اصلاح اقوام میں قانون کی عملداری کا کردار
کہا جاتا ہے کہ حکومت مائی باپ (سرپرست) ہوتی ہے تو پھر عوام کا حکومت سے رشتہ اولاد سے مشابہہ ہوا
قوموں کی تعمیر اور معاشرے کی تشکیل کی بات ہو تو کہیں تعلیم کا نام لیا جاتا ہے کہ تعلیم کے بغیر نہ تو کوئی معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے اور نہ ہی کسی قوم کی تعمیر ممکن ہے، کہیں تاریخ سے آگہی، تو کہیں عورت کے کردار کو اہم قرار دیا جاتا ہے، علمائے کرام معاشرے اور قوموں میں بگاڑ کی وجہ دین سے دوری کو قرار دیتے ہیں، گو کہ ہر کوئی اپنے زاویہ نظر سے اس مسئلے کا ادراک، وجوہات اور حل پیش کرتا ہے اور ان تمام عوامل کا بھی کسی نہ کسی تناسب سے کردار اس میں شامل ہے۔
بعض قصیدہ خواں دانشور بنیادی انفرا اسٹرکچر کو ملک کی تعمیر و ترقی، معاشرے کی تشکیل اور قوموں کی تعمیر بلکہ تمام خوابوں کی تعبیر کا ذریعہ قرار دیتے ہیں، ان کے خیال میں اگر سڑکیں بن جائیں، بڑے بڑے پل بنیں، بسیں، ٹرینیں چلیں اور کوریڈور تعمیر ہوں تو ہی ملک اور قوم ترقی کر سکیں گے کیونکہ سفر خواہ کسی ایک جگہ سے دوسری جگہ کا ہو یا ملک و قوم کی ترقی کا، ان کے نزدیک اس میں ''سڑک'' اور ''پل'' ہی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور اگر ان سڑکوں پر میٹرو بسیں رواں دواں ہوں تو سونے پہ سہاگہ، مختصر یہ کہ ایسے منصوبے جن میں مال لگتا ہو اور پھر مال بنتا ہو یا پھر ان میں سے حصہ ملتا ہو تو ہر سو ترقی نظر نہ آئے توکیا نظر آئے؟
اگر واقعی اور سنجیدگی کے ساتھ ہم اس مسئلے پر سوچ بچار کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں خود غرضی، پسند و ناپسند سے ہٹ کر، عصبیت کی عینک کو اتار کر کسی قوم یا معاشرے کے زوال یا اس کی تعمیر و تشکیل کا باریک بینی سے غیرجانبدارانہ جائزہ لینا ہو گا، ہمیں مہذب معاشروں میں عوام اور حکومت کے درمیان قائم تعلق کو سمجھنا ہو گا، ہمیں حکومت اور عوام کی ذمے داریوں کا باریک بینی جائزہ لینا ہو گا۔
کہا جاتا ہے کہ حکومت مائی باپ (سرپرست) ہوتی ہے تو پھر عوام کا حکومت سے رشتہ اولاد سے مشابہہ ہوا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ کسی بھی قوم میں پیدا ہونے والے بگاڑ یا اس کی تعمیر، کسی بھی معاشرے کا زوال یا اس کی تشکیل نو کی تمام تر ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ جس طرح ماں باپ اپنی اولاد کی تعلیم، خوراک، رہائش اور آسائش کے ذمے دار ہوتے ہیں، اسی طرح حکومت پر عوام کی تعلیم و تربیت کے لیے وہی ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں۔
والدین اپنی اولاد کے لیے تعلیم، خوراک اور رہائش کے علاوہ دیگر آسائشوں کا اہتمام کرتے ہیں یا اس کی کوشش کرتے ہیں، بالکل اسی طرح حکومت کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ عوام کی تعلیم و تربیت، خوراک، صحت، رہائش و آسائش کا اہتمام کرے۔بات صرف سہولتوں اور آسائشوں تک ہی محدود نہیں بلکہ جس طرح ماں باپ کی ذمے داری میں اولاد کی اخلاق و کردار سازی بھی شامل ہوتی ہے اور اس دوران اولاد کو برائیوں سے دور رکھنے کے لیے والدین کو سخت رویہ استعمال کرنا پڑتا ہے بلکہ بسا اوقات اولاد کو سزا بھی دینا پڑتی ہے، اسی طرح کسی بھی حکومت کے لیے عوام کو راہ راست پر لانے اور قائم رکھنے کے لیے قوانین وضع کرنا اور عوام کو ان قوانین پر عملدرآمد کا پابند بنانا ضروری ہوتا ہے۔
