ڈاکٹر صاحبہ قوم کا علاج تو کرلیجئے

معزز و محترم خواتین ڈاکٹرز سےگذارش ہے کہ ڈگری لینے کے بعد گھر بھی بسائیں مگرقوم کی مسیحا کی ذمہ داری کو بھی پورا کریں۔

قوم کی بیٹیوں سے بھی درمندانہ اپیل ہے کہ خدارا! اگر عملاً اس پیشے کو اختیار نہیں نہیں کرنا تو قوم کا نقصان تو نہ کیجئے۔ فوٹو: فائل

سدرا میری کزن ہے اور میڈیکل کالج میں زیر تعلیم ہے، بچپن سے خاصی پڑھاکو واقع ہوئی ہے۔ آنکھوں پر ایک بڑا سا چشمہ لگائے آج بھی کتابوں ہی میں مگن رہتی ہے۔ میڈیکل کے دوسرے سال میں ہے مگر ابھی سے اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر سدرا لکھنا پسند کرتی ہیں، صرف سدرا کہنا تو ان کی شان کیخلاف ہے۔ اکثر اس سے گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ موصوفہ گھر والوں کا اچھا خاصا بجٹ اور قوم خزانے کو لاکھوں کی پھکی دینے کے بعد آرام کرنے اور امورِ خانہ داری کی انجام دہی کو فوقیت دیتی ہیں۔

یہ صرف ایک سدرا کے حال تک ہی محدود نہیں، پاکستان میں ہر سال میڈیکل کالجز سے فارغ التحصیل ہونے والی سینکڑوں طالبات میں سے صرف 23 فیصد طالبات ہی عملی میدان میں خدمات سرانجام دیتی ہیں۔ باقی 77 فیصد طالبات شادی کرکے امور خانہ داری سرانجام دیتی ہیں۔ یوں ملکی خزانے کو اس مد میں کروڑوں روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پی ایم ڈی سی ویب سائٹ پر دستیاب اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹشنرز (جنھوں نے ایم بی بی ایس ڈگری کے حصول کے ساتھ ہاؤس جاب مکمل کی ہو) کی تعداد 1 لاکھ 26 ہزار 931 ہے جن میں سے 71 ہزار 847 مرد (56.6 فیصد) اور 55 ہزار 84 خواتین (43.3 فیصد) ہیں۔



اس میں ایسی خواتین گریجویٹس کی تعداد میں واضح کمی دیکھی جاسکتی ہے جو درحقیت پوسٹ گریجویشن تعلیم مکمل کرچکی ہوتی ہیں۔ بی ڈی ایس (ڈینٹیل سرجری میں گریجویشن) میں خواتین گریجویٹس نے مردوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جو پنجاب میں 540 اور سندھ میں 1085 ہے، تاہم پھر بھی اسپیشلسٹس کی تعداد نصف سے کم ہے۔ پنجاب میں صرف 3.72 فیصد پی ڈی ایس گریجویٹ خواتین ہی اسپشلائزیشن کرتی ہیں، جبکہ سندھ میں یہ شرح اس سے بھی کم یعنی 2.74 فیصد ہے۔ دوسری جانب اکثر میڈیکل کالجز کی طالبات سے گفتگو کے بعد معاشرے کے رجحان کا اندازہ ہوتا ہے جس میں اکثر افراد کی ڈیمانڈ ڈاکٹر شریک حیات کی ہے، اچھے رشتے ملنے کے لئے لڑکی کا ڈاکٹر ہونا لازمی قرار دیا جاتا ہے سو اس لئے بھی طالبات کا میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کا تناسب زیادہ ہوتا ہے۔


اس سال پنجاب میں انٹری ٹیسٹ دینے والے طلبہ و طالبات کی مجموعی تعداد 47,559 ہے جن میں 31,149 طالبات اور 16,410 طلبہ ہیں۔ ان اعداد وشمار کی مدد سے میڈیکل کی جانب جانے والے طلبہ کی تعداد کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ جبکہ ایک سروے کے مطابق اس وقت ملک بھر میں انٹری ٹیسٹ دینے والے100 میں سے صرف 1 طالب علم میڈیکل کالج میں پہنچتا ہے۔ انٹری ٹیسٹ کا معیار بھی ایک الگ بحث کا متقاضی ہے جس کے تحت ایک ہزار سے زائد نمبرز لینے والے طلبہ و طالبات بھی انٹری ٹیسٹ کے معیار پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے میڈیکل کالج میں داخلے سے محروم ہوجاتے ہیں۔ لیکن فی الحال میری تحریر کا مقصد انٹری ٹیسٹ پر بحث کرنا نہیں بلکہ حکومت کی اس پالیسی کی جانب ہے جس کی وجہ سے سالانہ کروڑوں روپے ضائع ہو رہے ہیں۔ کیا حکومت کوئی ایسی پالیسی ترتیب نہیں دے سکتی جس کے تحت خواتین کو لازم ہو کہ عملی طور پر بھی طب کا شعبہ اختیار کریں؟ ایسی سزائیں اور جرمانے لگائے جائیں جس کی وجہ سے طب کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد طلبہ و طالبات قوم کی خدمت کو اپنا شعار بنا سکیں؟ کیا ڈگری جاری کرنے کے لئے اس بات کی شرط نہیں رکھی جاسکتی کہ کم از کم دو سال کسی دور دراز علاقے میں خدمات سر انجام دی جائیں؟

حکومت کو ملک کی بہتری کے لئے ایسے فیصلے کرنا ہوں گے جن کی وجہ سے قومی خزانے کا زیاں روکا جاسکے اور ملک میں موجود ڈاکٹروں کی کمی کا ازالہ ممکن ہو، قوم کی بیٹیوں سے بھی درمندانہ اپیل ہے کہ خدارا! اگر اس میدان میں عملاً خدمات انجام نہیں دینی تو قوم کا نقصان تو نہ کیجئے۔ ڈاکٹر بن کر آپ کو اچھا جیون ساتھی تو مل جائے گا مگر ان کروڑوں اہل وطن کا کیا ہوگا؟ جن کا جیون محض آپ کی وجہ سے مشکلات میں ہے اور نوجوان طبیبوں سے بھی التماس ہے کہ مال روڈ پر دھرنا دے کر، منرل واٹر کی بوتلیں ہاتھوں میں لیے رنگ برنگی چھتریوں کی آڑ لے کر اپنے مطالبات منظور کروانا عقلمندی نہیں۔ ایمرجنسی وارڈز میں درد سے بے حال غریب مریضوں کی دیکھ بھال سے دل مطمئن ہوتا ہے اور اجر بھی ملتا ہے۔ مطالبات اساتذہ کو سڑکوں پر گھسیٹ کر نہیں منوائے جاتے بلکہ بیماروں کی تیمارداری سے مستقبل بہتر ہوتا ہے۔ بہرحال معزز و محترم خواتین ڈاکٹرز سےگذارش ہے کہ ڈگری لینے کے بعد قوم کی مسیحا بنیں، آپ کا مستقبل قوم کی دعاؤں کی بدولت سنور سکتا ہے نہ کہ غریبوں کو تڑپتا چھوڑ کر سہانے مستقبل کی جانب پیش قدمی ممکن ہے۔

[poll id="642"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
Load Next Story