایسے کسی دباؤ کا سامنا نہیں ہے ۔ وہ بے خوف وخطر ملک کے عظیم تر مفاد میں اپنا کام کیے جا رہے ہیں ۔ لیکن ایک سویلین حکمراں کو ایسے دباؤ بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔
مئی1998 میں جب ہم نے ایٹمی دھماکے کرنے کا عہد کیا تھا تو ہمیں اُس عمل سے باز رکھنے کے لیے ا مریکی صدرکلنٹن کے پانچ فون کسی اورکو نہیں صرف ہمارے اُس وقت کے وزیرِاعظم ہی کو آئے تھے۔ایسا ہی کچھ دباؤ آج اکنامک کوریڈوکو روکنے کے حوالے سے بھی آرہے ہوں گے۔جب کوئی حکومت میں ہوتا ہے تو یقینا اُس شخص سے زیادہ مشکلات میں ہوتا ہے جو پسِ پردہ رہ کر کام کر رہا ہوتا ہے، ہمیں اِن دونوں کی منصبی حیثیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اُن کی مجبوریوں اور دشواریوں کا ادراک اور احساس کرنا ہوگا۔ تبھی جاکر ہم اُس شخص کی ساتھ مکمل انصاف کر سکتے ہیں۔
یہ بڑے بڑے ڈیم اورفیکٹریوں، ملوں اورکارخانوں کا جال اگر اِس وطنِ عزیز میں کسی دور میں بچھایا گیا تو وہ ایوب خان کے دور ہی میں بچھایا گیا۔ اگر سرکاری فائلوں کو ٹٹولا جائے اورحقائق کو مزید کریدا جائے تو پاکستان کے اٹامک پروگرام اور اسٹیل ملز کی اصل منصوبہ بندی بھی ہمیں اُسی دورکی مرہونِ منت دکھائی دے گی ،لیکن ہم نے اُس محسنِ پاکستان کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ ایوب کتا ہائے ہائے اور ایوب مردہ باد کے نعروں سے اُسے رخصت ہونے پر مجبورکیا کیا۔ ہم وہ قوم ہیں جس نے ہر غیر جمہوری ڈکٹیٹر اورآمرکا استقبال بڑے پُرجوش اور والہانہ انداز میں کیا۔
اُسے اپنا مسیحا، ناخدا اور نجات دہندہ سمجھ کر، تعریف وتوصیف کے پُل بندھ کر اُسے اپنی ہر اُمید اور تمنا کا مرکزومحور بنالیا، لیکن صرف چند سال بعد ہی اُس سے بیزارو متنفر ہوکر اُسے ذلیل وخوار کرکے اقتدار کے ایوانوں سے بیدخل کیا۔ یہ ہمارا مشغلہ ہی نہیں بلکہ وطیرہ بن چکا ہے کہ ہر چمکتی چیزکو سونا سمجھ کر اُسے پوجنے لگتے ہیں ۔جنرل ایوب خان کے بعد آنے والے ہر فوجی حکمران کے ساتھ بھی ہمارا یہی رویہ اور یہ طریقہ رہا ہے۔جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف کو بھی ہم نے اپنے ایسے ہی رویوں سے پہلے پہل بہت خوش کیا ۔ جب تک وہ وردی میں رہے اُنہیں دس دس بار منتخب کرنے کا یقین دلاتے رہے اور جیسے ہی اُنہوں نے وردی اُتاری وہ ہماری تضحیک و تحقیر کا نشانہ بن کر ز مین بوس کردیے گئے۔
ہمارایہی کچھ برتاؤ سویلین حکمرانوں کے ساتھ بھی رہا ہے۔بھٹو، اصغر خان، بے نظیر اور نواز شریف سبھی کو ہم نے اپنے ابتدا میں اِسی محبت اور پیار سے نوازا، اور جلد ہی بیزار ہوکر اُن کی بھی شان میں وہی گستاخیاں کیں جو ہم غیر جمہوری حکمرانوں کے ساتھ کرتے رہے۔ بانیِ پاکستان محمد علی جناح اِس لحاظ سے خوش قسمت واقع ہوئے کہ وہ پاکستان بنانے کے فوراً بعد اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے ورنہ کوئی بعید نہ تھا کہ ہم اُن کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھتے اور تو اور سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بھی ہم نے ایسی ہی والہانہ محبت سے سرشارکیا کہ وہ خود کو ساری قوم کو پسندیدہ شخص سمجھنے لگے۔
