چڑیاں داں چمباں وے
وہ شرارتیں، اماں کی ڈانٹ، آپ کا لاڈ، وہ ناز نخرے، مجھے بہت یاد آتے ہیں، دور کیوں بھیجا بابا؟ کیا میں یاد نہیں آتی؟
پیارے بابا جی!
اب کی بار آپ کا خط ملا تو یوں لگا، جیسے مجھے دو جہاں مل گئے ہوں لیکن بابا جی مجھے آپ سے شکایت ہے، آپ خط کا جواب بہت دیر سے دیتے ہیں پھر کتنی ہی باتیں ہیں جو ادھوری رہ جاتی ہیں۔ میں اس وقت گھر کے صحن میں بیٹھی ہوں، ایک ہاتھ میں آپ کا خط ہے۔ جسے میں روز پڑھتی ہوں، چوم کر رکھتی ہوں اور یادوں میں کھو جاتی ہوں۔
بابا آپ کو بھی یاد ہے ناں، جب اماں شام کو صحن میں ہم سب کیلئے چائے لے کر آتی تھی تواس وقت چڑیاں کتنا شور مچا رہی ہوتی تھیں، کیا اب بھی چڑیاں اُسی طرح چہچہاتی ہیں؟ مجھے اماں سے بھی گلِہ ہے کہ اب اماں میری چائے کیوں نہیں لاتیں؟ یہاں جب میں چڑیوں کو دیکھتی ہوں تو گہری سوچ میں گم ہوجاتی ہوں کہ کاش میرے بھی پَر ہوتے، تو انہیں چڑیوں کی مانند میں اُڑ کر آپ لوگوں کے پاس پہنچ جاتی۔۔۔۔ لیکن باباجی! یہ چڑیوں کے چہچہاہٹ میں اداسی کیوں ہے؟ انہیں تو اپنا بابل گھر نہیں چھوڑنا ہوتا۔
دن میں کئی بار ارادہ کرتی ہوں کہ آپ کو خط لکھوں، مگر جب ایک بار خط لکھ کر آپ کو بھیج دیتی ہوں تو پھر بیقراری سے جواب کا انتظار کرنے لگتی ہوں۔ ہر ہر آہٹ پر مجھے گمان گذرتا ہے کہ بابا کا سندیسہ آیا ہے۔ میں دروازے پر جا کر دیکھتی ہوں کہ شاید، شاید ڈاکیا آپ کا خط لایا ہو مگر نہیں بابا جی، میں بے آس لوٹ آتی ہوں۔ شکستہ امیدوں کے سہارے واپسی کے قدم کیسے اٹھائے جاتے ہیں، بابا آپ جانتے ہیں ناں۔۔۔۔۔
میں جب بھی کاغذ اور قلم دیکھتی ہوں، تومجھے وہ اسکول کا پہلا دن یاد آجاتا ہے کہ جب آپ نے مجھے کاغذ اور قلم خرید کر دیا تھا، کیسے سب کی مخالفت کے باوجود آپ نے مجھے اسکول بھیجا، آپ کو برادری سے خوف بھی نہیں آیا بابا جی، مجھے تو اس دنیا سے بہت ڈر لگتا ہے۔ اب جب کاغذ، قلم پر نظر پڑ جائے تو آپ کو خط لکھنے کا جی کرتا ہے۔
میرے اچھے بابا مجھے یہ بھی خیال آتا ہے کہ میری سکھیاں، وہ ہمجولیاں جن کے ساتھ بچپن میں انہیں چڑیوں کی طرح ڈال ڈال آزاد اڑتی تھیں، قہقہے انہیں چہچہاٹوں کی طرح گونجا کرتی تھیں، وہ اب کیا کرتی ہیں؟ وہ بارشوں میں شرارتیں، اماں کی ڈانٹ، آپ کا لاڈ، وہ ناز نخرے، مجھے دور کیوں بھیجا بابا؟ کیا میں یاد نہیں آتی؟ اماں کسے ڈانٹتی ہیں اب؟ بابا میں یہاں اکیلی ہوں، سب کو یاد کرہی ہوں، بابا میری سہلیاں جو میری طرح اسکول نہیں جاسکیں ان کے شب و روز کیسے گذرتے ہیں؟ وہ اپنے بابل کو کیسے یاد کرتی ہیں؟ ایک طریقے سے تو وہ اچھی رہیں ناں کہ وہ خط لکھ ہی نہیں سکتیں، اور پھر انہیں اس کے جواب کا بھی انتظار نہیں رہتا ہوگا، اور ایک میں ہوں کہ سارا سارا دن خط کے انتظار میں بیٹھی رہتی ہوں۔ مجھے پڑھا لکھا کر آپ نے اچھا نہیں کیا، بالکل اچھا نہیں کیا بابا جی۔
آپ کے جواب کی منتظر آپ کی لاڈ لی
