ماضی کے چند مناظر 3
دو فوجداری مقدمات کی مثالیں جن میں سے ایک میں ملزمان بری ہوئے اور دوسرے میں سزا یاب میرے پیش نظر ہیں۔
LONDON:
ایک دوست نے مجھ سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ میڈیا کے ذریعے ارتکاب جرائم کی خبریں تو بے حساب اور تواتر سے ہم تک پہنچتی رہتی ہیں لیکن سزاؤں کی خبروں سے ہم لا علم رہتے ہیں' کہیں ایسا تو نہیں کہ میڈیا دانستہ سنسنی خیزی پھیلا کر وارداتوں کی پروجیکشن کے ذریعے خوف کی فضا پیدا کر کے گویا شریک جرم بن کر اپنا کاروبار چمکانے کو ترجیح دیتا ہے۔
اس دوست کا الزام کسی حد تک درست لیکن حقیقتاً پورا سچ نہیں تھا۔ انصاف کے ترازو کا ملزموں کے حق میں جھکاؤ بڑی ٹھوس وجوہ رکھتا ہے۔ جب کوئی فوجداری جرم سرزد ہوتا ہے تو متاثرہ فریق کو فرسٹ انفرمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) متعلقہ پولیس اسٹیشن پر درج کرانی ہوتی ہے۔
رپورٹ میں وقوعے کی تفصیل کے ساتھ اگر اس کا پس منظر ہو تو وہ بھی اور اگر اچانک پیش آئے تب' اگر نا معلوم و ناواقف اشخاص کے حوالے سے ہو تو اس کے مطابق اگر اتفاقیہ سرزد ہوا تو اس کا احوال اور اگر جانے پہچانے افراد کے ساتھ پیش آئے تو اس کی تفصیل بیان کرنا ہوتی ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ مدعی اصل ملزم کے علاوہ ملزم کے رشتہ داروں کو بھی نامزد کر کے اپنی ذاتی رنجش دور کرنے کے ساتھ اپنا کیس بھی کمزور اور خراب کر لیتا ہے۔
تفتیشی پولیس افسر جو جرم کی حقیقت سے بخوبی واقف ہوتا ہے دونوں طرف سودے بازی کرتا ہے۔ چالان کی تیاری میں تاخیر ہوتی ہے۔ گواہ بھی شہادت دینے یا نہ دینے کی قیمت وصول کرتے ہیں۔ ہوشیاری دکھائیں تو شہادتیں کمزور ہوں گی اور مقدمہ بھی شکوک کی نذر ہو جائے گا گواہ Winover ہو کر منحرف ہو جائیں تو ملزم بری ہو جائے گا اور گواہ بوجہ تاخیر حقائق بھول جائیں یا دھمکیوں کا شکار ہو جائیں تو بھی ملزم سزا سے بچ جائیں گے' عدالتی افسر کی ممکنہ بدعنوانی ایک الگ اور اہم ایشو ہے۔
دو فوجداری مقدمات کی مثالیں جن میں سے ایک میں ملزمان بری ہوئے اور دوسرے میں سزا یاب میرے پیش نظر ہیں۔ یہ دونوں اسپیشل ملٹری کورٹ نمبر1 میں زیر سماعت تھے۔ عدالت تین افراد پر مشتمل تھی۔
ایک کرنل' دوسرا میجر اور تیسرا مجسٹریٹ یعنی میں خود۔ ایک کیس اغوا اور زنا بالجبر کا تھا جس میں پانچ مرد ایک باپ اور چار بیٹے ملزم تھے۔ خورشید حسن میر وکیل صفائی تھے۔ یہ وہی وکیل تھے جن کا تعارف لیاقت باغ راولپنڈی کے جلسہ میں جہاں میری ڈیوٹی تھی بھٹو صاحب نے خورشید حسن میر کو روسٹرم پر بلا کر سامعین سے کرایا تھا 'اسی جلسہ میں بھٹو صاحب نے نوجوان حیات محمد خاں شیر پاؤ کا تعارف محبت بھرے مختلف الفاظ میں سامعین سے کرایا تھا۔
اس مقدمہ میں لڑکی بہ رضا و رغبت ملزم کے ساتھ فرار ہوئی تھی اور برآمد ہو کر مقدمہ میں بطور گواہ پیش کی گئی تو وہ منحرف ہو کر سچ بولی کہ وہ اپنی مرضی سے ایک ملزم کے ساتھ شادی کرنے کے لیے گھر سے بھاگی تھی۔ میں نے چند Covrt Questions کیے تو وہ عدالت کے ڈائس پر چڑھ آئی اور میری ٹھوڑی پکڑ کر بولی کہ تمام ملزم بے قصور ہیں۔ اس بیان کے بعد سزا کسے اور کیسے دی جا سکتی تھی۔
دوسرا مقدمہ اسی عدالت کے روبرو پیش ہوا تھا اس میں اعجاز نامی شخص کی کار کو ملزم نے اپنی مسافر بس سے ٹکرا کر دانستہ زخمی اور ہلاک کیا تھا ملزم اور مقتول جہلم میں ایک دوسرے کے حریف ٹرانسپورٹر تھے۔ ملزم کی بس نے اڈہ پر پہنچ کر مسافر اتارے تو اسے اطلاع ملی کہ اعجاز خود کار چلاتے ہوئے آ رہا ہے۔
ملزم نے بس کی چھت سے پورا سامان اتارے بغیر بس اس طرف بھگا دی جدھر سے مقتول آ رہا تھا اور بس تیز چلا کر سامنے سے آتی کار میں دے ماری اور اسے حادثاتی ایکسی ڈنٹ قرار دے دیا گیا۔
اسپیشل ملٹری کورٹ نمبر1 نے جہلم ریسٹ ہاؤس میں مقدمے کی سماعت کی پولیس نے بھی اسے روڈ ایکسی ڈنٹ قرار دیا تھا' موقع کی شہادتیں بھی گول مول تھیں اور ملزم کو رعایت دیتی تھیں۔ کاروباری رقابت کی شہادت موجود تھی۔ بس چلانے والے کے پاس مسافروں کا سامان اتارے بغیر بس کو غیر ضروری طور پر اس راستہ پر لے آنے کا کوئی جواز نہ تھا یعنی واقعاتی شہادت بے حد مضبوط تھی۔ سابق گورنر الطاف حسین وکیل صفائی تھے۔ مقدمے کا مکمل جائزہ لے کر اور بس اڈہ و جائے حادثہ کا معائنہ کر کے عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ ایکسی ڈنٹ حادثاتی نہ تھا اور ملزم نے قتل عمد کا ارتکاب کیا تھا۔
گجرات اور اس شہر کی تحصیل کھاریاں میں تعیناتی کے دوران تین اہم شخصیات سے جن میں ایک کا تعلق سیاست دوسری کا عدلیہ اور تیسری کا فوج سے تھا ملاقات ہوئی ۔سیاسی شخصیت چوہدری ظہور الٰہی تھی جنہوں نے سیاست و امارت دونوں میں عروج حاصل کیا۔ چوہدری صاحب عوامی حیثیت میں کمال کو پہنچے' وہ لوگوں کے کام کر کے خوشی اور طمانیت حاصل کرتے تھے اور ہر دلعزیز شخصیت کے مالک تھے۔
مجھے ان سے ملاقات کا ہر ہر لمحہ یاد رہے گا۔ دوسری اہم شخصیت سینئر جج سپریم کورٹ تھی جن سے ایک مصاحبت اپنے کھاریاں کے سرکاری مکان پر اور دوسری ان کے اسلام آباد والے گھر پر رہی۔ ان سے پہلی ملاقات کو حادثاتی کہا جا سکتا ہے۔
دراب پٹیل صاحب سپریم کورٹ کے اس فل بنچ کا حصہ تھے جس نے بھٹو صاحب کی اپیل سنی تھی اور انھوں نے اکثریتی رائے سے اختلاف کیا تھا وہ بے داغ شخصیت کے مالک اور قابل جج تھے اور اگر عدلیہ کو خیر باد نہ کہتے تو چیف جسٹس ہوتے۔ ملاقات یوں ہوئی کہ لاہور سے اسلام آباد جاتے ہوئے ان کی کار ایک سڑک پار کرتی بھینس سے بری طرح ٹکرائی' میں نے ایک دورے سے واپس کھاریاں آتے ہوئے یہ منظر دیکھا اور جج صاحب کو اپنی جیپ میں بٹھا کر AC ہاؤس لے آیا کیونکہ ان کی کار چلنے کے قابل نہ رہی تھی۔
گھر پہنچ کر واش روم' کافی وغیرہ اور کچھ آرام ان کی فوری ضروریات تھیں وہ Shock کی کیفیت سے نکلے تو باتیں ہوئیں میں نے جسٹس مولوی مشتاق کے پاس بھٹو صاحب کے ٹرائل سے لے کر سپریم کورٹ میں اپیل اور انسپکٹر ارشد سے لے کر ظہور الٰہی کے جنرل ضیاء الحق سے پھانسی کے حکم والا پین مانگ لینے والے واقعے تک ہر موضوع پر ڈرتے ڈرتے محتاط گفتگو کی اور انھوں نے بھی اتنی ہی احتیاط سے بات کی۔ کوئی ایک گھنٹہ بعد میں نے انھیں بتایا کہ ان کے لیے موٹر کار اور ان کی موٹر کے لیے ٹرک کا انتظام کر دیا ہے اگر وہ چاہیں تو اسلام آباد فون کر کے تاخیر کی بابت مطلع کر دیں۔
جج صاحب نے تاریخ اور وقت کا خود تعین کر کے مجھے اپنے گھر چائے کی دعوت دی وہ شکریہ ادا کر کے اور میرے بچوں کو پیار کر کے رخصت ہوئے۔ کچھ روز بعد میں کھاریاں سے روانہ ہو کر مقررہ دن اسلام آباد پہنچا۔ شام چار بجنے میں دو منٹ پر ان کے مکان کے گیٹ پر تھا کہ ان کے گارڈ نے نام پوچھ کر دروازہ کھول دیا۔
پورے چار بجے جسٹس دراب پٹیل صاحب نے کمرے کا دروازہ خود کھول کر مجھے ویلکم کیا سلام دعا کر کے صوفے پر بیٹھا ہی تھا کہ ان کا ملازم چائے کی ٹرالی لے کر ڈرائنگ روم میں داخل ہوا۔ آدھے گھنٹے کے بعد میں نے ان سے اجازت چاہی۔ میری یہ ان سے دوسری اور آخری ملاقات تھی۔ تیسری اہم شخصیت سے ملاقات کا احوال یوں ہے کہ صدر جنرل ضیاء الحق کے ADC میجر ق ز کا تعلق کھاریاں سے تھا۔ ان کے کھاریاں وزٹ پر ملاقات ہو جاتی تھی۔
ایک بار انھوں نے دعوت دی کہ آپ میاں بیوی راولپنڈی آئیں صدر جنرل ضیاء الحق اور بیگم صاحبہ سے ملاقات ہو جائے گی۔ ہم دونوں آرمی ہاؤس پہنچے جہاں ملاقات اور چائے ہوئی۔ ساہیوال ریلوے اسٹیشن والی ملاقات تو دو تین منٹ کی تھی یہ والی ملاقات چائے پر تھی اور چائے کا کپ اور کیک پیسٹری تو حلق سے اترنے میں وقت لیتے ہیں۔
ایک دوست نے مجھ سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ میڈیا کے ذریعے ارتکاب جرائم کی خبریں تو بے حساب اور تواتر سے ہم تک پہنچتی رہتی ہیں لیکن سزاؤں کی خبروں سے ہم لا علم رہتے ہیں' کہیں ایسا تو نہیں کہ میڈیا دانستہ سنسنی خیزی پھیلا کر وارداتوں کی پروجیکشن کے ذریعے خوف کی فضا پیدا کر کے گویا شریک جرم بن کر اپنا کاروبار چمکانے کو ترجیح دیتا ہے۔
اس دوست کا الزام کسی حد تک درست لیکن حقیقتاً پورا سچ نہیں تھا۔ انصاف کے ترازو کا ملزموں کے حق میں جھکاؤ بڑی ٹھوس وجوہ رکھتا ہے۔ جب کوئی فوجداری جرم سرزد ہوتا ہے تو متاثرہ فریق کو فرسٹ انفرمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) متعلقہ پولیس اسٹیشن پر درج کرانی ہوتی ہے۔
رپورٹ میں وقوعے کی تفصیل کے ساتھ اگر اس کا پس منظر ہو تو وہ بھی اور اگر اچانک پیش آئے تب' اگر نا معلوم و ناواقف اشخاص کے حوالے سے ہو تو اس کے مطابق اگر اتفاقیہ سرزد ہوا تو اس کا احوال اور اگر جانے پہچانے افراد کے ساتھ پیش آئے تو اس کی تفصیل بیان کرنا ہوتی ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ مدعی اصل ملزم کے علاوہ ملزم کے رشتہ داروں کو بھی نامزد کر کے اپنی ذاتی رنجش دور کرنے کے ساتھ اپنا کیس بھی کمزور اور خراب کر لیتا ہے۔
تفتیشی پولیس افسر جو جرم کی حقیقت سے بخوبی واقف ہوتا ہے دونوں طرف سودے بازی کرتا ہے۔ چالان کی تیاری میں تاخیر ہوتی ہے۔ گواہ بھی شہادت دینے یا نہ دینے کی قیمت وصول کرتے ہیں۔ ہوشیاری دکھائیں تو شہادتیں کمزور ہوں گی اور مقدمہ بھی شکوک کی نذر ہو جائے گا گواہ Winover ہو کر منحرف ہو جائیں تو ملزم بری ہو جائے گا اور گواہ بوجہ تاخیر حقائق بھول جائیں یا دھمکیوں کا شکار ہو جائیں تو بھی ملزم سزا سے بچ جائیں گے' عدالتی افسر کی ممکنہ بدعنوانی ایک الگ اور اہم ایشو ہے۔
دو فوجداری مقدمات کی مثالیں جن میں سے ایک میں ملزمان بری ہوئے اور دوسرے میں سزا یاب میرے پیش نظر ہیں۔ یہ دونوں اسپیشل ملٹری کورٹ نمبر1 میں زیر سماعت تھے۔ عدالت تین افراد پر مشتمل تھی۔
ایک کرنل' دوسرا میجر اور تیسرا مجسٹریٹ یعنی میں خود۔ ایک کیس اغوا اور زنا بالجبر کا تھا جس میں پانچ مرد ایک باپ اور چار بیٹے ملزم تھے۔ خورشید حسن میر وکیل صفائی تھے۔ یہ وہی وکیل تھے جن کا تعارف لیاقت باغ راولپنڈی کے جلسہ میں جہاں میری ڈیوٹی تھی بھٹو صاحب نے خورشید حسن میر کو روسٹرم پر بلا کر سامعین سے کرایا تھا 'اسی جلسہ میں بھٹو صاحب نے نوجوان حیات محمد خاں شیر پاؤ کا تعارف محبت بھرے مختلف الفاظ میں سامعین سے کرایا تھا۔
اس مقدمہ میں لڑکی بہ رضا و رغبت ملزم کے ساتھ فرار ہوئی تھی اور برآمد ہو کر مقدمہ میں بطور گواہ پیش کی گئی تو وہ منحرف ہو کر سچ بولی کہ وہ اپنی مرضی سے ایک ملزم کے ساتھ شادی کرنے کے لیے گھر سے بھاگی تھی۔ میں نے چند Covrt Questions کیے تو وہ عدالت کے ڈائس پر چڑھ آئی اور میری ٹھوڑی پکڑ کر بولی کہ تمام ملزم بے قصور ہیں۔ اس بیان کے بعد سزا کسے اور کیسے دی جا سکتی تھی۔
دوسرا مقدمہ اسی عدالت کے روبرو پیش ہوا تھا اس میں اعجاز نامی شخص کی کار کو ملزم نے اپنی مسافر بس سے ٹکرا کر دانستہ زخمی اور ہلاک کیا تھا ملزم اور مقتول جہلم میں ایک دوسرے کے حریف ٹرانسپورٹر تھے۔ ملزم کی بس نے اڈہ پر پہنچ کر مسافر اتارے تو اسے اطلاع ملی کہ اعجاز خود کار چلاتے ہوئے آ رہا ہے۔
ملزم نے بس کی چھت سے پورا سامان اتارے بغیر بس اس طرف بھگا دی جدھر سے مقتول آ رہا تھا اور بس تیز چلا کر سامنے سے آتی کار میں دے ماری اور اسے حادثاتی ایکسی ڈنٹ قرار دے دیا گیا۔
اسپیشل ملٹری کورٹ نمبر1 نے جہلم ریسٹ ہاؤس میں مقدمے کی سماعت کی پولیس نے بھی اسے روڈ ایکسی ڈنٹ قرار دیا تھا' موقع کی شہادتیں بھی گول مول تھیں اور ملزم کو رعایت دیتی تھیں۔ کاروباری رقابت کی شہادت موجود تھی۔ بس چلانے والے کے پاس مسافروں کا سامان اتارے بغیر بس کو غیر ضروری طور پر اس راستہ پر لے آنے کا کوئی جواز نہ تھا یعنی واقعاتی شہادت بے حد مضبوط تھی۔ سابق گورنر الطاف حسین وکیل صفائی تھے۔ مقدمے کا مکمل جائزہ لے کر اور بس اڈہ و جائے حادثہ کا معائنہ کر کے عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ ایکسی ڈنٹ حادثاتی نہ تھا اور ملزم نے قتل عمد کا ارتکاب کیا تھا۔
گجرات اور اس شہر کی تحصیل کھاریاں میں تعیناتی کے دوران تین اہم شخصیات سے جن میں ایک کا تعلق سیاست دوسری کا عدلیہ اور تیسری کا فوج سے تھا ملاقات ہوئی ۔سیاسی شخصیت چوہدری ظہور الٰہی تھی جنہوں نے سیاست و امارت دونوں میں عروج حاصل کیا۔ چوہدری صاحب عوامی حیثیت میں کمال کو پہنچے' وہ لوگوں کے کام کر کے خوشی اور طمانیت حاصل کرتے تھے اور ہر دلعزیز شخصیت کے مالک تھے۔
مجھے ان سے ملاقات کا ہر ہر لمحہ یاد رہے گا۔ دوسری اہم شخصیت سینئر جج سپریم کورٹ تھی جن سے ایک مصاحبت اپنے کھاریاں کے سرکاری مکان پر اور دوسری ان کے اسلام آباد والے گھر پر رہی۔ ان سے پہلی ملاقات کو حادثاتی کہا جا سکتا ہے۔
دراب پٹیل صاحب سپریم کورٹ کے اس فل بنچ کا حصہ تھے جس نے بھٹو صاحب کی اپیل سنی تھی اور انھوں نے اکثریتی رائے سے اختلاف کیا تھا وہ بے داغ شخصیت کے مالک اور قابل جج تھے اور اگر عدلیہ کو خیر باد نہ کہتے تو چیف جسٹس ہوتے۔ ملاقات یوں ہوئی کہ لاہور سے اسلام آباد جاتے ہوئے ان کی کار ایک سڑک پار کرتی بھینس سے بری طرح ٹکرائی' میں نے ایک دورے سے واپس کھاریاں آتے ہوئے یہ منظر دیکھا اور جج صاحب کو اپنی جیپ میں بٹھا کر AC ہاؤس لے آیا کیونکہ ان کی کار چلنے کے قابل نہ رہی تھی۔
گھر پہنچ کر واش روم' کافی وغیرہ اور کچھ آرام ان کی فوری ضروریات تھیں وہ Shock کی کیفیت سے نکلے تو باتیں ہوئیں میں نے جسٹس مولوی مشتاق کے پاس بھٹو صاحب کے ٹرائل سے لے کر سپریم کورٹ میں اپیل اور انسپکٹر ارشد سے لے کر ظہور الٰہی کے جنرل ضیاء الحق سے پھانسی کے حکم والا پین مانگ لینے والے واقعے تک ہر موضوع پر ڈرتے ڈرتے محتاط گفتگو کی اور انھوں نے بھی اتنی ہی احتیاط سے بات کی۔ کوئی ایک گھنٹہ بعد میں نے انھیں بتایا کہ ان کے لیے موٹر کار اور ان کی موٹر کے لیے ٹرک کا انتظام کر دیا ہے اگر وہ چاہیں تو اسلام آباد فون کر کے تاخیر کی بابت مطلع کر دیں۔
جج صاحب نے تاریخ اور وقت کا خود تعین کر کے مجھے اپنے گھر چائے کی دعوت دی وہ شکریہ ادا کر کے اور میرے بچوں کو پیار کر کے رخصت ہوئے۔ کچھ روز بعد میں کھاریاں سے روانہ ہو کر مقررہ دن اسلام آباد پہنچا۔ شام چار بجنے میں دو منٹ پر ان کے مکان کے گیٹ پر تھا کہ ان کے گارڈ نے نام پوچھ کر دروازہ کھول دیا۔
پورے چار بجے جسٹس دراب پٹیل صاحب نے کمرے کا دروازہ خود کھول کر مجھے ویلکم کیا سلام دعا کر کے صوفے پر بیٹھا ہی تھا کہ ان کا ملازم چائے کی ٹرالی لے کر ڈرائنگ روم میں داخل ہوا۔ آدھے گھنٹے کے بعد میں نے ان سے اجازت چاہی۔ میری یہ ان سے دوسری اور آخری ملاقات تھی۔ تیسری اہم شخصیت سے ملاقات کا احوال یوں ہے کہ صدر جنرل ضیاء الحق کے ADC میجر ق ز کا تعلق کھاریاں سے تھا۔ ان کے کھاریاں وزٹ پر ملاقات ہو جاتی تھی۔
ایک بار انھوں نے دعوت دی کہ آپ میاں بیوی راولپنڈی آئیں صدر جنرل ضیاء الحق اور بیگم صاحبہ سے ملاقات ہو جائے گی۔ ہم دونوں آرمی ہاؤس پہنچے جہاں ملاقات اور چائے ہوئی۔ ساہیوال ریلوے اسٹیشن والی ملاقات تو دو تین منٹ کی تھی یہ والی ملاقات چائے پر تھی اور چائے کا کپ اور کیک پیسٹری تو حلق سے اترنے میں وقت لیتے ہیں۔