اگر کوئی فرد ان قوانین سے روگردانی کرے تو اسے عدالت کے کٹہرے میں لا کر سزا دلوانا حکومت کی ذمے داری ہے۔ 'انسان معاشرتی حیوان ہے' اسے ہر گام پر رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ الہامی کتابوں کے ذریعے ہم تک پہنچنے والی ہدایات کا محور کردار سازی ہی رہا ہے، بلکہ یہاں تک کہ دیگر احکامات کی کڑیاں بھی اسی اصلاحی پہلو سے جا ملتی ہیں اور ایسا کرنے کا مقصد یہی ہے کہ لوگ سزا کے ڈر سے برائی کے ارتکاب سے اجتناب کریں۔
آسمانی کتابوں اور صحیفوں میں انسان کو راہ راست پر رکھنے کے لیے وضح کی گئی حدود سے تجاوز یا مقرر کردہ قوانین سے انحراف پر سزاؤں کا تعین اسی لیے کیا گیا ہے کہ جہاں ایک فرد دوسرے کی حق تلفی کرے وہیں اس کے لیے سزا موجود ہو، یوں اگر کوئی زبانی نصیحت یا ہدایت کو تسلیم کرنیوالا نہ ہو، تو سزا کے ڈر سے کسی دوسرے انسان کی حق تلفی سے گریز کرے اور پھر قوانین کے تحت صرف سزائیں مقرر کر دینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ ان کا عملی نفاذ اس سے کہیں زیادہ ضروری ہوتا ہے۔
ہمارے معاشرے کی بدقسمتی یہی ہے کہ یہاں قوانین تو بے تحاشہ موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد کہیں نظر نہیں آتا۔ حکومتی رٹ یا قانون کی عملداری کے فقدان نے پاکستان کو اخلاقی پستی کی تمام حدوں سے نیچے گرا دیا ہے، حکمرانوں اور ارباب اختیار نے قانون کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔
ایسا خود بخود ہی نہیں ہو گیا بلکہ ایک طویل مشق کے ذریعے اس قوم کے ساتھ ایسا کیا گیا ہے۔ وطن کی محبت اور قانون کی پاسداری خود بخود ہی دلوں سے نہیں نکل گئی، بلکہ یہ ایک گھناؤنی سازش کے ذریعے یہ ہمارے دلوں سے نکالی گئی ہے۔ ہمیں کھیل ہی کھیل میں بڑی محنتوں کے ساتھ اس نہج پر پہنچایا گیا ہے جہاں ہم پہنچنے والے نہ تھے۔ حق بات کو ہمیشہ ہم سے چھپایا گیا، جھوٹ کا نظام ہم پر مسلط کیا جاتا رہا۔
قرآن کے بجائے چارلس ٹو کی وگ کو فراہمی انصاف کے عہد کا نشان بنایا گیا، تاج برطانیہ سے وفاداریاں نبھانے کے لیے ہم پر صہیونی کلچر مسلط کیا گیا، ہماری زبان اور ثقافت انتہائی چالبازیوں کے ساتھ چھین لی گئی، ہمیں علاقائی زبانوں تک محدود کرنے کے لیے لسانی تعصب کو ہوا دی جاتی رہی جب کہ قومی زبان کو تیسرے درجے کی زبان بنا دیا گیا۔ انگریزی زبان اور انگلش کلچر ہمارے شعور و لاشعور پر مسلط کر دیا گیا، یہاں تک کہ اپنے قومی لباس اور قومی زبان کو ہم اپنے وطن میں غیر زبان اور غیر لباس سے کمتر سمجھنے لگے۔ صرف ایک محاذ پر ہی نہیں بلکہ ہر شعبہ زندگی میں ہمارے ساتھ کھیل ہی کھیلا جاتا رہا ہے۔
ذرا تھانہ کلچر پر نظر دوڑایے، کیا یہ خود ہی فروغ پا گیا؟، پولیس کو رشوت لینے کی اتنی چھوٹ کیوں دی گئی؟، عدالتوں میں نذرانے کیونکر رائج ہو گئے؟، یہ انتظامی مشنری کو مادر پدر آزادی کیسے میسر آئی؟، یہ دہرا تعلیمی نظام رائج کرنے کا مقصد کیا ہے؟ سرکاری ڈاکٹروں کو پرائیویٹ کلینکس اور اسپتالوں میں بھاری فیسوں کے عوض علاج کا استحقاق کیسے ملا ؟ یقینا یہ سب کچھ کرنے کے لیے ہی اخلاقی اعتبار سے انتہائی پست اور ملک کے نااہل ترین لوگوں کو سیاست بازیاں سکھا کر اقتدار میں لایا اور کام لے کر چلتا کیا جاتا رہا ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ مختلف حربوں سے ہمارے جذبات سے کھیل کر ہمارے اندر حب الوطنی کا جذبہ ماند اور تبدیلی کا احساس ختم کرنے پر کام ہوتا رہا ہے۔ابھی وقت باقی ہے، ہمیں حقائق کا ادراک کرنا ہو گا، ہوش کے ناخن لینا ہوں گے، ہمیں اپنی بقا کے لیے کچھ کرنا ہو گا، ہمیں اپنے دشمن کو پہچاننا ہو گا، ورنہ ہمارے ساتھ یہی کچھ ہوتا رہے گا جو ماضی میں ہوتا رہا، اور یہی کچھ ہوتا رہا تو ہم (خدانخواستہ) اپنا وجود کھو بیٹھیں گے۔
بعض قصیدہ خواں دانشور بنیادی انفرا اسٹرکچر کو ملک کی تعمیر و ترقی، معاشرے کی تشکیل اور قوموں کی تعمیر بلکہ تمام خوابوں کی تعبیر کا ذریعہ قرار دیتے ہیں، ان کے خیال میں اگر سڑکیں بن جائیں، بڑے بڑے پل بنیں، بسیں، ٹرینیں چلیں اور کوریڈور تعمیر ہوں تو ہی ملک اور قوم ترقی کر سکیں گے کیونکہ سفر خواہ کسی ایک جگہ سے دوسری جگہ کا ہو یا ملک و قوم کی ترقی کا، ان کے نزدیک اس میں ''سڑک'' اور ''پل'' ہی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور اگر ان سڑکوں پر میٹرو بسیں رواں دواں ہوں تو سونے پہ سہاگہ، مختصر یہ کہ ایسے منصوبے جن میں مال لگتا ہو اور پھر مال بنتا ہو یا پھر ان میں سے حصہ ملتا ہو تو ہر سو ترقی نظر نہ آئے توکیا نظر آئے؟
اگر واقعی اور سنجیدگی کے ساتھ ہم اس مسئلے پر سوچ بچار کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں خود غرضی، پسند و ناپسند سے ہٹ کر، عصبیت کی عینک کو اتار کر کسی قوم یا معاشرے کے زوال یا اس کی تعمیر و تشکیل کا باریک بینی سے غیرجانبدارانہ جائزہ لینا ہو گا، ہمیں مہذب معاشروں میں عوام اور حکومت کے درمیان قائم تعلق کو سمجھنا ہو گا، ہمیں حکومت اور عوام کی ذمے داریوں کا باریک بینی جائزہ لینا ہو گا۔
کہا جاتا ہے کہ حکومت مائی باپ (سرپرست) ہوتی ہے تو پھر عوام کا حکومت سے رشتہ اولاد سے مشابہہ ہوا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ کسی بھی قوم میں پیدا ہونے والے بگاڑ یا اس کی تعمیر، کسی بھی معاشرے کا زوال یا اس کی تشکیل نو کی تمام تر ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ جس طرح ماں باپ اپنی اولاد کی تعلیم، خوراک، رہائش اور آسائش کے ذمے دار ہوتے ہیں، اسی طرح حکومت پر عوام کی تعلیم و تربیت کے لیے وہی ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں۔
والدین اپنی اولاد کے لیے تعلیم، خوراک اور رہائش کے علاوہ دیگر آسائشوں کا اہتمام کرتے ہیں یا اس کی کوشش کرتے ہیں، بالکل اسی طرح حکومت کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ عوام کی تعلیم و تربیت، خوراک، صحت، رہائش و آسائش کا اہتمام کرے۔بات صرف سہولتوں اور آسائشوں تک ہی محدود نہیں بلکہ جس طرح ماں باپ کی ذمے داری میں اولاد کی اخلاق و کردار سازی بھی شامل ہوتی ہے اور اس دوران اولاد کو برائیوں سے دور رکھنے کے لیے والدین کو سخت رویہ استعمال کرنا پڑتا ہے بلکہ بسا اوقات اولاد کو سزا بھی دینا پڑتی ہے، اسی طرح کسی بھی حکومت کے لیے عوام کو راہ راست پر لانے اور قائم رکھنے کے لیے قوانین وضع کرنا اور عوام کو ان قوانین پر عملدرآمد کا پابند بنانا ضروری ہوتا ہے۔
اگر کوئی فرد ان قوانین سے روگردانی کرے تو اسے عدالت کے کٹہرے میں لا کر سزا دلوانا حکومت کی ذمے داری ہے۔ 'انسان معاشرتی حیوان ہے' اسے ہر گام پر رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ الہامی کتابوں کے ذریعے ہم تک پہنچنے والی ہدایات کا محور کردار سازی ہی رہا ہے، بلکہ یہاں تک کہ دیگر احکامات کی کڑیاں بھی اسی اصلاحی پہلو سے جا ملتی ہیں اور ایسا کرنے کا مقصد یہی ہے کہ لوگ سزا کے ڈر سے برائی کے ارتکاب سے اجتناب کریں۔
آسمانی کتابوں اور صحیفوں میں انسان کو راہ راست پر رکھنے کے لیے وضح کی گئی حدود سے تجاوز یا مقرر کردہ قوانین سے انحراف پر سزاؤں کا تعین اسی لیے کیا گیا ہے کہ جہاں ایک فرد دوسرے کی حق تلفی کرے وہیں اس کے لیے سزا موجود ہو، یوں اگر کوئی زبانی نصیحت یا ہدایت کو تسلیم کرنیوالا نہ ہو، تو سزا کے ڈر سے کسی دوسرے انسان کی حق تلفی سے گریز کرے اور پھر قوانین کے تحت صرف سزائیں مقرر کر دینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ ان کا عملی نفاذ اس سے کہیں زیادہ ضروری ہوتا ہے۔
ہمارے معاشرے کی بدقسمتی یہی ہے کہ یہاں قوانین تو بے تحاشہ موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد کہیں نظر نہیں آتا۔ حکومتی رٹ یا قانون کی عملداری کے فقدان نے پاکستان کو اخلاقی پستی کی تمام حدوں سے نیچے گرا دیا ہے، حکمرانوں اور ارباب اختیار نے قانون کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔
ایسا خود بخود ہی نہیں ہو گیا بلکہ ایک طویل مشق کے ذریعے اس قوم کے ساتھ ایسا کیا گیا ہے۔ وطن کی محبت اور قانون کی پاسداری خود بخود ہی دلوں سے نہیں نکل گئی، بلکہ یہ ایک گھناؤنی سازش کے ذریعے یہ ہمارے دلوں سے نکالی گئی ہے۔ ہمیں کھیل ہی کھیل میں بڑی محنتوں کے ساتھ اس نہج پر پہنچایا گیا ہے جہاں ہم پہنچنے والے نہ تھے۔ حق بات کو ہمیشہ ہم سے چھپایا گیا، جھوٹ کا نظام ہم پر مسلط کیا جاتا رہا۔
قرآن کے بجائے چارلس ٹو کی وگ کو فراہمی انصاف کے عہد کا نشان بنایا گیا، تاج برطانیہ سے وفاداریاں نبھانے کے لیے ہم پر صہیونی کلچر مسلط کیا گیا، ہماری زبان اور ثقافت انتہائی چالبازیوں کے ساتھ چھین لی گئی، ہمیں علاقائی زبانوں تک محدود کرنے کے لیے لسانی تعصب کو ہوا دی جاتی رہی جب کہ قومی زبان کو تیسرے درجے کی زبان بنا دیا گیا۔ انگریزی زبان اور انگلش کلچر ہمارے شعور و لاشعور پر مسلط کر دیا گیا، یہاں تک کہ اپنے قومی لباس اور قومی زبان کو ہم اپنے وطن میں غیر زبان اور غیر لباس سے کمتر سمجھنے لگے۔ صرف ایک محاذ پر ہی نہیں بلکہ ہر شعبہ زندگی میں ہمارے ساتھ کھیل ہی کھیلا جاتا رہا ہے۔
ذرا تھانہ کلچر پر نظر دوڑایے، کیا یہ خود ہی فروغ پا گیا؟، پولیس کو رشوت لینے کی اتنی چھوٹ کیوں دی گئی؟، عدالتوں میں نذرانے کیونکر رائج ہو گئے؟، یہ انتظامی مشنری کو مادر پدر آزادی کیسے میسر آئی؟، یہ دہرا تعلیمی نظام رائج کرنے کا مقصد کیا ہے؟ سرکاری ڈاکٹروں کو پرائیویٹ کلینکس اور اسپتالوں میں بھاری فیسوں کے عوض علاج کا استحقاق کیسے ملا ؟ یقینا یہ سب کچھ کرنے کے لیے ہی اخلاقی اعتبار سے انتہائی پست اور ملک کے نااہل ترین لوگوں کو سیاست بازیاں سکھا کر اقتدار میں لایا اور کام لے کر چلتا کیا جاتا رہا ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ مختلف حربوں سے ہمارے جذبات سے کھیل کر ہمارے اندر حب الوطنی کا جذبہ ماند اور تبدیلی کا احساس ختم کرنے پر کام ہوتا رہا ہے۔ابھی وقت باقی ہے، ہمیں حقائق کا ادراک کرنا ہو گا، ہوش کے ناخن لینا ہوں گے، ہمیں اپنی بقا کے لیے کچھ کرنا ہو گا، ہمیں اپنے دشمن کو پہچاننا ہو گا، ورنہ ہمارے ساتھ یہی کچھ ہوتا رہے گا جو ماضی میں ہوتا رہا، اور یہی کچھ ہوتا رہا تو ہم (خدانخواستہ) اپنا وجود کھو بیٹھیں گے۔