پاکستان اور قومی زبان
ہندوستان میں تو ہم انگریز کے غلام تھے، انگریز سازشیں کرتا رہا۔ ہندوستان کے لوگوں کو بے وقوف بناتا رہا،
ہندوستان میں تو ہم انگریز کے غلام تھے، انگریز سازشیں کرتا رہا۔ ہندوستان کے لوگوں کو بے وقوف بناتا رہا، ہندوستان کی دو بہت بڑی آبادیوں، ہندو اور مسلمانوں کے بیچ نفرتوں کو پروان چڑھاتا رہا اور حکومت کرتا رہا۔ سرسید احمد خان نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قائم کی۔ یہ اس وقت کے حالات میں بہت بڑا انقلابی کام تھا۔ تب مسلمان تعلیمی اعتبار سے بہت پیچھے جا رہے تھے اور مقابلے میں ہندو بہت آگے تھے۔ اور پھر مسلمانان ہند نے قائد اعظم کی قیادت میں اپنا آزاد ملک پاکستان حاصل کرلیا ''آزاد ملک پاکستان''۔ قائد اعظم نے قیام پاکستان کے ساتھ ہی اردو کو نئے آزاد ملک کی قومی زبان قرار دیا۔قائد اعظم سب کچھ جانتے تھے۔ ''یہی سب کچھ جاننا'' ہی ان کے لیے پیام موت بن گیا اور پھر وہ مار دیے گئے۔ ہندوستان میں مسلمان خاصے پسماندہ تھے۔ اسی پسماندہ اکثریت نے ہجرت کی اور پاکستان آگئے۔
مشرقی پنجاب کے علاقوں، جالندھر، ہوشیار پور، امرتسر، گورداسپور، پٹیالہ، فیروز پور وغیرہ سے مہاجرین پاکستان کے لیے چلے، ان سب کا رخ واہگے کی طرف تھا۔ واہگہ مشرقی پنجاب کے شہروں (جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے) سے سو میل، کہیں سے ستر میل، امرتسر سے تیس میل مگر بٹوارے کی ہجرت میں یہ قلیل فاصلے طویل ترین بن گئے تھے۔ مشرقی پنجاب میں سکھوں ہندوؤں نے اور ادھر مغربی پنجاب کے شہروں لاہور، راولپنڈی، لائل پور (اب فیصل آباد)، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، جہلم ودیگر میں مسلمانوں نے ایک دوسرے کی گردنیں اڑا دیں ۔ کرشن چندر، منٹو اور امرتا پریتم نے لکھ لکھ کر بڑے ''بین'' ڈالے ہیں۔
ہندوستان کے پنجاب سے پاکستان کے پنجاب میں آنے والے مہاجرین نے لاہور، لائل پور (اب فیصل آباد)، ملتان، سیالکوٹ، سرگودھا، راولپنڈی، جہلم، گجرات، گوجرانوالہ اور گرد و نواح کے دیگر چھوٹے شہروں میں ہندوؤں سکھوں کے چھوڑے ہوئے مکانوں، حویلیوں، بلڈنگوں میں پناہ لے لی۔ ادھر ہندوستان میں ادھر سے گئے سکھوں ہندوؤں نے مسلمانوں کے چھوڑے ہوئے گھروں میں ڈیرے ڈال لیے۔
ہندوستان کے علاقوں یوپی اور سی پی میں بھی انسانوں کا بے تحاشا خون بہا۔ بہتے خون کا رنگ سرخ تھا، گلزار دینہ جہلم سے چلے، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کوئٹہ سے، نند کشور وکرم راولپنڈی سے یہ چند مثالیں ہیں اسی طرح حبیب جالب مشرقی پنجاب ہوشیار پور سے دہلی آباد ہوئے اور بٹوارے میں دہلی سے چلے، منیر نیازی ہوشیار پور سے چلے، احمد راہی، اے حمید، منٹو، صاغر صدیقی امرتسر سے چلے، حمید اختر، احمد ریاض لدھیانہ سے چلے، ساحر بھی لدھیانہ سے چلے اور لاہور کچھ عرصہ رہ کر واپس ہندوستان چلے گئے، یاد آیا ایسے ہی استاد بڑے غلام علی خان اور آگ کا دریا لکھ کر قراۃ العین بھی واپس چلی گئیں۔ اور ہمیں آگ کے دریا میں چھوڑ گئیں۔
میں پھر لکھوں گا کہ ہندوستان میں بٹوارے کے وقت مسلمان دوسری بڑی اکثریتی آبادی تھی۔ بنگالیوں نے پاکستان کی بنیاد رکھی۔ ہندوستان کی لوک سبھا کے الیکشن میں بنگال سے مسلم لیگ بھاری اکثریت میں جیتی۔ یہ اور بات کہ بانیان پاکستان کو کاٹ کر علیحدہ کردیا گیا۔ مگر علیحدہ ہوکر بنگال بہت سکھی ہے۔ لیکن یہ کیا دھرا ہمارا ہی ہے۔ چلو کچھ دیر کے لیے ہی سہی 71 کے سانحے کو جالب کے ساتھ مل کر یاد کر لیتے ہیں:
بہتے لہو میں سب ترا مفہوم بہہ گیا
14 اگست صرف ترا نام رہ گیا
جلنا ہے غم کی آگ میں ہم کو تمام شب
بجھتا ہوا چراغ سر شام کہہ گیا
ہوتا اگر پہاڑ تو لاتا نہ تاب غم
جو رنج اس نگر میں یہ دل ہنس کے سہہ گیا
گزرے ہیں اس دیار میں یوں اپنے روز و شب
خورشید بجھ گیا' کبھی مہتاب گہہ گیا
مجھ سے خفیف ہیں مرے ہم عصر اس لیے
میں داستان عہد ستم ''کھل'' کے کہہ گیا
شاعر حضور شاہ سبھی سر کے بل گئے
جالب ہی اس گناہ سے بس دور رہ گیا
تو میں بات کر رہا تھا یوپی، سی پی کی۔ ہندوستان کے ان علاقوں سے بٹوارے میں اکثریت نے سندھ کا رخ کیا۔ سکھر، حیدر آباد، میرپورخاص اور بہت بڑی تعداد میں مہاجرین کراچی میں آباد ہوئے۔ جو سیانے تھے یعنی سمجھدار پڑھے لکھے تھے۔ انھوں نے خود کو جلد ہی بحال کرلیا اور باقی لاکھوں مہاجرین جھگیاں ڈال کر بیٹھ گئے۔ ان جھگی نشینوں نے بڑے برے دن دیکھے، مگر یہ باہمت تھے، آزاد وطن کی چاہ میں ہنس کر تمام صعوبتیں اٹھاتے رہے اور آگے بڑھتے رہے۔ یوپی سی میں تعلیم کا رجحان موجود تھا۔ ان جھگی نشینوں نے بھی روکھی سوکھی کھالی مگر اپنے بچوں کو اسکول ضرور بھیجا۔ نیا نیا پاکستان بنا تھا۔ سرکاری اردو اسکولوں کی بھرمار تھی جہاں تعلیم کو مشن سمجھنے والے اساتذہ ٹیچر تھے۔ پاکستان کے مرکزی وزیر داخلہ اور آزادی کے ہراول دستے میں شامل سردار عبدالرب نشتر کے بیٹے جمیل نشتر، دہلی کے علمی خانوادے (خیری خاندان) کے حاذق الخیری اور غریبوں کا بچہ حبیب جالب جیکب لائن کے سرکاری اسکول میں پڑھتے تھے۔
مشہور کالم نویس نصراللہ خان تاریخ اور اردو پڑھاتے تھے۔ پاکستان ٹائمز کے سابق ایڈیٹر اے ٹی نقوی جن کا نام انگریزی زبان کے صف اول کے صحافیوں میں ہوتا تھا اور انگریزی ادب پر انھیں قدرت حاصل تھی۔ جیکب لائن اسکول میں انگریزی پڑھاتے تھے۔ یہ دور ایک خاص جذبے کا آگے بڑھنے کا دور تھا سو جلد ہی جھگی نشینوں نے ذرا دیر لگی مگر لالوکھیت، ڈرگ کالونی(شاہ فیصل کالونی) ملیر، لانڈھی اور قائد آباد میں پکے گھر حاصل کرلیے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے بھی پاکستان پر بہت بڑا احسان کیا کہ اردو کالج بنا لیا۔ جہاں اردو زبان میں بی اے، ایم اے اور وکالت (ایل ایل بی) پاس کرنے کا نظام رائج ہوا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورے پاکستان سے خصوصاً آزاد کشمیر، صوبہ سرحد (اب خیبرپختونخوا)، بلوچستان اور پنجاب کے بہت بڑی تعداد میں وکیل بنے، جن کا تعلق اردو کالج سے ہے۔
اس سال ہم نے پاکستان کا 68 واں یوم آزادی منایا۔ اس دن کا اہم تقاضا ہے کہ ہم پورے یقین اور زندہ قوم ہونے کے ساتھ انگریزی غلامی کا طوق انگریزی زبان کو گلے سے اتار کر پھینک دیں اور اپنی قومی زبان اردو کو ہر سطح پر رائج کردیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ غریبوں کے بچوں کو ترقی کے مساوی مواقع فراہم کرتے ہوئے تعلیمی نظام کو مکمل طور پر اردو زبان میں ڈھال دیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اردو زبان کو عدالت عظمیٰ کی زبان بناکر بہت بڑا اشارہ دے دیا ہے۔ آج عہد کرنے کا دن ہے کہ ہم انگریزی زبان کا ہر سطح پر بائیکاٹ کریں گے، یہ جو لفظ بائیکاٹ میں نے استعمال کیا ہے اردو کی یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ وہ دوسری زبانوں کے من پسند لفظوں کو اپنالیتی ہے۔ لہٰذا کوئی انگریزی دان یہ اعتراض نہ کرے۔ یاد رکھیں ہماری ترقی میں انگریزی زبان حائل ہے۔ ہمارا 95 فیصد قومی نقصان ہو رہا ہے۔ ہماری آبادی کے 95 فیصد بچے اعلیٰ تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اٹھو اور عظیم دوست چین سے سبق سیکھو۔ وہاں بھی دل کے آپریشن ہوتے ہیں۔ انسانی اعضا کی پیوند کاری ہوتی ہے۔ وہاں بھی فولادی پل بنتے ہیں، ہوائی اور بحری جہاز بنتے ہیں۔ وہ بھی خلا کا رخ کرچکا۔ امریکا کے برابر آچکا، اور یہ تمام عظمتیں چین نے چینی زبان سے حاصل کی ہیں۔
مشرقی پنجاب کے علاقوں، جالندھر، ہوشیار پور، امرتسر، گورداسپور، پٹیالہ، فیروز پور وغیرہ سے مہاجرین پاکستان کے لیے چلے، ان سب کا رخ واہگے کی طرف تھا۔ واہگہ مشرقی پنجاب کے شہروں (جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے) سے سو میل، کہیں سے ستر میل، امرتسر سے تیس میل مگر بٹوارے کی ہجرت میں یہ قلیل فاصلے طویل ترین بن گئے تھے۔ مشرقی پنجاب میں سکھوں ہندوؤں نے اور ادھر مغربی پنجاب کے شہروں لاہور، راولپنڈی، لائل پور (اب فیصل آباد)، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، جہلم ودیگر میں مسلمانوں نے ایک دوسرے کی گردنیں اڑا دیں ۔ کرشن چندر، منٹو اور امرتا پریتم نے لکھ لکھ کر بڑے ''بین'' ڈالے ہیں۔
ہندوستان کے پنجاب سے پاکستان کے پنجاب میں آنے والے مہاجرین نے لاہور، لائل پور (اب فیصل آباد)، ملتان، سیالکوٹ، سرگودھا، راولپنڈی، جہلم، گجرات، گوجرانوالہ اور گرد و نواح کے دیگر چھوٹے شہروں میں ہندوؤں سکھوں کے چھوڑے ہوئے مکانوں، حویلیوں، بلڈنگوں میں پناہ لے لی۔ ادھر ہندوستان میں ادھر سے گئے سکھوں ہندوؤں نے مسلمانوں کے چھوڑے ہوئے گھروں میں ڈیرے ڈال لیے۔
ہندوستان کے علاقوں یوپی اور سی پی میں بھی انسانوں کا بے تحاشا خون بہا۔ بہتے خون کا رنگ سرخ تھا، گلزار دینہ جہلم سے چلے، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کوئٹہ سے، نند کشور وکرم راولپنڈی سے یہ چند مثالیں ہیں اسی طرح حبیب جالب مشرقی پنجاب ہوشیار پور سے دہلی آباد ہوئے اور بٹوارے میں دہلی سے چلے، منیر نیازی ہوشیار پور سے چلے، احمد راہی، اے حمید، منٹو، صاغر صدیقی امرتسر سے چلے، حمید اختر، احمد ریاض لدھیانہ سے چلے، ساحر بھی لدھیانہ سے چلے اور لاہور کچھ عرصہ رہ کر واپس ہندوستان چلے گئے، یاد آیا ایسے ہی استاد بڑے غلام علی خان اور آگ کا دریا لکھ کر قراۃ العین بھی واپس چلی گئیں۔ اور ہمیں آگ کے دریا میں چھوڑ گئیں۔
میں پھر لکھوں گا کہ ہندوستان میں بٹوارے کے وقت مسلمان دوسری بڑی اکثریتی آبادی تھی۔ بنگالیوں نے پاکستان کی بنیاد رکھی۔ ہندوستان کی لوک سبھا کے الیکشن میں بنگال سے مسلم لیگ بھاری اکثریت میں جیتی۔ یہ اور بات کہ بانیان پاکستان کو کاٹ کر علیحدہ کردیا گیا۔ مگر علیحدہ ہوکر بنگال بہت سکھی ہے۔ لیکن یہ کیا دھرا ہمارا ہی ہے۔ چلو کچھ دیر کے لیے ہی سہی 71 کے سانحے کو جالب کے ساتھ مل کر یاد کر لیتے ہیں:
بہتے لہو میں سب ترا مفہوم بہہ گیا
14 اگست صرف ترا نام رہ گیا
جلنا ہے غم کی آگ میں ہم کو تمام شب
بجھتا ہوا چراغ سر شام کہہ گیا
ہوتا اگر پہاڑ تو لاتا نہ تاب غم
جو رنج اس نگر میں یہ دل ہنس کے سہہ گیا
گزرے ہیں اس دیار میں یوں اپنے روز و شب
خورشید بجھ گیا' کبھی مہتاب گہہ گیا
مجھ سے خفیف ہیں مرے ہم عصر اس لیے
میں داستان عہد ستم ''کھل'' کے کہہ گیا
شاعر حضور شاہ سبھی سر کے بل گئے
جالب ہی اس گناہ سے بس دور رہ گیا
تو میں بات کر رہا تھا یوپی، سی پی کی۔ ہندوستان کے ان علاقوں سے بٹوارے میں اکثریت نے سندھ کا رخ کیا۔ سکھر، حیدر آباد، میرپورخاص اور بہت بڑی تعداد میں مہاجرین کراچی میں آباد ہوئے۔ جو سیانے تھے یعنی سمجھدار پڑھے لکھے تھے۔ انھوں نے خود کو جلد ہی بحال کرلیا اور باقی لاکھوں مہاجرین جھگیاں ڈال کر بیٹھ گئے۔ ان جھگی نشینوں نے بڑے برے دن دیکھے، مگر یہ باہمت تھے، آزاد وطن کی چاہ میں ہنس کر تمام صعوبتیں اٹھاتے رہے اور آگے بڑھتے رہے۔ یوپی سی میں تعلیم کا رجحان موجود تھا۔ ان جھگی نشینوں نے بھی روکھی سوکھی کھالی مگر اپنے بچوں کو اسکول ضرور بھیجا۔ نیا نیا پاکستان بنا تھا۔ سرکاری اردو اسکولوں کی بھرمار تھی جہاں تعلیم کو مشن سمجھنے والے اساتذہ ٹیچر تھے۔ پاکستان کے مرکزی وزیر داخلہ اور آزادی کے ہراول دستے میں شامل سردار عبدالرب نشتر کے بیٹے جمیل نشتر، دہلی کے علمی خانوادے (خیری خاندان) کے حاذق الخیری اور غریبوں کا بچہ حبیب جالب جیکب لائن کے سرکاری اسکول میں پڑھتے تھے۔
مشہور کالم نویس نصراللہ خان تاریخ اور اردو پڑھاتے تھے۔ پاکستان ٹائمز کے سابق ایڈیٹر اے ٹی نقوی جن کا نام انگریزی زبان کے صف اول کے صحافیوں میں ہوتا تھا اور انگریزی ادب پر انھیں قدرت حاصل تھی۔ جیکب لائن اسکول میں انگریزی پڑھاتے تھے۔ یہ دور ایک خاص جذبے کا آگے بڑھنے کا دور تھا سو جلد ہی جھگی نشینوں نے ذرا دیر لگی مگر لالوکھیت، ڈرگ کالونی(شاہ فیصل کالونی) ملیر، لانڈھی اور قائد آباد میں پکے گھر حاصل کرلیے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے بھی پاکستان پر بہت بڑا احسان کیا کہ اردو کالج بنا لیا۔ جہاں اردو زبان میں بی اے، ایم اے اور وکالت (ایل ایل بی) پاس کرنے کا نظام رائج ہوا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورے پاکستان سے خصوصاً آزاد کشمیر، صوبہ سرحد (اب خیبرپختونخوا)، بلوچستان اور پنجاب کے بہت بڑی تعداد میں وکیل بنے، جن کا تعلق اردو کالج سے ہے۔
اس سال ہم نے پاکستان کا 68 واں یوم آزادی منایا۔ اس دن کا اہم تقاضا ہے کہ ہم پورے یقین اور زندہ قوم ہونے کے ساتھ انگریزی غلامی کا طوق انگریزی زبان کو گلے سے اتار کر پھینک دیں اور اپنی قومی زبان اردو کو ہر سطح پر رائج کردیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ غریبوں کے بچوں کو ترقی کے مساوی مواقع فراہم کرتے ہوئے تعلیمی نظام کو مکمل طور پر اردو زبان میں ڈھال دیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اردو زبان کو عدالت عظمیٰ کی زبان بناکر بہت بڑا اشارہ دے دیا ہے۔ آج عہد کرنے کا دن ہے کہ ہم انگریزی زبان کا ہر سطح پر بائیکاٹ کریں گے، یہ جو لفظ بائیکاٹ میں نے استعمال کیا ہے اردو کی یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ وہ دوسری زبانوں کے من پسند لفظوں کو اپنالیتی ہے۔ لہٰذا کوئی انگریزی دان یہ اعتراض نہ کرے۔ یاد رکھیں ہماری ترقی میں انگریزی زبان حائل ہے۔ ہمارا 95 فیصد قومی نقصان ہو رہا ہے۔ ہماری آبادی کے 95 فیصد بچے اعلیٰ تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اٹھو اور عظیم دوست چین سے سبق سیکھو۔ وہاں بھی دل کے آپریشن ہوتے ہیں۔ انسانی اعضا کی پیوند کاری ہوتی ہے۔ وہاں بھی فولادی پل بنتے ہیں، ہوائی اور بحری جہاز بنتے ہیں۔ وہ بھی خلا کا رخ کرچکا۔ امریکا کے برابر آچکا، اور یہ تمام عظمتیں چین نے چینی زبان سے حاصل کی ہیں۔