زوال در زوال
جب عروج آتا ہے تو پھر ہر شعبہ زندگی میں اس کی تصویر نمایاں ہوتی ہے
KUWAIT CITY:
جب کسی قوم پر زوال آتا ہے تو ایسا ہرگز نہیں ہوتا کہ کسی ایک شعبے میں زوال آ جائے اور دیگر شعبوں میں عروج ہو، تو پھر ہر شعبہ زندگی میں زوال کی داستانیں بکھری پڑی ہوتی ہیں۔
جب عروج آتا ہے تو پھر ہر شعبہ زندگی میں اس کی تصویر نمایاں ہوتی ہے۔جب تک پاکستان کرکٹ میں پانچویں نمبر پر نہیں آ گیا وہ کرکٹ کے زیر و زبر کے مالک رہے، فٹ بال ایک ایسا کھیل ہے جہاں لیاری میں اس کی آبیاری کی زبردست گنجائش ہے اور بلوچستان زبردست سرزمین ہے، وہاں توجہ کی ضرورت ہے مگر پہلے گراؤنڈ، پارک، تفریح گاہیں چائنا کٹنگ کا شکار ہو گئے یا بلڈر کی نذر ہو گئے۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ آخر کراچی کو کیا ہو گیا کہ ذرا سی بددیانتی ہوتی تھی تو کراچی میں تحریک شروع ہو جاتی تھی مگر اب کراچی کیوں سو گیا، کئی سال تک کراچی میں روزانہ دس بارہ افراد کے قتل کی خبریں ہوتی تھیں، مگر یہ پہلا موقع ہے کہ امن و امان کی صورت حال میں استحکام نظر آ رہا ہے۔
کراچی میں یہ 10 برسوں بعد پہلی عید گزری ہے کہ رات بھر شہر کھلا رہا اور ریکارڈ خریداری ہوئی، پہلا موقع تھا کہ 14 اگست 2015ء کو جھنڈیوں، پرچموں کی خریداری کا جشن منایا گیا، جو بینظیر تھا۔ رفتہ رفتہ صورت حال بہتر ہو رہی ہے، دس برس امن و امان کے لیے لمحہ فکریہ رہے جس میں انسان پریشانی میں رہا، بجلی پانی کی مشکلات آدمی گھر سے باہر نکلے تو پانی کیسے بھرا جائے۔ ایسا لگتا رہا کہ آدمی مشکلات میں گھرا رہے، کام پر جانا واپس آنا طلبہ کا گھر سے نکلنا صحیح سلامت واپس آنا زندگی ہو گئی تھی، بھلا مسائل پر تحریکیں کیوں کر منظم ہو سکتی تھیں۔
مگر سیاسی پارٹیوں میں خود غرضی کا عنصر جاگا ہوا ہے، عوام سے بے خبری محض پارٹی بنیادوں کی سوچ نے حالات کو یہاں پہنچادیا کہ فوج نے عوامی قدم اٹھایا اور پارٹیوں نے ہاں میں ہاں کی۔ عملی نظیر، اصلاح اور عوامی مشکلات کو پس پشت ڈالتے رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سیاست میں رواداری کے لیے ملک کی وفاداری کے لیے سیاسی کام فوج کو کرنا پڑا۔
یہ رہا سیاسی زوال اقتصادی زوال، دیکھیے روپے کی قدر میں کمی زر مبادلہ کے ذخائر کا اتار چڑھاؤ 16-20 ارب ڈالر کا ہوتے رہنا زر مبادلہ جو محنت شاقہ سے ملک میں آتا ہے سامان تعیش کی امپورٹ اور پھر کشتیوں اور جہازوں میں کھیپوں کی لوٹ مار کی نذر، شاعر، ادیب، دانشوروں، فلسفہ سائنس کے حکما کے لیے ٹی وی اسٹیشنوں پر دروازے بند، عوام کی علمی و ادبی قدروں کا مسلسل خسارہ یہ سب کیا ہے کون سی قوم بنایا جا رہاہے، غلط بیانی پر بغیر کسی مشق کے اردو زبان کے ساتھ مذاق بپا ہے۔
ہر بْو الہَوَس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہلِ نظر گئی
جب اہل نظر آرٹ، فکشن کے مالک کے لیے ذریعہ ابلاغ بند ہو، حبیب جالبؔ مرحوم جب تک زندہ رہے ٹی وی پر نہ آئے، فیضؔ صاحب پر بھی ایک عرصے تک یہ دروازے بند رہے مگر موت کے بعد لوگوں کو پتہ چلا کہ ہمارے جہاں میں کوئی اہل نظر بھی تھا اور اب یہ زوال کا علم ہے کہ بزنس ایڈمنسٹریشن کی ٹوٹی پھوٹی تعلیم کے علاوہ کوئی نقطہ و نظر نہیں تو پھر علما کیا پیدا ہوںگے خاک؟ اب ملک میں نہ کوئی بڑا پینٹر ہے نہ شاعر نہ ادیب۔ ان کے پاس چھوٹے کاموں کے لیے فرصت نہیں وہ تو آپ کے 100کنٹینر (Cantainer) کے عوض ایک کلو چپ بھیج کر یا یو ایس بی سے اپنا حساب چکتا کر لیں گے۔ پھر آج سے سو برس پہلے اقبال کا شعر کیوں کر یہ کہتا:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
خلا میں اسٹیشن کا قیام، سیارگان پر چہل قدمی، خلا سے زمین پر گوگل سے ہر علاقے کی تصویر یہ کسی کاروباری عمل کا براہ راست حصہ نہیں، پہلے سائنس فکشن اور ٹیکنالوجی ہے، فنکشن تصور جو ہر عمل کی ماں ہے اس کا ملک سے جنازہ نکل گیا ہے' کیا کہیں اسلامی ملک کو جہاں سے لوگ جان بچا کر غیر اسلامی ممالک جرمنی، اٹلی، یو کے بھاگ رہے ہیں، لیبیا، مصر، عراق، شام، افغانستان بنتے رہ گیا یہ ملک۔
آیئے 1970ء کے کراچی کا ایک جائزہ لیں جو آنکھوں سے دیکھا، ابھی بفرزون تک اور 20 نمبر فیڈرل بی ایریا، نارتھ ناظم آباد، گلشن اور ملیر آباد تھے شہر میں پاپوش نگر ناظم آباد کا بس اسٹاپ تھا، رکشہ ٹیکسی میں میٹر تھا مول بھاؤ کی ضرورت نہ تھی بسیں چلتی تھیں شہر میں چند دو منزلہ بسیں تھیں، صدر سے ٹرام چلتی تھی اس کی پٹڑیاں سولجر بازار، چاکیواڑہ، ٹاور، بندر روڈ اور کینٹ اسٹیشن تک بسوں میں لائن سے چڑھتے تھے۔
سیٹ بائی سیٹ اور کھڑے ہو کر صرف دس افراد وافر مقدار میں بسیں، بس اسٹاپوں پر لوگ صبح آفس جاتے ہوئے ہاتھ میں اخبار لیے اکثر کھڑے ہوتے، کراچی یونیورسٹی کی بسیں چلتی تھیں عام بسوں میں کنڈیکٹر خاکی وردی اور گلے میں ٹکٹ کا بیگ اور ہر فرد کے ہاتھوں میں ٹکٹ، کالج اور یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس یونین جنرل سیکریٹری صدر وغیرہ منتخب ہوتے تھے جنرل باڈی ہوتی تھی، مباحثہ مجلس علم و ادب ہر کالج میں ہوتی تھی شعری محافل عالمی مسائل پر گفتگو ایسے ہی ماحول میں لوگ پڑھا کرتے تھے تو ہونہار محب وطن طلبہ پیدا ہوتے تھے، نلوں میں پانی تھا۔
بجلی کا بحران نہ تھا روز مرہ کی سوچ تعمیری شہر میں بندوق چھری نہ چلتی کبھی کبھار قتل کی واردات ہو تو لگتا تھا آسمان سے بجلی گر گئی، غنڈہ گردی نہ تھی اساتذہ کو مارپیٹ کرنا نہایت ہتک آمیز سمجھا جاتا تھا، نقل نام کو بھی نہ ہوتی تھی شہر میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن، مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن اسلامی جمعیت طلبہ تحریک بیداری طلبہ نامی جماعتیں تھیں۔ این ایس ایف، ایم ایس ایف اور جمعیت کے طلبہ یونین زیادہ تر کامیاب ہوتی تھیں شہر میں تقریباً 30 کالجز تھے ایک یونیورسٹی اور آئی بی اے چیدہ چیدہ کوچنگ سینٹر شہر بڑھتا گیا۔
ڈیموگرافی بدلتی گئی، تہذیب و تمدن خاک میں ملا، حکومتوں نے دانستہ کراچی کو برباد کیا کیوں کہ اس کا عروج کرپشن کا خاتمہ گڈ گورننس (Good Governance) یعنی اچھی حکمرانی کراچی کو مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے خصوصی طور پر تباہ کیا۔ لسانی مذہبی فتنہ پروری کے بیج ڈالے آبادیوں کو تقسیم کیا گیا مجھے یاد ہے لیاری میں لالہ لعل بخش رند سے گورنمنٹ کالج یونین کے عہدے دار کافی متاثر تھے اور وہ وہاں جاتے تھے نہ کوئی خطرہ تھا نہ پریشانی، مگر پیپلز پارٹی کی آمد کے بعد ووٹ بینک کی تعمیر نے رسہ کشی شروع کی اور آج یہ عالم ہے کہ آدھا لیاری اجاڑ ہو گیا۔
تیری رونقیں کہاں گئیں، تیرے مکیں کہاں گئے، فٹ بال گراؤنڈ کیوں ویران ہوئے، لیاری سے حب چوکی تک کی سائیکل ریس کیا ہوئی، باکسنگ کلب منشیات کے اڈوں میں کس نے بدلے، نئی بستیاں نہ بسیں نئی بلڈنگیں نہ بنیں، گودی پر نئی ملازمتیں بے روزگاری اور جرائم کس نے بڑھائے پرورش لوح و قلم خاک ہوئی، مارواڑی اور بلوچوں میں جو یکجہتی تھی کس نے ختم کی، شادی ہالوں میں بن بیاہی دلہنوں کو کس نے بیوہ کیا، بلوچ مارواڑی اتحاد، قبضہ گروپوں کی تباہ کاریوں نے برباد کیا ہر اک گلی میں ایک کہانی ہے، مہاجر بستیوں میں لائبریریاں کیا ہوئیں۔
ریڈنگ روم کیا ہوئے، فیکٹریوں اور کاروباری بنیادوں پر مزدور اتحاد کیوں کر نسل پرستی کا شکار ہوا۔ مزدور مزدور بھائی بھائی کی آواز کس نے ختم کی، لوگ پھنسے رہیں گے تو حکومت چلتی رہے گی۔ آج جمہوریت ہے مگر جمہوری ثمرات سے عوام محروم ہیں۔ آج عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمت کم ترین نرخ پر آن پہنچی ہے مگر کہیں سے یہ آواز نہیں آ رہی کہ تیل کی قیمتوں کو کم کرو۔ اگر تیل 45 روپے فی لیٹر بھی فروخت کیا جائے تب بھی حکومت کو کثیر فائدہ ہے مگر کس سیٹ پر کون جیتا کون ہارا کی آواز ہے۔
لوگوں کو پارٹی پولیٹکس (Party Politics) میں آلودہ کر دیا گیا ہے کراچی سرکلر ریلوے ٹریک پر عمارتیں تعمیر ہیں افسوس 2 کروڑ کے شہر پر ترقیاتی کام میں باقاعدگی نہیں، اتنے سب چینلوں نے چٹخارے مارکٹ کیے، شعور با شعور نہیں، زوال در زوال کی آبادی بڑھانے میں سیاست دانوں کا فائدہ ہے۔
پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں
(اقبال)
جب کسی قوم پر زوال آتا ہے تو ایسا ہرگز نہیں ہوتا کہ کسی ایک شعبے میں زوال آ جائے اور دیگر شعبوں میں عروج ہو، تو پھر ہر شعبہ زندگی میں زوال کی داستانیں بکھری پڑی ہوتی ہیں۔
جب عروج آتا ہے تو پھر ہر شعبہ زندگی میں اس کی تصویر نمایاں ہوتی ہے۔جب تک پاکستان کرکٹ میں پانچویں نمبر پر نہیں آ گیا وہ کرکٹ کے زیر و زبر کے مالک رہے، فٹ بال ایک ایسا کھیل ہے جہاں لیاری میں اس کی آبیاری کی زبردست گنجائش ہے اور بلوچستان زبردست سرزمین ہے، وہاں توجہ کی ضرورت ہے مگر پہلے گراؤنڈ، پارک، تفریح گاہیں چائنا کٹنگ کا شکار ہو گئے یا بلڈر کی نذر ہو گئے۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ آخر کراچی کو کیا ہو گیا کہ ذرا سی بددیانتی ہوتی تھی تو کراچی میں تحریک شروع ہو جاتی تھی مگر اب کراچی کیوں سو گیا، کئی سال تک کراچی میں روزانہ دس بارہ افراد کے قتل کی خبریں ہوتی تھیں، مگر یہ پہلا موقع ہے کہ امن و امان کی صورت حال میں استحکام نظر آ رہا ہے۔
کراچی میں یہ 10 برسوں بعد پہلی عید گزری ہے کہ رات بھر شہر کھلا رہا اور ریکارڈ خریداری ہوئی، پہلا موقع تھا کہ 14 اگست 2015ء کو جھنڈیوں، پرچموں کی خریداری کا جشن منایا گیا، جو بینظیر تھا۔ رفتہ رفتہ صورت حال بہتر ہو رہی ہے، دس برس امن و امان کے لیے لمحہ فکریہ رہے جس میں انسان پریشانی میں رہا، بجلی پانی کی مشکلات آدمی گھر سے باہر نکلے تو پانی کیسے بھرا جائے۔ ایسا لگتا رہا کہ آدمی مشکلات میں گھرا رہے، کام پر جانا واپس آنا طلبہ کا گھر سے نکلنا صحیح سلامت واپس آنا زندگی ہو گئی تھی، بھلا مسائل پر تحریکیں کیوں کر منظم ہو سکتی تھیں۔
مگر سیاسی پارٹیوں میں خود غرضی کا عنصر جاگا ہوا ہے، عوام سے بے خبری محض پارٹی بنیادوں کی سوچ نے حالات کو یہاں پہنچادیا کہ فوج نے عوامی قدم اٹھایا اور پارٹیوں نے ہاں میں ہاں کی۔ عملی نظیر، اصلاح اور عوامی مشکلات کو پس پشت ڈالتے رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سیاست میں رواداری کے لیے ملک کی وفاداری کے لیے سیاسی کام فوج کو کرنا پڑا۔
یہ رہا سیاسی زوال اقتصادی زوال، دیکھیے روپے کی قدر میں کمی زر مبادلہ کے ذخائر کا اتار چڑھاؤ 16-20 ارب ڈالر کا ہوتے رہنا زر مبادلہ جو محنت شاقہ سے ملک میں آتا ہے سامان تعیش کی امپورٹ اور پھر کشتیوں اور جہازوں میں کھیپوں کی لوٹ مار کی نذر، شاعر، ادیب، دانشوروں، فلسفہ سائنس کے حکما کے لیے ٹی وی اسٹیشنوں پر دروازے بند، عوام کی علمی و ادبی قدروں کا مسلسل خسارہ یہ سب کیا ہے کون سی قوم بنایا جا رہاہے، غلط بیانی پر بغیر کسی مشق کے اردو زبان کے ساتھ مذاق بپا ہے۔
ہر بْو الہَوَس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہلِ نظر گئی
جب اہل نظر آرٹ، فکشن کے مالک کے لیے ذریعہ ابلاغ بند ہو، حبیب جالبؔ مرحوم جب تک زندہ رہے ٹی وی پر نہ آئے، فیضؔ صاحب پر بھی ایک عرصے تک یہ دروازے بند رہے مگر موت کے بعد لوگوں کو پتہ چلا کہ ہمارے جہاں میں کوئی اہل نظر بھی تھا اور اب یہ زوال کا علم ہے کہ بزنس ایڈمنسٹریشن کی ٹوٹی پھوٹی تعلیم کے علاوہ کوئی نقطہ و نظر نہیں تو پھر علما کیا پیدا ہوںگے خاک؟ اب ملک میں نہ کوئی بڑا پینٹر ہے نہ شاعر نہ ادیب۔ ان کے پاس چھوٹے کاموں کے لیے فرصت نہیں وہ تو آپ کے 100کنٹینر (Cantainer) کے عوض ایک کلو چپ بھیج کر یا یو ایس بی سے اپنا حساب چکتا کر لیں گے۔ پھر آج سے سو برس پہلے اقبال کا شعر کیوں کر یہ کہتا:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
خلا میں اسٹیشن کا قیام، سیارگان پر چہل قدمی، خلا سے زمین پر گوگل سے ہر علاقے کی تصویر یہ کسی کاروباری عمل کا براہ راست حصہ نہیں، پہلے سائنس فکشن اور ٹیکنالوجی ہے، فنکشن تصور جو ہر عمل کی ماں ہے اس کا ملک سے جنازہ نکل گیا ہے' کیا کہیں اسلامی ملک کو جہاں سے لوگ جان بچا کر غیر اسلامی ممالک جرمنی، اٹلی، یو کے بھاگ رہے ہیں، لیبیا، مصر، عراق، شام، افغانستان بنتے رہ گیا یہ ملک۔
آیئے 1970ء کے کراچی کا ایک جائزہ لیں جو آنکھوں سے دیکھا، ابھی بفرزون تک اور 20 نمبر فیڈرل بی ایریا، نارتھ ناظم آباد، گلشن اور ملیر آباد تھے شہر میں پاپوش نگر ناظم آباد کا بس اسٹاپ تھا، رکشہ ٹیکسی میں میٹر تھا مول بھاؤ کی ضرورت نہ تھی بسیں چلتی تھیں شہر میں چند دو منزلہ بسیں تھیں، صدر سے ٹرام چلتی تھی اس کی پٹڑیاں سولجر بازار، چاکیواڑہ، ٹاور، بندر روڈ اور کینٹ اسٹیشن تک بسوں میں لائن سے چڑھتے تھے۔
سیٹ بائی سیٹ اور کھڑے ہو کر صرف دس افراد وافر مقدار میں بسیں، بس اسٹاپوں پر لوگ صبح آفس جاتے ہوئے ہاتھ میں اخبار لیے اکثر کھڑے ہوتے، کراچی یونیورسٹی کی بسیں چلتی تھیں عام بسوں میں کنڈیکٹر خاکی وردی اور گلے میں ٹکٹ کا بیگ اور ہر فرد کے ہاتھوں میں ٹکٹ، کالج اور یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس یونین جنرل سیکریٹری صدر وغیرہ منتخب ہوتے تھے جنرل باڈی ہوتی تھی، مباحثہ مجلس علم و ادب ہر کالج میں ہوتی تھی شعری محافل عالمی مسائل پر گفتگو ایسے ہی ماحول میں لوگ پڑھا کرتے تھے تو ہونہار محب وطن طلبہ پیدا ہوتے تھے، نلوں میں پانی تھا۔
بجلی کا بحران نہ تھا روز مرہ کی سوچ تعمیری شہر میں بندوق چھری نہ چلتی کبھی کبھار قتل کی واردات ہو تو لگتا تھا آسمان سے بجلی گر گئی، غنڈہ گردی نہ تھی اساتذہ کو مارپیٹ کرنا نہایت ہتک آمیز سمجھا جاتا تھا، نقل نام کو بھی نہ ہوتی تھی شہر میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن، مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن اسلامی جمعیت طلبہ تحریک بیداری طلبہ نامی جماعتیں تھیں۔ این ایس ایف، ایم ایس ایف اور جمعیت کے طلبہ یونین زیادہ تر کامیاب ہوتی تھیں شہر میں تقریباً 30 کالجز تھے ایک یونیورسٹی اور آئی بی اے چیدہ چیدہ کوچنگ سینٹر شہر بڑھتا گیا۔
ڈیموگرافی بدلتی گئی، تہذیب و تمدن خاک میں ملا، حکومتوں نے دانستہ کراچی کو برباد کیا کیوں کہ اس کا عروج کرپشن کا خاتمہ گڈ گورننس (Good Governance) یعنی اچھی حکمرانی کراچی کو مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے خصوصی طور پر تباہ کیا۔ لسانی مذہبی فتنہ پروری کے بیج ڈالے آبادیوں کو تقسیم کیا گیا مجھے یاد ہے لیاری میں لالہ لعل بخش رند سے گورنمنٹ کالج یونین کے عہدے دار کافی متاثر تھے اور وہ وہاں جاتے تھے نہ کوئی خطرہ تھا نہ پریشانی، مگر پیپلز پارٹی کی آمد کے بعد ووٹ بینک کی تعمیر نے رسہ کشی شروع کی اور آج یہ عالم ہے کہ آدھا لیاری اجاڑ ہو گیا۔
تیری رونقیں کہاں گئیں، تیرے مکیں کہاں گئے، فٹ بال گراؤنڈ کیوں ویران ہوئے، لیاری سے حب چوکی تک کی سائیکل ریس کیا ہوئی، باکسنگ کلب منشیات کے اڈوں میں کس نے بدلے، نئی بستیاں نہ بسیں نئی بلڈنگیں نہ بنیں، گودی پر نئی ملازمتیں بے روزگاری اور جرائم کس نے بڑھائے پرورش لوح و قلم خاک ہوئی، مارواڑی اور بلوچوں میں جو یکجہتی تھی کس نے ختم کی، شادی ہالوں میں بن بیاہی دلہنوں کو کس نے بیوہ کیا، بلوچ مارواڑی اتحاد، قبضہ گروپوں کی تباہ کاریوں نے برباد کیا ہر اک گلی میں ایک کہانی ہے، مہاجر بستیوں میں لائبریریاں کیا ہوئیں۔
ریڈنگ روم کیا ہوئے، فیکٹریوں اور کاروباری بنیادوں پر مزدور اتحاد کیوں کر نسل پرستی کا شکار ہوا۔ مزدور مزدور بھائی بھائی کی آواز کس نے ختم کی، لوگ پھنسے رہیں گے تو حکومت چلتی رہے گی۔ آج جمہوریت ہے مگر جمہوری ثمرات سے عوام محروم ہیں۔ آج عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمت کم ترین نرخ پر آن پہنچی ہے مگر کہیں سے یہ آواز نہیں آ رہی کہ تیل کی قیمتوں کو کم کرو۔ اگر تیل 45 روپے فی لیٹر بھی فروخت کیا جائے تب بھی حکومت کو کثیر فائدہ ہے مگر کس سیٹ پر کون جیتا کون ہارا کی آواز ہے۔
لوگوں کو پارٹی پولیٹکس (Party Politics) میں آلودہ کر دیا گیا ہے کراچی سرکلر ریلوے ٹریک پر عمارتیں تعمیر ہیں افسوس 2 کروڑ کے شہر پر ترقیاتی کام میں باقاعدگی نہیں، اتنے سب چینلوں نے چٹخارے مارکٹ کیے، شعور با شعور نہیں، زوال در زوال کی آبادی بڑھانے میں سیاست دانوں کا فائدہ ہے۔
پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں
(اقبال)