ہرچھوٹی بڑی بات پر سوموٹو لے کر وہ قوم کا ہر مسئلہ حل کرنے چل پڑے ، لیکن ہوا یوں کہ کوئی مسئلہ بھی حل نہ ہوا اور وہ اپنے نامہ اعمال میں ناکامیاں اورنامرادیاں ہی درج کروا کے رخصت ہوگئے۔گزشتہ برس ہماری اِس قوم نے طاہرالقادری اور عمران خان کو بھی انقلاب اور تبدیلی کا عظیم قائد اور سپہ سالار سمجھ کر اُن کی خوب پذیرائی کی۔126دنوں تک اُن کے قصیدے پڑھے اور مدح سرائی کی۔مگر بہت جلد ہی اُن سے بھی مایوس ہوکرکسی اورکی تلاش میں نکل پڑے۔
اب ہم اپنے چیف آف آرمی جنرل راحیل شریف کو بھی ایسی خوش گمانیوں میں مبتلا کرنا چاہ رہے ہیںجو وہ نہیں ہونا چاہیں گے، یہ درست بات ہے کہ موجودہ آرمی چیف ایک نہایت مخلص، باہمت اور بہادر شخص ہیں۔ ہمارے ملک سے اگر آج دہشت گردی کا خاتمہ ہورہا ہے تو اُس میں اُن کا کرداریقیناً قابلِ تحسین ہے لیکن تعریف و توصیٖ کے بعد اسی شخص کی مخالفت کے طرز عمل سے ہمیں بچنا چاہیے، جب کہ ہم اپنے سویلین حکمرانوں کی کاوشوں اورکارکردگی کو بالکل نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
بلاشبہ ملک میں اگر آج معاشی بہتری آرہی ہے ، لوگ خوشحال ہورہے ہیں، فارن ایکسچینج کے ذخائر بڑھ رہے ہیں۔افراطِ زرکی شرح کم ہورہی ہے۔ملک کا انفرا اسٹریکچرتبدیل ہو رہا ہے، ریلوے کا نظام بہتری کی نشاندہی کررہا ہے تو اِن سب کامیابیوں کے پیچھے کون سے ہاتھ کارفرما ہیں۔نئی نئی سڑکیں، موٹر ویز اوراکنامک کوریڈور پر تیزی کے ساتھ کا م ہورہا ہے تو وہ کس کی کوششوں کے سبب ممکن ہورہا ہے۔
اگر موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومت کی مانند صرف وقت گذارا کررہی ہوتی اورکرپشن کے ریکارڈ قائم کر رہی ہوتی تو یہ سب کامیابیاں ادھوری ہی رہ جاتیں اور وطنِ عزیز مزید تباہی وبربادی کا شکار ہورہاہوتا ۔سیاسی حکمرانوں کا کام ہے تعمیر وترقی کے منصوبے بنانا اور اُنہیں شروع کرنا اور امن و امان کا قیام سیکیورٹی اداروں کی ذمے داری ہے۔ جیسا کہ دیکھا جارہا ہے کہ دونوں فریق اپنا اپنا فرض مکمل دیانتداری سے اداکررہے ہیں۔
سویلین اور عسکری قیادت کی یہ ہم آہنگی ہمارے کچھ دوستوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی۔ اُن کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح اِن دونوں کے درمیان اختلاف اور بد اعتمادی پیداکی جائے اور وہ صرف ایک ہی صورت میں ہوسکتی ہے کہ ایک فریق کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں اور خامیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے اور دوسری جانب صرف ایک فریق کی تعریفوں کے اتنے پُل باندھ دیے جائیں کہ وہ خود کو عقلِ کُل سمجھتے ہوئے سارے ملک میں حکمرانی کا حقدار تصورکرنے لگے۔
موجودہ حکومت ملک و قوم کی خوشحالی کے جوکام سرانجام دے رہی ہے، اُن کے بارے میں پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ یہ صرف خانصاحب کے دھرنوں کے مرہونِ منت ہے۔ حکمران عمران خان کے ڈر سے ترقیاتی منصوبے بنارہے ہیں اور اُن پر تیزی سے عمل کررہے ہیں۔مگر اب کہا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ صرف جنرل راحیل شریف ہی کروارہے ہیں۔ملک کے اندر جو تبدیلی رونما ہو رہی ہے وہ سب کچھ صرف ایک ہی شخص کی کوششوں اورکاوشوں کا نتیجہ ہے۔
ہمارے کچھ خوش فہم حضرات تو اِس قدر ناعاقبت اندیش ہیںکہ وہ اُٹھتے بیٹھے ٹی وی ٹاک شوز میں جمہوریت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں ۔اُن کی دلی خواہش ہے کہ ایک بار پھر اِس ملک میں جمہوریت کا بستر گول کردیا جائے اور جسے وہ اپنا مسیحا اور نجات دہندہ سمجھ رہے ہیں خود آگے بڑھ کے اقتدار سنبھال لے اور پھر وہ اُس کے ساتھ بھی وہی سلوک کریں جو وہ ایوب خان سمیت دیگر غیر جمہوری حکمرانوں کے ساتھ کرتے آئیں ہیں۔
ہمارا یہی لا اُبالی اور غیر ذمے دارانہ طرزعمل کسی ایک سمت میں آگے بڑھنے نہیں دیتا۔آج جب تک سیکیورٹی اداروں کے ہاتھ ہمارے گریبانوں تک نہیں پہنچے ہیں یہ ہمیں بہت اچھے لگ رہے ہیں۔ مگر جب اِن کی گرفت ہمیں بھی گھیر لے گی تو ہماری چیخیں نکلنا شروع ہو جائیں گی۔آج یہی ادارے متحدہ اور سند ھ حکومت کو شاید اچھے نہ لگتے ہوں تو اُس کی بھی یہی ایک وجہ ہے۔وہ اِن اداروں کے خلاف تو کچھ کر نہیں سکتے لیکن اُنہیں اِس سے باز رکھنے کے لیے وفاق پر اپنا دباؤ ڈال سکتے ہیں۔
متحدہ کے اسمبلیوں سے استعفے اور اپیکس کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں وزیرِ اعلیٰ سندھ کی وزیرِ اعظم سے شکایت اُن کی اِسی دباؤ کی واضح نشاندہی کرتی ہے۔ میاں نوازشریف نے اگر آپریشن جوں کا توں جاری رکھنے کا ایک بار پھر اعادہ کیا ہے تو اُس کا کریڈٹ بہر حال اُنہیں ملنا چاہیے۔
اُنہیں اگر اپنااقتدار بچانا مقصود ہوتا تو وہ کچھ لینے اور دینے کی بات کرتے ۔ اُن کے رویے میں لچک کے عنصرکا نہ ہونا اُن کے اُس غیر متزلزل عزم کااظہارکرتا ہے کہ وہ اِس ملک کو آگے لے کر جانا چاہتے ہیں خواہ اُن کا اقتدار خطروں ہی سے دوچار ہی کیوں نہ ہو جائے۔ جنرل راحیل شریف کو ایسے کسی دباؤ کا سامنا نہیں ہے ۔ وہ بے خوف وخطر ملک کے عظیم تر مفاد میں اپنا کام کیے جا رہے ہیں ۔ لیکن ایک سویلین حکمراں کو ایسے دباؤ بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔
مئی1998 میں جب ہم نے ایٹمی دھماکے کرنے کا عہد کیا تھا تو ہمیں اُس عمل سے باز رکھنے کے لیے ا مریکی صدرکلنٹن کے پانچ فون کسی اورکو نہیں صرف ہمارے اُس وقت کے وزیرِاعظم ہی کو آئے تھے۔ایسا ہی کچھ دباؤ آج اکنامک کوریڈوکو روکنے کے حوالے سے بھی آرہے ہوں گے۔جب کوئی حکومت میں ہوتا ہے تو یقینا اُس شخص سے زیادہ مشکلات میں ہوتا ہے جو پسِ پردہ رہ کر کام کر رہا ہوتا ہے، ہمیں اِن دونوں کی منصبی حیثیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اُن کی مجبوریوں اور دشواریوں کا ادراک اور احساس کرنا ہوگا۔ تبھی جاکر ہم اُس شخص کی ساتھ مکمل انصاف کر سکتے ہیں۔