(انور مقصود کو خراجِ تحسین)
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
اب کی بار آپ کا خط ملا تو یوں لگا، جیسے مجھے دو جہاں مل گئے ہوں لیکن بابا جی مجھے آپ سے شکایت ہے، آپ خط کا جواب بہت دیر سے دیتے ہیں پھر کتنی ہی باتیں ہیں جو ادھوری رہ جاتی ہیں۔ میں اس وقت گھر کے صحن میں بیٹھی ہوں، ایک ہاتھ میں آپ کا خط ہے۔ جسے میں روز پڑھتی ہوں، چوم کر رکھتی ہوں اور یادوں میں کھو جاتی ہوں۔
بابا آپ کو بھی یاد ہے ناں، جب اماں شام کو صحن میں ہم سب کیلئے چائے لے کر آتی تھی تواس وقت چڑیاں کتنا شور مچا رہی ہوتی تھیں، کیا اب بھی چڑیاں اُسی طرح چہچہاتی ہیں؟ مجھے اماں سے بھی گلِہ ہے کہ اب اماں میری چائے کیوں نہیں لاتیں؟ یہاں جب میں چڑیوں کو دیکھتی ہوں تو گہری سوچ میں گم ہوجاتی ہوں کہ کاش میرے بھی پَر ہوتے، تو انہیں چڑیوں کی مانند میں اُڑ کر آپ لوگوں کے پاس پہنچ جاتی۔۔۔۔ لیکن باباجی! یہ چڑیوں کے چہچہاہٹ میں اداسی کیوں ہے؟ انہیں تو اپنا بابل گھر نہیں چھوڑنا ہوتا۔
دن میں کئی بار ارادہ کرتی ہوں کہ آپ کو خط لکھوں، مگر جب ایک بار خط لکھ کر آپ کو بھیج دیتی ہوں تو پھر بیقراری سے جواب کا انتظار کرنے لگتی ہوں۔ ہر ہر آہٹ پر مجھے گمان گذرتا ہے کہ بابا کا سندیسہ آیا ہے۔ میں دروازے پر جا کر دیکھتی ہوں کہ شاید، شاید ڈاکیا آپ کا خط لایا ہو مگر نہیں بابا جی، میں بے آس لوٹ آتی ہوں۔ شکستہ امیدوں کے سہارے واپسی کے قدم کیسے اٹھائے جاتے ہیں، بابا آپ جانتے ہیں ناں۔۔۔۔۔
میں جب بھی کاغذ اور قلم دیکھتی ہوں، تومجھے وہ اسکول کا پہلا دن یاد آجاتا ہے کہ جب آپ نے مجھے کاغذ اور قلم خرید کر دیا تھا، کیسے سب کی مخالفت کے باوجود آپ نے مجھے اسکول بھیجا، آپ کو برادری سے خوف بھی نہیں آیا بابا جی، مجھے تو اس دنیا سے بہت ڈر لگتا ہے۔ اب جب کاغذ، قلم پر نظر پڑ جائے تو آپ کو خط لکھنے کا جی کرتا ہے۔
میرے اچھے بابا مجھے یہ بھی خیال آتا ہے کہ میری سکھیاں، وہ ہمجولیاں جن کے ساتھ بچپن میں انہیں چڑیوں کی طرح ڈال ڈال آزاد اڑتی تھیں، قہقہے انہیں چہچہاٹوں کی طرح گونجا کرتی تھیں، وہ اب کیا کرتی ہیں؟ وہ بارشوں میں شرارتیں، اماں کی ڈانٹ، آپ کا لاڈ، وہ ناز نخرے، مجھے دور کیوں بھیجا بابا؟ کیا میں یاد نہیں آتی؟ اماں کسے ڈانٹتی ہیں اب؟ بابا میں یہاں اکیلی ہوں، سب کو یاد کرہی ہوں، بابا میری سہلیاں جو میری طرح اسکول نہیں جاسکیں ان کے شب و روز کیسے گذرتے ہیں؟ وہ اپنے بابل کو کیسے یاد کرتی ہیں؟ ایک طریقے سے تو وہ اچھی رہیں ناں کہ وہ خط لکھ ہی نہیں سکتیں، اور پھر انہیں اس کے جواب کا بھی انتظار نہیں رہتا ہوگا، اور ایک میں ہوں کہ سارا سارا دن خط کے انتظار میں بیٹھی رہتی ہوں۔ مجھے پڑھا لکھا کر آپ نے اچھا نہیں کیا، بالکل اچھا نہیں کیا بابا جی۔
آپ کے جواب کی منتظر آپ کی لاڈ لی
(انور مقصود کو خراجِ تحسین)
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس