بلوچستان کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا
اگر اب بھی ہم نے سنجیدگی سے اس معاملے کو نہ لیا تو، بلوچستان کے پہاڑیوں پر ہونیوالی اگلی بغاوت کا انتظار کرنا ہوگا۔
کل ایک شاندار خبر نے دل پر سے بھاری بوجھ اتار دیا اور آنکھوں میں گویا خوشی کے آنسو امنڈ آئے۔ خبر یہ ہے کہ ایک عرصے سے بلوچستان میں پاکستان کی (خدانخواستہ) علیحدگی کے دعوے دار براہمداغ بگٹی نے اپنے اس مؤقف سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے بہت نپے تلے انداز میں مذاکرات پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
سوئزرلینڈ میں مقیم براہمداغ کو بلوچ علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں سے بھی الگ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ پہاڑوں اور گھاٹیوں پر موجود بلوچ علیحدگی پسندوں کو ان کی حمایت اور تائید حاصل ہے جو مسلسل ریاستی افواج، اداروں اور تنصیبات کو نشانہ بنارہے ہیں اور گزشتہ 9 برس سے بلوچستان میں ایک آگ دہک رہی ہے۔
حکومت اور دیگر ریاستی ادارے اس موقع کو بارش کا پہلا قطرہ سمجھتے ہوئے اگر اس سے فائدہ اٹھالیں تو نہ صرف پاکستان کے دل بلوچستان میں امن و خوشحالی کے نئے در کھلیں گے، بلکہ پورے خطے پر اس کے خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔ کیونکہ بلوچستان کا امن ہی پاکستان کا استحکام ہے۔
کچھ روز قبل پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی کاوشوں سے جب بلوچ علیحدگی پسندوں کو ہتھیار ڈالتے ہوئے دیکھا تو دل کو بہت ڈھارس ہوئی کہ شاید بلوچستان میں امن کی کوئی نوید ملے گی اور وہ خوشخبری براہمداغ کے بیان سے پوری ہوئی۔ لیکن ٹھہریے کہ ابھی بہت کام باقی ہے، کیونکہ بات چیت کے کثیر جہتی دروازے کھولنا ہوں گے اور پاکستان کا جو پرچم بلوچ علیحدگی پسندوں نے اس یومِ آزادی پر اٹھایا، اسے ان کے دلوں میں بسانا ہوگا اور ساتھ عظیم بلوچ عوام کے آنسو پونچھنا ہوں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کی محرومی نے تنگ آمد بجنگ آمد کی راہ ہموار کی ہے۔ اب موقع آگیا ہے کہ ہم سب ملکر بلوچ بھائیوں کے لیے اپنی بانہیں کھولیں۔ ٹی وی چینلز پر رات 8 سے 11 بجے تک روزانہ اپنی دکان سجانے والے اینکروں سے درخواست ہے کہ جب وہ بلوچستان کا ذکر کریں تو بلوچستان کو اتنے ٹن چاندی، فلاں ٹن سونا اوراتنے بیرل تیل میں نہ تولیں، بلکہ عشروں سے محروم، مجبور اور لاچار عام بلوچ عوام کا بھی ذکر کریں۔ کچھ روشنی اس پر بھی ڈالیں کہ منگوچر میں اسپتال کیسے بنایا جائے، وڈھ اور مند میں اسکول کیسے کھولے جائیں، پہاڑوں پر بھوک سے بلکنے والے بچوں کی جان کیسے بچائی جائے یا کوئٹہ میں پانی کی شدید قلت کا مسئلہ کیسے حل کیا جائے؟
اس پر کوئی دو رائے نہیں کہ بلوچستان محرومیوں اور مسائل کا گڑھ ہے۔ جہاں تعلیم، صحت، روزگار اور دیگر سماجی و معاشرتی صورتحال تمام صوبوں بلکہ افریقہ کے غریب ترین ممالک سے بھی بدتر ہے۔ 7 ہزار پرائمری اسکول صرف ایک کمرے پر مشتمل ہیں، اور استاد بھی صرف ایک ہی ہے۔ جبکہ 17 لاکھ بچے اسکولوں سے دور ہیں۔ ایمرجنسی آپریشن سینٹر بلوچستان کے مطابق تمام تر کوششوں کے باوجود بلوچستان کے 80 فیصد بچوں کو امراض سے بچانے کے تمام ٹیکے اور ویکسین نہیں دی جاسکیں اور یوں وہ موذی امراض کے آگے ایک تر نوالہ بن چکے ہیں۔ دوسری جانب بلوچستان کے ننھے بچوں میں غذا کی کمی ایک بحران کے دھانے پر کھڑی ہے۔ بلوچستان کے پھول جیسے بچے سب سے ذیادہ غذائی قلت کے شکار ہیں۔ ڈاکٹر بغیر سرحد (ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز) کے اعداد و شمار آنکھ کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔ جن کے مطابق ڈیرہ مراد جمالی میں اس تنظیم کےمرکزی آفس میں ہر سال 10 ہزار ایسے بچےلائے جاتے ہیں جو غذائی قلت میں مبتلا ہیں۔ یہ صرف ایک علاقے کا احوال ہے ورنہ بلوچستان کے 10 اضلاع خوراک کی شدید ترین کمی کے شکارہیں۔
دوسری جانب بالغان کو بے کاری اور بیروزگاری کا عفریت کھائےجارہا ہے اور خود ان کو نہیں معلوم کہ دنیا کے خزانے ان کے قدموں تلے بہہ رہے ہیں۔ زمینی خزانے ایک جانب، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں رکازی لکڑی کے سب سے بڑے جنگلات بلوچستان میں ہیں۔ ڈیرہ بگٹی میں زمین پر راج کرنے والے سب بڑے ممالیے 'بلوچی تھیریم' کے فاسلز ملے ہیں۔ جیوانی میں کئی عشروں قبل سمندروں سے موتی نکالے جاتے رہے تھے۔ سبی کے قریب دس ہزار سالہ قدیم مہر گڑھ تہذیب میں دنیا کے پہلے ڈینٹسٹ دریافت ہوئے ہیں۔ خضدار کے نایاب سانپوں کے زہر سے کینسر کے خلاف دوا بنائی جارہی ہیں اور ان کے ایک گرام زہر کی قیمت چار لاکھ روپے ہے۔ پھر چمن میں پایا جانے والا ارضیات فالٹ خلا سے بھی نظر آتا ہے۔ لیکن میری دلچسپی کا محور بلوچ عوام ہیں کیونکہ ارضی خزانوں سے ہٹ کر نیشنل جیوگرافک کے ایک جینیاتی مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ بلوچ قوم دنیا میں سب سے خالص قوم ہے جن کے جینیاتی ترکیب بہت خاص ہے اور یہ قوم پاکستان کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں جن کی قدر کرنے کا وقت آگیا ہے۔
کیا قومی ادارے اور جامعات بلوچستان کے لیے خصوصی پروگرام شروع کرسکتی ہیں؟ کیا شارعِ دستور اسلام آباد میں بلوچی زبان اور تہذیب کا بین الاقوامی مرکز قائم کرنا ممکن ہے؟ کیا گوادر کے در بلوچ عوام کے لیے کھلیں گے؟ سب سے بڑھ کر پاکستان میں بلوچ وزیرِ اعظم کب بنے گا؟ لیکن میں تو خواب دیکھنے والا ایک معمولی قلمکار ہوں۔ میرا بس چلے تو بلوچستان کے خزانے براہِ راست ان کے حوالے کردوں اور اس کی سب سے ذیادہ حقدار آواران کی وہ بلوچ بیٹی ہے جو زلزلے کے بعد ٹوٹی رکابی میں روٹی کے چند نوالے کھارہی تھی کہ کیمرے نے اس کی تصویر مقید کرلی۔
اور اگر اب بھی ہم نے عمل نہیں کیا تو بلوچستان کی پہاڑیوں پر ہونے والی اگلی بغاوت کا انتظار کرنا ہوگا۔
[poll id="630"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
سوئزرلینڈ میں مقیم براہمداغ کو بلوچ علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں سے بھی الگ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ پہاڑوں اور گھاٹیوں پر موجود بلوچ علیحدگی پسندوں کو ان کی حمایت اور تائید حاصل ہے جو مسلسل ریاستی افواج، اداروں اور تنصیبات کو نشانہ بنارہے ہیں اور گزشتہ 9 برس سے بلوچستان میں ایک آگ دہک رہی ہے۔
حکومت اور دیگر ریاستی ادارے اس موقع کو بارش کا پہلا قطرہ سمجھتے ہوئے اگر اس سے فائدہ اٹھالیں تو نہ صرف پاکستان کے دل بلوچستان میں امن و خوشحالی کے نئے در کھلیں گے، بلکہ پورے خطے پر اس کے خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔ کیونکہ بلوچستان کا امن ہی پاکستان کا استحکام ہے۔
کچھ روز قبل پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی کاوشوں سے جب بلوچ علیحدگی پسندوں کو ہتھیار ڈالتے ہوئے دیکھا تو دل کو بہت ڈھارس ہوئی کہ شاید بلوچستان میں امن کی کوئی نوید ملے گی اور وہ خوشخبری براہمداغ کے بیان سے پوری ہوئی۔ لیکن ٹھہریے کہ ابھی بہت کام باقی ہے، کیونکہ بات چیت کے کثیر جہتی دروازے کھولنا ہوں گے اور پاکستان کا جو پرچم بلوچ علیحدگی پسندوں نے اس یومِ آزادی پر اٹھایا، اسے ان کے دلوں میں بسانا ہوگا اور ساتھ عظیم بلوچ عوام کے آنسو پونچھنا ہوں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کی محرومی نے تنگ آمد بجنگ آمد کی راہ ہموار کی ہے۔ اب موقع آگیا ہے کہ ہم سب ملکر بلوچ بھائیوں کے لیے اپنی بانہیں کھولیں۔ ٹی وی چینلز پر رات 8 سے 11 بجے تک روزانہ اپنی دکان سجانے والے اینکروں سے درخواست ہے کہ جب وہ بلوچستان کا ذکر کریں تو بلوچستان کو اتنے ٹن چاندی، فلاں ٹن سونا اوراتنے بیرل تیل میں نہ تولیں، بلکہ عشروں سے محروم، مجبور اور لاچار عام بلوچ عوام کا بھی ذکر کریں۔ کچھ روشنی اس پر بھی ڈالیں کہ منگوچر میں اسپتال کیسے بنایا جائے، وڈھ اور مند میں اسکول کیسے کھولے جائیں، پہاڑوں پر بھوک سے بلکنے والے بچوں کی جان کیسے بچائی جائے یا کوئٹہ میں پانی کی شدید قلت کا مسئلہ کیسے حل کیا جائے؟
اس پر کوئی دو رائے نہیں کہ بلوچستان محرومیوں اور مسائل کا گڑھ ہے۔ جہاں تعلیم، صحت، روزگار اور دیگر سماجی و معاشرتی صورتحال تمام صوبوں بلکہ افریقہ کے غریب ترین ممالک سے بھی بدتر ہے۔ 7 ہزار پرائمری اسکول صرف ایک کمرے پر مشتمل ہیں، اور استاد بھی صرف ایک ہی ہے۔ جبکہ 17 لاکھ بچے اسکولوں سے دور ہیں۔ ایمرجنسی آپریشن سینٹر بلوچستان کے مطابق تمام تر کوششوں کے باوجود بلوچستان کے 80 فیصد بچوں کو امراض سے بچانے کے تمام ٹیکے اور ویکسین نہیں دی جاسکیں اور یوں وہ موذی امراض کے آگے ایک تر نوالہ بن چکے ہیں۔ دوسری جانب بلوچستان کے ننھے بچوں میں غذا کی کمی ایک بحران کے دھانے پر کھڑی ہے۔ بلوچستان کے پھول جیسے بچے سب سے ذیادہ غذائی قلت کے شکار ہیں۔ ڈاکٹر بغیر سرحد (ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز) کے اعداد و شمار آنکھ کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔ جن کے مطابق ڈیرہ مراد جمالی میں اس تنظیم کےمرکزی آفس میں ہر سال 10 ہزار ایسے بچےلائے جاتے ہیں جو غذائی قلت میں مبتلا ہیں۔ یہ صرف ایک علاقے کا احوال ہے ورنہ بلوچستان کے 10 اضلاع خوراک کی شدید ترین کمی کے شکارہیں۔
دوسری جانب بالغان کو بے کاری اور بیروزگاری کا عفریت کھائےجارہا ہے اور خود ان کو نہیں معلوم کہ دنیا کے خزانے ان کے قدموں تلے بہہ رہے ہیں۔ زمینی خزانے ایک جانب، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں رکازی لکڑی کے سب سے بڑے جنگلات بلوچستان میں ہیں۔ ڈیرہ بگٹی میں زمین پر راج کرنے والے سب بڑے ممالیے 'بلوچی تھیریم' کے فاسلز ملے ہیں۔ جیوانی میں کئی عشروں قبل سمندروں سے موتی نکالے جاتے رہے تھے۔ سبی کے قریب دس ہزار سالہ قدیم مہر گڑھ تہذیب میں دنیا کے پہلے ڈینٹسٹ دریافت ہوئے ہیں۔ خضدار کے نایاب سانپوں کے زہر سے کینسر کے خلاف دوا بنائی جارہی ہیں اور ان کے ایک گرام زہر کی قیمت چار لاکھ روپے ہے۔ پھر چمن میں پایا جانے والا ارضیات فالٹ خلا سے بھی نظر آتا ہے۔ لیکن میری دلچسپی کا محور بلوچ عوام ہیں کیونکہ ارضی خزانوں سے ہٹ کر نیشنل جیوگرافک کے ایک جینیاتی مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ بلوچ قوم دنیا میں سب سے خالص قوم ہے جن کے جینیاتی ترکیب بہت خاص ہے اور یہ قوم پاکستان کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں جن کی قدر کرنے کا وقت آگیا ہے۔
کیا قومی ادارے اور جامعات بلوچستان کے لیے خصوصی پروگرام شروع کرسکتی ہیں؟ کیا شارعِ دستور اسلام آباد میں بلوچی زبان اور تہذیب کا بین الاقوامی مرکز قائم کرنا ممکن ہے؟ کیا گوادر کے در بلوچ عوام کے لیے کھلیں گے؟ سب سے بڑھ کر پاکستان میں بلوچ وزیرِ اعظم کب بنے گا؟ لیکن میں تو خواب دیکھنے والا ایک معمولی قلمکار ہوں۔ میرا بس چلے تو بلوچستان کے خزانے براہِ راست ان کے حوالے کردوں اور اس کی سب سے ذیادہ حقدار آواران کی وہ بلوچ بیٹی ہے جو زلزلے کے بعد ٹوٹی رکابی میں روٹی کے چند نوالے کھارہی تھی کہ کیمرے نے اس کی تصویر مقید کرلی۔
اور اگر اب بھی ہم نے عمل نہیں کیا تو بلوچستان کی پہاڑیوں پر ہونے والی اگلی بغاوت کا انتظار کرنا ہوگا۔
[poll id="630"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس